دین اسلام دین حق ہے اور یہ ہماری ہر معاملہ میں رہنمائی کرتا ہے، چاہے وہ دینی معاملہ ہو، دنیاوی معاملہ ہو یا معاشرتی معاملہ ہو۔ اگر ہم معاشرتی معاملات میں نظر کریں تو مختلف طبقہ ہوتے ہیں جن کے ہم پر حقوق ہوتے ہیں ان میں سے ایک طبقہ پڑوسیوں کا بھی ہوتا ہے۔ اچھے پڑوسی اللہ پاک کی طرف سے بڑی نعمت ہیں۔ اللہ پاک اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسیوں کے حقوق بھی ذکر فرمائے ہیں:

اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: پڑوسیوں کے(حقوق کے) بارے میں میرے پاس جبریل علیہ السّلام اتنی بار تشریف لائے کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ پڑوسی کو دوسرے پڑوسی کی میراث سے وارث قرار دے دیا جائے گا ۔ (صحیح البخاری،کتاب الادب،باب الوصاۃ بالجار)

ویسے تو پڑوسیوں کے بہت سے حقوق ہیں جن میں سے چند تحریر کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں:۔

(1)ان کی مدد کرنا: پڑوسیوں کا ایک بنیادی حق یہ بھی ہے کہ جب وہ آپ سے جانی یا مالی مدد مانگیں تو اپنی استطاعت اور پڑوسیوں کی ضرورت کو ملحوظ رکھ کر ان کی مدد کریں۔

(2) ان کی عزت کرنا: اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت کے دن کو تسلیم کرنے والا ہے اسے چاہیے کہ وہ پڑوسیوں کی عزت کرے۔ (صحیح البخاری،کتاب الادب )

(3) پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچانا: پڑوسی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اسے کسی طرح کی قولی یا فعلی تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہو سکتا، اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہو سکتا، اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہو سکتا۔ عرض کی گئی کہ کون؟ فرمایا: وہ شخص جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ ہو۔(صحیح البخاری،کتب الادب )

(4) خوشی یا غمی میں شریک ہونا: پڑوسیوں کے ہاں اگر کوئی خوشی کا موقع ہو تو انہیں مبارکباد دینا یا اگر کوئی غمی کا موقع ہو تو ان سے تعزیت کرنا۔

(5) پڑوسیوں کے ساتھ بھلائی اور تحائف کا تبادلہ: ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر یہ حق ہے کہ جہاں تک ہوسکے اس کے ساتھ بھلائی کرے۔ جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ: اور تحفہ تحائف کا تبادلہ ہے۔ (سورۃ النساء)

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب تم شوربے والا سالن پکاؤ تو اس کا شوربہ زیادہ کر لیا کرو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھا کرو۔(صحیح مسلم،کتاب البر والصلۃ و الآداب)

(6) پڑوسی کے تحفہ کو حقیر نہ سمجھنا: ہمیں چاہیے کہ اگر ہمیں ہمارا پڑوسی کوئی تحفہ دے تو اسے قبول کرلیں اسے حقیر نہ جانیں۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن (یا اس کے ھدیہ کو)حقیر نہ سمجھے اگرچہ(اس کا بھیجا ہوا ھدیہ ) بکری کا کھر ہی ہو۔(صحیح البخاری،کتاب الھبۃ و فضلھا و التحریض علیھا)

ان تمام احادیث سے اندازہ کیجیے کہ شریعت میں پڑوسی کی کس قدر عزت و منزلت اور اس کا کس قدر احترام ہے؟ اگر معاشرتی طور پر ہم پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنا شروع کردیں تو ہمارا معاشرہ کتنا خوبصورت اور پُرامن معاشرہ بن جائے گا۔

اللہ پاک ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بالخصوص پڑوسیوں کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم