محمد عاطف انصاری (درجۂ
ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضان ابو عطار ماڈل کالونی ملیر کراچی، پاکستان)
اس فانی دنیا میں خالق حقیقی نے انسان کو پیدا فرمایا ہے
اور اس کے ذمہ کئی ایک کام بھی ہیں کہ جو انسان کو پورا کرنے چاہئیں اُنہی کاموں
میں سے ایک کام انسان کے اوپر یہ ہے کہ وہ لوگوں کے حقوق کو پورا کرے اب اس میں
بھی کئی ایک حقوق ہیں مثلاً: والدین کے حقوق ، اساتذہ کرام کے حقوق وغیرہ مگر
ہمارا جو اصل ٹاپک (topic) ہے وہ ہے
" پڑوسیوں کے حقوق اس سے متعلق ، مختصر کے معلومات درج ذیل ہے :
حق پڑوس ہے کیا ؟: حجۃ الاسلام حضرت امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یاد رکھئے! حق
پڑوسی صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے اجتناب کیا جائے ، بلکہ پڑوسی کی طرف
سے پہنچنے والی تکلیف کو برداشت کرنا بھی حق پڑوس میں شامل ہے اور اسی طرح حسن اخلاق
سے پیش آنا بھی پڑوسیوں کے حقوق میں شامل ہے چنانچہ پارہ 5 سورۂ نساء کی آیت نمبر
36 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ
داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے
ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)
اس مذکورہ آیت مقدسہ میں جو پڑوسی کا ذکر ہے قریب کے یادور کے
تو اسکی مختصر وضاحت درج ذیل ہے : رشتہ دار پڑوسی: یہ وہ ہمسائے ہیں جو رشتہ دار
بھی ہیں ان کا حق دیگر ہمسایوں کی نسبت مقدم ہے ۔ اجنبی پڑوسی: اِس سے مراد وہ
ہمسایہ ہے جو رشتہ دار نہیں ہے صرف اسکا درجہ پہلے والے سے کم ہے۔ ہم نشین یا پہلو
کا ساتھی : جس کے ساتھ دن رات کا اٹھنا بیٹھنا ہو، اصطلاح کے مطابق ایک گھر یا
عمارت میں رہنے والے مختلف لوگ دفتر، فیکٹری یا کسی ادارے میں اسکول و کالج میں
پڑھنے والے طلبہ ، دوست اور دیگر ملنے جلنے والے لوگ شامل ۔
40 گھروں پر خرچ کیا کرتے :حضرت سیدنا عبد اللہ بن ابی بکر رحمۃ اللہ علیہ اپنے پڑوس
کے گھروں میں سے دائیں بائیں اور آگے پیچھے 40۔ 40 گھروں کے لوگوں پر خرچ کیا کرتے
تھے، عید کے موقع پر انہیں قربانی کا گوشت اور کپڑے بھیجتے اور ہر عید پر 100 غلام
آزاد کیا کرتے تھے ۔ ( المستطرف ،1/ 276)
پڑوسیوں کے عام حقوق :پڑوسیوں کے کئی ایک حقوق ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
حجۃ الاسلام حضرت سید امام محمد غزالی رحمۃ اللہ تعالی
پڑوسیوں کے حقوق بیان فرماتے ہیں: پڑوسیوں کے ساتھ سلام میں پہل کریں، ان کے ساتھ
طویل گفتگو نہ کریں۔ جب وہ بیمار ہوں تو ان کی عیادت کریں۔ ان کی خوشی میں شرکت
کریں، اپنے گھر کی چھت سے ان کے گھر میں مت جھانکیں وغیرہ۔ (احیاء العلوم، 2/772)
اور جب آپ اپنے گھر والوں کیلئے کچھ پھل وغیرہ لائیں اور آپ
اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ آپ اپنے پڑوسی کیلئے بھی پھل وغیرہ لیں تو آپ کو چاہیے
کہ پھل کے چھلکوں کو گلی میں نہ پھینکیں (یہ تو ویسے بھی اچھی بات نہیں) اور پھر
اگر آپ کے پڑوسی نے اسکو دیکھا اور اسکے پاس گنجائش نہ ہوئی لینے کی تو اس کو
تکلیف ہوگی ۔ پہلے سے آپ کی نیت نہ تھی تکلیف دینے پر اس کو ہوئی تو اس سے بھی
اجتناب کریں
اس مذکور مکمل مضمون میں ہم نے کیا کیا سیکھا وہ سب چیزیں
درج ذیل ہیں اس میں ہم نے سیکھا پڑوسی کا حق آخر ہے کیا قراٰنِ پاک کی آیت سے رشتہ
دار ، اجنبی پڑوسی وغیرہ کا فرق معلوم ہوا وہ پڑوسیوں پر خرچ کرنے کی فضیلت، پڑوسیوں
کے حقوق ۔ جو مذکورہ باتیں لکھی گئی ہیں مضمون میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اس
پر خُلوص کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اگر کچھ غلطی کو تاہی ہو گئی
ہو تو اسے بھی اللہ پاک معاف فرمائے ۔امین