اسلام اپنے ماننے والوں کو ایک مکمل ضابطہ حیات فراہم کرتا ہے جس میں نہ صرف اللہ پاک کے حقوق اور اس کی عبادت کرنے کے طور طریقے کو بیان کیا گیا ہے بلکہ معاشرتی آداب و اخلاق کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کے حقوق کی تعلیم بھی موجود ہے۔ چنانچہ قراٰنِ مجید میں پڑوسیوں کے حقوق کا بیان سورہ نسآء کی آیت نمبر 36 میں ارشاد باری تعالٰی ہے: ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی اور پاس بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر اور اپنے غلام لونڈیوں (کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔) (پ5، النسآء:36) اس آیتِ مبارکہ میں بہت ہی واضح طور پر اللہ پاک کے حق کے ساتھ ساتھ نہ صرف والدین بلکہ پڑوسی خصوصاً دور تک کے پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم موجود ہے۔

نیز آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی پڑوسیوں کے حقوق کو بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ حدیث پاک میں ہے۔

حضور نبی کریم روف رحیم علیہ الصّلٰوۃ والتّسلیم نے ارشاد فرمایا : تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ (پھر خود ہی آپ نے ارشاد فرمایا کہ)

(1) جب وہ تم سے مدد مانگے مدد کرو

(2) جب قرض مانگے قرض دو

(3) جب محتاج ہوں تو اسے دو

(4 )جب بیمار ہو تو عیادت کرو

(5) جب اسے خیر پہنچے تو مبارک باد دو

(6) اور جب مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو

(7 )اور مر جائے تو جنازہ کے ساتھ جاؤ

(8) اور بغیر اجازت اپنی عمارت بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا روک دو

(9) اور اپنی ہانڈی سے اس کو ایذا نہ دو ، مگر اس میں سے کچھ اسے بھی دو

(10) میوے خریدو تو اس کے پاس بھی ہدیہ کرو اور اگر نہ کرنا ہو تو چھپا کر مکان میں لاؤ اور تمہارے بچے اسے لے کر باہر نہ نکلیں کہ پڑوسی کے بچوں کو رنج ہوگا۔

تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ قسم ہے اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! مکمل طور پر پڑوسی کا حق ادا کرنے والے تھوڑے ہیں وہی ہیں جن پر اللہ پاک کی مہربانی ہے ۔حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑوسیوں کے متعلق مسلسل وصیت فرماتے رہے ،یہاں تک کہ لوگوں نے گمان کیا کہ پڑوسی کو وارث کر دیں گے ۔پھر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ پڑوسی تین (3) قسم کے ہیں ۔بعض کے تین (3) حق ہیں ۔بعض کے دو (2) حق ہیں اور بعض کا ایک (1) حق ہے۔

(1)جو پڑوسی مسلمان ہو اور رشتہ دار بھی ہو ،اس کے تین حق ہیں (۱)حقِ پڑوس (۲) حقِ اسلام (۳) حقِ قرابت (رشتہِ داری)

(2) صرف مسلمان پڑوسی کے دو حق ہیں۔ (۱) حقِ پڑوس (۲) حقِ اسلام

(3) اور غیر مسلم (کافر) پڑوسی کا صرف ایک حق ہے ۔ (۱) حقِ پڑوس (شعب الایمان، باب فی اکرام الجار،7/83، حدیث: 9560)

کیا حقِ پڑوس صرف یہی ہے؟ : حجّۃ الاسلام حضرت سیّدنا امام محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمۃُ اللّٰہ علیہ حقِ پڑوس کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: یاد رکھئے! حقِ پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیا جائے ، بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو برداشت کرنا بھی حقِ پڑوس میں شامل ہے ۔کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا اور وہ اس کے بدلے اسے تکلیف نہیں دیتا ہے ، حالانکہ اس طرح پڑوس کا حق ادا نہیں ہوتا ، لہٰذا صرف تکلیفوں کو برداشت کرنے پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ ضروری ہے کہ اس کے ساتھ نرمی اور اچھے طریقے کے ساتھ پیش آئے ۔(احیاء العلوم ، کتاب آداب الالفت ۔الخ 2/267)

لہٰذا! ہمیں بھی اپنے پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیفوں پر صبر کرنا چاہیے۔ اگر ہم اپنے بزرگانِ دین کی زندگی کی طرف نظر کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ وہ کس طرح اپنے پڑوسیوں کے حق کو پورا کیا کرتے تھے ۔چنانچہ

پورا گھرانہ مسلمان ہو گیا: حضرت بایزید بسطامی رحمۃُ اللہ علیہ کا ایک غیر مسلم پڑوسی سفر میں گیا ،اس کے بال بچے گھر رہ گئے ، رات کو اس کا بچہ روتا تھا ،تو آپ نے (اس کی بیوی سے) پوچھا کہ بچہ کیوں روتا ہے ؟ وہ بولی گھر میں چراغ نہیں ہے۔ بچہ اندھیرے میں گھبراتا ہے ۔اس دن سے آپ روزانہ چراغ میں خوب تیل بھر کر روشن کرتے اور اس کے گھر بھیج دیا کرتے ،جب وہ غیر مسلم سفر سے واپس آیا تو اس کی بیوی نے اس کو یہ واقعہ سنایا ،تو وہ غیر مسلم بولا کہ جس کے گھر میں بایزید کا چراغ آگیا ،وہاں اندھیرا کیوں رہے وہ سب کے مسلمان ہو گئے ۔ (مرآۃ المناجیح 6/573 ملخصاً)

لہٰذا! ہمیں بھی اپنے اسلاف کی طرح اپنے پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھنا اور انہیں پورا کرنا چاہیے ۔ اللہ ربّ العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی اپنے پڑوسیوں کے حقوق کو صحیح طریقے سے اور مکمل طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم