الله عزوجل قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی۔ (پ5، النسآء:36)

لفظ "جار" کی لغوی تحقیق: جار " جوار" سے بنا ہے جس کے معنی "امان " کے ہیں۔ پڑوس میں رہنے والا۔

پڑوسی کی اقسام: پڑوسی کی 2 قسمیں ہیں۔

(1) وه پڑوسی جو پڑوس میں رہتا ہو اور رشتہ دار بھی ہو ۔

(2) وہ پڑوسی جو رشتہ دار نہ ہو۔

احادیث مبارکہ:

حدیث نمبر (1) حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ پاک عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جبرئیل مجھے پڑوسیوں سے بارے میں وصیت کرتے رہے حتی کے مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی وارث بنادیا جائے گا۔

حدیث نمبر (2) ( بہترین ہمسایہ )حضرت عبد الله بن عمر و بن عاص سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک کے نزدیک بہترین دوست وہ ہے جو اپنے دوست کا خیر خواہ ہو اور بہترین ہمسایہ وہ ہے جو اپنے پڑوسیوں کا خیر خواہ ہو۔

حدیث نمبر (3) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کسی شخص کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اپنا پیٹ تو پھر لے اور جبکہ اس کا پڑوسی بھوکا ہے۔

حدیث نمبر (4) امام بخاری نے الادب میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ کتنے ہی پڑوسی ہوں گے جو قیامت کے روز پڑوسی کے ساتھ چمٹے ہوئے ہوں گے پڑوسی عرض کر رہا ہوگا: اے میرے رب اس نے مجھ پر اپنا دروازہ بند کر دیا تھا اور اس نے میرے ساتھ حسن سلوک نہ کیا۔

حدیث کی روشنی میں پڑوسیوں حقوق:

حدیث نمبر (5) حضرت معاویہ بن حیدہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یار سول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! میرے پڑوسی کا مجھ پر کیا حق ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:

(1)اگر وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو ۔

(2) اگر مر جائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو۔

(3) اگر تم سے قرض مانگے تو اس کو قرض دو ۔

(4) اگر بے حال ہو تو اس پر ستر کرو ۔

(5) اگر اس کو کوئی اچھائی پہنچے تو اس کو مبارک باد دو۔

(6) اگر اس کو کوئی اذیت پہنچے تو اس کی تعزیت کرو اپنے گھر کی عمارت اس سے بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا رک جائے ۔(المعجم الکبیر ، 19/ 419)

پڑوسی کا اطلاق: علامہ ابی مالکی نے لکھا ہے کہ جس شخص کا گھر یا دکان تمہارے گھر یا دکان سے متصل ہو وہ تمہارا پڑوسی ہے بعض علما نے چالیس گھروں تک اتصال کا اندازہ کیا ہے۔

حدیث نمبر (6) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک دن مجلس نبوی میں کسی شخص نے عرض کیا کہ یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! فلاں عورت کا زیادہ نماز، روزے اور کثرت صدقہ و خیرات کی وجہ سے بڑا چرچا ہے لیکن وہ اپنی زبان کے ذریعے اپنے پڑوسیوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ سن کر ارشاد فرمایا کہ وہ دوزخ میں جائے گی پھر ا س شخص نے عرض کیا کہ یارسول اللہ فلاں عورت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت کم روزے رکھتی ہے بہت کم صدقہ و خیرات کرتی ہے اور بہت کم نماز پڑھتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس کا صدقہ و خیرات چند ٹکڑوں کے آگے نہیں بڑھتا لیکن وہ اپنی زبان کے ذریعے اپنے ہمسائیوں کو تکلیف نہیں پہنچاتی حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :وہ عورت جنت میں جائے گی۔