اسلام میں پڑوس کو بھی عزت دی جاتی ہے پڑوسیوں کی بھی حقوق ہوتے ہیں آئے کچھ پڑھتے ہیں کہ حق پڑوس کیا ہے کیا حق ہے پڑوسیوں کا ؟ حق پڑوس کے حوالے سے ارشاد امام غزالی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ملاحظہ کیجئے چنانچہ فرماتے ہیں یاد رکھئیے حق پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیا جائے بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو برداشت کرنا بھی حق پڑوس میں شامل ہے کیونکہ ایسا بھی ہوتا ھیکہ ایک شخص اپنے پڑوسی کو تکالیف نہیں پہنچاتا اور وہ اس کے بدلے اسے تکلیف نہیں دیتا حالانکہ اس طرح پڑوس کا حق ادا نہیں ہوتا لہذا صرف تکلیفوں کو برداشت کرنے پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ ضروری ہےکہ اس کے ساتھ نرمی اور اچھے طریقے کے ساتھ پیش آئے۔( احیاء العلوم ، اداب الالفت ، ج2، ص 267 )

معزز قارئین! ہمیں بھی چاہئے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے اگر وہ کسی آزمائش میں مبتلا ہو مثلا اس کا بچہ گم ہوجائے اس کے ہاں فوتگی یا ڈکیتی ہوجائے مکان یا چھت گرجائے آگ لگ جائے یا وہ لائٹ پانی بیماری روزگار گھریلو ناچاکی یا جھوٹے مقدمے جیسے مسائل سے دو چار ہو تو ہمیں فورا اپنی طاقت کے مطابق اس کی حاجت روائی کرتے ہوئے اسے مسائل کی دلدل سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ایسا بہترین عمل ہے کہ جس کی تعلیم خود ہمارا رب کریم ہمیں ارشاد فرمارہا ہے: چناچہ پارہ 5 سورہ نساء کی ایت نمبر 36 میں ارشاد باری تعالی ہے : ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)

اس ایت مقدسہ کے تحت تفسیرات احمدیہ میں ہے کہ قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور وہ جو صرف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔ (تفسیرات احمدیہ، النساء، تحت الایت: ج 36 ، ص 275)

آخری نبی کا فرمان، حق پڑوس کے حوالے سے: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے پھر خود ہی ارشاد فرمایا کہ جب وہ تم سے مدد مانگے مدد کر و ، اور جب قرض مانگے تو قرض دو ، اور جب محتاج ہو تو اُسے دو ، اور جب بیمار ہو عیادت کرو اور جب اسے خیر پہنچے تو مبارک باد ، جب مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو، مرجائے جنازے کے ساتھ جاو، بغیر اجازت اپنی عمارت بلند نہ کرو کہ اُس کی ہوا روک دو ، اپنی ہانڈی سے اس کو ایذا نہ دو مگر اس میں سے کچھ اسے بھی دو ، میوے خریدو تو اس کے پاس بھی ہدیہ کرو، اگر ہدیہ نہ کرنا ہو تو چُھپا کر مکان میں لاؤ ، تمہارے بچے اسے لیکر باہر نہ نکلیں کہ پڑوسی کے بچوں کو رنج ہوگا ، تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے قسم ہے اُس کی جس کی قبضہ قدرت میں میری جان ہے مکمل طور پر پڑوسی کا حق ادا کرنے والے تھوڑے ہیں وہی ہے جن پر اللہ کی مہربانی ہے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑوسیوں کے متعلق مسلسل وصیت فرماتے رہیں یہاں تک کہ لوگوں نے گمان کیا کہ پڑوسی کو وارث کردیں گیں۔

پھر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: پڑوسی 3 قسم کے ہیں بعض کے تین حق ہیں بعض کے دو اور بعض کا ایک حق ہے جو پڑوسی مسلم ہو اور رشتہ دار ہو اس کے تین حق ہیں۔1۔ حق جوار، حق اسلام اور حق قرابت مسلم۔ 2 پڑوسی کے دو حق ہیں حق جوار اور حق اسلام 3 ۔اور غیر مسلم کا صرف ایک حق جوار ہے۔ ( شعب الایمان ، باب فی اکرام الجار ، ج7، ص83، 84،حدیث: 9560 )

ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بھی اپنے پڑوسیوں کا خیال کرے اُن کے حقوق ادا کریں اُنہیں تکلیف ایذا نہ دیں اللہ ہم سب کو پڑوسیوں کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین