پیارے اسلامی بھائیو! روز مرہ کے مختلف معاملات میں جن
اَفراد کے ساتھ بندے کا تعلق ہوتا ہے ان میں ایک پڑوسی بھی ہے ، پڑوسی کو بڑی
اہمیت حاصل ہے ، اسی لیے اسلام میں تفصیل کے ساتھ پڑوسیوں کے حقوق بیان
کیے گئے ہیں ، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم، صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اور بزرگانِ
دِین کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اپنے مسلمان پڑوسیوں کے حُسن سلوک
کی وجہ سے کئی غیر مسلم دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے ، ایک مسلمان پر لازم ہے کہ
اپنے پڑوسی کے ساتھ بھلائی کرے ، خوشی غمی میں اُس کا ساتھ دے ، اس کی طرف سے
تکلیف پہنچے تو صبر کرے ، وہ مصیبت میں مبتلا ہوتو اس کی مدد کرے ، وہ بیمار ہوتو
اس کی عیادت کرے ، اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرے۔
پڑوسی وہ
ہے جو ہمارے گھر کے قریب ہو ان کا ہم پر بہت بڑا حق ہے اگر وہ نسب میں ہم سے قریب
ہو اور مسلمان بھی ہوتو اس کے تین حق ہیں (1)پڑوسی کا حق(2)قرابت داری کا حق(3)اور
اسلام کا حق۔ اسی طرح اگر وہ قریبی ہے لیکن مسلمان نہیں ہے اس کے دو حق ہیں ایک
پڑوسی ہونے کا حق اور دوسرا قرابت داری کا اور رشتہ میں دور ہے اور مسلمان بھی
نہیں تو اسکا ایک حق ہے یعنی پڑوسی کا حق، اللہ اور اُس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُمت کو
جن باتوں کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پڑوسیوں کی رعایت کی جائے اور
ان کے حقوق کی معلومات حاصل کی جائے اور ادا کیے جائیں۔ اللہ پاک قراٰنِ پاک
میں اِرشاد فرماتا ہے :﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى
وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ
وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ
اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور
محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور
اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)
(1) قریب اور دور کے ہمسائے:اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک نے اپنی عبادت
کرنے اور کسی کو شریک نہ ٹھہرانے کا حکم دینے کے بعد والدین ، رشتہ داروں ،
یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا اور ان کے بعد قریب اور
دور دونوں طرح کے پڑوسیوں سے بھلائی اور اچھا سلوک کرنے کا حکم ارشاد
فرمایاہے،ان پڑوسیوں کے بارے میں دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے ’’مکتبۃ المدینہ‘‘
کی مطبوعہ 495 صفحات پر مشتمل کتاب صراط الجنان جلد2 صفحہ201 پر تفسیراتِ احمدیہ
کے حوالے سے لکھا ہے : قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا
ہوا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر
سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور
وہ جو صرف پڑوسی ہو، رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور
مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور وہ جو صر ف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا
ہمسایہ ہے۔
(2)نیز اللہ
پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو اللہ اور
یوم آخرت یعنی(آخرت کے دن) پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے پڑوسی سے نیک سلوک کرنا
چاہیے۔(مسلم کتاب الایمان) اللہ پاک اور اُس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ مؤمن ہونے
کی حیثیت سے تم پر پڑوسی کا حق یہ ہے کہ جب وہ بیمار پڑے تو عیادت کرو،قرض طلب کرے
تو اُسے قرض دو،خوشی میں ہوتو مبارک باد دو،مصیبت زدہ ہوتو تسلی دو،اسے اسلام میں
پہل کرو،بات نرمی سے کرو،اُس کے دین اور دنیا کی درستگی میں اُس کی رہنمائی
کرو،اُسکے عُیوب کی تلاش میں نہ رہو،اُس کی لغزشوں سے درگزر کرو، اس کی طرف کوڑا
کرکٹ پھینک کر اُس کو اِیذَا نہ دو یہ سب باتیں ہمسایہ کے ساتھ احسان اورحسن سلوک
کے ذیل میں آتی ہیں۔
(3) اپنے
پڑوسی کے ساتھ خواہ کتنا بھی احسان کرو اُس کو زیادہ سمجھو کیونکہ اُس کے ساتھ حسن
سلوک کرنے سے اللہ پاک کی طرف سے اَجر عَظْیم اور بلند درجات حاصل ہوتے ہیں
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے وحی الہٰی کی تعمیل میں پڑوسی کے حقوق کی اتنی تاکید فرمائی
ہےکہ:آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
ارشاد ہے: جبرئیل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے بارے میں برابر تاکید اور تلقین کرتے
رہے یہاں تک کہ میں نے گمان(خیال)کیا کہ وہ اسے یقیناً وارث قرار دے دیں گے۔
(مسلم، کتاب الادب)
(4)ایک پڑوسی
کا دوسرے پڑوسی پر یہ حق ہے کہ جہاں تک ہوسکے اُسکے ساتھ بھلائی کرے اور تحفہ
تحائف کا تبادلہ کرے ۔ رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب تم شوربے والا سالن پکاؤ تو اُس کا
شوربہ زیادہ کرلیا کرو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھا کرو۔(مسلم، کتاب البر والصلہ)
(5)حضرتِ سیِّدُنا
ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے
روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! فلاں عورت نماز وروزہ، صدَقہ
کثرت سے کرتی ہے مگر اپنے پڑوسیوں کو زبان سے تکلیف بھی پہنچاتی ہے۔ سرکارِ
مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ
جہنّمی ہے۔(مُسْنَد اَحمَد،ج4، مسند ابی ھریرہ، ص 635 ، الحدیث : 9926)
ہر مسلمان عورت کو اپنی حیثیت کے مطابق پڑوسن کے یہاں ھدیہ
بھیجتے رہنا چاہیے۔ یہاں تک کہ وہ معمولی چیز کا ھدیہ بھیجنے میں بھی تامل نہ کرے۔
اسی طرح کسی پڑوسن کے یہاں سے آئے ہوئے معمولی ھدیہ کو بھی حقیر نہ جانے بلکہ اسے
خوش دلی سے قبول کرے اور ہدیہ دینے والی کا شکریہ ادا کرے اس سے نہ صرف یہ کہ ایک
دوسرے کے خلاف کینہ اور غصہ دور ہوجاتا ہے بلکہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرنے لگتی
ہیں اور ان کے باہمی تعلقات خوشگوار ہو جاتے ہیں۔
(6)ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر حق یہ ہے کہ اسے کسی طرح کی قولی
یا فعلی تکلیف نہ پہنچائی جائے۔نیز رسول کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن اُس
کے(ھدیہ)کوحقیر نہ سمجھے اگرچہ( اُسکا بھیجا ہوا ھدیہ) بکری کا کھر ہی ہو۔(بخاری، کتاب
الادب)
(7)رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
اللہ کی قسم !وہ مؤمن نہیں ہو سکتا اللہ کی قسم! وہ مؤمن نہیں ہو سکتا،اللہ کی قسم
!وہ مؤمن نہیں ہوسکتا، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا گیا:اے اللہ کے
رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کون؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: وہ شخص جس کا پڑوسی اُس کی شرارتوں سے مخفوظ نہ ہو۔(بخاری ،کتاب الادب)
آج کل اپنے پڑوسیوں کو طرح طرح سے تنگ کیا جاتا ہے ، کبھی
ڈسٹ بن سے کچرے کی تھیلی اُٹھاکر چُپکے سے اس کے دَروازے کے آگے رکھ کر بھاگ جاتے
ہیں ، کبھی اس کے دَروازے کے آگے پانی بہا کر تکلیف دیتے ہیں ، اگر چند منزلہ
عمارت ہے تو آرام کے وقت میز کُرسیاں گھسیٹ کر آرام میں خَلل ڈالتے ہیں یا
بچے زور زور سے شور شرابا کرتے ہوئے کھیلیں گے ، چیزیں پھینکیں گے تو دِیگر گھر
والے انہیں روکیں گے نہیں اور دوسری منزل والے کی آنکھ کھل جائے گی ، کبھی اس بے
چارے کا پانی بند کر دیں گے تو کبھی بارش کے پانی کا رُخ اس کی طرف کر دیں گے ،
کوئی چیز جھاڑیں گے تو دھول مٹی اس بے چارے کے گھر میں جانے دیں گے ، نہ جانے
پڑوسیوں کو کیسی کیسی تکلیفیں دیں گے اور جب وہ بے چارہ فریاد لے کر آئے گا تو اس
کی کوئی شِنوائی بھی نہیں ہوگی۔ غور کر لیجیے! پڑوسی کو تکلیف دینے کی کتنی بڑی
خرابی اور بَدنصیبی ہے۔
پڑوسیوں کو تکلیف دینا:اور ایک روایت میں فرمایا گیا جو اللہ اور یوم آخرت (یعنی آخرت کے دن )پر
ایمان رکھتا ہوتو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔(بخاری) ایک شخص کے گھر میں چوہے
ہو گئے وہ اس کو تنگ کرتے تھے۔ کسی نے مشورہ دیا آپ بلی پال لو ، اس نے کہا : بلی
پالنے سے چوہے میرے گھر سے بھاگ کر میرے پڑوسی کے گھر میں چلے جائیں گے!میں یہ
نہیں کر سکتا ، چوہے میرے گھر میں ہی ٹھیک ہیں۔ جہاں اِس قدر اچھی سوچ والے
ہیں وہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی بَلا دوسروں پر ڈالنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے
ہیں سامنے والا کل کے بجائے آج مرجائے مگر ہماری جیب بھری رہے اور ہم سکون
سے رہیں۔
(8)پڑوسی کا
بہت زیادہ حق ہوتا ہے اور پڑوسی صرف وہی نہیں ہوتا جو گھر کے برابر میں رہتا ہے
پڑوسی کے بارے میں بھی قیامت کے دِن سُوال ہوگا کہ پڑوس کا حق ادا کیا یا نہیں؟ ان
پڑوسیوں کو بھی آرام پہنچانا ہے ، یا نہیں کہ خود پھیل کر بیٹھ جائیں اور برابر
والے کو جگہ ہی نہ ملے ، عموماً رش میں ایسا ہوتا ہے خوب پھیل کر بیٹھتے اور
ٹانگیں پھیلا لیتے ہیں۔ کاش یہ جَذبہ نصیب ہوجائے کہ ہم خود تکلیف اُٹھالیں لیکن
اپنے بھائی کو آسانی پہنچائیں اگر ایسا کریں گے تو دُنیا و آخرت میں
آسانیاں نصیب ہوں گی۔اِن شآءَ اللہ
(9)اپنے
پڑوسیوں کا خیال رکھنا چاہئے، پڑوسیوں کے حقوق بَہُت زیادہ ہیں ، مؤمن کا
مصدر ایمان، (اَمَنْ) سے ماخوذ ہے جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو وہ مُفسد (فساد
پھلانے والا)اور شَرْ پسند نہیں ہوسکتا۔اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ مؤمن اپنے پڑوسی
کو اِیذَا نہیں دیتا،اس پر ظلم نہیں کرتا،اس پر بہتان(تُہمت)نہیں لگاتا،اُس کی عزت
وآبرو پر حملہ نہیں کرتا۔
بلکہ وہ اَمن وسلامتی کا پیکر ہوتا ہے نہ صرف یہ کہ مؤمن
پڑوسی اُس کے شر، دست درازی سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ غیر مسلم ہمسائے بھی اسکی
شرافت، امانت اور اخلاق پر اعتماد کرتے ہیں۔جو شخص اپنی شرارتوں سے پڑوسی کو
پریشان کرتا رہتا ہو اور اپنی فتنہ انگیزی سے اسکا چین چھین لیتا ہو وہ مؤمن نہیں
یعنی کامل مؤمن نہیں ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے ہمیں
بھی پڑوسیوں کے حقوق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم