انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا تصور بنیادی طور پر بنی نوع انسانی کے احترام وقار اور مساوات پر مبنی ہے قراٰن حکیم کی رو سے اللہ رب العزت نے نوعِ انسانی کو دیگر تمام مخلوق پر فضیلت و تکریم عطا کی ہے۔ قراٰنِ کریم میں شرف انسانیت و ضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ تخلیقِ آدم علیہ السّلام کے بعد اللہ پاک نے فرشتوں کو سیدنا آدم (علیہ السّلام) کو سجدہ کرنے کا حکم دیا اور اس طرح نسل آدم علیہ السّلام کو فضیلت و بلندی عطا کی، اسلامی تعلیمات میں حقوقُ العباد کا خاص خیال رکھا گیا۔ کتاب و سنت میں تمام حقوق العباد، حقوق الوالدین، حقوق اولاد، حقوق زوجین اور پڑوسی کے حقوق کے بارے میں تفصیلی احکامات موجود ہیں۔ زیر نظر موضوع پڑوسیوں کے حقوق کو کتاب و سنت اور اسلاف کی سیرت کی روشنی میں مختصر طور پر بیان کرتا ہوں۔

قراٰن کی روشنی میں: پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ایسا بہترین عمل ہے کہ جس کی تعلیم اللہ رب العزت نے ہمیں ارشاد فرمائی۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی۔ (پ5، النسآء:36) آیت کی تفسیر: اس آیت مقدسہ کے تحت تفسیرات احمدیہ میں ہے کہ قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا قریبی پڑوسی سے مراد وہ ہے جو پڑوسی اور رشتہ دار دونوں ہو اور دور کے پڑوسی سے مراد جو صرف پڑوسی ہو رشتہ دار نہ ہو۔ (تفسیر احمدیہ ، النسآء ، تحت الآیۃ : 36، ص 225)

سبحان اللہ! اسلام کتنا پیارا مذہب ہے، جو نہ صرف خونی رشتوں کے ساتھ بھلائی کا درس دیتا ہے بلکہ یہ بھی سکھاتا ہے کہ اپنے قریبی اور دور کے ہمسائیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے۔

حدیث کی روشنی میں: حدیث مبارکہ میں بھی کثرت کے ساتھ پڑوسیوں کے حقوق اور ان کے ساتھ حسن سلوک بجا لانے کا ذہن دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں ایک بہت ہی پیاری حدیث مبارکہ ہے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم کو معلوم ہے کہ پڑوسیوں کا کیا حق ہے؟ پھر ارشاد فرمایا: جب وہ تم سے مدد مانگے تو مدد کرو، اور جب قرض مانگے تو قرض دو، جب محتاج ہوں تو اسے کچھ دو، بیمار ہوں عیادت کرو، جب اسے خیر پہنچے تو مبارک باد دو، اور جب مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو، اور مر جائیں تو جنازے کے ساتھ جاؤ اور بغیر اجازت اپنی عمارت بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا روک دو، اور اپنی ہانڈی سے اس کو تکلیف نہ دو مگر اس میں سے کچھ اسے بھی دو، اور میوے خریدو تو اسے بھی ہدیہ کرو، اگر ہدیہ نہ کرنا ہو تو چھپا کر مکان میں لاؤ اور تمہارے بچے لے کر باہر نہ نکلے کہ پڑوسی کے بچوں کو تکلیف ہوگی۔ تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا حق کیا ہے؟ قسم ہے اس کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے مکمل طور پر پڑوسی کا حق ادا کرنے والے تھوڑے ہیں اور وہ وہی ہیں جن پر اللہ کی مہربانی ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضور پڑوسیوں کے متعلق مسلسل نصیحت فرماتے رہے یہاں تک کہ لوگوں نے گمان کیا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گئے۔

پھر حضور نے ارشاد فرمایا:پڑوسی تین قسم کے ہیں: بعض کے تین بعض کے دو اور بعض کا ایک حق ہے۔(1) جو پڑوسی مسلم اور رشتہ دار ہوا سکے تین حق ہیں:(الف)حق جوار (پڑوسی) (ب)حق اسلام (ج) حق قرابت

(2) مسلم پڑوسی کے دو حق ہیں: حق جوار اور حق اسلام۔

(3) غير مسلم کا صرف ایک حق ہے: حق جوار۔(شعب الایمان الجار،7/83،حدیث9560)

سبحان اللہ! پڑوسیوں کے حقوق کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کتنی شاندار ہیں، اگر آج مسلمان صحیح معنی میں ان حسین تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں تو وہ دن دور نہیں کہ ہمارے معاشرے میں حقیقی انقلاب برپا ہو جائے۔

پڑوسیوں کے عام حقوق : حجۃُ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی(رحمۃُ اللہ علیہ) پڑوسیوں کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:(1)پڑوسیوں کے ساتھ سلام میں پہل کرے۔ (2) ان کے حالات کے بارے میں زیادہ سوال نہ کریں۔(3)جب وہ بیمار ہوں تو عیادت کرے۔ (4) مصیبت کے وقت ان کی غم خواری کرے اور انکا ساتھ دے۔(5)خوشی میں شرکت کرکے مبارکباد دے۔ (6) ان کی غلطیوں اور عیبوں پر مطلع ہو تو درگزر اور نرمی سے کام لیں۔(7) ان کے خلاف غلط بات نہ سنے۔(8)ان کی عورتوں کے سامنے نگاہیں نیچی رکھے۔ (9) ان کی اولاد سے نرمی سے گفتگو کرے۔ (احیاء العلوم، 2/772)

ہمارے اسلاف اور پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک: حضرت بایزید بسطامی (رحمۃُ اللہ علیہ) کا ایک غیر مسلم پڑوسی سفر میں گیا۔ اس کے بال بچے گھر رہ گئے۔ رات کو اس کا بچہ روتا تھا۔ آپ نے (اسکی بیوی سے) پوچھا کہ بچہ کیوں روتا ہے؟ وہ بولی گھر میں چراغ نہیں ہے۔ بچے اندھیر میں گھبراتا ہے۔ اس دن سے آپ روزانہ چراغ میں خوب تیل بھر کر روشن کرتے اور اس کے گھر بھیج دیا کرتے جب وہ غیر مسلم سفر سے واپس آیا تو اسکی بیوی نے یہ واقعہ سنایا وہ غیر مسلم بولا کہ جس گھر میں بایزید کا چراغ آگیا وہاں اندھیرا کیوں رہے۔ وہ سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ (مرآۃ المناجیح، 6/ 573)

40 گھروں پر خرچ کیا کرتے : حضرت سیدنا عبد اللہ بن ابی بکر رحمۃُ اللہ علیہ اپنے پڑوس کے گھروں میں دائیں بائیں اور آگے پیچھے کے چالیس چالیس گھروں کے لوگوں پر خرچ کیا کرتے تھے۔ عید کے موقع پر انہیں قربانی کا گوشت اور کپڑے بھیجتے اور ہر عید پر سو غلام آزاد کیا کرتے تھے۔ (المستطرف ، 1/276)

پڑوسیوں کے ساتھ بد سلوکی پر وعید: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بہت سے پڑوسی قیامت کے دن اپنے پڑوسیوں کا دامن پکڑ لیں گئے مظلوم پڑوسی، عرض کرے گا یا رب اس سے پوچھ کہ اس نے مجھ پر اپنا دروازہ بند کر رکھا تھا اور اپنی ضرورت سے زیادہ چیزیں مجھ سے روکی تھیں۔ (کنزالعمال كتاب الصحبۃ، 5/23)

بارگاہِ رسالت میں ایک شخص نے عرض کی یار سول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں نے فلاں قبیلے کے محلہ میں رہائش اختیار کی ہے مگر ان میں سے جو مجھے سب سے زیادہ تکلیف دیتا ہے، وہ میرا سب سے قریبی پڑوسی ہے تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت علی (رضی اللہ عنہم) کو بھیجا وہ مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر زور زور سے یہ اعلان کرنے لگے کہ بے شک 40 گھر پڑوس میں داخل ہیں اور جس کے شر سے اس کا پڑوسی خوف زدہ ہو وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (معجم الکبیر ، 19/73، حدیث: 143)

ایک اور حدیث پاک میں ہے جس نے اپنے پڑوسی کو ایذا دی بیشک اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی جس نے اپنے پڑوسی سے جھگڑا کیا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور جس نے مجھ سے لڑائی کی بیشک اس نے اللہ سے لڑائی کی۔ (كنز العمال، کتاب المحبۃ، 5/25، حدیث: 24922)