غلام مصطفیٰ(درجہ خامسہ جامعۃُ
المدینہ فیضان حسن جمال مصطفی لانڈھی کراچی، پاکستان)
اللہ پاکٰ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات بنایا اور اُسے
اچھے برے کی تمیز سکھائی اور انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کیلئے قرآن اور حضور علیہ
الصلاۃ و السلام کی ذات کو مشعل راہ بنایا ہے ۔ تاکہ انسان اپنے عبادت اور معاملات
میں ان سے رہنمائی لے کر درست طریقہ سے اُن کی ادائیگی کرکے دنیا و آخرت میں سرخرو
ہو جائیں۔ اس وجہ سے حضور صلی لی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جسے یہ پسند ہو
کہ اللہ رسول سے محبت کرے یا اُس سے اللہ اور رسول محبت کریں تو جب وہ بات کرے تو
سچی کرے جب امین بنایا جائے تو امانت ادا کرے اور اپنے پڑوسی کا پڑوس اچھا نبھائے
چونکہ یہ تین کام درستی معاملات کی جڑ ہیں اس لیے ان کا ذکر فرمایا کہ جو مسلمان
معاملات درست کرے گا اس کیلئے عبادات کو درست کرنا بھی آسان ہوگا اور معاملات میں
اپنے پڑوسیوں سے اچھا سلوک بڑی ہی اہم چیز ہے، ہمارے پڑوسیوں کے ہم پر بہت سے حقوق
ہوتے ہیں جن کا لحاظ رکھنا ہم پر لازم ہوتا ہے۔ اُن میں چند حقوق یہ ہیں :
(1) سب سے بڑا حق پڑوس کا کا یہ ہے کہ مناب موقع ملتے ہی
اللہ و رسول کی تعلیمات سے روشناس کیا جائے ، نماز اور دیگر عبادات کی ادائیگی
کرتے وقت اپنے پڑوس کو بھی نیکی کی دعوت دی جائے۔
(2) پڑوسیوں کا ایک حق ہے ہم پر یہ بھی ہے کہ ہمیں ہر خوشی
و غم کے موقع پر اُن کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور حسب استطاعت ان مواقع پر کچھ نہ
کچھ مالی امداد بھی کی جائے۔
(3) کچھ پڑوسی ایسے بھی ہوتے ہیں جو سفید پوش ہوتے ہیں اپنے
دکھ درد ظاہر نہیں کرتے لیکن بحیثیت پڑوس ہمارا یہ حق بنتا ہے کہ ہم حکمت عمل سے
ان کی خیرو و عافیت اور پریشانیوں وغیرہ کا معلوم کر کے ان کی مدد کریں۔
(4) پڑسویں کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ہم اپنے گھروں اور
محلہ میں اتنی بلند آواز سے ساؤنڈ سسٹم وغیرہ نہ لگائیں اور ان تمام لہو و لعب کی
حرکات سے اجتناب کریں جن سے ہمارے پڑوسی کو تکلیف پہنچے ۔
(5) پڑوس میں اگر کوئی یتیم ہو تو ہمارا حق ہے کہ ہر حوالے
سے ان کی مدد کریں
(6) ایک حق یہ بھی ہے کہ ہم موقع ملتے ہیں اپنے پڑوس کے
بچوں کی اچھی تربیت کریں اور انہیں ادب سکھائیں۔
(7) کچھ کچھ عرصہ بعد اپنے پڑوس میں تحائف وغیرہ بھی بھیجتے
رہیں تاکہ آپس میں محبت پیدا ہو جائے۔
(8) ایک حق یہ بھی ہے کہ جس چیز کو ہم اپنے لیے اچھا جانتے
ہیں اپنے پڑوسی کیلئے بھی انہی چیزوں کو اچھا جانیں ۔
(9) پڑوسی کا ایک حق یہ ہے کہ کسی دوسرے کے سامنے اپنے پڑوس
کی خامیاں ذکر نہ کریں بلکہ اچھے الفاظ میں تذکرہ کریں
(10) پڑوس کا ایک حق ہم پر یہ بھی ہے کہ پڑوسی کی غیر
موجودگی میں ہم اُن کے جان و مال کی ایسی ہی حفاظت کریں جس طرح اپنے جان و مال کی
حفاظت کرتے ہیں ۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے پڑوسی کے مذکورہ حقوق کے
ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر حقوق بھی ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
نبیِّ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسی کے گیارہ حق ارشاد فرمائے ہیں:1۔ جب اسے
تمہاری مدد کی ضرورت ہو اسکی مدد کرو 2۔ اگر معمولی قرض مانگے دے دو3۔اگر وہ غریب
ہو تو اسکا خیال رکھو۔ 4۔وہ بیمار ہو تو مزاج پرسی بلکہ ضرورت ہو تو تیمارداری
کرو5۔اگر وہ مرجائے تو جنازہ کے ساتھ جاؤ۔ 6۔ اس کی خوشی میں خوشی کے ساتھ شرکت
کرو 7۔اس کے غم و مصیبت میں ہمدردی کے ساتھ شرکت کرو 8۔اپنا مکان اتنا اونچا نہ
بناؤ کہ اسکی ہوا روک دو مگر اسکی اجازت سے۔ 9۔ گھر میں پھل فروٹ آئے تو اسے ہدیہ
بھیجتے رہو ، نہ بھیج سکو تو خفیہ رکھو اس پر ظاہر نہ ہونے دو، تمھارے بچے اسکے
بچوں کے سامنے نہ کھائیں۔
10- اپنے گھر کے دھوئیں سے اسے تکلیف نہ دو 11۔اپنے گھر کی چھت
پر ایسے نہ چڑھو کہ اسکی بے پردگی ہو۔ قسم اس کی جس کے قبضہ میری جان ہے۔ پڑوسی کے
حقوق وہ ہی ادا کر سکتا ہے جس پر اللہ رحم فرمائے (مرقات) کہا جاتا ہے ہمسایا اور
ماں جایا برابر ہونے چاہیے۔ افسوس مسلمان یہ باتیں بھول گئے قراٰنِ کریم میں پڑوسی
کے حقوق کا ذکر فرمایا۔ بہر حال پڑوسی کے حقوق بہت ہیں ان کے ادا کی توفیق رب
تعالیٰ سے مانگتے رہا کریں۔ (مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح ، جلد ششم باب دعوت
کا بیان ، صفحہ نمبر52)