اعتصام شہزاد عطاری(درجۂ ثانیہ
مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضان عطار اٹک، پاکستان)
پڑوسیوں کے حقوق کی پہچان ایک انسانیت اور ایمانی ذمہ داری
کی نمایاں علامت ہے۔اسلامی تعلیمات میں پڑوسی کے حقوق کے علاوہ ان کی محبت،
احترام، خوش آمدید اور مدد کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ پڑوسی کی مشکلات اور
پریشانیوں میں مدد کرنا اور ان کی خوشیوں میں شریک ہونا، اسلامی تعلیمات کے تناظر
میں دینی ذمہ داری کی علامت ہے۔اسلامی تعلیمات میں پڑوسیوں کے حقوق کو بڑی اہمیت
دی گئی ہے تاکہ رشتوں میں محبت، احترام، اور تعاون کی بنیادیں مضبوطی سے قائم رہ
سکیں۔ لہذا ہمارا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ ہم بھی اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھیں اور ان
کے حقوق ادا کریں، ہمیں ان حقوق کا خاص خیال رکھنا چاہئے ۔ ویسے تو پڑوسیوں کے
حقوق بہت ہیں لیکن ان میں سے چند زینت قرطاس کئے جا رہے ہیں لہذا توجہ سے پڑھئے:
(1)مدد و اعانت: پڑوسیوں کا سب پہلا حق تو یہ ہے کہ پڑوسی کی مدد اور اعانت کرنا کہ یہ ایک
انسانی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اگر پڑوسی کو مشکلات یا پریشانیوں کا سامنا ہو، تو
ہمارا دینی فرض ہوتا ہے کہ ہم ان کی مدد کریں اور ان کے لئے دعا کریں۔ جیسا کہ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے عرض کیا یارسولﷲ میرے دو
پڑوسی ہیں ان میں سے کسے ہدیہ دیا کروں فرمایا جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو ۔
(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ،جلد3 ،حدیث :1936 )
(2) بڑھاپے میں دیکھ بھال: بڑھاپے میں پڑوسی کی دیکھ بھال کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔ ان کے ساتھ احترام سے
پیش آکر، ان کے لئے آسانیوں کی فراہمی کرنا اور ان کے لئے زندگی کو آسان سے بنانے
میں مدد کرنا، دینی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے ۔
(3) پریشانیوں میں مدد: اگر پڑوسی کو کسی قسم کی مشکلات یا پریشانیوں کا سامنا ہو، تو ان کی مدد کرنا
ایک دینی ذمہ داری ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے فرماتے ہیں میں نے رسول الله
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا کہ مؤمن وہ نہیں جو خود سیر ہو
جائے اور اس کے برابر میں اس کا پڑوسی بھوکا ہو ۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ
المصابیح، جلد6 ، حدیث :4991 )
(4) محبت اور احترام: پڑوسی کے ساتھ احترام سے پیش آنا اور ان کے حقوق کا خصوصی خیال رکھنا بھی
ضروری ہے۔ ہمیں ان کے ساتھ احترام سے پیش آنا چاہئے۔ ان کی خوش آمدید کرنا اور ان
کے لئے خوشیوں کا باعث بننا، ان کے دلوں کو جیتنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔حضرت
ابوہریرہ سے مروی ہے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللّہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے کوئی پڑوسی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں لکڑی گاڑنے سے منع نہ کرے۔(مرآۃ
المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد4، حدیث: 2964 )
(5) حسن سلوک :پڑوسیوں سے حُسنِ سلوک تکمیلِ ایمان کا ذریعہ جبکہ انہیں ستانا، تکلیف
پہنچانا، بَدسلوکی کے ذریعے ان کی زندگی کو اجیرن بنا دینا، دنیا و آخرت میں نقصان
کا حقدار بننا اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تکلیف پہنچانے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
جس کے شر سے اُس کا ”پڑوسی“ بے خوف نہ ہو وہ جنّت میں نہیں جائے گا ۔ (مسلم، ص 43،
حدیث: 73)
اللہ پاک ہمیں بھی اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھنے اور ہر مصیبت
میں ان کی مدد و اعانت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے تمام حقوق ادا کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
غلام مصطفیٰ(درجہ خامسہ جامعۃُ
المدینہ فیضان حسن جمال مصطفی لانڈھی کراچی، پاکستان)
اللہ پاکٰ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات بنایا اور اُسے
اچھے برے کی تمیز سکھائی اور انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کیلئے قرآن اور حضور علیہ
الصلاۃ و السلام کی ذات کو مشعل راہ بنایا ہے ۔ تاکہ انسان اپنے عبادت اور معاملات
میں ان سے رہنمائی لے کر درست طریقہ سے اُن کی ادائیگی کرکے دنیا و آخرت میں سرخرو
ہو جائیں۔ اس وجہ سے حضور صلی لی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جسے یہ پسند ہو
کہ اللہ رسول سے محبت کرے یا اُس سے اللہ اور رسول محبت کریں تو جب وہ بات کرے تو
سچی کرے جب امین بنایا جائے تو امانت ادا کرے اور اپنے پڑوسی کا پڑوس اچھا نبھائے
چونکہ یہ تین کام درستی معاملات کی جڑ ہیں اس لیے ان کا ذکر فرمایا کہ جو مسلمان
معاملات درست کرے گا اس کیلئے عبادات کو درست کرنا بھی آسان ہوگا اور معاملات میں
اپنے پڑوسیوں سے اچھا سلوک بڑی ہی اہم چیز ہے، ہمارے پڑوسیوں کے ہم پر بہت سے حقوق
ہوتے ہیں جن کا لحاظ رکھنا ہم پر لازم ہوتا ہے۔ اُن میں چند حقوق یہ ہیں :
(1) سب سے بڑا حق پڑوس کا کا یہ ہے کہ مناب موقع ملتے ہی
اللہ و رسول کی تعلیمات سے روشناس کیا جائے ، نماز اور دیگر عبادات کی ادائیگی
کرتے وقت اپنے پڑوس کو بھی نیکی کی دعوت دی جائے۔
(2) پڑوسیوں کا ایک حق ہے ہم پر یہ بھی ہے کہ ہمیں ہر خوشی
و غم کے موقع پر اُن کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور حسب استطاعت ان مواقع پر کچھ نہ
کچھ مالی امداد بھی کی جائے۔
(3) کچھ پڑوسی ایسے بھی ہوتے ہیں جو سفید پوش ہوتے ہیں اپنے
دکھ درد ظاہر نہیں کرتے لیکن بحیثیت پڑوس ہمارا یہ حق بنتا ہے کہ ہم حکمت عمل سے
ان کی خیرو و عافیت اور پریشانیوں وغیرہ کا معلوم کر کے ان کی مدد کریں۔
(4) پڑسویں کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ہم اپنے گھروں اور
محلہ میں اتنی بلند آواز سے ساؤنڈ سسٹم وغیرہ نہ لگائیں اور ان تمام لہو و لعب کی
حرکات سے اجتناب کریں جن سے ہمارے پڑوسی کو تکلیف پہنچے ۔
(5) پڑوس میں اگر کوئی یتیم ہو تو ہمارا حق ہے کہ ہر حوالے
سے ان کی مدد کریں
(6) ایک حق یہ بھی ہے کہ ہم موقع ملتے ہیں اپنے پڑوس کے
بچوں کی اچھی تربیت کریں اور انہیں ادب سکھائیں۔
(7) کچھ کچھ عرصہ بعد اپنے پڑوس میں تحائف وغیرہ بھی بھیجتے
رہیں تاکہ آپس میں محبت پیدا ہو جائے۔
(8) ایک حق یہ بھی ہے کہ جس چیز کو ہم اپنے لیے اچھا جانتے
ہیں اپنے پڑوسی کیلئے بھی انہی چیزوں کو اچھا جانیں ۔
(9) پڑوسی کا ایک حق یہ ہے کہ کسی دوسرے کے سامنے اپنے پڑوس
کی خامیاں ذکر نہ کریں بلکہ اچھے الفاظ میں تذکرہ کریں
(10) پڑوس کا ایک حق ہم پر یہ بھی ہے کہ پڑوسی کی غیر
موجودگی میں ہم اُن کے جان و مال کی ایسی ہی حفاظت کریں جس طرح اپنے جان و مال کی
حفاظت کرتے ہیں ۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے پڑوسی کے مذکورہ حقوق کے
ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر حقوق بھی ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
نبیِّ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسی کے گیارہ حق ارشاد فرمائے ہیں:1۔ جب اسے
تمہاری مدد کی ضرورت ہو اسکی مدد کرو 2۔ اگر معمولی قرض مانگے دے دو3۔اگر وہ غریب
ہو تو اسکا خیال رکھو۔ 4۔وہ بیمار ہو تو مزاج پرسی بلکہ ضرورت ہو تو تیمارداری
کرو5۔اگر وہ مرجائے تو جنازہ کے ساتھ جاؤ۔ 6۔ اس کی خوشی میں خوشی کے ساتھ شرکت
کرو 7۔اس کے غم و مصیبت میں ہمدردی کے ساتھ شرکت کرو 8۔اپنا مکان اتنا اونچا نہ
بناؤ کہ اسکی ہوا روک دو مگر اسکی اجازت سے۔ 9۔ گھر میں پھل فروٹ آئے تو اسے ہدیہ
بھیجتے رہو ، نہ بھیج سکو تو خفیہ رکھو اس پر ظاہر نہ ہونے دو، تمھارے بچے اسکے
بچوں کے سامنے نہ کھائیں۔
10- اپنے گھر کے دھوئیں سے اسے تکلیف نہ دو 11۔اپنے گھر کی چھت
پر ایسے نہ چڑھو کہ اسکی بے پردگی ہو۔ قسم اس کی جس کے قبضہ میری جان ہے۔ پڑوسی کے
حقوق وہ ہی ادا کر سکتا ہے جس پر اللہ رحم فرمائے (مرقات) کہا جاتا ہے ہمسایا اور
ماں جایا برابر ہونے چاہیے۔ افسوس مسلمان یہ باتیں بھول گئے قراٰنِ کریم میں پڑوسی
کے حقوق کا ذکر فرمایا۔ بہر حال پڑوسی کے حقوق بہت ہیں ان کے ادا کی توفیق رب
تعالیٰ سے مانگتے رہا کریں۔ (مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح ، جلد ششم باب دعوت
کا بیان ، صفحہ نمبر52)
عبد الواسع (درجہ ثالثہ جامعۃُ
المدینہ فیضانِ حسن و جمالِ مصطفیٰ لانڈھی کراچی ، پاکستان)
ایک ہی محلے یا سوسائٹی میں رہنے والے لوگ اگر ایک دوسرے سے
میل جول نہ رکھیں ، دکھ درد میں شریک نہ ہوں تو بہت سی یشانیاں اور مشقتیں پیدا
ہوسکتی ہیں اس لئے اسلام نے ماں باپ اور عزیز و اقارب کے ساتھ حسن سلوک ، ہمدردی ،ا
خوت ،پیار و محبت اور امن و سلامتی اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کی
تعلیم دی ہے وہیں مسلمانوں کے قرب و جوار میں ر ہنے والے دیگر لوگوں کو بھی محروم
نہیں رکھا بلکہ جان ومال اور اہل وعیال کی حفاظت کا درس دیا اگر اس پر عمل کیا
جائے تو بہت سے معاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں ایک ایسا مدنی معاشرہ تشکیل پا سکتا
ہے جہاں ہر ایک دوسرے کی جان ومال ، عزت و آبرو اہل وعیال کا حافظ ہوگا ۔
حدیث : رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : خدا کی قسم ! وہ مؤمن نہیں، خدا کی
قسم وہ مؤمن نہیں ، خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں، عرض کی: کون یا رسول الله ؟ فرمایا:
جس کے پڑوسی اس کی آفتوں سے محفوظ نہ ہوں ( یعنی جو اپنے پڑوسیوں کو تکلیف دیتا
ہے)۔ (صحیح بخاری کتاب الادب، باب اثم من لا یامن جارہ بوائقہ، الحدیث : 4014 ،
ج4، ص 104 )
اسلام میں پڑوسی کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کسی شخص
کے کامل مؤمن ہونے اور نیک و بَد ہونے کا معیار اس کے پڑوسی کو مقرر فرمایا،
چنانچہ ايک شخص نے عرض کی: يارسولَ اللہ! مجھے ايسا عمل بتایئے کہ جس سے میں جنت
ميں داخل ہوجاؤں؟ تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: نيک بن جاؤ۔ اس نے عرض کی: مجھے اپنے
نيک بن جانے کا عِلم کيسے ہوگا؟ آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے پڑوسیوں سے پوچھو اگر وہ
تمہیں نيک کہيں تو تم نيک ہو اور اگر وہ بُرا کہيں تو تم بُرے ہی ہو۔ (شعب
الایمان،ج 7،ص85، حدیث: 9567)
اسلام کی پاکیزہ تعلیمات ایسے شخص کو کامل ایمان والا قرار
نہیں دیتیں کہ جود تو پیٹ بھر کر سو جائے اور اُس کے” پڑوس “ میں بچے بھوک وپیاس
سے بلبلاتے ہوں، چنانچہ فرمان مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہے: جو خود شکم سیر ہو اور
اس کا پڑوسی بھوکا ہو وہ ایمان دار نہیں ۔ (معجم کبیر ، ج12،ص 19 1)
پڑوسیوں سے حسن سلوک تکمیل ایمان کا ذریعہ جبکہ انہیں
ستانا، تکلیف پہنچانا ، بدسلوکی کے ذریعے ان زندگی کو اجیرن بنا دینا، دنیا وآخرت
میں نقصان کا حقدار بننا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آہ و سلم کو تکلیف پہنانے
کے مترادف ہے جیسا کہ بنی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس کے
شر سے اس کا پڑوسی بے خوف نہ ہو وہ جنت میں نہیں جائے گا ۔ (مسلم، ص 43 ، حدیث: 73)
معاشرے کے پُر سکون سکون اور امن وسلامتی کا گہوارہ بنانے
کے لیے پڑوسیوں کے متعلق اسلام کے پڑوسیوں احکامات پر عمل کیا جائے تو ہر ایک اپنی
عزت وآبرو اور جان و مال کو محفوظ سمجھنے لگے۔
حافظ عباد(درجہ ثالثہ جامعۃُ
المدینہ فیضان ابو عطار ماڈل کالونی ملیر کراچی، پاکستان)
﴿وَ
بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ
وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ
ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے
بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے
ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)
پڑوسی وہ ہے جو ہمارے گھر کے قریب ہو انکا ہم پر بہت بڑاحق
ہے۔ ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر یہ حق ہے کہ جہاں تک ہو سکے اس کے ساتھ بھلائی
کرے۔
(1) رزق میں وسعت: حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت
ہے رسول اکر م صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت ہو اور اس کی عمر لمبی ہو
تو اسے چاہئے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ (بخاری ، کتاب البیوع ،
2/10،حدیث:2067)
(2) پڑوسی کی وراثت : اُمِّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہُ
عنہا سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا کہ جبرئیل علیہ اسلام مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ
مجھے گمان ہو کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے (صحیح بخاری )
(3) پڑوسی کا ہاتھ ہمارا گریبان : رسولُ اللہ نے ارشاد فرمایا : کتنے ہی پڑوسی ایسے ہوں گے
جو قیامت کے دن اپنے پڑوسی سے (حقوق کے سلسلے میں)جھگڑتے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں
گے: اے میرے رب ! اس سے پوچھیئے کہ اس نے اپنا دروازہ مجھ پر کیوں بند کر دیا تھا،
اور اپنے فضل (ضرورت سے زائد اشیاء اور حسن سلوک ) مجھ سے کیوں محروم رکھا۔ ( صحیح
ادب المفرد ،ص111)
(4) بکری کا کھر : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے مسلمان عورتوں ! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کی دی ہوئی چیز
کو حقیر نہ جانے اگرچہ وہ بکری کا گھر ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری، کتاب الادب، حدیث:
6017)
(5) جھگڑا مت کرو: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ نے فرمایا
: اپنے پڑوسی کے ساتھ جھگڑ امت کرو کیونکہ یہ تو یہیں رہے گا لیکن جو لوگ تمہاری
لڑائی کو دیکھیں گے وہ یہاں سے چلے جائیں گے اور مختلف قسم کی باتیں بنائیں گے۔(
کنز العمال ،جز:9،ج5،ص79،حدیث:25599)
انسان کا اپنے والدین، اولاد کے علاوہ سب سے زیادہ واسطہ و تعلق
پڑسیوں سے ہی ہوتا ہے اور ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پرحق یہ ہے کہ اسے کسی طرح کی
قولی یا فعلی تکلیف نہ پہنچاتی جائے۔رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑوسیوں کی اہمیت کو مد نظر رکھتے
ہوئے فر ماتے ہیں : چاروں طرف (دائیں بائیں آگے پیچھے) چالیس گھر انسان کے پڑوسی
شمار ہوتے ہیں۔ انتہیٰ پڑوسیوں کا حق تو یہ ہے کہ جب وہ بیمار پڑے تو عیادت کرو، قرض
طلب کرے تو اسے قرض دو، سکی دین و دنیا کی درستگی میں رہنمائی کرو ، ان کے ساتھ
احسان اور حسن سلوک کے ساتھ پیش آنا دنیاو آخرت کا سرمایہ ہے۔
اللہ تبارک وتعالی مجھے ہم سب کو پڑوسیوں کے حقوق کو اسلام
کے دائرہ کار میں رہ کر پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین
محمد عاطف انصاری (درجۂ
ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضان ابو عطار ماڈل کالونی ملیر کراچی، پاکستان)
اس فانی دنیا میں خالق حقیقی نے انسان کو پیدا فرمایا ہے
اور اس کے ذمہ کئی ایک کام بھی ہیں کہ جو انسان کو پورا کرنے چاہئیں اُنہی کاموں
میں سے ایک کام انسان کے اوپر یہ ہے کہ وہ لوگوں کے حقوق کو پورا کرے اب اس میں
بھی کئی ایک حقوق ہیں مثلاً: والدین کے حقوق ، اساتذہ کرام کے حقوق وغیرہ مگر
ہمارا جو اصل ٹاپک (topic) ہے وہ ہے
" پڑوسیوں کے حقوق اس سے متعلق ، مختصر کے معلومات درج ذیل ہے :
حق پڑوس ہے کیا ؟: حجۃ الاسلام حضرت امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یاد رکھئے! حق
پڑوسی صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے اجتناب کیا جائے ، بلکہ پڑوسی کی طرف
سے پہنچنے والی تکلیف کو برداشت کرنا بھی حق پڑوس میں شامل ہے اور اسی طرح حسن اخلاق
سے پیش آنا بھی پڑوسیوں کے حقوق میں شامل ہے چنانچہ پارہ 5 سورۂ نساء کی آیت نمبر
36 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ
داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے
ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)
اس مذکورہ آیت مقدسہ میں جو پڑوسی کا ذکر ہے قریب کے یادور کے
تو اسکی مختصر وضاحت درج ذیل ہے : رشتہ دار پڑوسی: یہ وہ ہمسائے ہیں جو رشتہ دار
بھی ہیں ان کا حق دیگر ہمسایوں کی نسبت مقدم ہے ۔ اجنبی پڑوسی: اِس سے مراد وہ
ہمسایہ ہے جو رشتہ دار نہیں ہے صرف اسکا درجہ پہلے والے سے کم ہے۔ ہم نشین یا پہلو
کا ساتھی : جس کے ساتھ دن رات کا اٹھنا بیٹھنا ہو، اصطلاح کے مطابق ایک گھر یا
عمارت میں رہنے والے مختلف لوگ دفتر، فیکٹری یا کسی ادارے میں اسکول و کالج میں
پڑھنے والے طلبہ ، دوست اور دیگر ملنے جلنے والے لوگ شامل ۔
40 گھروں پر خرچ کیا کرتے :حضرت سیدنا عبد اللہ بن ابی بکر رحمۃ اللہ علیہ اپنے پڑوس
کے گھروں میں سے دائیں بائیں اور آگے پیچھے 40۔ 40 گھروں کے لوگوں پر خرچ کیا کرتے
تھے، عید کے موقع پر انہیں قربانی کا گوشت اور کپڑے بھیجتے اور ہر عید پر 100 غلام
آزاد کیا کرتے تھے ۔ ( المستطرف ،1/ 276)
پڑوسیوں کے عام حقوق :پڑوسیوں کے کئی ایک حقوق ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
حجۃ الاسلام حضرت سید امام محمد غزالی رحمۃ اللہ تعالی
پڑوسیوں کے حقوق بیان فرماتے ہیں: پڑوسیوں کے ساتھ سلام میں پہل کریں، ان کے ساتھ
طویل گفتگو نہ کریں۔ جب وہ بیمار ہوں تو ان کی عیادت کریں۔ ان کی خوشی میں شرکت
کریں، اپنے گھر کی چھت سے ان کے گھر میں مت جھانکیں وغیرہ۔ (احیاء العلوم، 2/772)
اور جب آپ اپنے گھر والوں کیلئے کچھ پھل وغیرہ لائیں اور آپ
اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ آپ اپنے پڑوسی کیلئے بھی پھل وغیرہ لیں تو آپ کو چاہیے
کہ پھل کے چھلکوں کو گلی میں نہ پھینکیں (یہ تو ویسے بھی اچھی بات نہیں) اور پھر
اگر آپ کے پڑوسی نے اسکو دیکھا اور اسکے پاس گنجائش نہ ہوئی لینے کی تو اس کو
تکلیف ہوگی ۔ پہلے سے آپ کی نیت نہ تھی تکلیف دینے پر اس کو ہوئی تو اس سے بھی
اجتناب کریں
اس مذکور مکمل مضمون میں ہم نے کیا کیا سیکھا وہ سب چیزیں
درج ذیل ہیں اس میں ہم نے سیکھا پڑوسی کا حق آخر ہے کیا قراٰنِ پاک کی آیت سے رشتہ
دار ، اجنبی پڑوسی وغیرہ کا فرق معلوم ہوا وہ پڑوسیوں پر خرچ کرنے کی فضیلت، پڑوسیوں
کے حقوق ۔ جو مذکورہ باتیں لکھی گئی ہیں مضمون میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اس
پر خُلوص کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اگر کچھ غلطی کو تاہی ہو گئی
ہو تو اسے بھی اللہ پاک معاف فرمائے ۔امین
محمد شعبان (درجہ رابعہ جامعۃُ
المدینہ فیضانِ فاروق اعظم سادھوکی لاہور، پاکستان)
ہر انسان کا روز مرہ کے مختلف میں افراد کے ساتھ تعلق ہوتا
ہے ، ان میں سے ایک پڑوسی بھی ہے ، پڑوسی بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس لیے اسلام میں
پڑوسیوں کے حقوق کو بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم اور دیگر بزرگان دین کی سیرت سے پتا چلتا ہے کہ ان کا اپنے مسلمان
پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک دیکھ کر غیر مسلم اسلام میں داخل ہوئے۔ہمیں بھی چاہئے کہ
پڑوسیوں کی خوشی غمی کا احساس کریں اور اس میں شمولیت اختیار کریں، پڑوسیوں کے چند
حقوق لکھے جا رہے ہیں پڑھئے:
(1) پڑوسی کے ہدیہ کو حقیر نہ جانو: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے مسلمان عورتوں ! کوئی پڑوسن اپنی
پڑوسن کی دی ہوئی چیز کو حقیر نہ جانے اگرچہ وہ بکری کا گھر ہی کیوں نہ ہو۔
(بخاری، کتاب الادب، حدیث: 6017)
(2)
پڑوسی کی دیوار میں لکڑی لگانا: حضرت سیدنا
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رویت ہے رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا کوئی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں لکڑی لگانے سے منع نہ کرے راوی
فرماتے ہیں: کیا بات ہے میں تمہیں اس بات سے اعراض کرتے دیکھ رہا خدا کی قسم اس
حدیث کو تمہارے کندھوں کے درمیان رکھ دوں گا(یعنی تمہارے سامنے اعلانیہ بیان کرتا
رہوں گا)۔ (بخاری، کتاب المظالم، 2/132،حدیث:3463)
(3) پڑوسی کو اذیت نہ دو:نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ہم نے ارشاد فرمایا: جو الله پاک اور یوم قیامت پر ایمان رکھتا ہے ۔ وہ
اپنے پڑوسی کو اذیت نہ دے اور جو الله پاک اور یوم آخرت. پر ایمان رکھتا ہے، اُسے
چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرے اور جو اللہ پاک اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ اُسے چاہیے کہ اچھی با ت
کہے یا خاموش رہے ۔ (مسلم، کتاب الحث على اکرام الجار ، ص 43، حدیث:47)
(4) قریبی پڑوسی کا زیادہ حق ہے: حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی
ہیں: میں نے عرض کی یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے دو پڑوسی ہیں تو
میں ان میں سے کس کو ہدیہ بھیجوں؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
دونوں میں سے جس کا دروازہ تجھ سے کریں ہے۔ (بخاری،12/174، حدیث:2595)
15 پرومیوں کے لئے سالن میں شوربہ زیادہ بناؤ :حضرت سیدنا
ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےفرماتے ہیں : سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشادفر مایا ابوذ رجب تم شوربہ پکاؤ تو پانی زیادہ رکھو اور پڑوسی کا
خیال رکھو۔ اور ایک روایت انہی سے مروی ہے فرماتے ہیں:بے شک میرے خلیل صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے وصیت کی کہ جب تم شوربہ پکاؤ تو اس کا پانی زیادہ رکھو
پھر اپنے پڑوسی کے گھر والوں کو دیکھو اور انہیں اس میں سے بھلائی کے ساتھ کچھ دے
دو۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والادب، باب الوصیۃ ، صفحہ 1413 ،حدیث:2625 15)اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
امین
شاہ زیب سلیم عطاری(درجۂ
رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ فاروق اعظم سادھوکی لاہور، پاکستان)
پڑوسیوں کے اسلام میں بہت زیادہ حقوق بیان کئے گئے ہیں۔
پڑسیوں کی بڑی اہمیت ہے، روزانہ جن لوگوں کے ساتھ انسان کا تعلق ہوتا ہے ان میں سے
ایک پڑوسی بھی ہے۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، صحابہ کرام علیہم
الرضوان اور بزرگان دین کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ ایک مسلمان پر
لازم ہے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ بھلائی کرے، خوشی غمی میں اس کا ساتھ دے اس کی
طرف سے کوئی تکلیف پہنچے تو صبر کرے وہ مصیبت میں مبتلا ہو تو اس کی مدد کرے ۔ وہ
بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے ، اس کی عزت آبرو کی حفاظت کرے۔
(1) پڑوسی کو اذیت نہ دینا :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اللہ
عزوجل اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہ دے ، جو اللہ
عزوجل اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع
کرے ۔ جو الله عز و دل اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے
یا خا موش رہے ۔ (مسلم کتاب ،الایمان باب الحث علی اکرام الجارو الضيف )
(2) پڑوسیوں کے ساتھ احسان کرنا چاہیے: حضرت سیدنا ابو شریح
خزائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا : جو اللہ پاک اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے پڑوسی کے
ساتھ احسان کرنا چاہیے۔ جو الله پاک اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان
کی خاطر تواضع کرے۔ (مسلم ، کتاب الایمان، باب الحث علی اکرام الضیف ، حدیث :48)
(3) پڑوسی کی حفاظت
کرنی چاہیے: حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : خدا کی قسم ! اوہ مؤمن نہیں خدا کی قسم ! وہ
مؤمن نہیں ، خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں، عرض کی گئی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کون ؟ ارشاد فرمایا : وہ شخص جس کی شرارتوں سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ
ہوں اور مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی
شرارتوں سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔ (مسلم، کتاب الایمان)
(4) پڑوسی کے لیے سالن میں شوربہ زیادہ بنانا چاہیے: حضرت
سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےفرماتے ہیں : سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفر مایا ابوذ رجب تم شوربہ پکاؤ تو پانی زیادہ رکھو اور
پڑوسی کا خیال رکھو۔ اور ایک روایت انہی سے مروی ہے فرماتے ہیں:بے شک میرے خلیل
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے وصیت کی کہ جب تم شوربہ پکاؤ تو اس کا پانی
زیادہ رکھو پھر اپنے پڑوسی کے گھر والوں کو دیکھو اور انہیں اس میں سے بھلائی کے
ساتھ کچھ دے دو۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والادب، باب الوصیۃ ، صفحہ 1413
،حدیث:2625 15)
قریبی پڑوسی کا حق
زیادہ ہے : حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں: میں نے
عرض کی یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے دو پڑوسی ہیں تو میں ان
میں سے کس کو ہدیہ بھیجوں؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: دونوں
میں سے جس کا دروازہ تجھ سے کریں ہے۔ (بخاری،12/174، حدیث:2595)
سید محب علی (درجہ ثالثہ جامعۃُ
المدینہ فیضانِ حسن و جمالِ مصطفیٰ لانڈھی کراچی، پاکستان)
پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کے اصول و ضوابط پہلے بھی
موجود تھے مگر ان پر عمل آہستہ آہستہ ختم ہو چکا تھا جب اسلام کا سورج طلوع ہوا تو
اس عالمگیر مذہب اور بندوں کے حقوق کے سب سے بڑے علمبر دارنے پڑوسیوں کے حقوق کی
اہمیت کو مزید بارہ چاند لگا دیئے کیونکہ پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ایسا
بہترین عمل ہے جسکی تعلیم خود ہمار ا رب کریم ہمیں ارشاد فرما رہا ہے:
چنانچہ پارہ پانچ سورہ نساء کی آیت نمبر 36 میں ارشاد باری
تعالیٰ ہے: ترجمۂ
کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور
پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی
غلام سے ۔
نبیِّ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کر تو کامل مسلمان
ہو جائے گا۔( شعب الایمان باب فی اکرام الجار)پڑوسی کی اقسام :پڑوسی کی تین اقسام
ہیں: ایک جو پڑوسی مسلم ہو اور رشتہ دار بھی ہو اسکے تین حق ہیں ۔ حق جوار، حق
مسلم، حق قرابت ۔ دوسرا جو پڑوسی مسلم ہو، اسکے دو حقوق میں حق جوار اور حق مسلم۔
تیسرا جو پڑوسی کا فر ہو اسکا ایک حق ہے۔ حق جوار۔( بہار شریعت )
پڑوسیوں کے عام حقوق: (1) پڑوسیوں کے ساتھ سلام میں پہل کرے(2) ان کے ساتھ طویل گفتگو نہ کرے (3)
انکے حالات کے بارے میں زیادہ سوالات نہ کرے (4) جب وہ بیمار ہو تو انکی عبادت
کرے۔(5) مشکل وقت میں انکا ساتھ دے (6) انکی لغزشوں کو معاف کرے (7) اگر انکے عیوب
اس پر ظاہر ہو تو انہیں چھپائے (8) اگر انہیں کوئی حادثہ پیش آجانے تو فوراً مدد کرے۔
(9) خوشی میں ان کو مبارکباد دیں۔ (10) ان کی خوشی میں شرکت کرے۔ (احیاء العلوم ،
جلد 2)
پورا گھرانہ مسلمان ہو گیا: حضرت بایزید بسطامی کا ایک غیر مسلم پڑوسی سفر میں گیا اسکے
بال بچے گھر رہ گئے رات کو اسکا بچہ روتا تھا آپ نے اسکی بیوی سے پوچھا کہ پر کیوں
روتا ہے ؟ وہ بولی گھر میں چراغ نہیں ہے بچہ اندھیرے میں گھبراتا ہے۔ اس دن سے آپ
روزانہ چراغ میں خوب تیل بھر کر روشن کرتے اور اسکے گھر بھیج دیا کرتے جب وہ غیر
مسلم سفر سے آیا تو اسکی بیوی نے یہ واقعہ سنایا وہ غیر مسلم بولا کہ جس گھر میں با
یزید کا چراغ آگیا وہاں اندھیرا کیوں رہے وہ سب کے سب مسلمان ہوگئے۔(رسالہ پڑوسیوں
کے حقوق)
40 گھروں پر خرچ کیا کرتے: حضرت سیدنا عبد اللہ بن ابی بکر اپنے پڑوس کے گھروں میں سے
دائیں بائیں اور آگے پیچھے کے، 40۔40 گھروں کے لوگوں پر خرچ کیا کرتے تھے عید کے
موقع پر انہیں قربانی کا گوشت اور کپڑے بھیجتے اور ہر عید پر 100 غلام آزاد کیا
کرتے تھے۔
خواجہ غریب نواز رحمۃُ اللہِ علیہ اور پڑوسیوں کے حقوق: آپ رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے پڑوسیوں
کا بہت خیال رکھا کرتے ان کی خبر گیری فرماتے اگر کسی پڑوسی کا انتقال ہو جاتا تو
اسکے جنازے کے ساتھ ضرور تشریف لے جاتے اس کی تدفین کے بعد جب لوگ واپس ہو جاتے تو
آپ تنہا اسکی قبر کے پاس تشریف فرما ہو کر اس کے حق میں مغفرت و نجات کی دعا
فرماتے اور اسکے اہل خانہ کو صبر کی تلقین کرتے اور انہیں تسلی دیا کرتے ۔ (رسالہ
پڑوسیوں کے حقوق)
پڑوسیوں کے ساتھ بد سلوکی کی وعیدوں پر مشتمل
فرمان مصطفے ٰ: بہت سے پڑوسی قیامت کے دن اپنے پڑوسیوں کا دامن پکڑیں گے۔
پڑوسی عرض کرے گا یارب عزوجل اس سے پوچھ کہ اس نے مجھ پر اپنا در وازہ بند کر رکھا
تھا اور اپنی ضرورت سے زائد چیزیں مجھ سے روکی تھیں۔ (پڑوسی کے حقوق)
دیکھا آپ نے کہ اسلام کتنا پیارا مذہب ہے کہ جو نہ صرف ہمیں
والدین اور رشتے داروں کے ساتھ بھلائی کا درس دیتا ہے بلکہ یہ بھی سکھاتا ہے کہ
ہمیں اپنے قریبی اور دور کے ہمسایوں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چا ہیے ۔الحمد اللہ
قراٰنِ کریم کے علاوہ احادیث مبارکہ میں بھی کثرت کے ساتھ پڑوسیوں کی اہمیت انکے
ساتھ حسن سلوک بجالانے اور انکے حقوق کی بجا آوری کا ذہن دیا گیا ہے۔ اللہ پاک سے
دعا ہے کہ ہمیں اپنے پڑوسیوں ہمسایوں اور اپنے قریبی رشتہ داروں کے حقوق کو مکمل
کرتے اور ان کو تکلیف پہچانے سے محفوظ فرمائے ۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ
الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
جامی رضا (درجۂ ثالثہ جامعۃُ
المدینہ فیضانِ حسن و جمالِ مصطفیٰ لانڈھی کراچی ، پاکستان)
پڑوسیوں کے بھی حقوق ہمارے پیارے دین میں بیان ہوئے ہیں
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کا فرمان ہے: مسجد کے دروازے پر جا کر یہ اعلان کیا جائے کہ سُن لو 40 گھر پڑوس
میں داخل ہیں۔ (معجم کبیر ،19/73، حدیث:143) معلوم ہوا کہ چاروں طرف کے 40 گھر
ہمارے پڑوس میں شامل ہیں اور ان کے جو حقوق ہیں وہ ہمیں ادا بھی کرنے چاہئیں، پڑوسیوں
کے چند حقوق درج کئے جا رہے ہیں ملاحظہ کیجئے:
(1) سب سے پہلا حق
ہے کہ جب کبھی پڑوسی مدد مانگے تو ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیے اس پر کوئی مشکل
آجائے تو اس کی مدد کرنی چاہئے ۔
(2) دوسرا حق ہے کہ جب بھی پڑوسی کو پیسے کی ضرورت ہو تو اسے پیسے
دیں وہ کسی پریشانی میں ہو تو اسے قرض دے کر اپنا حق ادا کرو۔
(3) تیسرا حق یہ ہے کہ جب کبھی وہ محتاج ہو تو اس کی محتاجی کو
دور کر کے اپنا حق ادا کرو۔
(4) چو تھا حق یہ ہے کہ جب پڑوسی بیمار ہو تو اس کی
عیادت کے لئے اس کے گھر جاؤ اس کی عیادت کرو اور حوصلہ دے کر اپنا حق ادا کرو۔
(5) جب پڑوسی کو
کوئی بھلائی پہنچے تو اسے مبارک باد دو وہ خوش ہو تو آپ اس کی خوشی میں شامل ہو کر
اپنا حق ادا کرو ۔
(6) جب کبھی پڑوسی
کو کوئی غم ہے تو اس کی تعزیت کرو اسے صبر کی تلقین کرکے اپنا حق ادا کرو۔
(7) جب کبھی پڑوس
میں کوئی مرجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جا کر اپنا حق ادا کرو اور ایسا کوئی کام
نہ کرو جس سے پڑوسی کو کوئی تکلیف پہنچے ، اس کا احساس کرتے ہوئے اپنا حق ادا کرو۔
(8) جب اپنے گھر میں
کچھ اچھا کھانا بناؤ تو اپنے پڑوسی کو بھی بھیج کر اپنا حق ادا کرو۔
(9) اگر کچھ فروٹ وغیرہ گھر میں لاؤ تو پڑوسی کو بھی دو
اگر نہ کر سکو تو اسے چھپا کر کھاؤ۔
(10) جب پڑوسی
کو ہو یہ نہ کر سکو تو اپنے بچوں کو روکو کہ وہ پڑوسی کے بچوں کو دیکھا کر نہ
کھائیں۔
یہ ایک پڑوسی کے حقوق ہیں جو کہ حدیث مبارکہ میں ذکر کئے
گئے ہیں مسلمان کو چاہیے کہ اپنے پڑوسی کا خیال کرے پڑوسی کے حقوق ادا کرئے، پڑوسی
سے بھی محبت کرے، پڑوسی کے بچوں پر شفقت کرتے، پڑوسی سے اچھے اخلاق سے پیش آئے، حدیث
پاک میں فرمایا گیا ہے: مؤمن مؤمن کے لیے عمارت کی مثل ہے جس کا بعض حصہ بعض کو
مضبوط کرتا ہے۔
لہذا ہمیں بھی چاہئے کہ ہم اپنے پڑوسیوں کو حوصلہ دے کر
انہیں مضبوط کرنے والے بنیں نہ کہ ان سے دشمنی کرنے والے ۔ اللہ پاک ہمیں پڑوسیوں
کے حقوق ادا کرنے والا بنادے۔ اٰمین
تنویر احمد (درجۂ ثالثہ جامعۃُ
المدینہ فیضانِ فاروق اعظم سادھوکی لاہور، پاکستان)
ایک اچھا پڑوسی باعث سعادت اور موجب برکت ہے اور برا پڑوسی
باعث شقاوت اور موجب نحوست ہے۔ فرمان مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ والہ و سلم : اپنی
تعلیمات و ہدایات میں ہمسائیگی اور پڑوس کے اس تعلق کو بڑی عظمت بخشی اور اس کے
احترام و رعایت کی بڑی تاکید فرمائی ہے کہ اس کو جزو ایمان اور داخلہ جنت کی شرط،
اللہ اور اس سول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت کا معیار قرار دیا ہے، آپ
پڑوسی کو اذیت دینا گناہ کبیرہ اور اس عمل سوء (برے عمل) کا ارتکاب کرنے والے کو
جہنمی قرار دیا ۔ حدیث مبارکہ کی رُو سے پڑوسی تین طرح کے ہیں: ایک وہ پڑوسی جس کے
تین حق ہیں، اور دوسرا وہ پڑوسی جس کے دو حق ہیں، اور تیسرا وہ پڑوسی جس کا ایک حق
ہے۔
تین حقوق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی بھی ہو، مسلمان بھی اور
رشتہ دار بھی ہو، تو اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا، دوسرا پڑوسی ہونے کا اور تیسرا
قرابت داری کا ہوگا۔ اور دو حقوق والا وہ پڑوسی ہے جو پڑوسی ہونے کے ساتھ مسلم
دینی بھائی ہے، اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا دوسرا حق پڑوسی ہونے کا ہوگا۔ اور ایک
حق والا غیر مسلم پڑوسی ہے (جس سے کوئی قرابت ورشتہ داری نہ ہو) اس کے لیے صرف
پڑوسی ہونے کا حق ہے(شعب الایمان، 12/105) قراٰنِ پاک میں فرمان باری تعالیٰ:ماں باپ سے بھلائی کرواور
رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ
کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)
اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی پڑوسی کے حقوق کے اہمیت بیان
کرتے ہوئے ان ادائیگی کا تاکیدی حکم فرمایا گیا ہے، خواہ وہ پڑوسی رشتہ دار ہو،
اجنبی ہو ، مسلمان ہو یا کافر ہو۔
ايک شخص نے شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ ميں حاضر ہو کر اپنے پڑوسی کی شکايت کی تو آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سے ارشاد فرمایا:جاؤ صبر کرو۔ پھر وہ 2يا3مرتبہ
حاضر ہوا تو دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا:جاؤ اپنے گھر کا سامان راستے پر ڈال دو۔ تو اس نے ايسا ہی کيا،
لوگ وہاں سے گزرتے ہوئے اس سے معاملہ پوچھتےتو وہ انہيں اپنے پڑوسی کی حرکتوں کے
بارے ميں بتا ديتا، لہذا وہ اس پر لعنت بھيجنے لگتے کہ اللہ پاک اسے سزا دے اور
بعض لوگ اسے بددعائيں ديتےتو اس کا پڑوسی اس کے پاس آيا اور کہنے لگا: واپس لوٹ آؤ
آئندہ تم مجھ سے کوئی ايسی چيز نہ ديکھو گے جو تمہیں ناگوار گزرے۔ ( سنن ابی داؤد
،کتاب الادب ، باب فی حق الجوار ، الحدیث، ص1600، حدیث:5183)
(1) پڑوسیوں کا پہلا حق یہ ہے کہ جب وہ آپ سے جانی و مالی
مدد مانگیں تو ان کی مدد کریں۔ اپنی استطاعت اور اس کی ضرورت دونوں کو ملحوظ ر
کھیں ۔
(2) پڑوسیوں کا دوسرا بنیادی حق یہ ہے کہ اگر ضرورت کے پیش
نظر وہ قرض مانگیں تو انہیں قرض دیا جائے یہاں ایک مسئلہ بھی یاد رکھیں کہ اگر
پڑوسی ایسا ہو جو قرض لے کر واپس نہ کرتا ہوں تو اس پڑوسی کوقرض دینے سے انکار کیا
جاسکتا ہے ۔ ہاں اگر پڑوسی معاملات کا اچھا ہو تو قرض دیا جائے ، ورنہ قرض کے
بجائے جہاں تک ہو سکے تعاون کر دیا جائے۔
(3 )پڑوسیوں کا جو تھا بنیادی حق یہ ہے کہ اگر وہ بیمار ہو
جاتے ہیں تو اس کی عیادت اور بیمار پرسی کی جائے اور اس موقع پر بھی کچھ پھل فروٹ
وغیرہ ساتھ لے جایا جائے یا کچھ رقم اسے دی جائے لیکن اس دینے کو ضروری نہ سمجھے۔
(4) پڑوسیوں کا تیرا بنیادی حق یہ ہے کہ جب فقر اور محتاج
کی حالت کو پہنچ جائے پھر وہ مدد نہ بھی مانگے اور قرض نہ بھی مانگے تب بھی اپنی
حیثیت کے پیش نظر تو اس کے فقر و تنگ دستی کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
(5) پڑوسیوں کا پانچوں حق یہ ہے کہ جب ان کے ہاں کوئی غمیکا
موقع آئے مثال کے طور پر فونگی ہو جائے یا گھر میں کسی چیز کا نقصان ہو جائے تو ان
کے ساتھ اظہار ہمدردی کرے ۔
(6) پڑوسیوں کا چھٹا بنیادی حق یہ ہے کہ جب وہ فوت ہو جائے
تو اس کے نماز جنازہ میں شرکت کی جائے ہاں اگر فوت ہونے والے پڑوسی کے عقائد درست
نہ ہوں تو نماز جنازہ میں شرکت سے اجتناب کیا جائے۔
(7) پڑوسیوں کا ساتواں بنیادی حق یہ ہے کہ گھر میں کھانا
تیار کرتے وقت اس بات کا خیال کیا جائے کہ کھانوں کی تیاری کے وقت پیدا ہونے والی
خوشبو سے پڑوسی کو تکلیف نہ دی جائے۔
دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں قرآن و سنت کی روشنی میں پڑوسیوں
کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین
محمد انس رضا (درجۂ خامسہ
جامعۃُ المدینہ فیضانِ حسن و جمالِ مصطفیٰ لانڈھی کراچی ، پاکستان)
اللہ پاک نے انسانوں کو اشرف المخلوقات بنایا اور ان پر
حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کو بھی لازم دیا لہذا ہمیں حقوق اللہ کے
ساتھ حقوق العباد کا بھی خاص خیال رکھنا چاہئے۔ جسکی ادائیگی کر کے ہم اللہ اور اس
کے رسول کی رضا حاصل کر سکتے ہیں چنانچہ اس ضمن میں قرآنی ، آیت واحادیث اوربز
رگوں کے اقوال درج ذیل ہیں: ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ
بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ
الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا
مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ
داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے
ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ 5، النسآء:36)
(1) پڑوسیوں کےحقوق
کے بارے احادیث:
روایت ہے حضرت ابن مسعود سے فرماتے ہیں ایک شخص نے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم سے عرض کیا یارسول اللہ میں کیسے جانوں جب کہ میں بھلائی کروں یا جب کہ میں
برائی کروں تو نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جب تم اپنے پڑوسیوں
کو یہ کہتے سنو کہ تم نے بھلائی کی تو واقعی تم نے بھلائی کی اور جب تم انہیں کہتے
سنو کہ تم نے برائی کی تو واقعی تم نے برائی کی۔(مراۃ المناجیح، ابن ماجہ)
(2) حضرت انس فرماتے
ہیں ، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کا پڑوسی اس کی
شرارتوں سے امن میں نہ ہو۔ (مراة المناجيح،جلد6، حديث :4963 )
(3) حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:کوئی پڑوسی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں
لکڑی گاڑنے سے منع نہ کرے (مسلم بخاری، مراۃ المناجيح،حدیث:2964)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کے تحت مفتى احمد یار
خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اگر تمہاری دیوار میں تمہارا پڑوسی کیل،
کھونٹی وغیرہ گاڑنا چاہے اور تمہارا اس میں کوئی نقصان نہ ہو تو بہتر ہے کہ اسے
منع نہ کرو۔ (مراۃ المناجیح،ج4، حدیث:1964)
ایک انسانی جامعیت کی
روشنی میں پڑوسیوں کے حقوق کی اہمیت سمجھنا اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ہمارے
معاشرتی اور اخلاقی ارتقا کے لحاظ سے بہت اہم ہے۔ اسلامی تعلیمات میں بھی پڑوسیوں
کے حقوق کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو ان حقوق کا احترام کرنے کی
تربیت دی گئی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے تحت پڑوسیوں کے حقوق کا احترام کرنا ضروری ہے۔
رسول کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمسایوں کے حقوق کی بہت اہمیت ذکر فرمائی ہے۔ اُمِّ
المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا:پڑوسیوں کے (حقوق) کے بارے میرے پاس جبریل امین اتنی بار تشریف لائے کہ
مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ ایک پڑوسی کو دوسرے پڑوسی کی میراث میں وارث (حق دار)
قرار دیا جائے گا۔ (بخاری شریف، کتاب الأدب، باب الوصاة بالجار،ج5،ص2239،
حدیث:5669)اس حدیث مبارک سے اندازہ کیجئے کہ شریعت میں پڑوسی کی قدر و منزلت اور
اس کا کس قدر احترام ہے؟ اگر معاشرتی طور پر ہم پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنا شروع کر
دیں تو ہمارا معاشرہ جنّت کا نمونہ بن جائے۔ یہاں کچھ اہم حقوق درج ذیل ہیں:
(1) حقِ زندگی اور امن: پڑوسی کو امن و امان سے رہنے کا حق ہے۔ کسی بھی طرح کے تشدد یا تجاوز کے بغیر
ان کے حقوق کا خیال رکھنا ہمارا اخلاقی فرض ہے۔
(2) حقِ حریتِ فکر: اسلامی روایات میں بھی پڑوسی کے ساتھ برابری کے ساتھ سلوک کا انصاف کرنے کی
تربیت دی گئی ہے۔
(3) حقِ خوشی اور خوشی: ان کے خوش رہنے کا حق ہے اور ہمیشہ ان کی خوشی کا خیال رکھنا چاہئے۔ ان کے
ساتھ رفاقت اور دوستی کرنا ایک اچھا رویہ ہے۔
(4) پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک:ایک مسلمان کو اپنے پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کے لئے درج
ذیل اہم اصولوں کا پیروی کرنا چاہئے: ۱۔مدد و اعانت: پڑوسی کے مسائل اور پریشانیوں میں ان کی مدد
کرنا اور ان کے حل تلاش میں ان کا ساتھ دینا ایک انسانی رویہ ہے۔
۲۔ محبت اور احترام: اپنے
پڑوسی کے ساتھ محبت اور احترام سے پیش آنا چاہئے۔ ان کے حقوق کا خیال رکھنا اور
انہیں برابری سے احترام دینا چاہیے۔
۳۔ خصوصی مواقع پر تحفے دینا: ایک
دوسرے کے خوشیوں میں حصہ لینا اور خصوصی مواقع پر تحفے دینا، پڑوسی کے ساتھ رابطہ
برقرار رکھنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔
۴۔ زبانی اور اخلاقی رویہ:
پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہوئے، ان کے ساتھ اچھی زبان اور اخلاقی رویہ رکھنا
بہت اہم ہے۔
۵۔ تعاون اور مدد: ضرورت پڑنے
پر اپنے پڑوسی کو تعاون اور مدد فراہم کرنا، ان کا ساتھی بننے کا ایک اچھا طریقہ
ہے۔
پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنا اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک بہترین اخلاقی اور انسانی فطرت ہے۔ ایک مسلمان کے
لئے پڑوسیوں کے حقوق کا احترام کرنا ان کی انسانیت اور دینی مسئلوں کے لحاظ سے بہت
اہم ہے۔ اسلامی روایات میں پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی بہت سارے مثالیں
ملتی ہیں جو ہمیں ان حقوق کی اہمیت سمجھاتی ہیں۔ ہمیں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا
سلوک کرکے ان کے حقوق کا خیال رکھنا ہمارے اخلاقی اور معاشرتی ترقی کے لئے مثبت
اثرات پیدا کرتا ہے۔