اسلام ایک بہت ہی پیارا دین ہے اس کی بے شمار خصوصیات و محاسن ہیں اُنہی خصوصیات میں سے ایک کمال خصوصیت وہ دوسروں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کا احساس کرنا بھی ہے اس لیے شریعت مطہرہ نے مسلمانوں پر دوسرے مسلمانوں بھائیوں کے لیے کئی حقوق لازم کئے ہیں ان حقوق میں پڑوسیوں کے حقوق بھی شامل ہیں ہر ذی شعور انسان جانتا ہے کے معاشرے کو پُر امن اور خوشحال بنانے کے لیے جو چیز سب سے زیادہ مؤثر قرار پاتی ہے وہ اپنے علاقے و محلے کے حضرات کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا اور ان کی خیر خبر رکھ کر ان کی حسب استطاعت اعانت (یعنی مدد) کرنا بھی ہے۔

چنانچہ اللہ پاک پڑوسیوں سے حسن سلوک کے متعلق ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء: 36)

احادیث نبویہ:رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی احادیث طیبہ میں بھی بہت تفصیل کے ساتھ پڑوسیوں کے حقوق کو بیان فرما کر ان کی ادائیگی کی تاکید کی گئی ہے اللہ پاک کے پیارے حبیب معلم کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑوسیوں کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:إِنْ مَرِضَ عُدْتَهُ، وَإِنْ مَاتَ شَيَّعْتَهُ، وَإِنِ اسْتَقْرَضَكَ أَقْرَضْتَهُ، وَإِنْ أَعْوَزَ سَتَرْتَهُ ترجمہ:اگر وہ بيمار ہو تو اس کی عِيادت کرو، اگر فوت ہوجائے تو اس کے جنازے ميں شرکت کرو، اگر قرض مانگے تو اسے قرض دے دو اور اگر وہ عيب دار ہوجائے تو اس کے عیب کی پَردہ پوشی کرو۔(المعجم الکبیر للطبرانی، جلد 19، ص419، حدیث : 1014 مطبوعہ ابن تیمیہ قاھرہ)

پڑوسیوں کو تکلیف نہ دیں:سيدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللہ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُؤْذِي جَارَهُ ترجمہ:جو شخص اللہ پاک اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔(صحیح البخاری کتاب الادب باب من یؤمن باللہ ۔۔۔الخ حدیث 6018 صفحہ 1108 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)

محترم اسلامی بھائیوں یاد رہے تکلیف پہچانا کئی طرح ہوسکتی ہے اونچی آواز سے اپنے گھر میں ٹیلی ویژن لگانے سے بھی ہوسکتی ہے اگرچہ کوئی نعت یا مدنی چینل ہی لگایا ہو لیکن اتنی بلند آواز سے لگایا ہو کہ جس سے ساتھ والے گھر کے پڑوسی کی نیند خراب ہو یا پھر کوئی مریض ہو جس کو اس کے سبب تکلیف پہنچے الغرض ہر ایسی چیزوں سے احتراز ضروری جن سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچے۔

پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی کی تاکید:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ پاک عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ ترجمہ:مجھے حضرت جبریل علیہ السلام پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی ہمیشہ وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں گمان کرنے لگا کہ یہ اسے وراثت میں بھی شریک ٹھہرا دیں۔(صحیح مسلم، کتاب البر و الصلۃ و الآداب باب الوصیۃ بالجار والاحسان الیہ، حدیث: 6265، صفحہ 1013 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)

پڑوسیوں کا خیال رکھیں:حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ پاک عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول ہاشمی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا کے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:لَيْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِي يَشْبَعُ وَجَارُهُ جَائِعٌ ترجمہ: وہ شخص مؤمن نہیں جو خود شکم سیر ہو اور اسکا پڑوسی بھوکا ہو۔(الادب المفرد للبخاری ، باب لا یشبع دون جارہ ، حدیث: 112 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)

محترم اسلامی بھائیو اور اسلامی بہنو ! اگر خدا نخواستہ آپ سے کبھی بھی اپنے کسی پڑوسی کے حقوق میں کوتاہی ہوگئی ہو یا اس کی حق تلفی ہوئی ہو تو جلد از جلد ان سے معافی مانگ لیں یاد رکھیں پڑوسیوں کے حقوق کے کا معاملہ بھی حقوق العباد سے ہے حقوق العباد کے متعلق میرے آقا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حقوق العباد میں بھی ملک دیّان عزوجل نے اپنے دار العدل کا یہی ضابطہ رکھا ہے کہ جب تک وُہ بندہ معاف نہ کرئے معاف نہ ہوگا۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد 24 ،صفحہ 460 مکتبہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

لہذا جلد از جلد معاف مانگ لیں اور اگر کوئی اور آپ سے معافی مانگے تو وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اس مسلمان بھائی کو بھی معاف کر دیں۔اللہ پاک ہمیں شریعت مطہرہ کے احکام کو درست طریقہ سے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے اور ساتھ ہی دوستوں تک پہچانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم