نجم الثاقب (درجۂ سادسہ جامعۃُ
المدینہ فیضانِ حسن و جمالِ مصطفیٰ کراچی، پاکستان)
تمام
تعریفیں اس پروردگا ر عالم کے لیے جس نے انسانوں کو پیدا کیا اور ان کے حقوق بھی
متعین کیے ، یہ اللہ کریم کا بہت بڑاکرم ہے کہ اس نے انسانوں کو جینے کا سلیقہ
سکھایا اورآپس میں مل جل کررہنے کا اعلیٰ ضابطۂ حیات دیا تاکہ ہر انسان کو اس کی
اپنی زندگی جینے کا پورا پورا حق مل سکے ،اسلام
حسین و خوشگوار ماحول اور الفت بھرے معاشرے کا درس دیتا ہے بلکہ جابجا اس کی تعلیم
و تاکید کرتا ہے ظاہر ہے کہ ہر شخص کے لیے معاشرے کا پہلا فرد اس کا پڑوسی ہے۔ آپ
اسلام کا درس دیکھئے کہ اگر پڑوسی کافر بھی ہو اس کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تعلیم
دی ہے ۔
پڑوسی تین طرح کے ہیں ایک وہ پڑوسی جس کا صرف ایک حق ہے اور
دوسرا وہ پڑوسی جس کے دو حق ہیں اور تیسرا وہ پڑوسی جس کے تین حق ہیں۔ ایک حق والا
پڑوسی وہ غیرمسلم پڑوسی ہے جس سے کوئی قرابت و رشتہ داری نہیں اس کے لیے صرف پڑوسی
ہونے کا حق ہے، اور دو حق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی ہونے کے ساتھ ساتھ دینی بھائی
بھی ہو اس کا ایک حق مسلمان ہونے کی وجہ سے ہے اور دوسرا حق پڑوسی ہونے کی وجہ سے
ہے، اور تین حق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی بھی ہو مسلمان بھی ہو اور رشتہ دار بھی
ہو تو اس کا ایک حق مسلمان ہونے کی وجہ سے ہے دوسرا حق پڑوسی ہونے کی وجہ سے ہے
اور تیسرا حق قرابت و رشتہ داری کی وجہ سے ہوگا۔
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں انسان کو اپنے والدین،
عزیز واقارب اور اپنے پڑوسیوں کیساتھ حْسنِ سلوک سے پیش آنے اور انکے حقوق کو
احسن طریقے سے ادا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے: ﴿وَ
بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ
وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ
ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں
اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی
باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)
لہذا انسان کو ہر وقت ایسے کام کرنے چاہیے جو اس کے رب کو
ناراض نہ کرے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں کسی طرح کوتاہی نہ
کرے۔ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے مختلف مواقع پر پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے ۔
ایک موقع پر حضور نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تین بار ارشاد فرمایا:اللہ پاک کی قسم! وہ مؤمن نہيں ہو سکتا۔ صحابَۂ
کرام نے عرض کی: يا رسولَ اللہ! وہ کون ہے؟ ارشاد فرمايا: جس کی برائيوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ رہے۔ (بخاری شریف،
6016)ایک دوسرے مقام پر حضور اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو خدا اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو
اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔( بخاری شریف)
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت
ہے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کہ حضرت جبرائیل علیہ السّلام مجھے پڑوسی کے ساتھ
اچھا سلوک کرنے کی ہمیشہ یوں تاکید کرتے رہے کہ گمان ہوا کہ وہ عنقریب پڑوسی کو
وارث بنا دیں گے۔ (بخاری: 5670، مسلم:2624)
پڑوسیوں کو ایذا دینے والا جہنمی ہے:حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا،یارسول
اللہ! فلاں عورت اپنی نماز،روزہ اور خیرات کی کثرت کے باعث مشہور ہے ،مگر وہ اپنے
پڑوسی کو اپنی زبان سے تکلیف پہنچاتی ہے۔ رحمت عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ جہنمی ہے ،اسی
شخص نے پھر عرض کیا یا رسول اللہ! فلاں عورت کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ روزےکم رکھتی
ہے،صدقات وخیرات میں بھی کمی کرتی ہے اور نماز بھی کم پڑھتی ہے ،مگر اپنے پڑوسیوں
کو دکھ نہیں پہنچاتی۔ رحمت عالم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ جنت میں ہے ۔ (ابن حبان: 5734،
مسند احمد 440، شعب الایمان للبیہقی)
محبت بڑھانے کا طریقہ:پڑوسیوں میں محبت اور تعلقات کا بہترین ذریعہ ہدیوں اور
تحفوں کا لین دین ہے آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم خود بھی اس کی تعلیم فرماتے اور اپنی زوجہ محترمہ کو اسکی
تاکید فرمایا کرتے تھے۔آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے
ہدیہ و صدقہ کو حقیر نہ سمجھے خواہ بکری کا ایک کھر ہی کیوں نہ ہو ۔ (متفق علیہ)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کہ: میں نے کہا: اے اللہ
کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
! میرے دو پڑوسی ہیں، تو میں دونوں میں سے کس کے پاس ہدیہ بھیجوں؟ ارشاد فرمایا:
ان دونوں میں سے جس کا گھر تمہارے گھر سے زیادہ قریب ہو۔ (بخاری شریف، 2259)
کامل مؤمن اور نیک مؤمن کون ہے؟:حضور نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس شخص کو مؤمن قرار دیا جو اپنے ساتھ اپنے
پڑوسی کے کھانے پینے کا بھی پورا خیال رکھے۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی
اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا ’’مؤمن وہ نہیں ہوتا جو
خود تو سیر ہو جائے اور اس کا ہمسایہ(اس کے پڑوس میں) بھوکا رہے۔ (بخاری
شریف،2828)
ايک شخص نے عرض کی: يارسولَ اللہ! مجھے ايسا عمل بتایئے کہ جس سے میں جنت ميں داخل ہوجاؤں؟
تو رسولُ اللہ نے ارشاد فرمایا: نيک بن جاؤ۔ اس نے عرض کی: مجھے اپنے
نيک بن جانے کا عِلم کيسے ہوگا؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے پڑوسیوں سے
پوچھو اگر وہ تمہیں نيک کہيں تو تم نيک ہو اور اگر وہ بُرا کہيں تو تم بُرے ہی
ہو۔(شعب الایمان،9567)
بعض پڑوسی ایسےہوتے ہی کہ ان سے جیسا مرضی اچھا سلوک کر لیں
مگر وہ اپنی عادت سے مجبور ہوں گے ، مگر اسلام ہمیں نیک اور اچھا انسان بننے کا
درس دیتا ہےاور اُس برے پڑوسی کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کا درس دیتا ہے اور مؤمن کا
مصدر ایمان، امن سے ماخوذ ہے اور جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو وہ مفسد اور شر
پسند نہیں ہوسکتا اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مؤمن اپنے پڑوسی کو ایذا نہیں
دیتا، اس پر ظلم نہیں کرتا، اس پر بہتان نہیں لگاتا، اسکی عزت وآبرو پر حملہ نہیں
کرتااور نہ صرف یہ کہ مؤمن پڑوسی اسکے شر سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ غیر مسلم ہمسائے
بھی اسکی شرافت، امانت اور اخلاق پر اعتماد کرتے ہیں کیونکہ وہ امن وسلامتی کا
پیکر ہوتا ہے، ہمیں چاہئےکہ معاشرے کو پر سکون اور اَمن و سلامتی کا گہوارہ بنانے
کے لیے ”پڑوسیوں“ کے متعلق جو احکامات اسلام نے ہمیں بتائے ہیں ان پر عمل کیا جائے۔
اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہم سب کو پڑوسیوں کے
حقوق کی ادائیگی کی توفیق بخشے۔ آمین یارب العالمین