حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بے شمار احادیث مبارکہ میں پڑوسیوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں لیکن یہاں تو یوں ہوتا ہے کہ بالکل برابر مکان ہونے کے باوجود سالہا سال تک ملاقات کی نوبت تک نہیں آتی۔ ایک دوسرے سے جان پہچان تک نہیں ہوتی ۔ جبکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ جبرئیل اس کثرت کے ساتھ میرے پاس پڑوسیوں کے بارے میں احکامات لیکر آئے کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ کہیں پڑوسیوں کو وراثت میں حصہ دار نہ بنا دیا جائے۔ (ترمذی، باب ما جاء فی حق الجوار، حدیث:1) یعنی جب ایک پڑوسی مر جائے تو اسکے باقی ماندہ مال میں جس طرح اسکے عزیز و اقارب وراثت میں شریک ہوتے ہیں کہیں اس کے ساتھ پڑوسیوں کا حصہ بھی مقرر نہ ہو جائے ۔

پڑوسیوں کی اقسام:پڑوسیوں کی مندرجہ ذیل دو اقسام ہیں: پہلی قسم:پڑوسیوں کی پہلی قسم ہے ” الجارذی القربی“ یعنی وہ پڑوسی جو بالکل قریب ہو سب سے اہم حق ان پڑوسیوں کا ہے۔ دوسری قسم:” والجار الجنب“ یعنی وہ پڑوسی جس کے ساتھ گھر ملا ہوا نہ ہو لیکن وہ قریب ہی ہو، مثال کے طور پر اسی محلے میں ہو یا گلی میں دو چار گھر چھوڑ کر ہو۔پڑوسیوں کے کافی حقوق بیان کیے جاتے ہیں جن میں سے پانچ حقوق مندرجہ ذیل ہیں:

(1) اگر کوئی پڑوسی محتاج ہو تو اس کی محتاجی اپنی ہمت و طاقت کے مطابق دور کرنی چاہیے اور ضروریات زندگی میں مدد کرنے کی سعی کرنی چاہیے کہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے۔عن ابو شریح الخزاعی قال النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّممن کان یؤمن بالله والیوم الآخر فلیکرم جارہ ، ترجمہ حضرت ابو شریح الخزاعی روایت کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو الله اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے پس اسے چائیے کہ وہ پڑوسی کے ساتھ اکرام (احسان) کے ساتھ پیش آئے ۔(موطا امام مالک، کتاب صفتہ النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )

لہذا محتاج اور مظلوم مسلمان کی مدد کرنی چاہیے کہ حدیث پاک میں مظلوم کی مدد کا حکم بھی دیا گیا ہے چنانچہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اللہ پاک فرماتا ہے: مجھے میری عزت و جلال کی قسم ! میں جلدی یا دیر میں ظالم سے بدلہ ضرور لوں گا اور اُس سے بھی بدلہ لوں گا جو باوجود قدرت مظلوم کی مدد نہیں کرتا ۔ ( معجم اوسط ، ج 1، ص 20، حدیث:36 )

شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدى رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں: مسلمان کی مدد، مدد کرنے والے کے حال کے اعتبار سے کبھی فرض ہوتی ہے کبھی واجب تو کبھی مستحب ہوتی ہے (نزھۃ القاری ، ج 3 ، ص 665)

گویا پڑوسیوں کی ذمہ داریوں میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنے پڑوسی کے حالات سے باخبر ہو کہ بوقت ضرورت اس کی مدد کر کے اچھے پڑوسی ہونے کا حق ادا کیا جا سکے۔

(2) اگر پڑوسی کبھی قرض مانگے تو اسے قرض دیا جائے اور اگر ایسی صورت تو نہ ہو مگر ویسے ہی کسی ضرورت کے لیے مانگ رہا ہو تو قرض دینا حسنِ سلوک کا تقاضا ہو گا اور یہ شرعا مستحب ہے۔ قرض دینے کی فضیلت کے بارے الله تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِیْرَةًؕ-وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ۪-وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(۲۴۵) ترجمہ کنز الایمان:ہے کوئی جو اللہ کو قرض حسن دے تو اللہ اس کے لئے بہت گنا بڑھا دے اور اللہ تنگی اور کشائش کرتا ہے اور تمہیں اسی کی طرف پھر جانا۔ (پ2،البقرۃ:، آیت 245)

لہذا تنگدست قرض دار کی مدد کرنی چاہیے کہ اسلام نے حاجت مند مسلمان کو قرض دینے کی نہ صرف ترغیب دلائی ہے بلکہ مقروض کے ساتھ حسن سلوک اور تنگدست کی مدد کرنے پر اجرو ثواب کی بشارت بھی عطا فرمائی ہے چنانچہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے تنگدست کو مہلت دی یا اس کے قرض میں کمی کی، اللہ پاک اسے قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا جس دن اس سائے کے علا وہ کوئی سایہ نہ ہوگا ۔ (ترمذی، ج3، ص52، حدیث:1310)

(3) اگر پڑوسی کے گھر میں کوئی خوشی کا سماں ہو تو دل جوئی کی نیت رکھتے ہوئے اس کی خوشی میں شریک ہونا چاہئے مسلمان کی دل جوئی کرنے پر فرمان مصطفی ٰصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھئے: اللہ پاک کے نزدیک فرائض کی ادائیگی کے بعد سب سے افضل عمل مسلمان کے دل میں خوشی داخل کرنا ہے۔(معجم كبير ، ج 11، ص59، حديث: 11079)

(4) اگر پڑوسی کو کوئی تکلیف و پریشانی پہنچے تو اس سے تعزیت کی جائے۔ تعزیت کا معنی ہے تسلی دینا یعنی اگر اسکی تکلیف کو دور کرنا ممکن نہ ہو تو اس کو تسلی دی جائے اس کے غم میں شریک ہوا جائے، مثلا کوئی فوت ہو جائے تو اسے زبانی طور پر تسلی دیکر ہمدردی کا اظہار کیا جائے۔ کسی کا دل غم میں ڈوبا ہوا ہو تو اسے ایسے جملے کہے جائیں جس سے اسکے دل کو سکون اور ٹھنڈک محسوس ہو اسی کا نام تعزیت ہے۔

لہذا مسلمان کی پریشانی دور کریں کہ انسان پر بسا اوقات مختلف پریشانیاں آتی ہیں، کبھی بیماری تو کبھی قرضداری، کبھی انسان مختلف قسم کی تکالیف میں پریشان نظر آتا ہے تو اگر ایسی صورت حال میں ہم کسی مسلمان کی پریشانی دُور کر سکتے ہوں تو اچھی نیتوں کے ساتھ اُس کی پریشانی دور کر کے اجرو ثواب کا حقدار بننا چاہیے ، فرمان مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو کسی مسلمان کی پریشانی دور کرے گا اللہ پاک قیامت کی پریشانیوں میں سے اس کی ایک پریشانی دور فرمائے گا۔ (مسلم، ص1069، حدیث:6578)

(5) اگر پڑوسی بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کی جائے کہ سرورِ کونین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسی کا ایک حق یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اگر وہ بیمار ہو جائے تو اسکی عیادت کرو۔ لیکن یہ تیمارداری اس طرح ہو کہ اس بیمار کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ کیونکہ مسلمان کی تیمارداری کرنا بھی بہت باعث اجر وثواب والا عمل ہے۔

مریض کی عیادت پر مشتمل اسلامی تعلیمات اس بات پر دلالت کرتے ہے کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو کسی بھی حال میں تنہا نہیں چھوڑا۔ پھر یہ دین کی پراثر تعلیمات ہی ہیں کہ جن میں عیادتِ مریض کو اخلاقیات میں اعلیٰ درجہ دینے کے ساتھ ساتھ اس میں کئی اخروی فوائد بھی رکھے گئے ہیں۔

میری تمام عاشقان رسول سے التماس ہے کہ ان حقوق کی خود بھی پاسداری کریں اور دوسروں کو بھی آگاہ کریں کہ ہر وہ کام جس سے پڑوسیوں کو تکلیف و پریشانی کا سامنا کرنا پڑے وہ سب کام حقوق العباد کے خلاف ہیں۔ لہذا ایسے کاموں سے گریز کریں۔

الله پاک ہم سب کو ایک دوسرے کے حقوق پہچاننے اور انہیں پورا کرنے کی توفیق و ہمت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم