پیارے اسلامی بھائیو! روزمرہ کے مختلف معاملات میں جن افراد کے ساتھ بندے کا تعلق ہوتا ہے ان میں ایک پڑوسی بھی ہے۔ ‏پڑوسی کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس لیے اسلام میں تفصیل کے ساتھ پڑوسیوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں ۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏صحابہ ٔ کرام علیہم الرضوان اور بزرگان دین کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اپنے مسلمان پڑوسیوں کے ساتھ بھلائی ‏کرے، خوشی غمی میں اس کا ساتھ دے ،اس کی طرف سے تکلیف پہنچے تو صبر کرے وہ مصیبت میں مبتلا ہو تو اس کی ‏مدد کرے۔ وہ بیمار ہوتی اس کی عبادت کرے اس کی عزت و آبر و حفاظت کرے۔

پڑوسی کے پانچ حقوق (1) پڑوسی کے ساتھ احسان کرنا چاہیے۔ حضرت سیدنا ابو شریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کیا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو الله پاک اور ‏آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان کرنا چاہیے اور اللہ پاک اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے ‏چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرنے اور جو اللہ پاک اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا ‏خاموش رہے ۔ (مسلم کتاب الایمان )

‏(2) پڑوسی کو اذیت نہ دینا ۔ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ‏عرض کی گئی : فلاں عورت دن میں روزہ رکھتی ہے اور رات میں قیام کرتی ہے اور اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے ایذا ‏ پہنچاتی ہے ارشاد فرمایا: اس میں کوئی بھلائی نہیں، وہ جہنمی ہے۔ (مستدرک، کتاب البر والصلة، باب ان اللہ لا یعطی الایمان الامن ‏الحب 5/231، حدیث: 8375‏)

پڑوسی کے لیے سالن میں شوربہ زیادہ بناؤ: حضرت سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا! ‏اے ابوذر جب تم شوربہ پکاؤ تو اس کا پانی زیادہ رکھو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھو۔ ایک اور روایت میں ان ہی سے مروی ہے فرماتے ہیں: بے شک میرے خلیل صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ‏مجھے وصیت فرمائی کہ جب تم شور بہ پکاؤ تو اس کا پانی زیادہ رکھو، پھر اپنے پڑوسی کے گھر والوں کو دیکھوں اور انہیں اس میں سے بھلائی ‏کے ساتھ (کچھ) شوربہ دے دو۔‏(مسلم، کتاب البر والصلة والاداب، باب الوصية بالجارو‏ الاحسان اللہ ،ص 413 حدیث: 2625‏)

‏(5) حقیر نہ سمجھنا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے مسلمان عورتوں ! ‏کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کی دی ہوئی چیز کو حقیر نہ جانے اگرچہ وہ بکری کا گھر ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری کتاب الادب، باب الاتحقرن جارة ‏لجار تھا ،104‏،حدیث: 6017)‏

مدد کرنا: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر تم سے مدد طلب کرے تو اس کی مدد کرو اور اگر وہ محتاج ہو تو اسے عطا کرو کیا تم ‏سمجھ رہے ہو جو میں تمہیں کہ رہا ہوں ؟ پڑوسی کا حق ہے کم لوگ ہی ادا کرتے ہیں جن پر الله کا رحم و کرم ہی ہوتا ہے۔ (الترغیب ‏والترھیب ، ص 243‏،حدیث 3914‏)


روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کہ جو اللہ پاک اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا احترام کرے ۱؎ اور جو اللہ پاک اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو نہ ستائے ۲؎ اور جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا چپ رہے۳؎ ایک روایت میں پڑوسی کے بجائے یوں ہے کہ جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ صلہ رحمی کرے ۴؎ (مسلم،بخاری)۔ ۱؎ مہمان کا احترام یہ ہے کہ اس سے خندہ پیشانی سے ملے اس کے لیے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتی الامکان اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے، بعض حضرات خود مہمان کے آگے دسترخوان بچھاتے اس کے ہاتھ دھلاتے ہیں یہ اسی حدیث پر عمل ہے، بعض لوگ مہمان کے لیے بقدر طاقت اچھا کھانا پکاتے ہیں وہ بھی اس عمل پر ہے جسے کہتے ہیں مہمان کی خاطر تواضع۔اس حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ جو مہمان کی خدمت نہ کرے وہ کافر ہے ۔مطلب یہ ہے کہ مہمان کی خاطر تقاضاء ایمان کا ہے جیسے باپ اپنے بیٹے سے کہے کہ اگر تو میرا بیٹا ہے تو میری خدمت کر،مہمان کی خاطر مؤمن کی علامت ہے۔خیال رہے کہ پہلے دن مہمان کے لیے کھانے میں تکلف کر،پھردو دن درمیانہ کھانا پیش کر،تین دن کی بھی مہمانی ہوتی ہے بعد میں صدقہ ہے۔(مرقات)

یعنی اس کو تکلیف دینے کے لیے کوئی کام نہ کرے۔

فرمایا نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسی کے گیارہ حق ہیں: (1)جب اسے تمہاری مدد کی ضرورت ہو اس کی مدد کرو(2)اگر معمولی قرض مانگے دے دو(3)اگر وہ غریب ہو تو اس کا خیال رکھو(4)وہ بیمار ہو تو مزاج پرسی بلکہ ضرورت ہو تیمارداری کرو(5)مرجائے تو جنازہ کے ساتھ جاؤ(6)اس کی خوشی میں خوشی کے ساتھ شرکت کرو(7)اس کے غم و مصیبت میں ہمدردی کے ساتھ شریک رہو(8)اپنا مکان اتنا اونچا نہ بناؤ کہ اس کی ہوا روک دو مگر اس کی اجازت سے(9)گھر میں پھل فروٹ آئے تو اسے ہدیۃً بھیجتے رہو نہ بھیج سکو تو خفیہ رکھو اس پر ظاہر نہ ہونے دو، تمہارے بچے اس کے بچوں کے سامنے نہ کھائیں(10)اپنے گھر کے دھوئیں سے اسے تکلیف نہ دو(11)اپنے گھر کی چھت پر ایسے نہ چڑھو کہ اس کی بے پردگی ہو۔ قسم اس کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے پڑوسی کے حقوق وہ ہی ادا کرسکتا ہے جس پر اللہ رحم فرمائے۔(مرقات)کہا جاتا ہے ہمسایا اور ماں جایا برابر ہونے چاہئیں۔افسوس! مسلمان یہ باتیں بھول گئے۔ قراٰنِ کریم میں پڑوسی کے حقوق کا ذکر فرمایا بہرحال پڑوسی کے حقوق بہت ہیں ان کے ادا کی توفیق رب تعالیٰ سے مانگئے۔

۳؎خیر سے مراد یا اچھی بات ہے خواہ واجب ہو یا فرض یا سنت یا مستحب ہر مباح بات ہے۔صوفیاء فرماتے ہیں کہ مباح بات بھی زیادہ نہ کرے تاکہ ناجائز بات میں نہ پھنس جائے۔ تجربہ ہے کہ زیادہ بولنے سے اکثر ناجائز باتیں منہ سے نکل جاتی ہیں۔ مشہور مقولہ ہے کہ جو خاموش رہا وہ سلامت رہا جو سلامت رہا وہ نجات پا گیا۔ فی صدی پچانوے گناہ زبان سے ہوتے ہیں اور پانچ فی صدی گناہ دوسرے اعضاء سے۔ مطلب یہ ہے کہ مؤمن کامل وہ ہے جو بھلی بات منہ سے نکالے ورنہ خاموش رہے۔ خیال رہے کہ بات ہی ایمان ہے، بات ہی کفر، بات ہی مقبول ہے، بات ہی مردود۔

۴؎ یعنی اپنے ذی رحم قرابتداروں کے حقوق ادا کرے۔ ذی رحم وہ عزیز ہے جس کا رشتہ ہم سے نسبی ہو۔ محرم وہ ہے جس سے نکاح کرنا حرام ہو،لہذا داماد محرم ہے ذی رحم نہیں اور چچا زاد بھائی ذی رحم ہے محرم نہیں اور سگا بھائی بھتیجا ذی رحم بھی ہے اور محرم بھی، یہاں ذی رحم عزیز مراد ہیں خواہ محرم ہوں یا نہ ہوں اگرچہ ساس، سسر، بیوی کے حقوق بھی ادا کرنا ضروری ہے مگر ان کو صد رحمی نہیں کہتے۔ یہ حدیث،طبرانی،ترمذی جامع صغیر وغیرہ میں اور طریقوں سے وارد ہوئی ہے جس میں علامات ایمان اور بہت چیزیں ارشاد ہوئیں۔( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 حدیث:4243)

روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے الله کی قسم نہیں مؤمن ہوتا الله کی قسم مؤمن نہیں ہوتا الله کی قسم مؤمن نہیں ہوتا ۱؎ عرض کیا گیا کون یارسولُ الله فرمایا وہ جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے امن میں نہ ہو ۲؎ (مسلم،بخاری)

۱؎ تین بار فرمانا تاکید کے لیے ہے،لا یؤمن میں کمال ایمان کی نفی ہے یعنی مؤمن کامل نہیں ہوسکتا نہیں ہوسکتا نہیں ہوسکتا۔

حضور انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کی وضاحت پہلے ہی نہ فرمادی بلکہ سائل کے پوچھنے پر بتایا تاکہ سننے والوں کے دل میں یہ بات بیٹھ جاوے جو بات انتظار اور پوچھ گچھ کے بعد معلوم ہو وہ بہت دلنشین ہوتی ہے اگرچہ ہر مسلمان کو اپنی شر سے بچانا ضروری ہے مگر پڑوسی کو بچانا نہایت ہی ضروری کہ اس سے ہر وقت کام رہتا ہے وہ ہمارے اچھے اخلاق کا زیادہ مستحق ہے، رب تعالٰی فرماتاہے: الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ ۔( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 حدیث:4962 )

وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ لَا يَأْمَنُ جَارُهٗ بَوَائِقَهُ . رَوَاهُ مُسْلِمٌ ۱؎ یعنی صالحین اور نجات پانے والوں کے ساتھ وہ جنت میں نہ جاوے گا اگرچہ سزا پاکر بہت عرصہ کے بعد وہاں پہنچ جاوے لہذا یہ حدیث اس حدیث کے خلاف نہیں کہ "من قال لا الہ الا الله دخل الجنۃ

افسوس کہ یہ سبق آج بہت سے مسلمان بھول گئے اب تو ان کے تیر کا پہلا شکار ان کا پڑوسی ہی ہوتا ہے۔ ( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 حدیث:4963)

روایت ہے حضرت عائشہ اور ابن عمر سے وہ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے راوی فرمایا کہ مجھے جناب جبریل پڑوسی کے متعلق مجھے حکم الٰہی پہنچاتے رہے حتی کہ میں نے گمان کیا کہ وہ پڑوسی کو وارث بنادیں گے(مسلم،بخاری)۔

روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کوئی پڑوسی اپنے پڑوسی کو اپنے دیوار میں لکڑی گاڑنے سے منع نہ کرے(مسلم،بخاری)۔ 


اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے امت کو جن باتوں کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہیکہ پڑوسیوں کی رعایت کی جائے اور انکے حقوق پہچانے اور ادا کئے جائیں اللہ پاک کا ارشاد ہے: ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ ﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی ۔ (پ5، النسآء:36)

حدیث مبارکہ

(1) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً قَالَ قَالَ رسولُ الله مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْم الآخِرِ فَلَا يُؤْذِ جَارَهُ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِي فَلْيُكرِ مُ ضَيْفَهُ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الأخير فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمتُ ترجمہ حضرت ابو ہریره سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو اور یوم آخرت پر، وہ اپنے پڑوسی کو ایذا نہ دے، اور جو اللہ پاک پر ایمان رکھتا ہو اور یوم آخرت پر ، وہ اپنے مہمان کی تعظیم کرے، اور جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو اور یومِ آخرت پر ، اسے چاہیے کہ نیک بات کہے ورنہ خاموش رہے۔ (مسلم: 427 سنن ابن ماجہ : 3672 ،سنن دارمی:2036، مسند احمد : 7571)

حدیث کی تشریح: اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرمان کا مطلب یہ ھیکہ مؤمن ہونے کی حیثیت سے تم پر پڑوسی کا حق یہ ھیکہ جب وہ بیمار پڑے تو عیادت کرو، قرض طلب کرے تو اسے قرض دو خوشی میں ہو تو مبارک باد ،دو مصیبت زدہ ہو تو تسلی دو، اسے سلام میں پہل کرو، بات نرمی سے کرو، اس کے دین و دنیا کی درستگی رہنمائی کرو، اس کے عیوب کی تلاش میں نہ رہو، اس کی لغزشوں سےدرگزر کرو، اسکی طرف کوڑا کرکٹ پھینک کر اسکو ایذا نہ دو۔ یہ سب باتیں ہمسایہ کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کے ذیل میں آتی ہیں ۔

حدیث نمبر (2) ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی کے اوپر حق یہ ہے کہ اسے کسی طرح کی بھی قولی یا فعلی تکلیف نہ پہنچائے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِثْبٍ عن سَعِيدٍ عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ أَنَّ النَّبِيَّ لا قَالَ وَاللهِ لا يُؤْمِنُ وَاللهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللهِ لَا يُؤْمِنُ قِيلَ وَمَنْ يَا رسولُ الله قَالَ الَّذِى لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ تَابَعَهُ شَبَابَةُ ترجمہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ کی قسم ! وہ ہرگز مؤمن نہیں ہے، اللہ کی قسم ! وہ ہر گز مؤمن نہیں ہے، اللہ کی قسم ! وہ ہرگز مؤمن نہیں ہے، عرض کیا گیا: کون یا رسولَ الله ؟! آپ نے فرمایا: جس کا پڑوسی اس کے شر اور ہلاکت آفرینی سے محفوظ نہیں ہے۔(صحیح مسلم:46،مسند احمد: 8227)


الله عزوجل قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی۔ (پ5، النسآء:36)

لفظ "جار" کی لغوی تحقیق: جار " جوار" سے بنا ہے جس کے معنی "امان " کے ہیں۔ پڑوس میں رہنے والا۔

پڑوسی کی اقسام: پڑوسی کی 2 قسمیں ہیں۔

(1) وه پڑوسی جو پڑوس میں رہتا ہو اور رشتہ دار بھی ہو ۔

(2) وہ پڑوسی جو رشتہ دار نہ ہو۔

احادیث مبارکہ:

حدیث نمبر (1) حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ پاک عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جبرئیل مجھے پڑوسیوں سے بارے میں وصیت کرتے رہے حتی کے مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی وارث بنادیا جائے گا۔

حدیث نمبر (2) ( بہترین ہمسایہ )حضرت عبد الله بن عمر و بن عاص سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک کے نزدیک بہترین دوست وہ ہے جو اپنے دوست کا خیر خواہ ہو اور بہترین ہمسایہ وہ ہے جو اپنے پڑوسیوں کا خیر خواہ ہو۔

حدیث نمبر (3) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کسی شخص کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اپنا پیٹ تو پھر لے اور جبکہ اس کا پڑوسی بھوکا ہے۔

حدیث نمبر (4) امام بخاری نے الادب میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ کتنے ہی پڑوسی ہوں گے جو قیامت کے روز پڑوسی کے ساتھ چمٹے ہوئے ہوں گے پڑوسی عرض کر رہا ہوگا: اے میرے رب اس نے مجھ پر اپنا دروازہ بند کر دیا تھا اور اس نے میرے ساتھ حسن سلوک نہ کیا۔

حدیث کی روشنی میں پڑوسیوں حقوق:

حدیث نمبر (5) حضرت معاویہ بن حیدہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یار سول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! میرے پڑوسی کا مجھ پر کیا حق ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:

(1)اگر وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو ۔

(2) اگر مر جائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو۔

(3) اگر تم سے قرض مانگے تو اس کو قرض دو ۔

(4) اگر بے حال ہو تو اس پر ستر کرو ۔

(5) اگر اس کو کوئی اچھائی پہنچے تو اس کو مبارک باد دو۔

(6) اگر اس کو کوئی اذیت پہنچے تو اس کی تعزیت کرو اپنے گھر کی عمارت اس سے بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا رک جائے ۔(المعجم الکبیر ، 19/ 419)

پڑوسی کا اطلاق: علامہ ابی مالکی نے لکھا ہے کہ جس شخص کا گھر یا دکان تمہارے گھر یا دکان سے متصل ہو وہ تمہارا پڑوسی ہے بعض علما نے چالیس گھروں تک اتصال کا اندازہ کیا ہے۔

حدیث نمبر (6) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک دن مجلس نبوی میں کسی شخص نے عرض کیا کہ یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! فلاں عورت کا زیادہ نماز، روزے اور کثرت صدقہ و خیرات کی وجہ سے بڑا چرچا ہے لیکن وہ اپنی زبان کے ذریعے اپنے پڑوسیوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ سن کر ارشاد فرمایا کہ وہ دوزخ میں جائے گی پھر ا س شخص نے عرض کیا کہ یارسول اللہ فلاں عورت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت کم روزے رکھتی ہے بہت کم صدقہ و خیرات کرتی ہے اور بہت کم نماز پڑھتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس کا صدقہ و خیرات چند ٹکڑوں کے آگے نہیں بڑھتا لیکن وہ اپنی زبان کے ذریعے اپنے ہمسائیوں کو تکلیف نہیں پہنچاتی حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :وہ عورت جنت میں جائے گی۔ 


الحمد اللہ شریعت مطہرہ جو ہمارے ہر معاملے میں ہماری اصلاح کرتی رہتی ہے چاہے وہ نکاح کے ہوں یا پھر طلاق کے یا پھر بالغ ہونے سے لے کر موت تک کے۔ ہمارا اس وقت جو موضوع ہے یعنی main topic ہے(پڑوسیوں کے حقوق) آج ہم اپنے پڑوسیوں کی اتنی دل آزاریاں کرتیں ہیں وہ خود ہم سےبدظن ہو جاتے ہیں اگر وہ پڑوسی غیر مسلم ہو تو وہ ہمارے دین اسلام سے بد ظن ہو جاتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو دین اسلام یہ سکھاتا ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ یہ سلوک کرو یعنی یہ برتاؤ کرو۔ بلکہ نہیں ! دین اسلام تو مسلمان کو یہ سکھاتا ہے کہ اس کا کردار تو ایسا ہونا چاہیے کہ اسے دیکھ کر غیر مسلم مسلمان ہو جائے آئیں اب ہم یہ سنتے ہیں کہ پڑوسیوں کے حقوق کیا ہیں؟

حقِ پروس کیا ہے؟: حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی رحمۃُ اللهِ علیہ فرماتے ہیں: یاد رکھئے ! حق پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیا جائے، بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو بر داشت (Tolerate) کرنا بھی حق پڑوس میں شامل ہے۔ کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا اور وہ اس کے بدلے اسے تکلیف نہیں دیتا، حالانکہ اس طرح پڑوس کا حق ادا نہیں ہوتا، لہذا صرف تکلیفوں کو برداشت کرنے پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ ضروری ہے کہ اس کے ساتھ نرمی اور اچھے طریقے کے ساتھ پیش آئے۔ (احیاء العلوم، كتاب اداب ... الخ، 2/267)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئیں اگر وہ کسی آزمائش میں مبتلا ہو مثلاً اس کا بچہ گم ہو جائے، اس کے یہاں فوتگی یا ڈکیتی ہو جائے، مکان یا چھت گر جائے، آگ لگ جائے یا وہ لائٹ، پانی، بیماری، روز گار، گھریلو ناچاکی یا جھوٹے مقدمے جیسے مسائل سے دوچار ہو تو ہمیں فوراً اپنی طاقت کے مطابق اس کی حاجت روائی کرتے ہوئے اسے مسائل کی دلدل سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ایسا بہترین عمل ہے کہ جس کی تعلیم خود ہمارا رب کریم ہمیں ارشاد فرما رہا ہے۔ چنانچہ پارہ 5 سور کا نساء کی آیت نمبر 36 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36) اس آیت مقدسہ کے تحت تفسیرات احمدیہ میں ہے کہ قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو، رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور وہ جو صرف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔ (تفسیرات احمديہ، النساء، تحت الآيۃ: 36، ص 275)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اسلام کتنا پیارا مذہب ہے کہ جو نہ صرف ہمیں والدین اور رشتے داروں کے ساتھ بھلائی کا درس دیتا ہے بلکہ یہ بھی سکھاتا ہے کہ ہمیں اپنے قریبی اور دور کے ہمسائیوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہئے۔ قراٰنِ کریم کے علاوہ احادیث مبارکہ میں بھی کثرت کے ساتھ پڑوسیوں کی اہمیت، ان کے ساتھ حسن سلوک بجالانے کا ذہن دیا گیا ہے۔ آئیے ! اس ضمن میں ایک بہت ہی پیاری حدیث پاک سے حاصل ہونے والے مدنی پھولوں کو اپنے دل کے مدنی گلدستے میں سجانے کی کوشش کرتے ہیں، چنانچہ نبی کریم رؤف رحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ پھر خود ہی ارشاد فرمایا کہ جب وہ تم سے مدد مانگے، مدد کرو اور جب قرض مانگے قرض دو اور جب محتاج ہو تو اسے دو اور جب بیمار ہو عیادت کرو اور جب اسے خیر پہنچے تو مبارک باد دو اور جب مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو اور مر جائے تو جنازہ کے ساتھ جاؤ اور بغیر اجازت اپنی عمارت بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا روک دو اور اپنی ہانڈی سے اس کو ایذا نہ دو، مگر اس میں سے کچھ اسے بھی دو اور میوے خرید و تو اس کے پاس بھی ہدیہ کروں اور اگر ہدیہ نہ کرنا ہو تو چھپا کر مکان میں لاؤ اور تمہارے بچے اسے لے کر باہر نہ نکلیں کہ پڑوسی کے بچوں کو رنج ہو گا۔ تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ قسم ہے اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! مکمل طور پر پڑوسی کا حق ادا کرنے والے تھوڑے ہیں، وہی ہیں جن پر اللہ پاک کی مہربانی ہے۔ حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) پڑوسیوں کے متعلق مسلسل وصیت فرماتے رہے یہاں تک کہ لوگوں نے گمان کیا کہ پڑوسی کو وارث کر دیں گے ۔ پھر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: پڑوسی 3 قسم کے ہیں، بعض کے 3 حق ہیں، بعض کے 2 اور بعض کا ایک حق ہے۔ جو پڑوسی مسلم ہو اور رشتہ دار ہو ، اس کے 3 حق ہیں۔ حق جو ار اور حق اسلام اور حق قرابت۔ مسلم پڑوسی کے 2 حق ہیں، حق جو ار اور حق اسلام اور غیر مسلم پڑوسی کا صرف ایک حق جوار ہے۔(شعب الایمان، باب في اكرام الجار ،7/83، حدیث :9520)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! بیان کردہ حدیث پاک سے ہر عقلمند شخص اچھی طرح یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ پڑوسیوں کے حقوق کی بجا آوری، ان کی خبر گیری و حاجت روائی کرنے ، ان کی دلجوئی کرنے ، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے ، انہیں خوش رکھنے اور انہیں تکلیف (Trouble ) نہ پہنچانے کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کتنی شاندار ہیں کہ اگر آج مسلمان صحیح معنی میں ان حسین تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں اور ان کے مطابق عمل پیرا ہو جائیں تو وہ دن دور نہیں کہ ہمارے معاشرے میں حقیقی معنی میں مدنی انقلاب برپا ہو جائے اور معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے، مگر افسوس! کہ جیسے جیسے ہم زمانہ نبوی سے دور ہوتے جارہے ہیں دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ اب پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی کے معاملے میں بھی پستی کے گہرے گڑھے میں گرتے جارہے ہیں، ایک ہی گلی، محلے میں سالہا سال گزر جانے کے باوجود اپنے پڑوسی کی پہچان، اس کی موجودگی اور حق پڑوس سے غفلت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کسی عزیز سے ملنے آئے اور ہم سے اس گھی یا محلے میں رہنے والے اپنے کسی عزیز کا پتا معلوم کرے تو ہم بغلیں جھانکتے اور سر کھجاتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں بالکل خبر نہیں ہوتی کہ ہمارے پڑوس میں کون رہتا ہے ، اس کا نام کیا ہے، کام کیا کرتا ہے، ہم تو بس اپنی مستی میں ایسے مست رہنے والے ہیں کہ پڑوس میں میت ہو جائے، کوئی بیمار ہو یا کسی پریشانی کا شکار ہو جائے تو ہمیں تعزیت و عیادت کرنے یا اسے دلاسہ دینے کی بھی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔

ہاں ! مالداروں، سیٹھوں، افسروں، وزیروں، صاحب منصب لوگوں ، مخصوص دوستوں ، برادری والوں یا ایسے پڑوسی کہ جن سے ہمیں اپنا کام نکلوانا ہو ان کے یہاں تو ہم خوشی غمی کے مواقع پر پیش پیش نظر آتے یا انہیں اپنے یہاں کی تقریبات (Functions) میں بلاتے ہیں، مگر غریب پڑوسیوں کی خیر خواہی کرنا یا ان کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا ہم اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں، بعض نادان تو اس قدر بے جس ہوتے ہیں کہ گھر کے اندر موجود بھوک و پیاس، بیماری یا آزمائش میں مبتلا بھائیوں، بہنوں حتی کہ والدین تک کو ہی نہیں پوچھتے تو اندازہ لگائیے کہ وہ گھر کے باہر والے پڑوسیوں کا کیا خیال رکھیں گے اور کیا ان کے حقوق ادا کریں گے۔ پڑوسیوں کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ کئی بزرگوں نے نہ صرف خود پڑوسیوں کے حقوق ادا فرمائے ، بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کی ترغیب دلائی ہے۔ چنانچہ

پڑوسیوں کے عام حقوق: حجۃُ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی(رحمۃُ اللہ علیہ) پڑوسیوں کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: پڑوسیوں کے ساتھ سلام میں پہل کرے ان کے ساتھ طویل گفتگو نہ کرے، ان کے حالات کے بارے میں زیادہ سوال نہ کرے، جب وہ بیمار ہوں تو ان کی عیادت کرے مصیبت کے وقت ان کی غم خواری کرے، مشکل وقت میں ان کا ساتھ دے، خوشی میں ان کو مبارک باد دے ، ان کی خوشی میں شرکت کرے ، ان کی لغزشوں کو معاف کرے، اپنے گھر کی چھت پر سے ان کے گھر میں مت جھانکے ، ان کی دیوار پر شہتیر رکھ کر ان کے پر نالے میں پانی گرا کر اور ان کے صحن میں مٹی وغیرہ ڈال کر انہیں تکلیف نہ پہنچائے، ان کے گھر کے راستے کو تنگ نہ کرے جو کچھ وہ اپنے گھر لے جارہے ہوں اس پر نظر نہ گاڑے، اگر ان کے عیوب اس پر ظاہر ہوں تو انہیں چھپائے ، اگر انہیں کوئی حادثہ پیش آجائے تو فوراً ان کی مدد کرے، پڑوسیوں کی غیر موجودگی میں ان کے گھر کی حفاظت (Safety) کرنے میں غفلت کا مظاہرہ نہ کرے، ان کے خلاف کوئی بات نہ سنے ، ان کی (عورتوں) کے سامنے نگاہیں نیچی رکھے ، ان کی اولاد کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرے، دین و دنیا کے جس معاملے میں انہیں رہنمائی کی ضرورت ہو (تو) اس میں ان کی رہنمائی کرے۔ (احیاء العلوم، 2/ 772)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہمارے اسلاف کرام کو خدائے رحمن نے جہاں دیگر بہت سی خوبیوں سے آراستہ فرمایا، وہیں یہ عظیم الشان وصف بھی ان کی مبارک طبیعتوں میں راسخ تھا کہ یہ حضرات پڑوسیوں کے معاملے میں انتہائی محتاط تھے ، پڑوسیوں کو اسلام میں کیا مقام و مرتبہ حاصل ہے ، ان کے کیا حقوق ہیں؟ ان کی جانب سے ملنے والی تکلیفوں کے جواب میں ان کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہئے یہ حضرات ان تمام چیزوں کو دوسروں کے مقابلے میں بہتر طور پر جانتے تھے ، ہم تو پڑوسیوں کا بُرا چاہنے والے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے قائل ہیں جبکہ یہ اللہ والے پوری زندگی حقوقُ اللہ اور حقوقُ العباد کی رعایت کرنے بالخصوص پڑوسیوں کے حقوق کی بجا آوری ، ان کی خیر خواہی، ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا عملی مظاہرہ فرماتے تھے۔ آئیے بطورِ ترغیب اس بارے میں بزرگانِ دین کی چند ایمان افروز حکایات سُن کر ان سے حاصل ہونے والے مدنی پھولوں پر عمل کی نیت کرتے ہیں، چنانچہ

غیر مسلم مسلمان ہو گیا: حضرت سیدنا مالک بن دینار رحمۃُ اللہِ علیہ نے ایک مکان کرایہ پر لیا۔ اس مکان کے بالکل متصل ایک غیر مسلم کا مکان تھا۔ وہ بغض و عناد کی بنیاد پر پرنالے کے ذریعے گندا پانی اور غلاظت آپ کے کاشانہ عظمت میں ڈالتا رہتا، مگر آپ خاموش ہی رہتے۔ آخر کار ایک دن اُس نے خود ہی آکر عرض کی، جناب ! میرے پر نالے سے گزرنے والی نجاست کی وجہ سے آپ کو کوئی شکایت تو نہیں؟ آپ نے نہایت نر می (Softness) کے ساتھ فرمایا: پر نالے سے جو گندگی گرتی ہے اس کو جھاڑودے کر دھوڈالتا ہوں۔ میں نے کہا، آپ کو اتنی تکلیف ہونے کے باوجود غصہ نہیں آتا؟ فرمایا آتا تو ہے مگر پی جاتا ہوں کیونکہ (پارہ 4 سورۂ آل عمران آیت نمبر 134 میں) خدائے رحمن کا فرمانِ محبت نشان ہے: وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) ترجَمۂ کنزالایمان : اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے در گزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں ۔

جواب سن کر وہ یہودی مسلمان ہو گیا ۔ (تذکِرۃُ الاولیاء ص45) 


اسلام اپنے ماننے والوں کو ایک مکمل ضابطہ حیات فراہم کرتا ہے جس میں نہ صرف اللہ پاک کے حقوق اور اس کی عبادت کرنے کے طور طریقے کو بیان کیا گیا ہے بلکہ معاشرتی آداب و اخلاق کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کے حقوق کی تعلیم بھی موجود ہے۔ چنانچہ قراٰنِ مجید میں پڑوسیوں کے حقوق کا بیان سورہ نسآء کی آیت نمبر 36 میں ارشاد باری تعالٰی ہے: ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی اور پاس بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر اور اپنے غلام لونڈیوں (کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔) (پ5، النسآء:36) اس آیتِ مبارکہ میں بہت ہی واضح طور پر اللہ پاک کے حق کے ساتھ ساتھ نہ صرف والدین بلکہ پڑوسی خصوصاً دور تک کے پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم موجود ہے۔

نیز آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی پڑوسیوں کے حقوق کو بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ حدیث پاک میں ہے۔

حضور نبی کریم روف رحیم علیہ الصّلٰوۃ والتّسلیم نے ارشاد فرمایا : تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ (پھر خود ہی آپ نے ارشاد فرمایا کہ)

(1) جب وہ تم سے مدد مانگے مدد کرو

(2) جب قرض مانگے قرض دو

(3) جب محتاج ہوں تو اسے دو

(4 )جب بیمار ہو تو عیادت کرو

(5) جب اسے خیر پہنچے تو مبارک باد دو

(6) اور جب مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو

(7 )اور مر جائے تو جنازہ کے ساتھ جاؤ

(8) اور بغیر اجازت اپنی عمارت بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا روک دو

(9) اور اپنی ہانڈی سے اس کو ایذا نہ دو ، مگر اس میں سے کچھ اسے بھی دو

(10) میوے خریدو تو اس کے پاس بھی ہدیہ کرو اور اگر نہ کرنا ہو تو چھپا کر مکان میں لاؤ اور تمہارے بچے اسے لے کر باہر نہ نکلیں کہ پڑوسی کے بچوں کو رنج ہوگا۔

تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ قسم ہے اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! مکمل طور پر پڑوسی کا حق ادا کرنے والے تھوڑے ہیں وہی ہیں جن پر اللہ پاک کی مہربانی ہے ۔حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑوسیوں کے متعلق مسلسل وصیت فرماتے رہے ،یہاں تک کہ لوگوں نے گمان کیا کہ پڑوسی کو وارث کر دیں گے ۔پھر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ پڑوسی تین (3) قسم کے ہیں ۔بعض کے تین (3) حق ہیں ۔بعض کے دو (2) حق ہیں اور بعض کا ایک (1) حق ہے۔

(1)جو پڑوسی مسلمان ہو اور رشتہ دار بھی ہو ،اس کے تین حق ہیں (۱)حقِ پڑوس (۲) حقِ اسلام (۳) حقِ قرابت (رشتہِ داری)

(2) صرف مسلمان پڑوسی کے دو حق ہیں۔ (۱) حقِ پڑوس (۲) حقِ اسلام

(3) اور غیر مسلم (کافر) پڑوسی کا صرف ایک حق ہے ۔ (۱) حقِ پڑوس (شعب الایمان، باب فی اکرام الجار،7/83، حدیث: 9560)

کیا حقِ پڑوس صرف یہی ہے؟ : حجّۃ الاسلام حضرت سیّدنا امام محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمۃُ اللّٰہ علیہ حقِ پڑوس کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: یاد رکھئے! حقِ پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیا جائے ، بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو برداشت کرنا بھی حقِ پڑوس میں شامل ہے ۔کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا اور وہ اس کے بدلے اسے تکلیف نہیں دیتا ہے ، حالانکہ اس طرح پڑوس کا حق ادا نہیں ہوتا ، لہٰذا صرف تکلیفوں کو برداشت کرنے پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ ضروری ہے کہ اس کے ساتھ نرمی اور اچھے طریقے کے ساتھ پیش آئے ۔(احیاء العلوم ، کتاب آداب الالفت ۔الخ 2/267)

لہٰذا! ہمیں بھی اپنے پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیفوں پر صبر کرنا چاہیے۔ اگر ہم اپنے بزرگانِ دین کی زندگی کی طرف نظر کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ وہ کس طرح اپنے پڑوسیوں کے حق کو پورا کیا کرتے تھے ۔چنانچہ

پورا گھرانہ مسلمان ہو گیا: حضرت بایزید بسطامی رحمۃُ اللہ علیہ کا ایک غیر مسلم پڑوسی سفر میں گیا ،اس کے بال بچے گھر رہ گئے ، رات کو اس کا بچہ روتا تھا ،تو آپ نے (اس کی بیوی سے) پوچھا کہ بچہ کیوں روتا ہے ؟ وہ بولی گھر میں چراغ نہیں ہے۔ بچہ اندھیرے میں گھبراتا ہے ۔اس دن سے آپ روزانہ چراغ میں خوب تیل بھر کر روشن کرتے اور اس کے گھر بھیج دیا کرتے ،جب وہ غیر مسلم سفر سے واپس آیا تو اس کی بیوی نے اس کو یہ واقعہ سنایا ،تو وہ غیر مسلم بولا کہ جس کے گھر میں بایزید کا چراغ آگیا ،وہاں اندھیرا کیوں رہے وہ سب کے مسلمان ہو گئے ۔ (مرآۃ المناجیح 6/573 ملخصاً)

لہٰذا! ہمیں بھی اپنے اسلاف کی طرح اپنے پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھنا اور انہیں پورا کرنا چاہیے ۔ اللہ ربّ العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی اپنے پڑوسیوں کے حقوق کو صحیح طریقے سے اور مکمل طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


الحمد للہ! اللہ پاک کا ہم پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان بنایا اور بہت ہی پیارا دین اسلام عطا فرمایا اور اس دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے ہمیں اپنا محبوب عطا فرمایا ۔ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جہاں کفرو شرک کے اندھیروں کو ہم سے دور فرمایا وہیں ہمیں ایک اچھے انسان کی پہچان کے بارے میں بتایا اور ایک اچھے انسان کی پہچان اس پر اس کے حقوق کی ادائیگی سے ہوتی ہے اور جس طرح ایک مسلمان پر اس کے والدین بہن بھائی اور دیگر کہ حقوق ہوتے ہیں اسی طرح ایک انسان پر اس کے اپنے پڑوسیوں کے حقوق بھی ہوتے ہیں۔

جیسا کہ احادیث مبارکہ میں اللہ پاک کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے۔

پڑوسی کے پانچ حروف کی نسبت سے پانچ فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک کے نزدیک بہترین ساتھی وہ ہیں جو اپنے ہمراہیوں کے لیے بہتر ہوں اور اللہ پاک کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ ہیں جو اپنے پڑوسی کے لیے اچھے ہوں۔ (سنن ترمذی)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے آپ فرماتی ہے کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ مجھے جبرئیل علیہ السلام پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ہمیشہ وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ یہ اسے وراثت میں شریک ٹھہرا دیں گے۔ (سنن ترمذی )

یونہی ایک اور مقام پر پڑوسیوں کے حقوق کی اہمیت کا سمجھانے کے لیے اپنے صحابہ سے ارشاد فرمایا : حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اے ابوذر جب تو سالن پکاؤ تو اس کے شوربہ کو زیادہ کرلو اور اپنے پڑوسی کی خبر گیری کرو۔(صحیح مسلم 6678)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے۔ (صحیح بخاری 6018)

ایک مقام پر نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے اس خوبصورت فرمان سے قریبی پڑوسی کی اہمیت بتائی چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے آپ بیان فرماتی ہیں کہ میں نے پوچھا یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے دو پڑوسی ہیں میں ان دونوں میں سے کس کے پاس ہدیہ بھیجوں؟ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو۔ (صحیح البخاری 2259)

عزیز دوستو! دیکھا آپ نے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کس طرح پڑوسیوں کے حقوق ہمیں بتائے تاکہ ہم ان پر عمل کر سکیں ۔ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے یہ مبارک فرامین ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ اللہ پاک ہمیں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا تصور بنیادی طور پر بنی نوع انسانی کے احترام وقار اور مساوات پر مبنی ہے قراٰن حکیم کی رو سے اللہ رب العزت نے نوعِ انسانی کو دیگر تمام مخلوق پر فضیلت و تکریم عطا کی ہے۔ قراٰنِ کریم میں شرف انسانیت و ضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ تخلیقِ آدم علیہ السّلام کے بعد اللہ پاک نے فرشتوں کو سیدنا آدم (علیہ السّلام) کو سجدہ کرنے کا حکم دیا اور اس طرح نسل آدم علیہ السّلام کو فضیلت و بلندی عطا کی، اسلامی تعلیمات میں حقوقُ العباد کا خاص خیال رکھا گیا۔ کتاب و سنت میں تمام حقوق العباد، حقوق الوالدین، حقوق اولاد، حقوق زوجین اور پڑوسی کے حقوق کے بارے میں تفصیلی احکامات موجود ہیں۔ زیر نظر موضوع پڑوسیوں کے حقوق کو کتاب و سنت اور اسلاف کی سیرت کی روشنی میں مختصر طور پر بیان کرتا ہوں۔

قراٰن کی روشنی میں: پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ایسا بہترین عمل ہے کہ جس کی تعلیم اللہ رب العزت نے ہمیں ارشاد فرمائی۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی۔ (پ5، النسآء:36) آیت کی تفسیر: اس آیت مقدسہ کے تحت تفسیرات احمدیہ میں ہے کہ قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا قریبی پڑوسی سے مراد وہ ہے جو پڑوسی اور رشتہ دار دونوں ہو اور دور کے پڑوسی سے مراد جو صرف پڑوسی ہو رشتہ دار نہ ہو۔ (تفسیر احمدیہ ، النسآء ، تحت الآیۃ : 36، ص 225)

سبحان اللہ! اسلام کتنا پیارا مذہب ہے، جو نہ صرف خونی رشتوں کے ساتھ بھلائی کا درس دیتا ہے بلکہ یہ بھی سکھاتا ہے کہ اپنے قریبی اور دور کے ہمسائیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے۔

حدیث کی روشنی میں: حدیث مبارکہ میں بھی کثرت کے ساتھ پڑوسیوں کے حقوق اور ان کے ساتھ حسن سلوک بجا لانے کا ذہن دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں ایک بہت ہی پیاری حدیث مبارکہ ہے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم کو معلوم ہے کہ پڑوسیوں کا کیا حق ہے؟ پھر ارشاد فرمایا: جب وہ تم سے مدد مانگے تو مدد کرو، اور جب قرض مانگے تو قرض دو، جب محتاج ہوں تو اسے کچھ دو، بیمار ہوں عیادت کرو، جب اسے خیر پہنچے تو مبارک باد دو، اور جب مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو، اور مر جائیں تو جنازے کے ساتھ جاؤ اور بغیر اجازت اپنی عمارت بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا روک دو، اور اپنی ہانڈی سے اس کو تکلیف نہ دو مگر اس میں سے کچھ اسے بھی دو، اور میوے خریدو تو اسے بھی ہدیہ کرو، اگر ہدیہ نہ کرنا ہو تو چھپا کر مکان میں لاؤ اور تمہارے بچے لے کر باہر نہ نکلے کہ پڑوسی کے بچوں کو تکلیف ہوگی۔ تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا حق کیا ہے؟ قسم ہے اس کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے مکمل طور پر پڑوسی کا حق ادا کرنے والے تھوڑے ہیں اور وہ وہی ہیں جن پر اللہ کی مہربانی ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضور پڑوسیوں کے متعلق مسلسل نصیحت فرماتے رہے یہاں تک کہ لوگوں نے گمان کیا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گئے۔

پھر حضور نے ارشاد فرمایا:پڑوسی تین قسم کے ہیں: بعض کے تین بعض کے دو اور بعض کا ایک حق ہے۔(1) جو پڑوسی مسلم اور رشتہ دار ہوا سکے تین حق ہیں:(الف)حق جوار (پڑوسی) (ب)حق اسلام (ج) حق قرابت

(2) مسلم پڑوسی کے دو حق ہیں: حق جوار اور حق اسلام۔

(3) غير مسلم کا صرف ایک حق ہے: حق جوار۔(شعب الایمان الجار،7/83،حدیث9560)

سبحان اللہ! پڑوسیوں کے حقوق کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کتنی شاندار ہیں، اگر آج مسلمان صحیح معنی میں ان حسین تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں تو وہ دن دور نہیں کہ ہمارے معاشرے میں حقیقی انقلاب برپا ہو جائے۔

پڑوسیوں کے عام حقوق : حجۃُ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی(رحمۃُ اللہ علیہ) پڑوسیوں کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:(1)پڑوسیوں کے ساتھ سلام میں پہل کرے۔ (2) ان کے حالات کے بارے میں زیادہ سوال نہ کریں۔(3)جب وہ بیمار ہوں تو عیادت کرے۔ (4) مصیبت کے وقت ان کی غم خواری کرے اور انکا ساتھ دے۔(5)خوشی میں شرکت کرکے مبارکباد دے۔ (6) ان کی غلطیوں اور عیبوں پر مطلع ہو تو درگزر اور نرمی سے کام لیں۔(7) ان کے خلاف غلط بات نہ سنے۔(8)ان کی عورتوں کے سامنے نگاہیں نیچی رکھے۔ (9) ان کی اولاد سے نرمی سے گفتگو کرے۔ (احیاء العلوم، 2/772)

ہمارے اسلاف اور پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک: حضرت بایزید بسطامی (رحمۃُ اللہ علیہ) کا ایک غیر مسلم پڑوسی سفر میں گیا۔ اس کے بال بچے گھر رہ گئے۔ رات کو اس کا بچہ روتا تھا۔ آپ نے (اسکی بیوی سے) پوچھا کہ بچہ کیوں روتا ہے؟ وہ بولی گھر میں چراغ نہیں ہے۔ بچے اندھیر میں گھبراتا ہے۔ اس دن سے آپ روزانہ چراغ میں خوب تیل بھر کر روشن کرتے اور اس کے گھر بھیج دیا کرتے جب وہ غیر مسلم سفر سے واپس آیا تو اسکی بیوی نے یہ واقعہ سنایا وہ غیر مسلم بولا کہ جس گھر میں بایزید کا چراغ آگیا وہاں اندھیرا کیوں رہے۔ وہ سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ (مرآۃ المناجیح، 6/ 573)

40 گھروں پر خرچ کیا کرتے : حضرت سیدنا عبد اللہ بن ابی بکر رحمۃُ اللہ علیہ اپنے پڑوس کے گھروں میں دائیں بائیں اور آگے پیچھے کے چالیس چالیس گھروں کے لوگوں پر خرچ کیا کرتے تھے۔ عید کے موقع پر انہیں قربانی کا گوشت اور کپڑے بھیجتے اور ہر عید پر سو غلام آزاد کیا کرتے تھے۔ (المستطرف ، 1/276)

پڑوسیوں کے ساتھ بد سلوکی پر وعید: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بہت سے پڑوسی قیامت کے دن اپنے پڑوسیوں کا دامن پکڑ لیں گئے مظلوم پڑوسی، عرض کرے گا یا رب اس سے پوچھ کہ اس نے مجھ پر اپنا دروازہ بند کر رکھا تھا اور اپنی ضرورت سے زیادہ چیزیں مجھ سے روکی تھیں۔ (کنزالعمال كتاب الصحبۃ، 5/23)

بارگاہِ رسالت میں ایک شخص نے عرض کی یار سول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں نے فلاں قبیلے کے محلہ میں رہائش اختیار کی ہے مگر ان میں سے جو مجھے سب سے زیادہ تکلیف دیتا ہے، وہ میرا سب سے قریبی پڑوسی ہے تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت علی (رضی اللہ عنہم) کو بھیجا وہ مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر زور زور سے یہ اعلان کرنے لگے کہ بے شک 40 گھر پڑوس میں داخل ہیں اور جس کے شر سے اس کا پڑوسی خوف زدہ ہو وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (معجم الکبیر ، 19/73، حدیث: 143)

ایک اور حدیث پاک میں ہے جس نے اپنے پڑوسی کو ایذا دی بیشک اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی جس نے اپنے پڑوسی سے جھگڑا کیا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور جس نے مجھ سے لڑائی کی بیشک اس نے اللہ سے لڑائی کی۔ (كنز العمال، کتاب المحبۃ، 5/25، حدیث: 24922)


پڑوسی وہ ہے جو ہمارے گھر کے قریب ہو۔ ان کا ہم پر بہت بڑا حق ہے اگر وہ نسب میں ہم سے قریب ہو اور مسلمان بھی ہو تو اسکے تین حق ہیں: پڑوسی کا حق قرابت داری کا حق اور اسلام کا حق ۔ اور رشتہ میں دور ہے اور مسلمان بھی نہیں تو اس کا ایک حق ہے یعنی پڑوسی کا حق۔ اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے امت کو جن باتوں کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہیکہ پڑوسیوں کی رعایت کی جائے اور انکے حقوق پہچانے اور ادا کئے جائیں۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے: ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی اور پاس بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر اور اپنے غلام لونڈیوں (کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔) (پ5، النسآء:36)

نیز رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے پڑوسی سے نیک سلوک کرنا چاہئے ۔(مسلم کتاب الایمان )

اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرمان کا مطلب یہ ھیکہ مؤمن ہونے کی حیثیت سے تم پر پڑوسی کا حق یہ ھیکہ جب وہ بیمار پڑے تو عیادت کرو، قرض طلب کرے تو اسے قرض دو، خوشی میں ہو تو مبارک باد ،دو مصیبت زدہ ہو تو تسلی دو، اسے سلام میں پہل کرو، بات نرمی سے کرو، اس کے دین و دنیا کی درستگی ، رہنمائی کرو، اس کے عیوب کی تلاش میں نہ رہو، اس کی لغزشوں سے درگزر کرو، اس کی طرف کوڑا کرکٹ پھینک کر اس کو ایذا نہ دو۔ یہ سب باتیں ہمسایہ کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کے ذیل میں آتی اس کی میں ہے ۔

پڑوسی کو کسی قسم کی تکلیف نہ دی جائے۔ اپنے پڑوسی کے ساتھ خواہ کتنا بھی احسان کرو اس کو زیادہ نہ سمجھو کیونکہ اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے اللہ کی جانب سے اجر عظیم اور بلند درجات حاصل ہوتے ہیں۔ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وحی الہی کی تعمیل میں پڑوسی کے حقوق کی اتنی تاکید فرمائی ھیکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے :جبرئیل مجھے پڑوسی کے بارے میں برابر تاکید و تلقین کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ اسے یقیناً وارث قرار دے دیں گے ۔ (مسلم کتاب الادب)

ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر یہ حق ھیکہ جہاں تک ہو سکے اس کے ساتھ بھلائی کرے اور تحفہ تحائف کا تبادلہ کرے۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب تم شوربے والا سالن پکاؤ تو اس کا شوربہ زیادہ کر لیا کرو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھا کرو ۔(مسلم کتاب البر والصلہ )

نیز رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کوئی: پڑوسن اپنی پڑوسن یا اس کے ہدیے کو حقیر نہ سمجھے اگرچہ(اس کا بھیجا ہوا ھدیہ ) بکری کا کھر ہی ہو۔ (بخاری کتاب الادب )


اللہ کا احسان کہ اس نے ہمیں نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امت میں پیدا فرمایا۔ اللہ نے ہم پر بہت سے احکامات نافذ فرمایا ہے ان میں سے ایک حکم اپنے پڑوسیوں کے حقوق کو بھی ادا کرنا ہے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسیوں کے حقوق کو بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان فرمایا ہے۔ صرف فرمایا ہی نہیں بلکہ اس پر عمل کر کے دکھایا ہے اور ہمیں بھی یہی تعلیم ارشاد فرمائی کہ اپنے پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھیں۔

ابن مسعود سے روایت ہے فرماتے ہیں ایک شخص نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی میں کیسے جانو کہ جب میں بھلائی کروں یا جب میں برائی کروں، تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو کہ تم نے بھلائی کی تو تم نے واقعی بھلائی کی اور جب یہ کہتے سنو کہ تم نے برائی کی تو واقعی تم نے برائی کی۔(مشکوۃ المصابیح، جلد 6 حدیث، 4988)

ہمیں تو اپنے سارے کام اچھے معلوم ہوتے ہیں مگر ہمیں معلوم بھی تو ہو کہ اچھے کام یا برے کام کی علامت کیا ہے۔ یہاں کام سے مراد معاملات ہیں عقائد و عبادات میں کسی بھی بہت سے اچھا برا کہنے کا اعتبار نہیں معاملات میں اچھائی یا برائی کی علامت یہ ہے کہ تمہارے پڑوسی تمہیں اچھا نہیں یا برا کہیں ۔

جہاں پڑوسیوں کے حقوق کو ادا کیا جاتا ہے اور جنت میں جانے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے وہی پڑوسیوں کے حقوق ادا نہ کرنا، انکو پریشان کرنا جہنم میں جانے کا حق دار بھی بن سکتا ہے ۔ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ ہو۔

نیک صالحین اور نجات پانے والے کے ساتھ جنت میں جائے گا اگرچہ سزا پا کر بہت عرصہ کے بعد وہاں پہنچ جائے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے آج کے ہمارے مسلمان بھول چکے ہیں اب تو ان کے شر کا پہلا شکار پڑوسی ہوتا ہے۔

جہاں ہم اپنے معاملات کو اچھے انداز میں پورا کرتے ہیں اسی طرح اپنے پڑوسی کا بھی خیال رکھیں نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسیوں کے حقوق بیان فرمائیں ہے:

(1) اپنے پڑوسی کی مدد کریں (2) غریب ہو تو اس کا خیال رکھیں یا قرض مانگے تو قرض دیں۔ (4) پھل فروٹ لائیں تو اس میں سے پڑوسی کو بھی دیں ۔ (5) اپنی عمارت اس سے اونچی نہ کر لیں کہ اس کے گھر کی ہوا رک جائیں ، اللہ ہمیں اپنے پڑوسیوں کے حقوق کو پورا کرنے کی توفیق عطا فر مائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دین اسلام دین حق ہے اور یہ ہماری ہر معاملہ میں رہنمائی کرتا ہے، چاہے وہ دینی معاملہ ہو، دنیاوی معاملہ ہو یا معاشرتی معاملہ ہو۔ اگر ہم معاشرتی معاملات میں نظر کریں تو مختلف طبقہ ہوتے ہیں جن کے ہم پر حقوق ہوتے ہیں ان میں سے ایک طبقہ پڑوسیوں کا بھی ہوتا ہے۔ اچھے پڑوسی اللہ پاک کی طرف سے بڑی نعمت ہیں۔ اللہ پاک اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسیوں کے حقوق بھی ذکر فرمائے ہیں:

اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: پڑوسیوں کے(حقوق کے) بارے میں میرے پاس جبریل علیہ السّلام اتنی بار تشریف لائے کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ پڑوسی کو دوسرے پڑوسی کی میراث سے وارث قرار دے دیا جائے گا ۔ (صحیح البخاری،کتاب الادب،باب الوصاۃ بالجار)

ویسے تو پڑوسیوں کے بہت سے حقوق ہیں جن میں سے چند تحریر کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں:۔

(1)ان کی مدد کرنا: پڑوسیوں کا ایک بنیادی حق یہ بھی ہے کہ جب وہ آپ سے جانی یا مالی مدد مانگیں تو اپنی استطاعت اور پڑوسیوں کی ضرورت کو ملحوظ رکھ کر ان کی مدد کریں۔

(2) ان کی عزت کرنا: اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت کے دن کو تسلیم کرنے والا ہے اسے چاہیے کہ وہ پڑوسیوں کی عزت کرے۔ (صحیح البخاری،کتاب الادب )

(3) پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچانا: پڑوسی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اسے کسی طرح کی قولی یا فعلی تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہو سکتا، اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہو سکتا، اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہو سکتا۔ عرض کی گئی کہ کون؟ فرمایا: وہ شخص جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ ہو۔(صحیح البخاری،کتب الادب )

(4) خوشی یا غمی میں شریک ہونا: پڑوسیوں کے ہاں اگر کوئی خوشی کا موقع ہو تو انہیں مبارکباد دینا یا اگر کوئی غمی کا موقع ہو تو ان سے تعزیت کرنا۔

(5) پڑوسیوں کے ساتھ بھلائی اور تحائف کا تبادلہ: ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر یہ حق ہے کہ جہاں تک ہوسکے اس کے ساتھ بھلائی کرے۔ جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ: اور تحفہ تحائف کا تبادلہ ہے۔ (سورۃ النساء)

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب تم شوربے والا سالن پکاؤ تو اس کا شوربہ زیادہ کر لیا کرو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھا کرو۔(صحیح مسلم،کتاب البر والصلۃ و الآداب)

(6) پڑوسی کے تحفہ کو حقیر نہ سمجھنا: ہمیں چاہیے کہ اگر ہمیں ہمارا پڑوسی کوئی تحفہ دے تو اسے قبول کرلیں اسے حقیر نہ جانیں۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن (یا اس کے ھدیہ کو)حقیر نہ سمجھے اگرچہ(اس کا بھیجا ہوا ھدیہ ) بکری کا کھر ہی ہو۔(صحیح البخاری،کتاب الھبۃ و فضلھا و التحریض علیھا)

ان تمام احادیث سے اندازہ کیجیے کہ شریعت میں پڑوسی کی کس قدر عزت و منزلت اور اس کا کس قدر احترام ہے؟ اگر معاشرتی طور پر ہم پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنا شروع کردیں تو ہمارا معاشرہ کتنا خوبصورت اور پُرامن معاشرہ بن جائے گا۔

اللہ پاک ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بالخصوص پڑوسیوں کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا تصور بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے احترام و قار اور مساوات پر مبنی ہے قراٰنِ کریم کی رو سے اللہ پاک نے نوع انسانی کو دیگر تمام مخلوق پر فضیلت و تکریم عطا فرمائی ہے۔ قراٰنِ کریم میں شرفِ انسانیت كو وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ تخلیق آدم (علیہ الصلاة والسلام) کے وقت فرشتوں کا حضرتِ آدم (علیہ الصلاة والسلام) کو سجدہ کروا کر انسان کو تمام مخلوق پر فضیلت عطا کی گئی ۔اسلامی تعلیمات میں حقوقُ العباد کا خاص خیال رکھا گیا ہے ۔ انسان کا اپنے والدین، اپنی اولاد اور قریبی رشتہ داروں کے علاوہ سب سے زیادہ واسطہ و تعلق ہر وقت ہر ملاقات، لین دین کا سابقہ ہمسایوں اور پڑوسیوں سے بھی ہوتا ہے اور اس کی خوش گواری اور ناخوشگواری کا زندگی کے چین و سکون اور اخلاق کے اصلاح و فساد اور بناؤ بگاڑ پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے پڑوسیوں سے حسنِ سلوک کے بارے میں اللہ پاک فرماتا ہے۔

﴿وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی۔ (پ5، النسآء:36) قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو۔ یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور جو پڑوسی ہونے کے ساتھ رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ۔ یا پڑوسی ہونے کے ساتھ جو مسلمان ہو وہ قریب کا ہمسایہ اور جو عکس ہو وہ دور کا ہمسایہ ( تفسیرات احمديہ ،تحت ھذہ الآیۃ ،ص275)

اس کے علاوہ احادیث مبارکہ میں بھی بڑی تاکید آئی ہے ۔

چنانچہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے قال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم : ما زال جبريل يوصيني بالجار، حتى ظننت أنه سيورِّثه ترجمہ: تاجدار رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا۔ جبرئیل امین علیہ السّلام مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری، کتاب الادب، با الوصاة بالجار 4/104 ،حدیث :6014)

ایک جگہ ارشاد فرمایا: يا أبا ذَرٍّ إذا طَبَخْتَ مَرَقَةً، فأكْثِرْ ماءَها، وتَعاهَدْ جِيرانَكَ ترجمہ : اے ابوذر (رضی اللہ عنہ ) ! جب تمھارے گھر میں شوربا پکایا جائے تو اس کا پانی زیادہ کر لیا کرو اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھا کرو۔ (مسلم ، باب الوصية بالجار والاحسان إليه حديث 2625)

وہ حدیث مبارکہ جس میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسیوں کے حقوق تفصیلاً بیان فرمائے ۔ آقائے دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جانتے ہو کہ پڑوسی کا حق کیا ہے ؟ جب وہ تم سے مدد طلب کرے تو تم اس کی مدد کرو ۔ جب وہ تم سے قرض مانگے تو اسے قرض دو۔ اگر وہ ضرورت مند ہو تو اس کا خیال کرو۔ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو ۔ اسے کوئی خوشی نصیب ہو تو مبارکباد دو۔ اسے کوئی مصیبت پہنچے کو تسلی دو۔ وہ مر جائے تو اس کے جنازے میں جاؤ۔ اپنی عمارت اتنی اونچی نہ بناؤ جو اس تک ہوا پہنچنے میں رکاوٹ ہو مگر یہ کہ اس سے اجازت حاصل کرلو۔اگر تمہارے گھر کوئی خوشبودار چیز ہو جس کی مہک اس کے گھر تک پہنچے تو اسے بھی اس میں سے کچھ تحفہ بھیجو۔ اگر کوئی پھل خرید کر لاؤ تو اس کے گھر بھی کچھ نہ کچھ بھیجو۔ اگر ایسا نہ کر سکو تو پھل چھپا کر لاؤ اور تمہارا بچہ پھل لے کر باہر نہ نکلے تاکہ اس کے بچے کا دل نہ دکھے۔ (الترغیب والترھیب، 3/357 ، و مجمع الزوائد، 8/165)

اتنے فضائل جو قراٰنِ پاک اور احادیث مبارکہ میں آئے۔ ان پر نظر ڈالنے کے بعد ایک سوال ابھرتا ہے کہ اگر پڑوسی برا ہو اور وہ برا سلوک کرتا ہو تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے ہمیں بھی اس کے ساتھ برا سلوک کرنا چاہیے۔

دیکھیئے بسا اوقات "پڑوسی" سے کتنا ہی اچھا سلوک کیا جائے وہ احسان ماننے کے بجائے پریشان ہی کرتا رہتا ہے۔ ایسے میں اسلام برے کے ساتھ برا بننے کی اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ صبر اور حسین تدبیر کے ساتھ اس برے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب ارشاد فرماتا ہے ۔ اور اس برے سلوک پر صبر کرنے والے کو رضائے الہی کی نوید سناتا ہے۔

جیسا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: الله پاک تین طرح کے لوگوں سے محبت فرماتا ہے ان میں سے ایک وہ ہے جس کا برا پڑوسی اسے تکلیف دے تو وہ اس کے تکلیف دینے پر صبر کرے یہاں تک کہ اللہ پاک اس کی زندگی یا موت کے ذریعے کفایت فرمائے۔( معجم کبیر ،2/112 حدیث : 152)

معاشرے کو پر سکون اور امن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لیے پڑوسیوں کے متعلق اسلام کے احکامات پر عمل کیا جائے تو ہر ایک اپنی عزت و آبرو اور جان و مال کو محفوظ سمجھنے لگے گا۔

اللہ پاک اپنے حبیب کے صدقے ہم کو اسلامی احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم