ایک اچھا پڑوسی باعث سعادت اور موجب برکت ہے اور برا پڑوسی باعث شقاوت اور موجب نحوست ہے۔ فرمان مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ والہ و سلم : اپنی تعلیمات و ہدایات میں ہمسائیگی اور پڑوس کے اس تعلق کو بڑی عظمت بخشی اور اس کے احترام و رعایت کی بڑی تاکید فرمائی ہے کہ اس کو جزو ایمان اور داخلہ جنت کی شرط، اللہ اور اس سول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت کا معیار قرار دیا ہے، آپ پڑوسی کو اذیت دینا گناہ کبیرہ اور اس عمل سوء (برے عمل) کا ارتکاب کرنے والے کو جہنمی قرار دیا ۔ حدیث مبارکہ کی رُو سے پڑوسی تین طرح کے ہیں: ایک وہ پڑوسی جس کے تین حق ہیں، اور دوسرا وہ پڑوسی جس کے دو حق ہیں، اور تیسرا وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہے۔

تین حقوق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی بھی ہو، مسلمان بھی اور رشتہ دار بھی ہو، تو اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا، دوسرا پڑوسی ہونے کا اور تیسرا قرابت داری کا ہوگا۔ اور دو حقوق والا وہ پڑوسی ہے جو پڑوسی ہونے کے ساتھ مسلم دینی بھائی ہے، اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا دوسرا حق پڑوسی ہونے کا ہوگا۔ اور ایک حق والا غیر مسلم پڑوسی ہے (جس سے کوئی قرابت ورشتہ داری نہ ہو) اس کے لیے صرف پڑوسی ہونے کا حق ہے(شعب الایمان، 12/105) قراٰنِ پاک میں فرمان باری تعالیٰ:ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)

اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی پڑوسی کے حقوق کے اہمیت بیان کرتے ہوئے ان ادائیگی کا تاکیدی حکم فرمایا گیا ہے، خواہ وہ پڑوسی رشتہ دار ہو، اجنبی ہو ، مسلمان ہو یا کافر ہو۔

ايک شخص نے شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ ميں حاضر ہو کر اپنے پڑوسی کی شکايت کی تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سے ارشاد فرمایا:جاؤ صبر کرو۔ پھر وہ 2يا3مرتبہ حاضر ہوا تو دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جاؤ اپنے گھر کا سامان راستے پر ڈال دو۔ تو اس نے ايسا ہی کيا، لوگ وہاں سے گزرتے ہوئے اس سے معاملہ پوچھتےتو وہ انہيں اپنے پڑوسی کی حرکتوں کے بارے ميں بتا ديتا، لہذا وہ اس پر لعنت بھيجنے لگتے کہ اللہ پاک اسے سزا دے اور بعض لوگ اسے بددعائيں ديتےتو اس کا پڑوسی اس کے پاس آيا اور کہنے لگا: واپس لوٹ آؤ آئندہ تم مجھ سے کوئی ايسی چيز نہ ديکھو گے جو تمہیں ناگوار گزرے۔ ( سنن ابی داؤد ،کتاب الادب ، باب فی حق الجوار ، الحدیث، ص1600، حدیث:5183)

(1) پڑوسیوں کا پہلا حق یہ ہے کہ جب وہ آپ سے جانی و مالی مدد مانگیں تو ان کی مدد کریں۔ اپنی استطاعت اور اس کی ضرورت دونوں کو ملحوظ ر کھیں ۔

(2) پڑوسیوں کا دوسرا بنیادی حق یہ ہے کہ اگر ضرورت کے پیش نظر وہ قرض مانگیں تو انہیں قرض دیا جائے یہاں ایک مسئلہ بھی یاد رکھیں کہ اگر پڑوسی ایسا ہو جو قرض لے کر واپس نہ کرتا ہوں تو اس پڑوسی کوقرض دینے سے انکار کیا جاسکتا ہے ۔ ہاں اگر پڑوسی معاملات کا اچھا ہو تو قرض دیا جائے ، ورنہ قرض کے بجائے جہاں تک ہو سکے تعاون کر دیا جائے۔

(3 )پڑوسیوں کا جو تھا بنیادی حق یہ ہے کہ اگر وہ بیمار ہو جاتے ہیں تو اس کی عیادت اور بیمار پرسی کی جائے اور اس موقع پر بھی کچھ پھل فروٹ وغیرہ ساتھ لے جایا جائے یا کچھ رقم اسے دی جائے لیکن اس دینے کو ضروری نہ سمجھے۔

(4) پڑوسیوں کا تیرا بنیادی حق یہ ہے کہ جب فقر اور محتاج کی حالت کو پہنچ جائے پھر وہ مدد نہ بھی مانگے اور قرض نہ بھی مانگے تب بھی اپنی حیثیت کے پیش نظر تو اس کے فقر و تنگ دستی کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔

(5) پڑوسیوں کا پانچوں حق یہ ہے کہ جب ان کے ہاں کوئی غمیکا موقع آئے مثال کے طور پر فونگی ہو جائے یا گھر میں کسی چیز کا نقصان ہو جائے تو ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرے ۔

(6) پڑوسیوں کا چھٹا بنیادی حق یہ ہے کہ جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے نماز جنازہ میں شرکت کی جائے ہاں اگر فوت ہونے والے پڑوسی کے عقائد درست نہ ہوں تو نماز جنازہ میں شرکت سے اجتناب کیا جائے۔

(7) پڑوسیوں کا ساتواں بنیادی حق یہ ہے کہ گھر میں کھانا تیار کرتے وقت اس بات کا خیال کیا جائے کہ کھانوں کی تیاری کے وقت پیدا ہونے والی خوشبو سے پڑوسی کو تکلیف نہ دی جائے۔

دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں قرآن و سنت کی روشنی میں پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین