عبدالباسط عطاری(درجہ ثانیہ
جامعۃُ المدینہ فیضان نور مصطفیٰ کراچی ،پاکستان )
الحمد اللہ شریعت مطہرہ جو ہمارے ہر معاملے میں ہماری اصلاح
کرتی رہتی ہے چاہے وہ نکاح کے ہوں یا پھر طلاق کے یا پھر بالغ ہونے سے لے کر موت
تک کے۔ ہمارا اس وقت جو موضوع ہے یعنی main
topic ہے(پڑوسیوں کے حقوق) آج ہم اپنے
پڑوسیوں کی اتنی دل آزاریاں کرتیں ہیں وہ خود ہم سےبدظن ہو جاتے ہیں اگر وہ پڑوسی
غیر مسلم ہو تو وہ ہمارے دین اسلام سے بد ظن ہو جاتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ
ان کو دین اسلام یہ سکھاتا ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ یہ سلوک کرو یعنی یہ برتاؤ کرو۔ بلکہ
نہیں ! دین اسلام تو مسلمان کو یہ سکھاتا ہے کہ اس کا کردار تو ایسا ہونا چاہیے کہ
اسے دیکھ کر غیر مسلم مسلمان ہو جائے آئیں اب ہم یہ سنتے ہیں کہ پڑوسیوں کے حقوق
کیا ہیں؟
حقِ پروس کیا ہے؟: حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی
رحمۃُ اللهِ علیہ فرماتے ہیں: یاد رکھئے ! حق پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف
پہنچانے سے اجتناب کیا جائے، بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو بر داشت
(Tolerate) کرنا بھی حق
پڑوس میں شامل ہے۔ کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں
پہنچاتا اور وہ اس کے بدلے اسے تکلیف نہیں دیتا، حالانکہ اس طرح پڑوس کا حق ادا
نہیں ہوتا، لہذا صرف تکلیفوں کو برداشت کرنے پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ ضروری ہے کہ
اس کے ساتھ نرمی اور اچھے طریقے کے ساتھ پیش آئے۔ (احیاء العلوم، كتاب اداب ...
الخ، 2/267)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے پڑوسی
کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئیں اگر وہ کسی آزمائش میں مبتلا ہو مثلاً اس کا بچہ گم
ہو جائے، اس کے یہاں فوتگی یا ڈکیتی ہو جائے، مکان یا چھت گر جائے، آگ لگ جائے یا
وہ لائٹ، پانی، بیماری، روز گار، گھریلو ناچاکی یا جھوٹے مقدمے جیسے مسائل سے
دوچار ہو تو ہمیں فوراً اپنی طاقت کے مطابق اس کی حاجت روائی کرتے ہوئے اسے مسائل
کی دلدل سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا
ایسا بہترین عمل ہے کہ جس کی تعلیم خود ہمارا رب کریم ہمیں ارشاد فرما رہا ہے۔
چنانچہ پارہ 5 سور کا نساء کی آیت نمبر 36 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ
الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ
بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور
ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے
اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36) اس آیت
مقدسہ کے تحت تفسیرات احمدیہ میں ہے کہ قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر
اپنے گھر سے ملا ہوا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس
کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا
ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو، رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی
بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور وہ جو صرف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ
دور کا ہمسایہ ہے۔ (تفسیرات احمديہ، النساء، تحت الآيۃ: 36، ص 275)
پیارے پیارے اسلامی
بھائیو! اسلام کتنا پیارا مذہب ہے کہ جو نہ صرف ہمیں والدین اور رشتے داروں کے
ساتھ بھلائی کا درس دیتا ہے بلکہ یہ بھی سکھاتا ہے کہ ہمیں اپنے قریبی اور دور کے
ہمسائیوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہئے۔ قراٰنِ کریم کے علاوہ احادیث مبارکہ
میں بھی کثرت کے ساتھ پڑوسیوں کی اہمیت، ان کے ساتھ حسن سلوک بجالانے کا ذہن دیا
گیا ہے۔ آئیے ! اس ضمن میں ایک بہت ہی پیاری حدیث پاک سے حاصل ہونے والے مدنی
پھولوں کو اپنے دل کے مدنی گلدستے میں سجانے کی کوشش کرتے ہیں، چنانچہ نبی کریم
رؤف رحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی
کا کیا حق ہے؟ پھر خود ہی ارشاد فرمایا کہ جب وہ تم سے مدد مانگے، مدد کرو اور جب
قرض مانگے قرض دو اور جب محتاج ہو تو اسے دو اور جب بیمار ہو عیادت کرو اور جب اسے
خیر پہنچے تو مبارک باد دو اور جب مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو اور مر جائے تو جنازہ
کے ساتھ جاؤ اور بغیر اجازت اپنی عمارت بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا روک دو اور اپنی
ہانڈی سے اس کو ایذا نہ دو، مگر اس میں سے کچھ اسے بھی دو اور میوے خرید و تو اس
کے پاس بھی ہدیہ کروں اور اگر ہدیہ نہ کرنا ہو تو چھپا کر مکان میں لاؤ اور تمہارے
بچے اسے لے کر باہر نہ نکلیں کہ پڑوسی کے بچوں کو رنج ہو گا۔ تمہیں معلوم ہے کہ
پڑوسی کا کیا حق ہے؟ قسم ہے اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! مکمل طور پر
پڑوسی کا حق ادا کرنے والے تھوڑے ہیں، وہی ہیں جن پر اللہ پاک کی مہربانی ہے۔ حضور
(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) پڑوسیوں کے متعلق مسلسل وصیت فرماتے رہے یہاں تک
کہ لوگوں نے گمان کیا کہ پڑوسی کو وارث کر دیں گے ۔ پھر حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: پڑوسی 3 قسم کے ہیں، بعض کے 3 حق ہیں، بعض کے 2 اور بعض
کا ایک حق ہے۔ جو پڑوسی مسلم ہو اور رشتہ دار ہو ، اس کے 3 حق ہیں۔ حق جو ار اور
حق اسلام اور حق قرابت۔ مسلم پڑوسی کے 2 حق ہیں، حق جو ار اور حق اسلام اور غیر
مسلم پڑوسی کا صرف ایک حق جوار ہے۔(شعب الایمان، باب في اكرام الجار ،7/83، حدیث
:9520)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! بیان کردہ حدیث پاک سے ہر
عقلمند شخص اچھی طرح یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ پڑوسیوں کے حقوق کی بجا آوری، ان کی
خبر گیری و حاجت روائی کرنے ، ان کی دلجوئی کرنے ، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے ،
انہیں خوش رکھنے اور انہیں تکلیف (Trouble ) نہ پہنچانے کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کتنی شاندار ہیں کہ اگر
آج مسلمان صحیح معنی میں ان حسین تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں اور ان کے
مطابق عمل پیرا ہو جائیں تو وہ دن دور نہیں کہ ہمارے معاشرے میں حقیقی معنی میں
مدنی انقلاب برپا ہو جائے اور معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے، مگر افسوس! کہ جیسے
جیسے ہم زمانہ نبوی سے دور ہوتے جارہے ہیں دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ اب پڑوسیوں
کے حقوق کی ادائیگی کے معاملے میں بھی پستی کے گہرے گڑھے میں گرتے جارہے ہیں، ایک
ہی گلی، محلے میں سالہا سال گزر جانے کے باوجود اپنے پڑوسی کی پہچان، اس کی
موجودگی اور حق پڑوس سے غفلت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کسی عزیز سے
ملنے آئے اور ہم سے اس گھی یا محلے میں رہنے والے اپنے کسی عزیز کا پتا معلوم کرے
تو ہم بغلیں جھانکتے اور سر کھجاتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں بالکل خبر نہیں ہوتی کہ ہمارے
پڑوس میں کون رہتا ہے ، اس کا نام کیا ہے، کام کیا کرتا ہے، ہم تو بس اپنی مستی
میں ایسے مست رہنے والے ہیں کہ پڑوس میں میت ہو جائے، کوئی بیمار ہو یا کسی
پریشانی کا شکار ہو جائے تو ہمیں تعزیت و عیادت کرنے یا اسے دلاسہ دینے کی بھی
توفیق نصیب نہیں ہوتی۔
ہاں ! مالداروں، سیٹھوں، افسروں، وزیروں، صاحب منصب لوگوں ،
مخصوص دوستوں ، برادری والوں یا ایسے پڑوسی کہ جن سے ہمیں اپنا کام نکلوانا ہو ان
کے یہاں تو ہم خوشی غمی کے مواقع پر پیش پیش نظر آتے یا انہیں اپنے یہاں کی
تقریبات (Functions) میں بلاتے
ہیں، مگر غریب پڑوسیوں کی خیر خواہی کرنا یا ان کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا ہم اپنی
شان کے خلاف سمجھتے ہیں، بعض نادان تو اس قدر بے جس ہوتے ہیں کہ گھر کے اندر موجود
بھوک و پیاس، بیماری یا آزمائش میں مبتلا بھائیوں، بہنوں حتی کہ والدین تک کو ہی
نہیں پوچھتے تو اندازہ لگائیے کہ وہ گھر کے باہر والے پڑوسیوں کا کیا خیال رکھیں
گے اور کیا ان کے حقوق ادا کریں گے۔ پڑوسیوں کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے
لگائیے کہ کئی بزرگوں نے نہ صرف خود پڑوسیوں کے حقوق ادا فرمائے ، بلکہ دوسرے
لوگوں کو بھی اس کی ترغیب دلائی ہے۔ چنانچہ
پڑوسیوں کے عام حقوق: حجۃُ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد
غزالی(رحمۃُ اللہ علیہ) پڑوسیوں کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: پڑوسیوں کے
ساتھ سلام میں پہل کرے ان کے ساتھ طویل گفتگو نہ کرے، ان کے حالات کے بارے میں
زیادہ سوال نہ کرے، جب وہ بیمار ہوں تو ان کی عیادت کرے مصیبت کے وقت ان کی غم
خواری کرے، مشکل وقت میں ان کا ساتھ دے، خوشی میں ان کو مبارک باد دے ، ان کی خوشی
میں شرکت کرے ، ان کی لغزشوں کو معاف کرے، اپنے گھر کی چھت پر سے ان کے گھر میں مت
جھانکے ، ان کی دیوار پر شہتیر رکھ کر ان کے پر نالے میں پانی گرا کر اور ان کے
صحن میں مٹی وغیرہ ڈال کر انہیں تکلیف نہ پہنچائے، ان کے گھر کے راستے کو تنگ نہ
کرے جو کچھ وہ اپنے گھر لے جارہے ہوں اس پر نظر نہ گاڑے، اگر ان کے عیوب اس پر
ظاہر ہوں تو انہیں چھپائے ، اگر انہیں کوئی حادثہ پیش آجائے تو فوراً ان کی مدد
کرے، پڑوسیوں کی غیر موجودگی میں ان کے گھر کی حفاظت (Safety) کرنے میں غفلت کا مظاہرہ نہ کرے،
ان کے خلاف کوئی بات نہ سنے ، ان کی (عورتوں) کے سامنے نگاہیں نیچی رکھے ، ان کی
اولاد کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرے، دین و دنیا کے جس معاملے میں انہیں رہنمائی کی
ضرورت ہو (تو) اس میں ان کی رہنمائی کرے۔ (احیاء العلوم، 2/ 772)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہمارے اسلاف کرام کو خدائے رحمن
نے جہاں دیگر بہت سی خوبیوں سے آراستہ فرمایا، وہیں یہ عظیم الشان وصف بھی ان کی
مبارک طبیعتوں میں راسخ تھا کہ یہ حضرات پڑوسیوں کے معاملے میں انتہائی محتاط تھے
، پڑوسیوں کو اسلام میں کیا مقام و مرتبہ حاصل ہے ، ان کے کیا حقوق ہیں؟ ان کی
جانب سے ملنے والی تکلیفوں کے جواب میں ان کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہئے یہ
حضرات ان تمام چیزوں کو دوسروں کے مقابلے میں بہتر طور پر جانتے تھے ، ہم تو
پڑوسیوں کا بُرا چاہنے والے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے قائل ہیں جبکہ یہ
اللہ والے پوری زندگی حقوقُ اللہ اور حقوقُ العباد کی رعایت کرنے بالخصوص پڑوسیوں
کے حقوق کی بجا آوری ، ان کی خیر خواہی، ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا عملی
مظاہرہ فرماتے تھے۔ آئیے بطورِ ترغیب اس بارے میں بزرگانِ دین کی چند ایمان افروز
حکایات سُن کر ان سے حاصل ہونے والے مدنی پھولوں پر عمل کی نیت کرتے ہیں، چنانچہ
غیر مسلم مسلمان ہو
گیا: حضرت سیدنا مالک بن دینار رحمۃُ اللہِ
علیہ نے ایک مکان کرایہ پر لیا۔ اس مکان کے بالکل متصل ایک غیر مسلم کا
مکان تھا۔ وہ بغض و عناد کی بنیاد پر پرنالے کے ذریعے گندا پانی اور غلاظت آپ کے
کاشانہ عظمت میں ڈالتا رہتا، مگر آپ خاموش ہی رہتے۔ آخر کار ایک دن اُس نے خود ہی
آکر عرض کی، جناب ! میرے پر نالے سے گزرنے والی نجاست کی وجہ سے آپ کو کوئی شکایت
تو نہیں؟ آپ نے نہایت نر می (Softness) کے ساتھ فرمایا: پر نالے سے جو گندگی گرتی ہے اس کو جھاڑودے کر
دھوڈالتا ہوں۔ میں نے کہا، آپ کو اتنی تکلیف ہونے کے باوجود غصہ نہیں آتا؟ فرمایا
آتا تو ہے مگر پی جاتا ہوں کیونکہ (پارہ 4 سورۂ آل عمران آیت نمبر 134 میں) خدائے
رحمن کا فرمانِ محبت نشان ہے: وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ
عَنِ النَّاسِؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) ترجَمۂ کنزالایمان : اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے در
گزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں ۔
جواب سن کر وہ
یہودی مسلمان ہو گیا ۔ (تذکِرۃُ الاولیاء ص45)