حافظ عباد(درجہ ثالثہ جامعۃُ
المدینہ فیضان ابو عطار ماڈل کالونی ملیر کراچی، پاکستان)
﴿وَ
بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ
وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ
ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے
بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے
ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)
پڑوسی وہ ہے جو ہمارے گھر کے قریب ہو انکا ہم پر بہت بڑاحق
ہے۔ ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر یہ حق ہے کہ جہاں تک ہو سکے اس کے ساتھ بھلائی
کرے۔
(1) رزق میں وسعت: حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت
ہے رسول اکر م صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت ہو اور اس کی عمر لمبی ہو
تو اسے چاہئے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ (بخاری ، کتاب البیوع ،
2/10،حدیث:2067)
(2) پڑوسی کی وراثت : اُمِّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہُ
عنہا سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا کہ جبرئیل علیہ اسلام مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ
مجھے گمان ہو کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے (صحیح بخاری )
(3) پڑوسی کا ہاتھ ہمارا گریبان : رسولُ اللہ نے ارشاد فرمایا : کتنے ہی پڑوسی ایسے ہوں گے
جو قیامت کے دن اپنے پڑوسی سے (حقوق کے سلسلے میں)جھگڑتے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں
گے: اے میرے رب ! اس سے پوچھیئے کہ اس نے اپنا دروازہ مجھ پر کیوں بند کر دیا تھا،
اور اپنے فضل (ضرورت سے زائد اشیاء اور حسن سلوک ) مجھ سے کیوں محروم رکھا۔ ( صحیح
ادب المفرد ،ص111)
(4) بکری کا کھر : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے مسلمان عورتوں ! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کی دی ہوئی چیز
کو حقیر نہ جانے اگرچہ وہ بکری کا گھر ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری، کتاب الادب، حدیث:
6017)
(5) جھگڑا مت کرو: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ نے فرمایا
: اپنے پڑوسی کے ساتھ جھگڑ امت کرو کیونکہ یہ تو یہیں رہے گا لیکن جو لوگ تمہاری
لڑائی کو دیکھیں گے وہ یہاں سے چلے جائیں گے اور مختلف قسم کی باتیں بنائیں گے۔(
کنز العمال ،جز:9،ج5،ص79،حدیث:25599)
انسان کا اپنے والدین، اولاد کے علاوہ سب سے زیادہ واسطہ و تعلق
پڑسیوں سے ہی ہوتا ہے اور ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پرحق یہ ہے کہ اسے کسی طرح کی
قولی یا فعلی تکلیف نہ پہنچاتی جائے۔رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑوسیوں کی اہمیت کو مد نظر رکھتے
ہوئے فر ماتے ہیں : چاروں طرف (دائیں بائیں آگے پیچھے) چالیس گھر انسان کے پڑوسی
شمار ہوتے ہیں۔ انتہیٰ پڑوسیوں کا حق تو یہ ہے کہ جب وہ بیمار پڑے تو عیادت کرو، قرض
طلب کرے تو اسے قرض دو، سکی دین و دنیا کی درستگی میں رہنمائی کرو ، ان کے ساتھ
احسان اور حسن سلوک کے ساتھ پیش آنا دنیاو آخرت کا سرمایہ ہے۔
اللہ تبارک وتعالی مجھے ہم سب کو پڑوسیوں کے حقوق کو اسلام
کے دائرہ کار میں رہ کر پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین