اسلام ایک بہت ہی پیارا دین ہے اس کی بے شمار خصوصیات و محاسن ہیں اُنہی خصوصیات میں سے ایک کمال خصوصیت وہ دوسروں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کا احساس کرنا بھی ہے اس لیے شریعت مطہرہ نے مسلمانوں پر دوسرے مسلمانوں بھائیوں کے لیے کئی حقوق لازم کئے ہیں ان حقوق میں پڑوسیوں کے حقوق بھی شامل ہیں ہر ذی شعور انسان جانتا ہے کے معاشرے کو پُر امن اور خوشحال بنانے کے لیے جو چیز سب سے زیادہ مؤثر قرار پاتی ہے وہ اپنے علاقے و محلے کے حضرات کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا اور ان کی خیر خبر رکھ کر ان کی حسب استطاعت اعانت (یعنی مدد) کرنا بھی ہے۔

چنانچہ اللہ پاک پڑوسیوں سے حسن سلوک کے متعلق ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء: 36)

احادیث نبویہ:رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی احادیث طیبہ میں بھی بہت تفصیل کے ساتھ پڑوسیوں کے حقوق کو بیان فرما کر ان کی ادائیگی کی تاکید کی گئی ہے اللہ پاک کے پیارے حبیب معلم کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑوسیوں کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:إِنْ مَرِضَ عُدْتَهُ، وَإِنْ مَاتَ شَيَّعْتَهُ، وَإِنِ اسْتَقْرَضَكَ أَقْرَضْتَهُ، وَإِنْ أَعْوَزَ سَتَرْتَهُ ترجمہ:اگر وہ بيمار ہو تو اس کی عِيادت کرو، اگر فوت ہوجائے تو اس کے جنازے ميں شرکت کرو، اگر قرض مانگے تو اسے قرض دے دو اور اگر وہ عيب دار ہوجائے تو اس کے عیب کی پَردہ پوشی کرو۔(المعجم الکبیر للطبرانی، جلد 19، ص419، حدیث : 1014 مطبوعہ ابن تیمیہ قاھرہ)

پڑوسیوں کو تکلیف نہ دیں:سيدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللہ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُؤْذِي جَارَهُ ترجمہ:جو شخص اللہ پاک اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔(صحیح البخاری کتاب الادب باب من یؤمن باللہ ۔۔۔الخ حدیث 6018 صفحہ 1108 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)

محترم اسلامی بھائیوں یاد رہے تکلیف پہچانا کئی طرح ہوسکتی ہے اونچی آواز سے اپنے گھر میں ٹیلی ویژن لگانے سے بھی ہوسکتی ہے اگرچہ کوئی نعت یا مدنی چینل ہی لگایا ہو لیکن اتنی بلند آواز سے لگایا ہو کہ جس سے ساتھ والے گھر کے پڑوسی کی نیند خراب ہو یا پھر کوئی مریض ہو جس کو اس کے سبب تکلیف پہنچے الغرض ہر ایسی چیزوں سے احتراز ضروری جن سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچے۔

پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی کی تاکید:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ پاک عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ ترجمہ:مجھے حضرت جبریل علیہ السلام پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی ہمیشہ وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں گمان کرنے لگا کہ یہ اسے وراثت میں بھی شریک ٹھہرا دیں۔(صحیح مسلم، کتاب البر و الصلۃ و الآداب باب الوصیۃ بالجار والاحسان الیہ، حدیث: 6265، صفحہ 1013 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)

پڑوسیوں کا خیال رکھیں:حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ پاک عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول ہاشمی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا کے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:لَيْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِي يَشْبَعُ وَجَارُهُ جَائِعٌ ترجمہ: وہ شخص مؤمن نہیں جو خود شکم سیر ہو اور اسکا پڑوسی بھوکا ہو۔(الادب المفرد للبخاری ، باب لا یشبع دون جارہ ، حدیث: 112 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)

محترم اسلامی بھائیو اور اسلامی بہنو ! اگر خدا نخواستہ آپ سے کبھی بھی اپنے کسی پڑوسی کے حقوق میں کوتاہی ہوگئی ہو یا اس کی حق تلفی ہوئی ہو تو جلد از جلد ان سے معافی مانگ لیں یاد رکھیں پڑوسیوں کے حقوق کے کا معاملہ بھی حقوق العباد سے ہے حقوق العباد کے متعلق میرے آقا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حقوق العباد میں بھی ملک دیّان عزوجل نے اپنے دار العدل کا یہی ضابطہ رکھا ہے کہ جب تک وُہ بندہ معاف نہ کرئے معاف نہ ہوگا۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد 24 ،صفحہ 460 مکتبہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

لہذا جلد از جلد معاف مانگ لیں اور اگر کوئی اور آپ سے معافی مانگے تو وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اس مسلمان بھائی کو بھی معاف کر دیں۔اللہ پاک ہمیں شریعت مطہرہ کے احکام کو درست طریقہ سے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے اور ساتھ ہی دوستوں تک پہچانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اسلام میں پڑوس کو بھی عزت دی جاتی ہے پڑوسیوں کی بھی حقوق ہوتے ہیں آئے کچھ پڑھتے ہیں کہ حق پڑوس کیا ہے کیا حق ہے پڑوسیوں کا ؟ حق پڑوس کے حوالے سے ارشاد امام غزالی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ملاحظہ کیجئے چنانچہ فرماتے ہیں یاد رکھئیے حق پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیا جائے بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو برداشت کرنا بھی حق پڑوس میں شامل ہے کیونکہ ایسا بھی ہوتا ھیکہ ایک شخص اپنے پڑوسی کو تکالیف نہیں پہنچاتا اور وہ اس کے بدلے اسے تکلیف نہیں دیتا حالانکہ اس طرح پڑوس کا حق ادا نہیں ہوتا لہذا صرف تکلیفوں کو برداشت کرنے پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ ضروری ہےکہ اس کے ساتھ نرمی اور اچھے طریقے کے ساتھ پیش آئے۔( احیاء العلوم ، اداب الالفت ، ج2، ص 267 )

معزز قارئین! ہمیں بھی چاہئے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے اگر وہ کسی آزمائش میں مبتلا ہو مثلا اس کا بچہ گم ہوجائے اس کے ہاں فوتگی یا ڈکیتی ہوجائے مکان یا چھت گرجائے آگ لگ جائے یا وہ لائٹ پانی بیماری روزگار گھریلو ناچاکی یا جھوٹے مقدمے جیسے مسائل سے دو چار ہو تو ہمیں فورا اپنی طاقت کے مطابق اس کی حاجت روائی کرتے ہوئے اسے مسائل کی دلدل سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ایسا بہترین عمل ہے کہ جس کی تعلیم خود ہمارا رب کریم ہمیں ارشاد فرمارہا ہے: چناچہ پارہ 5 سورہ نساء کی ایت نمبر 36 میں ارشاد باری تعالی ہے : ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)

اس ایت مقدسہ کے تحت تفسیرات احمدیہ میں ہے کہ قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور وہ جو صرف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔ (تفسیرات احمدیہ، النساء، تحت الایت: ج 36 ، ص 275)

آخری نبی کا فرمان، حق پڑوس کے حوالے سے: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے پھر خود ہی ارشاد فرمایا کہ جب وہ تم سے مدد مانگے مدد کر و ، اور جب قرض مانگے تو قرض دو ، اور جب محتاج ہو تو اُسے دو ، اور جب بیمار ہو عیادت کرو اور جب اسے خیر پہنچے تو مبارک باد ، جب مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو، مرجائے جنازے کے ساتھ جاو، بغیر اجازت اپنی عمارت بلند نہ کرو کہ اُس کی ہوا روک دو ، اپنی ہانڈی سے اس کو ایذا نہ دو مگر اس میں سے کچھ اسے بھی دو ، میوے خریدو تو اس کے پاس بھی ہدیہ کرو، اگر ہدیہ نہ کرنا ہو تو چُھپا کر مکان میں لاؤ ، تمہارے بچے اسے لیکر باہر نہ نکلیں کہ پڑوسی کے بچوں کو رنج ہوگا ، تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے قسم ہے اُس کی جس کی قبضہ قدرت میں میری جان ہے مکمل طور پر پڑوسی کا حق ادا کرنے والے تھوڑے ہیں وہی ہے جن پر اللہ کی مہربانی ہے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑوسیوں کے متعلق مسلسل وصیت فرماتے رہیں یہاں تک کہ لوگوں نے گمان کیا کہ پڑوسی کو وارث کردیں گیں۔

پھر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: پڑوسی 3 قسم کے ہیں بعض کے تین حق ہیں بعض کے دو اور بعض کا ایک حق ہے جو پڑوسی مسلم ہو اور رشتہ دار ہو اس کے تین حق ہیں۔1۔ حق جوار، حق اسلام اور حق قرابت مسلم۔ 2 پڑوسی کے دو حق ہیں حق جوار اور حق اسلام 3 ۔اور غیر مسلم کا صرف ایک حق جوار ہے۔ ( شعب الایمان ، باب فی اکرام الجار ، ج7، ص83، 84،حدیث: 9560 )

ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بھی اپنے پڑوسیوں کا خیال کرے اُن کے حقوق ادا کریں اُنہیں تکلیف ایذا نہ دیں اللہ ہم سب کو پڑوسیوں کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین 


تمام تعریفیں اس پروردگا ر عالم کے لیے جس نے انسانوں کو پیدا کیا اور ان کے حقوق بھی متعین کیے ، یہ اللہ کریم کا بہت بڑاکرم ہے کہ اس نے انسانوں کو جینے کا سلیقہ سکھایا اورآپس میں مل جل کررہنے کا اعلیٰ ضابطۂ حیات دیا تاکہ ہر انسان کو اس کی اپنی زندگی جینے کا پورا پورا حق مل سکے ،اسلام حسین و خوشگوار ماحول اور الفت بھرے معاشرے کا درس دیتا ہے بلکہ جابجا اس کی تعلیم و تاکید کرتا ہے ظاہر ہے کہ ہر شخص کے لیے معاشرے کا پہلا فرد اس کا پڑوسی ہے۔ آپ اسلام کا درس دیکھئے کہ اگر پڑوسی کافر بھی ہو اس کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تعلیم دی ہے ۔

پڑوسی تین طرح کے ہیں ایک وہ پڑوسی جس کا صرف ایک حق ہے اور دوسرا وہ پڑوسی جس کے دو حق ہیں اور تیسرا وہ پڑوسی جس کے تین حق ہیں۔ ایک حق والا پڑوسی وہ غیرمسلم پڑوسی ہے جس سے کوئی قرابت و رشتہ داری نہیں اس کے لیے صرف پڑوسی ہونے کا حق ہے، اور دو حق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی ہونے کے ساتھ ساتھ دینی بھائی بھی ہو اس کا ایک حق مسلمان ہونے کی وجہ سے ہے اور دوسرا حق پڑوسی ہونے کی وجہ سے ہے، اور تین حق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی بھی ہو مسلمان بھی ہو اور رشتہ دار بھی ہو تو اس کا ایک حق مسلمان ہونے کی وجہ سے ہے دوسرا حق پڑوسی ہونے کی وجہ سے ہے اور تیسرا حق قرابت و رشتہ داری کی وجہ سے ہوگا۔

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں انسان کو اپنے والدین، عزیز واقارب اور اپنے پڑوسیوں کیساتھ حْسنِ سلوک سے پیش آنے اور انکے حقوق کو احسن طریقے سے ادا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے: ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)

لہذا انسان کو ہر وقت ایسے کام کرنے چاہیے جو اس کے رب کو ناراض نہ کرے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں کسی طرح کوتاہی نہ کرے۔ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مختلف مواقع پر پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے ۔

ایک موقع پر حضور نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تین بار ارشاد فرمایا:اللہ پاک  کی قسم! وہ مؤمن نہيں ہو سکتا۔ صحابَۂ کرام  نے عرض کیيا رسولَ اللہ! وہ کون ہے؟ ارشاد فرمايا: جس کی برائيوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ رہے۔ (بخاری شریف، 6016)ایک دوسرے مقام پر حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو خدا اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔( بخاری شریف)

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کہ حضرت جبرائیل علیہ السّلام مجھے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی ہمیشہ یوں تاکید کرتے رہے کہ گمان ہوا کہ وہ عنقریب پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری: 5670، مسلم:2624)

پڑوسیوں کو ایذا دینے والا جہنمی ہے:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا،یارسول اللہ! فلاں عورت اپنی نماز،روزہ اور خیرات کی کثرت کے باعث مشہور ہے ،مگر وہ اپنے پڑوسی کو اپنی زبان سے تکلیف پہنچاتی ہے۔ رحمت عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ جہنمی ہے ،اسی شخص نے پھر عرض کیا یا رسول اللہ! فلاں عورت کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ روزےکم رکھتی ہے،صدقات وخیرات میں بھی کمی کرتی ہے اور نماز بھی کم پڑھتی ہے ،مگر اپنے پڑوسیوں کو دکھ نہیں پہنچاتی۔ رحمت عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ جنت میں ہے ۔ (ابن حبان: 5734، مسند احمد 440، شعب الایمان للبیہقی)

محبت بڑھانے کا طریقہ:پڑوسیوں میں محبت اور تعلقات کا بہترین ذریعہ ہدیوں اور تحفوں کا لین دین ہے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خود بھی اس کی تعلیم فرماتے اور اپنی زوجہ محترمہ کو اسکی تاکید فرمایا کرتے تھے۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے ہدیہ و صدقہ کو حقیر نہ سمجھے خواہ بکری کا ایک کھر ہی کیوں نہ ہو ۔ (متفق علیہ)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کہ: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! میرے دو پڑوسی ہیں، تو میں دونوں میں سے کس کے پاس ہدیہ بھیجوں؟ ارشاد فرمایا: ان دونوں میں سے جس کا گھر تمہارے گھر سے زیادہ قریب ہو۔ (بخاری شریف، 2259)

کامل مؤمن اور نیک مؤمن کون ہے؟:حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس شخص کو مؤمن قرار دیا جو اپنے ساتھ اپنے پڑوسی کے کھانے پینے کا بھی پورا خیال رکھے۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا ’’مؤمن وہ نہیں ہوتا جو خود تو سیر ہو جائے اور اس کا ہمسایہ(اس کے پڑوس میں) بھوکا رہے۔ (بخاری شریف،2828)

ايک شخص نے عرض کیيارسولَ اللہ! مجھے ايسا عمل بتایئے کہ جس سے میں جنت ميں داخل ہوجاؤں؟ تو رسولُ اللہ نے ارشاد فرمایا: نيک بن جاؤ۔ اس نے عرض کی: مجھے اپنے نيک بن جانے کا عِلم کيسے ہوگا؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے پڑوسیوں سے پوچھو اگر وہ تمہیں نيک کہيں تو تم نيک ہو اور اگر وہ بُرا کہيں تو تم بُرے ہی ہو۔(شعب الایمان،9567)

بعض پڑوسی ایسےہوتے ہی کہ ان سے جیسا مرضی اچھا سلوک کر لیں مگر وہ اپنی عادت سے مجبور ہوں گے ، مگر اسلام ہمیں نیک اور اچھا انسان بننے کا درس دیتا ہےاور اُس برے پڑوسی کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کا درس دیتا ہے اور مؤمن کا مصدر ایمان، امن سے ماخوذ ہے اور جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو وہ مفسد اور شر پسند نہیں ہوسکتا اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مؤمن اپنے پڑوسی کو ایذا نہیں دیتا، اس پر ظلم نہیں کرتا، اس پر بہتان نہیں لگاتا، اسکی عزت وآبرو پر حملہ نہیں کرتااور نہ صرف یہ کہ مؤمن پڑوسی اسکے شر سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ غیر مسلم ہمسائے بھی اسکی شرافت، امانت اور اخلاق پر اعتماد کرتے ہیں کیونکہ وہ امن وسلامتی کا پیکر ہوتا ہے، ہمیں چاہئےکہ معاشرے کو پر سکون اور اَمن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لیے پڑوسیوں“ کے متعلق جو احکامات اسلام نے ہمیں بتائے ہیں ان پر عمل کیا جائے۔

اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہم سب کو پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق بخشے۔ آمین یارب العالمین


اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں انسان کو اپنے والدین، عزیز واقارب اور اپنے پڑوسیوں کیساتھ حْسنِ سلوک سے پیش آنے اور انکے حقوق کو احسن طریقے سے ادا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی تعلیمات و ہدایات میں ہمسایوں کے ساتھ تعلق کو بڑی عظمت بخشی ہے نیک پڑوسی باعث سعادت اور موجب برکت ہے اور بْرا پڑوسی باعث شقاوت اور موجبِ نحوست ہےحضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی تعلیمات و ہدایات میں ہمسائیگی اور پڑوس کے اس تعلق کو بڑی عظمت بخشی ہے اور اس کے احترام و رعایت کی بڑی تاکید فرمائی ہے کہ اس کو جزو ایمان اور داخلہ جنت کی شرط ،اللہ اور اس کے رسول کی محبت کا معیار قرار دیا ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسی کو اذیت دینا کبیرہ گناہ اوراس عملِ سوء (بْرے عمل) کا ارتقاب کرنے والے کو جہنمی قرار دیا ہے۔حدیث مبارکہ کی رُو سے پڑوسی تین طرح کے ہیں: ایک وہ پڑوسی جس کے تین حق ہیں، اور دوسرا وہ پڑوسی جس کے دو حق ہیں، اور تیسرا وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہے۔

تین حقوق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی بھی ہو، مسلمان بھی اور رشتہ دار بھی ہو، تو اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا، دوسرا پڑوسی ہونے کا اور تیسرا قرابت داری کا ہوگا۔ اور دو حقوق والا وہ پڑوسی ہے جو پڑوسی ہونے کے ساتھ مسلم دینی بھائی ہے، اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا دوسرا حق پڑوسی ہونے کا ہوگا۔ اور ایک حق والا غیر مسلم پڑوسی ہے (جس سے کوئی قرابت ورشتہ داری نہ ہو) اس کے لیے صرف پڑوسی ہونے کا حق ہے(شعب الایمان، 12/105)

قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد مبارکہ ہے: ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی پڑوسی کے حقوق کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حقوق کی ادائیگی کا تاکیدی حکم فرمایا گیا ہے،خواہ وہ پڑوسی رشتہ دار ہو،اجنبی ہو،مسلمان ہو یا کافر۔۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب”ادب المفرد“ میں حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ ایک آدمی نے حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کیا،یارسول اللہ ! میرا پڑوسی مجھے ایذا(تکلیف) دیتا ہے،تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جاؤ اپنا سامان نکال کر راستے میں پھینک دو ، وہ گیا اور اپنا سامان راستے میں پھینک دیا،لوگ اسکے پاس جمع ہو گئے اور پوچھنے لگے کہ کیا بات ہے؟ اس نے کہا کہ میرا ہمسایہ مجھے تنگ کرتا رہتا ہے،میں نے حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ذکر کیا تو آپ نے مجھے سامان راستے میں ڈالنے کا حکم دیا،تو لوگ کہنے لگے اے اللہ اس (اذیت دینے والے انسان ) پر لعنت کر،اسکو ذلیل کر،اس آدمی کو جب پتا چلا تو وہ آیا اور کہنے لگا اپنے گھر واپس چلے جاؤ،میں تجھے اب نہیں ستاؤں گا۔ (کتاب الادب المفرد بخاری ،ص 42،ابوداؤد، کتاب النوم، ج4، ص504)

نیک پڑوسی باعثِ سعادت اور موجب برکت ہے اور بْرا پڑوسی باعث شقاوت اور موجبِ نحوست ہے، چنانچہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا۔ چار چیزیں نیک بختی کا سبب ہیں : نیک بیوی، کشادہ مکان، نیک پڑوسی، اچھی اور فرمانبر داری سواری جو اپنے سوار کو تکلیف نہ پہنچائے اور چار چیزیں باعث شقاوت اور موحبِ نحوست ہیں:بُرا پڑوسی ،بْری عورت ،بْری سواری اور تنگ مکان۔ (ابن حبان، کتاب النکاح 4021)

پڑوسیوں کے بنیادی حقوق: شعب الایمان للبیہقی میں حدیث پاک کی روشنی میں پڑوسی کے کئی حقوق بیان کیے گئے ہیں: 1۔ پڑوسیوں کا پہلا بنیادی حق یہ ہے کہ جب وہ آپ سے جانی یا مالی مدد مانگیں تو (اپنی استطاعت اور اس کی ضرورت دونوں کو ملحوظ رکھ کر) ان کی مدد کریں۔

2۔ پڑوسیوں کا دوسرا بنیادی حق یہ ہے کہ اگر (ضرورت کے پیش نظر) وہ قرض مانگیں تو انہیں قرض دیا جائے۔ یہاں بھی یہ مسئلہ یاد رکھیں کہ اگر پڑوسی ایسا ہو جو قرض لے کر واپس نہ کرتا ہو تو ایسے پڑوسی کو قرض دینے سے انکار کیا جا سکتا ہے۔ ہاں اگر پڑوسی معاملات کا اچھا ہو تو قرض دیا جائے ورنہ قرض کے بجائے جہاں تک ہو سکے تعاون کر دیا جائے۔

3۔ پڑوسیوں کا تیسرا بنیادی حق یہ ہے کہ جب فقر اور محتاجی کی حالت کو پہنچ جائے (پھر وہ مدد نہ بھی مانگے اور قرض نہ بھی مانگے تب بھی اپنی حیثیت کے پیش نظر) تو اس کے فقر و تنگ دستی کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔

4۔ پڑوسیوں کا چوتھا بنیادی حق یہ ہے کہ اگر وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت اور بیمارپُرسی کی جائے۔ اور اس موقع پر بھی کچھ پھل فروٹ وغیرہ ساتھ لے جایا جائے یا کچھ رقم اسے دی جائے لیکن اس دینے کو ضروری نہ سمجھا جائے ہاں اس کی ضرورت کو سمجھا جائے۔

5۔ پڑوسیوں کا پانچواں بنیادی حق یہ ہے کہ جب ان کے ہاں کوئی خوشی کا موقع آئے(مثال کے طور پر ان کے ہاں اولاد ہونا، امتحان میں پاس ہونا، روزگار کا مل جانا، شادی بیاہ) تو ان کو مبارک باد دینا۔ یہاں بھی یہ بات یاد رکھیں کہ اگر وہ پڑوسی خوشی کے موقع پر غیر شرعی یا غیر اخلاقی پروگرام کرتا ہے تو اس میں بالکل شرکت نہ کی جائے اور نہ ہی اس موقع پر مبارک باد دی جائے تاکہ اس کو اپنی غلطی کا احساس ہو۔

6۔پڑوسیوں کا چھٹا بنیادی حق یہ ہے کہ جب ان کے ہاں کوئی غمی (دکھ،تکلیف)کا موقع آئے (مثال کے طور پر فوتگی ہو جائے، ان کے ہاں چوری ہو جائے، ایکسیڈنٹ ہو جائے یا گھر میں کسی چیز کا نقصان ہو جائے) تو ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنا۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احیاء العلوم کے اندر ایک عجیب و غریب واقعہ نقل کیا ہے کہ کسی کے گھر میں چوہوں کی کثرت ہو گئی تو کسی نے بلی پالنے کا مشورہ دیا کہ اس طرح چوہے تمہارے گھر سے فرار ہوجائیں گے تو گھر والے نے کہا کہ ’’مجھے اس بات کا خطرہ ہے کہ بلی کی آواز سن کر چوہے میرے گھر سے نکل کر میرے پڑوس کے گھر میں چلے جائیں گے اور میں جو چیز اپنے لیے پسند نہیں کرتا وہی چیز اپنے پڑوسی کے لیے پسند کرنے لگوں؟ یقیناً یہ واقعہ بھی قابلِ نصیحت ہے،کاش کہ ہم عمل کرنے کی کوشش کریں۔

دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں قرآن و سنت کی روشنی میں پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


ہمسائیگی کو عربی زبان میں ”جوار“ کو کہا جاتا ہے اور پڑوسی کو ”جار“ کہتے ہیں۔ اسلام سب سے پہلا اور آخری مذہب ہے جس نے خوشگوار اور مطمئن معاشرہ پیدا کرنے کے لیے انسانی زندگی کو کوئی انفرادی اور اجتماعی پہلو ایسا نہ چھوڑا جس سے ہمیں واسطہ نہ پڑتا ہو چنانچہ رہائش اور سکونت کے لحاظ سے سب سے زیادہ واسطہ ہر ایک کو کو اپنے ہمسایہ یعنی پڑوسی سے پڑتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمسایوں کے ساتھ حسن معاشرت خوشگوار رہن سہن اور بودوباشی کے لیے بھی صرف ترغیب نہیں کی بلکہ اس کے حدود مقرر کر کے تقریباً ایک معاشرتی۔ نظام بنا کر باہمی خوشگوار تعلقات پر زور دیا ۔

اس سلسلے میں یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ہمسائیگی کا حق صرف اپنے دائیں بائیں بسنے والے پڑوسی نہیں بلکہ اسکی وسعت کو اور پھیلاؤ بہت زیادہ ہے سب سے پہلے حق قریب پڑوسی کا ہے اور بعد میں دور والے کا ہے۔ روایت ہے حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہاں تک بھی فرمایا کہ جو اللہ تعالٰی اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا احترام کرے اور جو اللہ پاک اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو نہ ستائے اور جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا چپ رہے۔ ایک روایت میں پڑوسی کے بجائے یوں ہے کہ جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ صلہ رحمی کرے (مسلم ، بخاری)نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسی کے گیارہ حق ارشاد فرمائے ہیں:

1۔ جب اسے تمہاری مدد کی ضرورت ہو اسکی مدد کرو 2۔ اگر معمولی قرض مانگے دے دو3۔اگر وہ غریب ہو تو اسکا خیال رکھو 4۔وہ بیمار ہو تو مزاج پرسی بلکہ ضرورت ہو تو تیمارداری کرو5۔اگر وہ مرجائے تو جنازہ کے ساتھ جاؤ۔ 6۔ اس کی خوشی میں خوشی کے ساتھ شرکت کرو 7۔اس کے غم و مصیبت میں ہمدردی کے ساتھ شرکت کرو 8۔اپنا مکان اتنا اونچا نہ بناؤ کہ اسکی ہوا روک دو مگر اسکی اجازت سے۔ 9- گھر میں پھل فروٹ آئے تو اسے ہدیہ بھیجتے رہو ، نہ بھیج سکو تو خفیہ رکھو اس پر ظاہر نہ ہونے دو، تمھارے بچے اسکے بچوں کے سامنے نہ کھائیں۔

10- اپنے گھر کے دھوئیں سے اسے تکلیف نہ دو 11۔اپنے گھر کی چھت پر ایسے نہ چڑھو کہ اسکی بے پردگی ہو۔ قسم اس کی جس کے قبضہ میری جان ہے۔ پڑوسی کے حقوق وہ ہی ادا کر سکتا ہے جس پر اللہ رحم فرمائے (مرقات) کہا جاتا ہے ہمسایا اور ماں جایا برابر ہونے چاہیے۔ افسوس مسلمان یہ باتیں بھول گئے قراٰنِ کریم میں پڑوسی کے حقوق کا ذکر فرمایا۔ بہر حال پڑوسی کے حقوق بہت ہیں ان کے ادا کی توفیق رب تعالیٰ سے مانگتے رہا کریں۔ (مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح ، جلد ششم باب دعوت کا بیان ، صفحہ نمبر52) 


اسلامی تعلیمات ایسے شخص کو کامل ایمان والا قرار نہیں دیتیں کہ جو خود تو پیٹ بھر کر سو جائے اور اُس کے پڑوس میں بچے بھوک و پیاس سے بِلبلاتے رہیں، چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو خود شکم سير ہو اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو وہ ایمان دار نہيں۔(معجمِ کبیر،ج 12،ص119، حدیث: 12741) پڑوسیوں سے حُسنِ سلوک تکمیلِ ایمان کا ذریعہ جبکہ انہیں ستانا، تکلیف پہنچانا، بَدسلوکی کے ذریعے ان کی زندگی کو اجیرن بنا دینا، دنیا و آخرت میں نقصان کا حقدار بننا اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تکلیف پہنچانے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس کے شر سے اُس کا پڑوسی بے خوف نہ ہو وہ جنّت میں نہیں جائے گا۔(مسلم، ص 43، حدیث: 73) دوسری روایت میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنے پڑوسی کو تکلیف دی بے شک اُس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اُس نے اللہ پاک کو ايذا دی، نیز جس نے اپنے پڑوسی سے جھگڑا کيا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور جس نے مجھ سے لڑائی کی بے شک اس نے اللہ پاک سے لڑائی کی۔(الترغیب والترہیب،ج3،ص286، حدیث: 3907)

ایک ہی محلے یا سوسائٹی میں رہنے والے لوگ اگر ایک دوسرے سے میل جول نہ رکھیں، دُکھ درد میں شریک نہ ہوں تو بہت سی مشقتیں اور پریشانیاں پیدا ہو سکتی ہیں اس لیے اسلام نے جہاں ماں باپ اور عزیز و اقارب کے ساتھ حسنِ سلوک، ہمدردی و اخوت، پیار و محبت، اَمْن و سلامتی اور ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک ہونے کی تعلیم دی ہے وہیں مسلمانوں کے قرب و جوار میں بسنے والے دیگر اسلامی بھائیوں کو بھی محروم نہیں رکھا بلکہ ان کی جان و مال اور اہل و عیال کی حفاظت کا ایسا درس دیا کہ اگر اُس پر عمل کیا جائے تو بہت سے معاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں اور اِس کے نتیجے میں ایک ایسا مدنی معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے جہاں ہر ایک دوسرے کے جان و مال، عزت و آبرو اور اہل و عیال کا محافظ ہوگا۔ نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تین بار ارشاد فرمایا:اللہ پاک کی قسم! وہ مؤمن نہيں ہو سکتا۔ صحابَۂ کرام علیہمُ الرّضوان نے عرض کی: يارسولَ اللہ! وہ کون ہے؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمايا: جس کی برائيوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ رہے۔(بخاری،ج4،ص104، حدیث: 6016)

اسلام میں پڑوسی کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کسی شخص کے کامل مؤمن ہونے اور نیک و بَد ہونے کا معیار اس کے پڑوسی کو مقرر فرمایا، چنانچہ ايک شخص نے عرض کی: يارسولَ اللہ! مجھے ايسا عمل بتایئے کہ جس سے میں جنت ميں داخل ہوجاؤں؟ تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: نيک بن جاؤ۔ اس نے عرض کی: مجھے اپنے نيک بن جانے کا عِلم کيسے ہوگا؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے پڑوسیوں سے پوچھو اگر وہ تمہیں نيک کہيں تو تم نيک ہو اور اگر وہ بُرا کہيں تو تم بُرے ہی ہو۔ (شعب الایمان،ج 7،ص85، حدیث: 9567)

پڑوسی کے حقوق بیان فرماتے ہوئے نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر وہ بيمار ہو تو اس کی عِيادت کرو، اگر فوت ہوجائے تو اس کے جنازے ميں شرکت کرو، اگر قرض مانگےتو اسے قرض دے دو اور اگر وہ عيب دار ہوجائے تو اس کی پَردہ پوشی کرو۔( معجمِ کبیر،ج19،ص419، حدیث: 1014) ایک اور روایت میں یوں ارشاد فرمایا: اگر وہ تم سے مدد طلب کرے تو اس کی مدد کرو اور اگر وہ محتاج ہو تو اسے عطا کرو، کیا تم سمجھ رہے ہو جو میں تمہیں کہہ رہا ہوں؟ پڑوسی کا حق کم لوگ ہی ادا کرتے ہیں جن پر اللہ پاک کا رحم و کرم ہوتا ہے۔(الترغیب والترہیب،ج3،ص243، حدیث:3914 )

ايک اور روايت ميں فرمایا: اگر وہ تنگدست ہوجائے تو اسے تسلی دو، اگر اسے خوشی حاصل ہو تو مبارک باد دو، اگر اُسے مصیبت پہنچے تو اس سے تعزيت کرو، اگر وہ مر جائے تو اس کے جنازے ميں شرکت کرو، اس کی اجازت کے بغير اس کے گھر سے اونچی عمارت بنا کر اس سے ہَوا نہ روکو، سالن کی خوشبو سے اسے تکلیف نہ پہنچاؤ، ہاں! یہ کہ اسے بھی مٹھی بھر دے دو تو صحیح ہے، اگر پھل خريد کر لاؤ تو اسے بھی اس ميں سے کچھ تحفہ بھیجو اور ايسا نہ کر سکو تو اسے چھپا کر اپنے گھر لاؤ اور پڑوسی کے بچوں کو تکلیف دینے کے لیے تمہارے بچے پھل لے کر باہر نہ نکلیں۔ (شعب الایمان،ج7،ص83، حدیث: 9560)

بسا اوقات پڑوسی سے کتنا ہی اچھا سلوک کیاجائے وہ احسان ماننے کے بجائے پریشان ہی کرتا رہتا ہے ایسے میں اسلام بُرے کے ساتھ بُرا بننے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ صبر اور حُسنِ تدبیر کے ساتھ اُس بُرے پڑوسی کے ساتھ حُسنِ سلوک کی ترغیب ارشاد فرماتا اور اس بُرے سُلوک پر صبر کرنے والے کو رضائے الٰہی کی نوید بھی سناتا ہے۔ جیسا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم َ نے فرمایا:اللہ پاک تین طرح کے لوگوں سے مَحبّت فرماتا ہے(ان میں سے ایک وہ ہے) جس کا بُرا پڑوسی اسے تکلیف دے تو وہ اُس کے تکلیف دینے پر صبر کرے يہاں تک کہ اللہ پاک اس کی زندگی يا موت کے ذريعے کفايت فرمائے۔(معجمِ کبیر،ج2،ص152، حدیث: 1637)

مُعَاشَرے کو پُر سکون اور اَمْن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لیے پڑوسیوں کے متعلق اسلام کے احکامات پر عمل کیا جائے تو ہر ایک اپنی عزت و آبرو اور جان و مال کو محفوظ سمجھنے لگے گا۔


اسلام ایک دین فطرت ہے جو اپنے ماننے والوں کو ایسی روشن تعلیمات دیتا ہے کہ جن پر عمل کر کے انسان دنیا و آخرت میں کامیاب ہو سکتا ہے ۔ چونکہ زندگی گزارنے کیلئے انسان کا تعلق دوسرے انسانوں کے ساتھ رہتا ہے اسی وجہ سے دین اسلام انسانوں کے مختلف حقوق بیان فرمائے ہیں جن میں پڑوسیوں کے حقوق بھی شامل ہیں چناچہ الله پاک ارشاد فرماتا ہے: ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)

پڑوسی کی اقسام :پڑوسی کی تین اقسام ہیں: ایک جو پڑوسی مسلم ہو اور رشتہ دار بھی ہو اسکے تین حق ہیں ۔ حق جوار، حق مسلم، حق قرابت ۔ دوسرا جو پڑوسی مسلم ہو، اسکے دو حقوق میں حق جوار اور حق مسلم۔ تیسرا جو پڑوسی کا فر ہو اسکا ایک حق ہے۔ حق جوار۔( بہار شریعت )اُمِّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جبرئیل علیہ اسلام مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہو کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے (صحیح بخاری )

امام بیہقی حضرت عبداللہ بن عمر و رضی اللہُ عنہما سے روایت کرتے ہیں ، فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ جب مدد مانگے تو مدد کرو، جب قرض مانگے تو قرض دو، جب محتاج ہو تو اسے دو، جب بیمار ہو تو عیادت کرو، مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو ، تو جب مرجائے تو جنازے کے ساتھ جاؤ، جب خیر پہنچے تو مبارک باد دو۔ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کر اللہ پاک کے نزدیک پڑوسیوں میں بہتر وہ ہے جو اپنے پڑوسی کا خیر خواہ ہو۔

پیارے اسلامی بھائیو! ہر ایک کو چاہیے کہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور بلا مصلحت شرعی ان کے احترام میں کمی نہ کرے امیراہل سنت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتھم العالیہ اپنے رسالہ احترام مسلم کے صفحہ 17 پر ایک حدیث مبارکہ نقل فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور سراپائے نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں عرض کی یار سول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وہ پر سال مجھے یہ کیونکر معلوم ہو کہ میں نے اچھا کیا یا نہیں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جب تم پڑوسیوں کو کہتے سنو کہ تم نے اچھا کیا تو بے شک تم نے اچھا کیا اور جب پڑوسیوں کو کہتے سنو کہ تم نے برا کیا تو بے شک تم نے برا کیا ۔(ابن ماجہ، 4/479، حدیث: 4223)

آج پڑوسیوں کو کوئی خاطر میں نہیں لاتا، عاشقان رسول کی دینی تحریک دعوت اسلامی سے وابستہ ہو جائیے عاشقان رسول کے مدنی قافلے میں سفر کی سعادت اور ہر ماہ نیک اعمال کا رسالہ پر کر کے جمع کرانے کا معمول بنا لیجئے ان شاء الله بطفیل مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑوسیوں کی اہمیت اور احترام دل میں بڑھے گا۔


حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بے شمار احادیث مبارکہ میں پڑوسیوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں لیکن یہاں تو یوں ہوتا ہے کہ بالکل برابر مکان ہونے کے باوجود سالہا سال تک ملاقات کی نوبت تک نہیں آتی۔ ایک دوسرے سے جان پہچان تک نہیں ہوتی ۔ جبکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ جبرئیل اس کثرت کے ساتھ میرے پاس پڑوسیوں کے بارے میں احکامات لیکر آئے کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ کہیں پڑوسیوں کو وراثت میں حصہ دار نہ بنا دیا جائے۔ (ترمذی، باب ما جاء فی حق الجوار، حدیث:1) یعنی جب ایک پڑوسی مر جائے تو اسکے باقی ماندہ مال میں جس طرح اسکے عزیز و اقارب وراثت میں شریک ہوتے ہیں کہیں اس کے ساتھ پڑوسیوں کا حصہ بھی مقرر نہ ہو جائے ۔

پڑوسیوں کی اقسام:پڑوسیوں کی مندرجہ ذیل دو اقسام ہیں: پہلی قسم:پڑوسیوں کی پہلی قسم ہے ” الجارذی القربی“ یعنی وہ پڑوسی جو بالکل قریب ہو سب سے اہم حق ان پڑوسیوں کا ہے۔ دوسری قسم:” والجار الجنب“ یعنی وہ پڑوسی جس کے ساتھ گھر ملا ہوا نہ ہو لیکن وہ قریب ہی ہو، مثال کے طور پر اسی محلے میں ہو یا گلی میں دو چار گھر چھوڑ کر ہو۔پڑوسیوں کے کافی حقوق بیان کیے جاتے ہیں جن میں سے پانچ حقوق مندرجہ ذیل ہیں:

(1) اگر کوئی پڑوسی محتاج ہو تو اس کی محتاجی اپنی ہمت و طاقت کے مطابق دور کرنی چاہیے اور ضروریات زندگی میں مدد کرنے کی سعی کرنی چاہیے کہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے۔عن ابو شریح الخزاعی قال النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّممن کان یؤمن بالله والیوم الآخر فلیکرم جارہ ، ترجمہ حضرت ابو شریح الخزاعی روایت کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو الله اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے پس اسے چائیے کہ وہ پڑوسی کے ساتھ اکرام (احسان) کے ساتھ پیش آئے ۔(موطا امام مالک، کتاب صفتہ النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )

لہذا محتاج اور مظلوم مسلمان کی مدد کرنی چاہیے کہ حدیث پاک میں مظلوم کی مدد کا حکم بھی دیا گیا ہے چنانچہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اللہ پاک فرماتا ہے: مجھے میری عزت و جلال کی قسم ! میں جلدی یا دیر میں ظالم سے بدلہ ضرور لوں گا اور اُس سے بھی بدلہ لوں گا جو باوجود قدرت مظلوم کی مدد نہیں کرتا ۔ ( معجم اوسط ، ج 1، ص 20، حدیث:36 )

شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدى رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں: مسلمان کی مدد، مدد کرنے والے کے حال کے اعتبار سے کبھی فرض ہوتی ہے کبھی واجب تو کبھی مستحب ہوتی ہے (نزھۃ القاری ، ج 3 ، ص 665)

گویا پڑوسیوں کی ذمہ داریوں میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنے پڑوسی کے حالات سے باخبر ہو کہ بوقت ضرورت اس کی مدد کر کے اچھے پڑوسی ہونے کا حق ادا کیا جا سکے۔

(2) اگر پڑوسی کبھی قرض مانگے تو اسے قرض دیا جائے اور اگر ایسی صورت تو نہ ہو مگر ویسے ہی کسی ضرورت کے لیے مانگ رہا ہو تو قرض دینا حسنِ سلوک کا تقاضا ہو گا اور یہ شرعا مستحب ہے۔ قرض دینے کی فضیلت کے بارے الله تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِیْرَةًؕ-وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ۪-وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(۲۴۵) ترجمہ کنز الایمان:ہے کوئی جو اللہ کو قرض حسن دے تو اللہ اس کے لئے بہت گنا بڑھا دے اور اللہ تنگی اور کشائش کرتا ہے اور تمہیں اسی کی طرف پھر جانا۔ (پ2،البقرۃ:، آیت 245)

لہذا تنگدست قرض دار کی مدد کرنی چاہیے کہ اسلام نے حاجت مند مسلمان کو قرض دینے کی نہ صرف ترغیب دلائی ہے بلکہ مقروض کے ساتھ حسن سلوک اور تنگدست کی مدد کرنے پر اجرو ثواب کی بشارت بھی عطا فرمائی ہے چنانچہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے تنگدست کو مہلت دی یا اس کے قرض میں کمی کی، اللہ پاک اسے قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا جس دن اس سائے کے علا وہ کوئی سایہ نہ ہوگا ۔ (ترمذی، ج3، ص52، حدیث:1310)

(3) اگر پڑوسی کے گھر میں کوئی خوشی کا سماں ہو تو دل جوئی کی نیت رکھتے ہوئے اس کی خوشی میں شریک ہونا چاہئے مسلمان کی دل جوئی کرنے پر فرمان مصطفی ٰصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھئے: اللہ پاک کے نزدیک فرائض کی ادائیگی کے بعد سب سے افضل عمل مسلمان کے دل میں خوشی داخل کرنا ہے۔(معجم كبير ، ج 11، ص59، حديث: 11079)

(4) اگر پڑوسی کو کوئی تکلیف و پریشانی پہنچے تو اس سے تعزیت کی جائے۔ تعزیت کا معنی ہے تسلی دینا یعنی اگر اسکی تکلیف کو دور کرنا ممکن نہ ہو تو اس کو تسلی دی جائے اس کے غم میں شریک ہوا جائے، مثلا کوئی فوت ہو جائے تو اسے زبانی طور پر تسلی دیکر ہمدردی کا اظہار کیا جائے۔ کسی کا دل غم میں ڈوبا ہوا ہو تو اسے ایسے جملے کہے جائیں جس سے اسکے دل کو سکون اور ٹھنڈک محسوس ہو اسی کا نام تعزیت ہے۔

لہذا مسلمان کی پریشانی دور کریں کہ انسان پر بسا اوقات مختلف پریشانیاں آتی ہیں، کبھی بیماری تو کبھی قرضداری، کبھی انسان مختلف قسم کی تکالیف میں پریشان نظر آتا ہے تو اگر ایسی صورت حال میں ہم کسی مسلمان کی پریشانی دُور کر سکتے ہوں تو اچھی نیتوں کے ساتھ اُس کی پریشانی دور کر کے اجرو ثواب کا حقدار بننا چاہیے ، فرمان مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو کسی مسلمان کی پریشانی دور کرے گا اللہ پاک قیامت کی پریشانیوں میں سے اس کی ایک پریشانی دور فرمائے گا۔ (مسلم، ص1069، حدیث:6578)

(5) اگر پڑوسی بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کی جائے کہ سرورِ کونین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسی کا ایک حق یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اگر وہ بیمار ہو جائے تو اسکی عیادت کرو۔ لیکن یہ تیمارداری اس طرح ہو کہ اس بیمار کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ کیونکہ مسلمان کی تیمارداری کرنا بھی بہت باعث اجر وثواب والا عمل ہے۔

مریض کی عیادت پر مشتمل اسلامی تعلیمات اس بات پر دلالت کرتے ہے کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو کسی بھی حال میں تنہا نہیں چھوڑا۔ پھر یہ دین کی پراثر تعلیمات ہی ہیں کہ جن میں عیادتِ مریض کو اخلاقیات میں اعلیٰ درجہ دینے کے ساتھ ساتھ اس میں کئی اخروی فوائد بھی رکھے گئے ہیں۔

میری تمام عاشقان رسول سے التماس ہے کہ ان حقوق کی خود بھی پاسداری کریں اور دوسروں کو بھی آگاہ کریں کہ ہر وہ کام جس سے پڑوسیوں کو تکلیف و پریشانی کا سامنا کرنا پڑے وہ سب کام حقوق العباد کے خلاف ہیں۔ لہذا ایسے کاموں سے گریز کریں۔

الله پاک ہم سب کو ایک دوسرے کے حقوق پہچاننے اور انہیں پورا کرنے کی توفیق و ہمت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


روزمرہ کے مختلف معاملات میں جن افراد کے ساتھ بندے کا تعلق ہوتا ہے ان میں ایک پڑوسی بھی ہے۔ پڑوسی کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس لیے اسلام میں تفصیل کے ساتھ پڑوسیوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ صحابہ کرام علیہم الرضوان اور بزرگان دین کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اپنے مسلمان پڑوسیوں کے ساتھ بھلائی کرے خوشی غمی میں اس کا ساتھ دے، اس کی طرف سے تکلیف پہنچے تو صبر کرے ، وہ مصیبت میں مبتلا ہو تو اس کی مدد کرے، وہ بیمار ہوتو اس کی عبادت کرے ، اس کی عزت و آبر و کی حفاظت کرے۔ پڑوسی کے مزید پانچ حقوق بیان کئے جا رہے ہیں:

(1) پڑوسی کے ساتھ احسان کرنا چاہیے: حضرت سیدنا ابو شریح خزاعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جو الله پاک اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان کرنا چاہیے اور اللہ پاک اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرنے اور اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے ۔ (مسلم ، کتاب الایمان ، باب الحث على اكرام الجار ۔۔)

(2) پڑوسی کو اذیت نہ دینا: حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی گئی : فلاں عورت دن میں روزہ رکھتی ہے اور رات میں قیام کرتی ہے اور اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے ایذا پہنچاتی ہے ارشاد فرمایا: اس میں کوئی بھلائی نہیں، وہ جہنمی ہے۔ (مستدرک، کتاب البر والصلۃ ، باب ان اللہ لا یعطی الایمان الامن الحب، 5/231، حدیث 8375)

(3) پڑوسی کے لیے سالن میں شوربہ زیادہ بناؤ: حضرت سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے ابوزر جب تم شوربہ پکاؤ تو اس کا پانی زیادہ رکھو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھو۔ ایک اور روایت میں ان ہی سے مروی ہے فرماتے ہیں: بے شک میرے خلیل صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے وصیت فرمائی کہ جب تم شور بہ پکاؤ تو اس کا پانی زیادہ رکھو، پھر اپنے پڑوسی کے گھر والوں کو دیکھو اور انہیں اس میں سے بھلائی کے ساتھ (کچھ) شوربہ دے دو۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والاداب، باب الوصيۃ بالجار، صفحہ 413، حدیث 2625)

(4) حقیر نہ سمجھنا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے مسلمان عورتوں ! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کی دی ہوئی چیز کو حقیر نہ جانے اگرچہ وہ بکری کا گھر ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری، کتاب الادب، حدیث: 6017)

(5) مدد کرنا: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر تم سے مدد طلب کرے تو اس کی مدد کرو اور اگر وہ محتاج ہو تو اسے عطا کرو، کیا تم سمجھ رہے ہو جو میں تمہیں کہ رہا ہوں ؟ پڑوسی کا حق کم وہی لوگ ہی ادا کرتے ہیں جن پر الله کا رحم کرم ہوتا ہے (الترغیب والترہیب، حدیث: 3914 )


بفضل اللہ واحسانہ عزوجل جس نے اپنے پیارے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےذریعہ ملت حنفیہ کی عطا کے ساتھ ہمیں زندگی کا ضابطہ سکھایا ۔ دین اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں ہر قباحت و خصلت طیبہ کی تعیین بھی کی گئی ہے ۔ اسی طرح اسلام میں ہر کسی کا حق ایک دوسرے پر رکھا ہے ۔ جس سے وہ اپنے درمیان ہر ہونے والی مشکلات و مصائب میں نصرت کریں ۔ اسی مناسبت سے حقوق العباد میں پڑوسی کے بھی حقوق ہوتے ہیں تو ایک ہی محلے یا سوسائٹی میں رہنے والے لوگ اگر ایک دوسرے سے میل جول نہ رکھیں، دُکھ درد میں شریک نہ ہوں تو بہت سی مشقتیں اور پریشانیاں پیدا ہو سکتی ہیں اس لیے اسلام نے جہاں ماں باپ اور عزیز و اقارب کے ساتھ حسنِ سلوک، ہمدردی و اخوت، پیار و محبت، اَمْن و سلامتی اور ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک ہونے کی تعلیم دی ہے وہیں قرب و جوار میں بسنے والے دیگر مسلمانوں کو بھی محروم نہیں رکھا بلکہ ان کی جان و مال اور اہل و عیال کی حفاظت کا ایسا درس دیا کہ اگر اُس پر عمل کیا جائے تو بہت سے معاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں اور اِس کے نتیجے میں ایک ایسا مدنی معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے جہاں ہر ایک دوسرے کے جان و مال، عزت و آبرو اور اہل و عیال کا محافظ ہوگا۔ اسی مناسب سے چند حقوق پڑھئے:

(1) قراٰنِ پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے (کے ساتھ بھلائی کرو)۔ (پ5، النسآء:36)

(2) حدیث شریف میں ہے: رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ : حضرت جبرائیل مجھ کو ہمیشہ پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں وصیت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ شاید عنقریب پڑوسی کو اپنے پڑوسی کا وارث ٹھہرا دیں گے۔(صحیح مسلم ، کتاب البر والصلۃ ، باب الوصیۃ بالجاروالاحسان الیہ ،ص1413،حدیث:2664)

(3) ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ ایک دن حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وضو فرما رہے تھے تو صحابہ کرام علیھم الرضوان آپ کے وضو کے دھووَن کو لوٹ لوٹ کر اپنے چہروں پر ملنے لگے یہ منظر دیکھ کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ تم لوگ ایسا کیوں کرتے ہو ؟ صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کیا کہ ہم لوگ اﷲعزوجل کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت کے جذبے میں یہ کررہے ہیں۔ یہ سن کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جس کویہ بات پسند ہو کہ وہ اﷲ و رسول عزوجل و صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت کرے۔ یا اﷲ و رسول عزوجل اس سے محبت کریں تو کو لازم ہے کہ وہ ہمیشہ ہر بات میں سچ بولے اور اس کو جب کسی چیز کا امین بنایاجائے تو وہ امانت ادا کرے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ (شعب الایمان ، باب فی تعظیم النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ،ج2، ص201، حدیث:1533)

(4) رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ وہ شخص کامل درجے کا مسلمان نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھالے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے۔( شعب الایمان، 3/225 ، حدیث: 3389)چند مدنی پھول عرض کئے جاتے ہیں ان پر عمل کرنے کی نیت کرلیجئے:(۱)اپنے پڑوسی کے دکھ سکھ میں شریک رہے اور بوقت ضرورت ان کی بن مانگے بغیر احسان جتائے ہر قسم کی امدادبھی کرتا رہے۔(۲)اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری ، ان کی خیر خواہی اور بھلائی میں ہمیشہ لگا رہے۔(۳)کچھ تحفوں کا بھی لین دین رکھے چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ جب تم لوگ شوربا پکاؤ تو اس میں کچھ زیادہ پانی ڈال کر شوربے کو بڑھاؤ تاکہ تم لوگ اس کے ذریعہ اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری اور ان کی مدد کر سکو۔(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والاداب ،باب الوصیۃ بالجاروالاحسان الیہ، ص1413، حدیث:2625)(٤)پڑوسی کے مال عزت آبرو کے معاملے میں بہت احتیاط برتے ان کی پردہ پوشی کرے، اپنی نگاہوں کو پڑوسی کی عورتوں سے دیکھنے سے خاص طور پر بچائے ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے پڑوسیوں کا حق ادا کرنے والا بنائے ۔اٰمین

(5) وہ مؤمن نہیں ہوسکتا: نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تین بار ارشاد فرمایا:اللہ پاک کی قسم! وہ مؤمن نہيں ہو سکتا۔ صحابَۂ کرام عَلَیْھِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی: يارسولَ اللہ! وہ کون ہے؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمايا: جس کی برائيوں سے اس کاپڑوسی محفوظ نہ رہے۔(بخاری،ج4،ص104، حدیث: 6016)

(6) اسلام میں پڑوسی کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کسی شخص کے کامل مؤمن ہونے اور نیک و بَد ہونے کا معیار اس کے پڑوسی کو مقرر فرمایا، چنانچہ ايک شخص نے عرض کی: يارسولَ اللہ! مجھے ايسا عمل بتایئے کہ جس سے میں جنت ميں داخل ہوجاؤں؟ تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: نيک بن جاؤ۔ اس نے عرض کی: مجھے اپنے نيک بن جانے کا عِلم کيسے ہوگا؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنےپڑوسیوں سے پوچھو اگر وہ تمہیں نيک کہيں تو تم نيک ہو اور اگر وہ بُرا کہيں تو تم بُرے ہی ہو۔ (شعب الایمان،ج 7،ص85، حدیث: 9567)

(7) اسلام کی پاکیزہ تعلیمات ایسے شخص کو کامل ایمان والا قرار نہیں دیتیں کہ جو خود تو پیٹ بھر کر سو جائے اور اُس کے پڑوس میں بچے بھوک و پیاس سے بِلبلاتے رہیں، چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو خود شکم سير ہو اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو وہ ایمان دار نہيں۔(معجمِ کبیر،ج 12،ص119، حدیث: 12741)

(8) پڑوسیوں سے حُسنِ سلوک تکمیلِ ایمان کا ذریعہ جبکہ انہیں ستانا، تکلیف پہنچانا، بَدسلوکی کے ذریعے ان کی زندگی کو اجیرن بنا دینا، دنیا و آخرت میں نقصان کا حقدار بننا اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تکلیف پہنچانے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس کے شر سے اُس کا پڑوسی بے خوف نہ ہو وہ جنّت میں نہیں جائے گا۔(مسلم، ص 43، حدیث: 73)

(9) دوسری روایت میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنے پڑوسی کو تکلیف دی بے شک اُس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اُس نے اللہ کو ايذا دی، نیز جس نے اپنے پڑوسی سے جھگڑا کيا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور جس نے مجھ سے لڑائی کی بے شک اس نے اللہ سے لڑائی کی۔(الترغیب والترہیب،ج3،ص286، حدیث: 3907)

(10)پڑوسی کے حقوق بیان فرماتے ہوئے نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر وہ بيمار ہو تو اس کی عِيادت کرو، اگر فوت ہوجائے تو اس کے جنازے ميں شرکت کرو، اگر قرض مانگےتو اسے قرض دے دو اور اگر وہ عيب دار ہوجائے تو اس کی پَردہ پوشی کرو۔( معجمِ کبیر،19/419، حدیث: 1014)

(11) ایک اور روایت میں یوں ارشاد فرمایا: اگر وہ تم سے مدد طلب کرے تو اس کی مدد کرو اور اگر وہ محتاج ہو تو اسے عطا کرو، کیا تم سمجھ رہے ہو جو میں تمہیں کہہ رہا ہوں؟ پڑوسی کا حق وہی لوگ ادا کرتے ہیں جن پر اللہ پاک کا رحم و کرم ہوتا ہے۔(الترغیب والترہیب،ج3،ص243، حدیث:3914 )

(12) ايک اور روايت ميں فرمایا: اگر وہ تنگدست ہوجائے تو اسے تسلی دو، اگر اسے خوشی حاصل ہو تو مبارک باد دو، اگر اُسے مصیبت پہنچے تو اس سے تعزيت کرو، اگر وہ مر جائے تو اس کے جنازے ميں شرکت کرو، اس کی اجازت کے بغير اس کے گھر سے اونچی عمارت بنا کر اس سے ہَوا نہ روکو، سالن کی خوشبو سے اسے تکلیف نہ پہنچاؤ، ہاں! یہ کہ اسے بھی مٹھی بھر دے دو تو صحیح ہے، اگر پھل خريد کر لاؤ تو اسے بھی اس ميں سے کچھ تحفہ بھیجو اور ايسا نہ کر سکو تو اسے چھپا کر اپنے گھر لاؤ اور پڑوسی کے بچوں کو تکلیف دینے کے لیے تمہارے بچے پھل لے کر باہر نہ نکلیں۔ (شعب الایمان،ج7،ص83، حدیث: 9560)

(13) بسا اوقات پڑوسی سے کتنا ہی اچھا سلوک کیاجائے وہ احسان ماننے کے بجائے پریشان ہی کرتا رہتا ہے ایسے میں اسلام بُرے کے ساتھ بُرا بننے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ صبر اور حُسنِ تدبیر کے ساتھ اُس بُرے پڑوسی کے ساتھ حُسنِ سلوک کی ترغیب ارشاد فرماتا اور اس بُرے سُلوک پر صبر کرنے والے کو رضائے الٰہی کی نوید بھی سناتا ہے۔ جیسا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ پاک تین طرح کے لوگوں سے مَحبّت فرماتا ہے(ان میں سے ایک وہ ہے) جس کا بُرا پڑوسی اسے تکلیف دے تو وہ اُس کے تکلیف دینے پر صبر کرے يہاں تک کہ اللہ پاک اس کی زندگی يا موت کے ذريعے کفايت فرمائے۔(معجمِ کبیر،ج2،ص152، حدیث: 1637)

مُعَاشَرے کو پُر سکون اور اَمْن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لیےپڑوسیوں کے متعلق اسلام کے احکامات پر عمل کیا جائے تو ہر ایک اپنی عزت و آبرو اور جان و مال کو محفوظ سمجھنے لگے گا۔

ہر کسی کو چاہیے کہ اپنے آپ کو نفسانی خواہشات وہر قباحت سے بچاتے ہوئے اللہ پاک اور تمام مخلوق کے حقوق کا بھی خیال رکھے ۔ چونکہ حق تلفی بھی گناہ ہے اپنے پڑوسیوں سے ہمدردی خوش اخلاقی ان کے تمام حقوق کی پاسداری کرنے اور ہمیں رازداری و حقوق کا پاس رکھنے کیلئے ہر وقت کوشاں رہنا چاہیے نیز تمام برئیوں سے اجتناب کرکے اللہ ورسول عزوجل وصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے زندگی گزارنی چاہیے ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ہر برائی سے محفوظ رکھے اور ہمیں اسلامی اسلوب کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ امین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔


قرآن و حدیث میں پڑوسیوں کے بہت سے حقوق بیان ہوئے ہیں جن میں سے چند ملاحظہ ہوں: الله تعالی فرماتا ہے : ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)

صحیح بخاری ومسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : خدا کی قسم ! وہ مؤمن نہیں، خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں ، خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں، عرض کی: کون یا رسول الله ؟ فرمایا: جس کے پڑوسی اس کی آفتوں سے محفوظ نہ ہوں ( یعنی جو اپنے پڑوسیوں کو تکلیف دیتا ہے)۔ (صحیح بخاری کتاب الادب، باب اثم من لا یامن جارہ بوائقہ، الحدیث : 4014 ، ج4، ص 104 )

حضرت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنان اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں تین بار فرمانا تاکید کے لئے ہے لا یؤمن میں کمال ایمان کی نفی ہے، یعنی مؤمن کامل نہیں ہو سکتا، نہیں ہو سکتا، نہیں ہو سکتا ، حضور انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کی وضاحت پہلے ہی نہ فرمادی ، بلکہ سائل کے پوچھنے پر بتایا ، تاکہ سننے والوں کے دل میں یہ بات بیٹھ جائے جوبات انتظار کے بعد معلوم ہو وہ بہت دلنشین ہوتی ہے، اگرچہ ہر مسلمان کو اپنی شر سے بچانا ضروری ہے مگر پڑوسی کو بچانا نہایت ہی ضروری کہ اس سے ہر وقت کام رہتا ہےاور وہ ہمارے اچھے اخلاق کا زیادہ مستحق ہے۔ (مراۃ المناجیح ، جلد 6، صفحہ 555) پڑوسیوں کو تکلیف دینے کی مختلف صورتیں : اس حدیث پاک میں پڑووسیوں کو تکلیف دینے پر وعید بیان ہوئی ہے چنانچہ پڑوسیوں کو تکلیف دینے کی مختلف صورتیں درج ہیں:

1۔ اس کے دروازے کے سامنے کچرا ڈال دینا

2۔ اس کے دروازے کے پاس شور کرنا

3۔ وقت بے وقت کیل وغیرہ ٹھونکنا

4۔ اس کے گھر میں جھانکنا

5۔ اونچی آواز سے ٹیپ ریکار ڈ یا ڈیک وغیرہ چلانا چاہیے نعتیں ہیں کیوں نہ چلائیں اس کی آواز اپنے تک محدود رکھئے ۔

6۔ اپنے گھر کا فرش دھونے کے بعد پانی پڑوسیوں کے گھر کےسامنے چھوڑ دینا

7۔ ان کے بچوں کو جھاڑنا ، مارنا ۔ وغیرہ

دعا ہے کہ الله پاک ہمیں ان تمام باتوں سے بچائے اور پڑوسیوں کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، امین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے اسلامی بھائیو! روز مرہ کے مختلف معاملات میں جن اَفراد کے ساتھ بندے کا تعلق ہوتا ہے ان میں ایک پڑوسی بھی ہے ، پڑوسی کو بڑی اہمیت حاصل ہے ، اسی لیے اسلام میں تفصیل کے ساتھ پڑوسیوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں ، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اور بزرگانِ دِین کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اپنے مسلمان پڑوسیوں کے حُسن سلوک کی وجہ سے کئی غیر مسلم دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے ، ایک مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ بھلائی کرے ، خوشی غمی میں اُس کا ساتھ دے ، اس کی طرف سے تکلیف پہنچے تو صبر کرے ، وہ مصیبت میں مبتلا ہوتو اس کی مدد کرے ، وہ بیمار ہوتو اس کی عیادت کرے ، اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرے۔

پڑوسی وہ ہے جو ہمارے گھر کے قریب ہو ان کا ہم پر بہت بڑا حق ہے اگر وہ نسب میں ہم سے قریب ہو اور مسلمان بھی ہوتو اس کے تین حق ہیں (1)پڑوسی کا حق(2)قرابت داری کا حق(3)اور اسلام کا حق۔ اسی طرح اگر وہ قریبی ہے لیکن مسلمان نہیں ہے اس کے دو حق ہیں ایک پڑوسی ہونے کا حق اور دوسرا قرابت داری کا اور رشتہ میں دور ہے اور مسلمان بھی نہیں تو اسکا ایک حق ہے یعنی پڑوسی کا حق، اللہ  اور اُس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُمت کو جن باتوں کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پڑوسیوں کی رعایت کی جائے اور ان کے حقوق کی معلومات حاصل کی جائے اور ادا کیے جائیں۔ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں اِرشاد فرماتا ہے :﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)

(1) قریب اور دور کے ہمسائے:اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک نے  اپنی عبادت کرنے  اور کسی کو شریک نہ ٹھہرانے کا حکم دینے کے بعد والدین ، رشتہ داروں ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ  بھلائی کرنے کا حکم دیا اور ان کے بعد قریب اور دور دونوں طرح کے  پڑوسیوں سے  بھلائی اور اچھا سلوک کرنے کا حکم ارشاد فرمایاہے،ان پڑوسیوں کے بارے میں دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے ’’مکتبۃ المدینہ‘‘ کی مطبوعہ 495 صفحات پر مشتمل کتاب صراط الجنان جلد2 صفحہ201 پر تفسیراتِ احمدیہ کے حوالے سے لکھا ہے : قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو، رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور وہ جو صر ف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔

(2)نیز اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو اللہ اور یوم آخرت یعنی(آخرت کے دن) پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے پڑوسی سے نیک سلوک کرنا چاہیے۔(مسلم کتاب الایمان) اللہ پاک اور اُس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ مؤمن ہونے کی حیثیت سے تم پر پڑوسی کا حق یہ ہے کہ جب وہ بیمار پڑے تو عیادت کرو،قرض طلب کرے تو اُسے قرض دو،خوشی میں ہوتو مبارک باد دو،مصیبت زدہ ہوتو تسلی دو،اسے اسلام میں پہل کرو،بات نرمی سے کرو،اُس کے دین اور دنیا کی درستگی میں اُس کی رہنمائی کرو،اُسکے عُیوب کی تلاش میں نہ رہو،اُس کی لغزشوں سے درگزر کرو، اس کی طرف کوڑا کرکٹ پھینک کر اُس کو اِیذَا نہ دو یہ سب باتیں ہمسایہ کے ساتھ احسان اورحسن سلوک کے ذیل میں آتی ہیں۔

(3) اپنے پڑوسی کے ساتھ خواہ کتنا بھی احسان کرو اُس کو زیادہ سمجھو کیونکہ اُس کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے اللہ پاک کی طرف سے اَجر عَظْیم اور بلند درجات حاصل ہوتے ہیں  رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وحی الہٰی کی تعمیل میں پڑوسی کے حقوق کی اتنی تاکید فرمائی ہےکہ:آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے: جبرئیل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے بارے میں برابر تاکید اور تلقین کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے گمان(خیال)کیا کہ وہ اسے یقیناً وارث قرار دے دیں گے۔ (مسلم، کتاب الادب)

(4)ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر یہ حق ہے کہ جہاں تک ہوسکے اُسکے ساتھ بھلائی کرے اور تحفہ تحائف کا تبادلہ کرے ۔  رسول  اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب تم شوربے والا سالن پکاؤ تو اُس کا شوربہ زیادہ کرلیا کرو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھا کرو۔(مسلم، کتاب البر والصلہ)

(5)حضرتِ سیِّدُنا ابوہریرہ  رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! فلاں  عورت نماز وروزہ، صدَقہ کثرت سے کرتی ہے مگر اپنے پڑوسیوں  کو زبان سے تکلیف بھی پہنچاتی ہے۔ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ جہنّمی ہے۔(مُسْنَد اَحمَد،ج4، مسند ابی ھریرہ، ص 635 ، الحدیث : 9926)

ہر مسلمان عورت کو اپنی حیثیت کے مطابق پڑوسن کے یہاں ھدیہ بھیجتے رہنا چاہیے۔ یہاں تک کہ وہ معمولی چیز کا ھدیہ بھیجنے میں بھی تامل نہ کرے۔ اسی طرح کسی پڑوسن کے یہاں سے آئے ہوئے معمولی ھدیہ کو بھی حقیر نہ جانے بلکہ اسے خوش دلی سے قبول کرے اور ہدیہ دینے والی کا شکریہ ادا کرے اس سے نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے کے خلاف کینہ اور غصہ دور ہوجاتا ہے بلکہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرنے لگتی ہیں اور ان کے باہمی تعلقات خوشگوار ہو جاتے ہیں۔

(6)ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر حق یہ ہے کہ اسے کسی طرح کی قولی یا فعلی تکلیف نہ پہنچائی جائے۔نیز رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن اُس کے(ھدیہ)کوحقیر نہ سمجھے اگرچہ( اُسکا بھیجا ہوا ھدیہ) بکری کا کھر ہی ہو۔(بخاری، کتاب الادب)

(7)رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ کی قسم !وہ مؤمن نہیں ہو سکتا اللہ کی قسم! وہ مؤمن نہیں ہو سکتا،اللہ کی قسم !وہ مؤمن نہیں ہوسکتا، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا گیا:اے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کون؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: وہ شخص جس کا پڑوسی اُس کی شرارتوں سے مخفوظ نہ ہو۔(بخاری ،کتاب الادب)

آج کل اپنے پڑوسیوں کو طرح طرح سے تنگ کیا جاتا ہے ، کبھی ڈسٹ بن سے کچرے کی تھیلی اُٹھاکر چُپکے سے اس کے دَروازے کے آگے رکھ کر بھاگ جاتے ہیں ، کبھی اس کے دَروازے کے آگے پانی بہا کر تکلیف دیتے ہیں ، اگر چند منزلہ عمارت ہے تو آرام  کے وقت میز کُرسیاں گھسیٹ کر آرام میں خَلل ڈالتے ہیں یا بچے زور زور سے شور شرابا کرتے ہوئے کھیلیں گے ، چیزیں پھینکیں گے تو دِیگر گھر والے انہیں روکیں گے نہیں اور دوسری منزل والے کی آنکھ کھل جائے گی ، کبھی اس بے چارے کا پانی بند کر دیں گے تو کبھی بارش کے پانی کا رُخ اس کی طرف کر دیں گے ، کوئی چیز جھاڑیں گے تو دھول مٹی اس بے چارے کے گھر میں جانے دیں گے ، نہ جانے پڑوسیوں کو کیسی کیسی تکلیفیں دیں گے اور جب وہ بے چارہ فریاد لے کر آئے گا تو اس کی کوئی شِنوائی بھی نہیں ہوگی۔ غور کر لیجیے! پڑوسی کو تکلیف دینے کی کتنی بڑی خرابی اور بَدنصیبی ہے۔

پڑوسیوں کو تکلیف دینا:اور ایک روایت میں فرمایا گیا جو اللہ اور یوم آخرت (یعنی آخرت کے دن )پر ایمان رکھتا ہوتو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔(بخاری) ایک شخص کے گھر میں چوہے ہو گئے وہ اس کو تنگ کرتے تھے۔ کسی نے مشورہ دیا آپ بلی پال لو ، اس نے کہا : بلی پالنے سے چوہے میرے گھر سے بھاگ کر میرے پڑوسی کے گھر میں چلے جائیں گے!میں یہ نہیں کر سکتا ، چوہے میرے گھر میں ہی ٹھیک ہیں۔ جہاں اِس قدر اچھی سوچ والے ہیں وہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی بَلا دوسروں پر ڈالنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں سامنے والا کل کے بجائے آج مرجائے  مگر ہماری جیب بھری رہے اور ہم سکون سے رہیں۔

(8)پڑوسی کا بہت زیادہ حق ہوتا ہے اور پڑوسی صرف وہی نہیں ہوتا جو گھر کے برابر میں رہتا ہے پڑوسی کے بارے میں بھی قیامت کے دِن سُوال ہوگا کہ پڑوس کا حق ادا کیا یا نہیں؟ ان پڑوسیوں کو بھی آرام پہنچانا ہے ، یا نہیں کہ خود پھیل کر بیٹھ جائیں اور برابر والے کو جگہ ہی نہ ملے ، عموماً رش میں ایسا ہوتا ہے خوب پھیل کر بیٹھتے اور ٹانگیں پھیلا لیتے ہیں۔ کاش یہ جَذبہ نصیب ہوجائے کہ ہم خود تکلیف اُٹھالیں لیکن اپنے بھائی کو آسانی پہنچائیں اگر ایسا کریں گے تو دُنیا و آخرت میں آسانیاں نصیب ہوں گی۔اِن شآءَ اللہ

(9)اپنے پڑوسیوں  کا خیال رکھنا چاہئے، پڑوسیوں کے حقوق بَہُت زیادہ ہیں ، مؤمن کا مصدر ایمان، (اَمَنْ) سے ماخوذ ہے جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو وہ مُفسد (فساد پھلانے والا)اور شَرْ پسند نہیں ہوسکتا۔اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ مؤمن اپنے پڑوسی کو اِیذَا نہیں دیتا،اس پر ظلم نہیں کرتا،اس پر بہتان(تُہمت)نہیں لگاتا،اُس کی عزت وآبرو پر حملہ نہیں کرتا۔

بلکہ وہ اَمن وسلامتی کا پیکر ہوتا ہے نہ صرف یہ کہ مؤمن پڑوسی اُس کے شر، دست درازی سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ غیر مسلم ہمسائے بھی اسکی شرافت، امانت اور اخلاق پر اعتماد کرتے ہیں۔جو شخص اپنی شرارتوں سے پڑوسی کو پریشان کرتا رہتا ہو اور اپنی فتنہ انگیزی سے اسکا چین چھین لیتا ہو وہ مؤمن نہیں یعنی کامل مؤمن نہیں ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے ہمیں بھی پڑوسیوں کے حقوق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم