روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کہ جو اللہ پاک اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا احترام کرے ۱؎ اور جو اللہ پاک اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو نہ ستائے ۲؎ اور جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا چپ رہے۳؎ ایک روایت میں پڑوسی کے بجائے یوں ہے کہ جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ صلہ رحمی کرے ۴؎ (مسلم،بخاری)۔ ۱؎ مہمان کا احترام یہ ہے کہ اس سے خندہ پیشانی سے ملے اس کے لیے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتی الامکان اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے، بعض حضرات خود مہمان کے آگے دسترخوان بچھاتے اس کے ہاتھ دھلاتے ہیں یہ اسی حدیث پر عمل ہے، بعض لوگ مہمان کے لیے بقدر طاقت اچھا کھانا پکاتے ہیں وہ بھی اس عمل پر ہے جسے کہتے ہیں مہمان کی خاطر تواضع۔اس حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ جو مہمان کی خدمت نہ کرے وہ کافر ہے ۔مطلب یہ ہے کہ مہمان کی خاطر تقاضاء ایمان کا ہے جیسے باپ اپنے بیٹے سے کہے کہ اگر تو میرا بیٹا ہے تو میری خدمت کر،مہمان کی خاطر مؤمن کی علامت ہے۔خیال رہے کہ پہلے دن مہمان کے لیے کھانے میں تکلف کر،پھردو دن درمیانہ کھانا پیش کر،تین دن کی بھی مہمانی ہوتی ہے بعد میں صدقہ ہے۔(مرقات)

یعنی اس کو تکلیف دینے کے لیے کوئی کام نہ کرے۔

فرمایا نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسی کے گیارہ حق ہیں: (1)جب اسے تمہاری مدد کی ضرورت ہو اس کی مدد کرو(2)اگر معمولی قرض مانگے دے دو(3)اگر وہ غریب ہو تو اس کا خیال رکھو(4)وہ بیمار ہو تو مزاج پرسی بلکہ ضرورت ہو تیمارداری کرو(5)مرجائے تو جنازہ کے ساتھ جاؤ(6)اس کی خوشی میں خوشی کے ساتھ شرکت کرو(7)اس کے غم و مصیبت میں ہمدردی کے ساتھ شریک رہو(8)اپنا مکان اتنا اونچا نہ بناؤ کہ اس کی ہوا روک دو مگر اس کی اجازت سے(9)گھر میں پھل فروٹ آئے تو اسے ہدیۃً بھیجتے رہو نہ بھیج سکو تو خفیہ رکھو اس پر ظاہر نہ ہونے دو، تمہارے بچے اس کے بچوں کے سامنے نہ کھائیں(10)اپنے گھر کے دھوئیں سے اسے تکلیف نہ دو(11)اپنے گھر کی چھت پر ایسے نہ چڑھو کہ اس کی بے پردگی ہو۔ قسم اس کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے پڑوسی کے حقوق وہ ہی ادا کرسکتا ہے جس پر اللہ رحم فرمائے۔(مرقات)کہا جاتا ہے ہمسایا اور ماں جایا برابر ہونے چاہئیں۔افسوس! مسلمان یہ باتیں بھول گئے۔ قراٰنِ کریم میں پڑوسی کے حقوق کا ذکر فرمایا بہرحال پڑوسی کے حقوق بہت ہیں ان کے ادا کی توفیق رب تعالیٰ سے مانگئے۔

۳؎خیر سے مراد یا اچھی بات ہے خواہ واجب ہو یا فرض یا سنت یا مستحب ہر مباح بات ہے۔صوفیاء فرماتے ہیں کہ مباح بات بھی زیادہ نہ کرے تاکہ ناجائز بات میں نہ پھنس جائے۔ تجربہ ہے کہ زیادہ بولنے سے اکثر ناجائز باتیں منہ سے نکل جاتی ہیں۔ مشہور مقولہ ہے کہ جو خاموش رہا وہ سلامت رہا جو سلامت رہا وہ نجات پا گیا۔ فی صدی پچانوے گناہ زبان سے ہوتے ہیں اور پانچ فی صدی گناہ دوسرے اعضاء سے۔ مطلب یہ ہے کہ مؤمن کامل وہ ہے جو بھلی بات منہ سے نکالے ورنہ خاموش رہے۔ خیال رہے کہ بات ہی ایمان ہے، بات ہی کفر، بات ہی مقبول ہے، بات ہی مردود۔

۴؎ یعنی اپنے ذی رحم قرابتداروں کے حقوق ادا کرے۔ ذی رحم وہ عزیز ہے جس کا رشتہ ہم سے نسبی ہو۔ محرم وہ ہے جس سے نکاح کرنا حرام ہو،لہذا داماد محرم ہے ذی رحم نہیں اور چچا زاد بھائی ذی رحم ہے محرم نہیں اور سگا بھائی بھتیجا ذی رحم بھی ہے اور محرم بھی، یہاں ذی رحم عزیز مراد ہیں خواہ محرم ہوں یا نہ ہوں اگرچہ ساس، سسر، بیوی کے حقوق بھی ادا کرنا ضروری ہے مگر ان کو صد رحمی نہیں کہتے۔ یہ حدیث،طبرانی،ترمذی جامع صغیر وغیرہ میں اور طریقوں سے وارد ہوئی ہے جس میں علامات ایمان اور بہت چیزیں ارشاد ہوئیں۔( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 حدیث:4243)

روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے الله کی قسم نہیں مؤمن ہوتا الله کی قسم مؤمن نہیں ہوتا الله کی قسم مؤمن نہیں ہوتا ۱؎ عرض کیا گیا کون یارسولُ الله فرمایا وہ جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے امن میں نہ ہو ۲؎ (مسلم،بخاری)

۱؎ تین بار فرمانا تاکید کے لیے ہے،لا یؤمن میں کمال ایمان کی نفی ہے یعنی مؤمن کامل نہیں ہوسکتا نہیں ہوسکتا نہیں ہوسکتا۔

حضور انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کی وضاحت پہلے ہی نہ فرمادی بلکہ سائل کے پوچھنے پر بتایا تاکہ سننے والوں کے دل میں یہ بات بیٹھ جاوے جو بات انتظار اور پوچھ گچھ کے بعد معلوم ہو وہ بہت دلنشین ہوتی ہے اگرچہ ہر مسلمان کو اپنی شر سے بچانا ضروری ہے مگر پڑوسی کو بچانا نہایت ہی ضروری کہ اس سے ہر وقت کام رہتا ہے وہ ہمارے اچھے اخلاق کا زیادہ مستحق ہے، رب تعالٰی فرماتاہے: الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ ۔( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 حدیث:4962 )

وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ لَا يَأْمَنُ جَارُهٗ بَوَائِقَهُ . رَوَاهُ مُسْلِمٌ ۱؎ یعنی صالحین اور نجات پانے والوں کے ساتھ وہ جنت میں نہ جاوے گا اگرچہ سزا پاکر بہت عرصہ کے بعد وہاں پہنچ جاوے لہذا یہ حدیث اس حدیث کے خلاف نہیں کہ "من قال لا الہ الا الله دخل الجنۃ

افسوس کہ یہ سبق آج بہت سے مسلمان بھول گئے اب تو ان کے تیر کا پہلا شکار ان کا پڑوسی ہی ہوتا ہے۔ ( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 حدیث:4963)

روایت ہے حضرت عائشہ اور ابن عمر سے وہ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے راوی فرمایا کہ مجھے جناب جبریل پڑوسی کے متعلق مجھے حکم الٰہی پہنچاتے رہے حتی کہ میں نے گمان کیا کہ وہ پڑوسی کو وارث بنادیں گے(مسلم،بخاری)۔

روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کوئی پڑوسی اپنے پڑوسی کو اپنے دیوار میں لکڑی گاڑنے سے منع نہ کرے(مسلم،بخاری)۔