بفضل اللہ واحسانہ عزوجل جس نے اپنے پیارے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےذریعہ ملت حنفیہ کی عطا کے ساتھ ہمیں زندگی کا ضابطہ سکھایا ۔ دین اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں ہر قباحت و خصلت طیبہ کی تعیین بھی کی گئی ہے ۔ اسی طرح اسلام میں ہر کسی کا حق ایک دوسرے پر رکھا ہے ۔ جس سے وہ اپنے درمیان ہر ہونے والی مشکلات و مصائب میں نصرت کریں ۔ اسی مناسبت سے حقوق العباد میں پڑوسی کے بھی حقوق ہوتے ہیں تو ایک ہی محلے یا سوسائٹی میں رہنے والے لوگ اگر ایک دوسرے سے میل جول نہ رکھیں، دُکھ درد میں شریک نہ ہوں تو بہت سی مشقتیں اور پریشانیاں پیدا ہو سکتی ہیں اس لیے اسلام نے جہاں ماں باپ اور عزیز و اقارب کے ساتھ حسنِ سلوک، ہمدردی و اخوت، پیار و محبت، اَمْن و سلامتی اور ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک ہونے کی تعلیم دی ہے وہیں قرب و جوار میں بسنے والے دیگر مسلمانوں کو بھی محروم نہیں رکھا بلکہ ان کی جان و مال اور اہل و عیال کی حفاظت کا ایسا درس دیا کہ اگر اُس پر عمل کیا جائے تو بہت سے معاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں اور اِس کے نتیجے میں ایک ایسا مدنی معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے جہاں ہر ایک دوسرے کے جان و مال، عزت و آبرو اور اہل و عیال کا محافظ ہوگا۔ اسی مناسب سے چند حقوق پڑھئے:

(1) قراٰنِ پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے (کے ساتھ بھلائی کرو)۔ (پ5، النسآء:36)

(2) حدیث شریف میں ہے: رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ : حضرت جبرائیل مجھ کو ہمیشہ پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں وصیت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ شاید عنقریب پڑوسی کو اپنے پڑوسی کا وارث ٹھہرا دیں گے۔(صحیح مسلم ، کتاب البر والصلۃ ، باب الوصیۃ بالجاروالاحسان الیہ ،ص1413،حدیث:2664)

(3) ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ ایک دن حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وضو فرما رہے تھے تو صحابہ کرام علیھم الرضوان آپ کے وضو کے دھووَن کو لوٹ لوٹ کر اپنے چہروں پر ملنے لگے یہ منظر دیکھ کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ تم لوگ ایسا کیوں کرتے ہو ؟ صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کیا کہ ہم لوگ اﷲعزوجل کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت کے جذبے میں یہ کررہے ہیں۔ یہ سن کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جس کویہ بات پسند ہو کہ وہ اﷲ و رسول عزوجل و صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت کرے۔ یا اﷲ و رسول عزوجل اس سے محبت کریں تو کو لازم ہے کہ وہ ہمیشہ ہر بات میں سچ بولے اور اس کو جب کسی چیز کا امین بنایاجائے تو وہ امانت ادا کرے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ (شعب الایمان ، باب فی تعظیم النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ،ج2، ص201، حدیث:1533)

(4) رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ وہ شخص کامل درجے کا مسلمان نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھالے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے۔( شعب الایمان، 3/225 ، حدیث: 3389)چند مدنی پھول عرض کئے جاتے ہیں ان پر عمل کرنے کی نیت کرلیجئے:(۱)اپنے پڑوسی کے دکھ سکھ میں شریک رہے اور بوقت ضرورت ان کی بن مانگے بغیر احسان جتائے ہر قسم کی امدادبھی کرتا رہے۔(۲)اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری ، ان کی خیر خواہی اور بھلائی میں ہمیشہ لگا رہے۔(۳)کچھ تحفوں کا بھی لین دین رکھے چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ جب تم لوگ شوربا پکاؤ تو اس میں کچھ زیادہ پانی ڈال کر شوربے کو بڑھاؤ تاکہ تم لوگ اس کے ذریعہ اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری اور ان کی مدد کر سکو۔(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والاداب ،باب الوصیۃ بالجاروالاحسان الیہ، ص1413، حدیث:2625)(٤)پڑوسی کے مال عزت آبرو کے معاملے میں بہت احتیاط برتے ان کی پردہ پوشی کرے، اپنی نگاہوں کو پڑوسی کی عورتوں سے دیکھنے سے خاص طور پر بچائے ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے پڑوسیوں کا حق ادا کرنے والا بنائے ۔اٰمین

(5) وہ مؤمن نہیں ہوسکتا: نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تین بار ارشاد فرمایا:اللہ پاک کی قسم! وہ مؤمن نہيں ہو سکتا۔ صحابَۂ کرام عَلَیْھِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی: يارسولَ اللہ! وہ کون ہے؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمايا: جس کی برائيوں سے اس کاپڑوسی محفوظ نہ رہے۔(بخاری،ج4،ص104، حدیث: 6016)

(6) اسلام میں پڑوسی کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کسی شخص کے کامل مؤمن ہونے اور نیک و بَد ہونے کا معیار اس کے پڑوسی کو مقرر فرمایا، چنانچہ ايک شخص نے عرض کی: يارسولَ اللہ! مجھے ايسا عمل بتایئے کہ جس سے میں جنت ميں داخل ہوجاؤں؟ تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: نيک بن جاؤ۔ اس نے عرض کی: مجھے اپنے نيک بن جانے کا عِلم کيسے ہوگا؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنےپڑوسیوں سے پوچھو اگر وہ تمہیں نيک کہيں تو تم نيک ہو اور اگر وہ بُرا کہيں تو تم بُرے ہی ہو۔ (شعب الایمان،ج 7،ص85، حدیث: 9567)

(7) اسلام کی پاکیزہ تعلیمات ایسے شخص کو کامل ایمان والا قرار نہیں دیتیں کہ جو خود تو پیٹ بھر کر سو جائے اور اُس کے پڑوس میں بچے بھوک و پیاس سے بِلبلاتے رہیں، چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو خود شکم سير ہو اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو وہ ایمان دار نہيں۔(معجمِ کبیر،ج 12،ص119، حدیث: 12741)

(8) پڑوسیوں سے حُسنِ سلوک تکمیلِ ایمان کا ذریعہ جبکہ انہیں ستانا، تکلیف پہنچانا، بَدسلوکی کے ذریعے ان کی زندگی کو اجیرن بنا دینا، دنیا و آخرت میں نقصان کا حقدار بننا اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تکلیف پہنچانے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس کے شر سے اُس کا پڑوسی بے خوف نہ ہو وہ جنّت میں نہیں جائے گا۔(مسلم، ص 43، حدیث: 73)

(9) دوسری روایت میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنے پڑوسی کو تکلیف دی بے شک اُس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اُس نے اللہ کو ايذا دی، نیز جس نے اپنے پڑوسی سے جھگڑا کيا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور جس نے مجھ سے لڑائی کی بے شک اس نے اللہ سے لڑائی کی۔(الترغیب والترہیب،ج3،ص286، حدیث: 3907)

(10)پڑوسی کے حقوق بیان فرماتے ہوئے نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر وہ بيمار ہو تو اس کی عِيادت کرو، اگر فوت ہوجائے تو اس کے جنازے ميں شرکت کرو، اگر قرض مانگےتو اسے قرض دے دو اور اگر وہ عيب دار ہوجائے تو اس کی پَردہ پوشی کرو۔( معجمِ کبیر،19/419، حدیث: 1014)

(11) ایک اور روایت میں یوں ارشاد فرمایا: اگر وہ تم سے مدد طلب کرے تو اس کی مدد کرو اور اگر وہ محتاج ہو تو اسے عطا کرو، کیا تم سمجھ رہے ہو جو میں تمہیں کہہ رہا ہوں؟ پڑوسی کا حق وہی لوگ ادا کرتے ہیں جن پر اللہ پاک کا رحم و کرم ہوتا ہے۔(الترغیب والترہیب،ج3،ص243، حدیث:3914 )

(12) ايک اور روايت ميں فرمایا: اگر وہ تنگدست ہوجائے تو اسے تسلی دو، اگر اسے خوشی حاصل ہو تو مبارک باد دو، اگر اُسے مصیبت پہنچے تو اس سے تعزيت کرو، اگر وہ مر جائے تو اس کے جنازے ميں شرکت کرو، اس کی اجازت کے بغير اس کے گھر سے اونچی عمارت بنا کر اس سے ہَوا نہ روکو، سالن کی خوشبو سے اسے تکلیف نہ پہنچاؤ، ہاں! یہ کہ اسے بھی مٹھی بھر دے دو تو صحیح ہے، اگر پھل خريد کر لاؤ تو اسے بھی اس ميں سے کچھ تحفہ بھیجو اور ايسا نہ کر سکو تو اسے چھپا کر اپنے گھر لاؤ اور پڑوسی کے بچوں کو تکلیف دینے کے لیے تمہارے بچے پھل لے کر باہر نہ نکلیں۔ (شعب الایمان،ج7،ص83، حدیث: 9560)

(13) بسا اوقات پڑوسی سے کتنا ہی اچھا سلوک کیاجائے وہ احسان ماننے کے بجائے پریشان ہی کرتا رہتا ہے ایسے میں اسلام بُرے کے ساتھ بُرا بننے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ صبر اور حُسنِ تدبیر کے ساتھ اُس بُرے پڑوسی کے ساتھ حُسنِ سلوک کی ترغیب ارشاد فرماتا اور اس بُرے سُلوک پر صبر کرنے والے کو رضائے الٰہی کی نوید بھی سناتا ہے۔ جیسا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ پاک تین طرح کے لوگوں سے مَحبّت فرماتا ہے(ان میں سے ایک وہ ہے) جس کا بُرا پڑوسی اسے تکلیف دے تو وہ اُس کے تکلیف دینے پر صبر کرے يہاں تک کہ اللہ پاک اس کی زندگی يا موت کے ذريعے کفايت فرمائے۔(معجمِ کبیر،ج2،ص152، حدیث: 1637)

مُعَاشَرے کو پُر سکون اور اَمْن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لیےپڑوسیوں کے متعلق اسلام کے احکامات پر عمل کیا جائے تو ہر ایک اپنی عزت و آبرو اور جان و مال کو محفوظ سمجھنے لگے گا۔

ہر کسی کو چاہیے کہ اپنے آپ کو نفسانی خواہشات وہر قباحت سے بچاتے ہوئے اللہ پاک اور تمام مخلوق کے حقوق کا بھی خیال رکھے ۔ چونکہ حق تلفی بھی گناہ ہے اپنے پڑوسیوں سے ہمدردی خوش اخلاقی ان کے تمام حقوق کی پاسداری کرنے اور ہمیں رازداری و حقوق کا پاس رکھنے کیلئے ہر وقت کوشاں رہنا چاہیے نیز تمام برئیوں سے اجتناب کرکے اللہ ورسول عزوجل وصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے زندگی گزارنی چاہیے ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ہر برائی سے محفوظ رکھے اور ہمیں اسلامی اسلوب کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ امین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔