اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جو زندگی کے ہر شعبے میں ہماری مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ عبادتِ الٰہی کا طریقہ ہو یا اطاعتِ نبوی کا سلیقہ ہو، والدین سے حسنِ سلوک کا انداز ہو،تجارت و معشیت کے اصول ہوں،جزاء و سزا کے قانون ہوں یا حقوق العباد ہوں۔ اسلام کی یہ رہنمائی ہر مقام پر، ہر موڑ پر موجود ہے اور اسلام کی یہ رہنمائی کل بھی موجود تھی آج بھی موجود ہے اورتا قیامت موجود رہےگی۔ واضح رہے کہ حقوق العباد بھی دین کا ایک انتہائی اہم شعبہ ہے اور انہیں شعبوں میں سے ایک شعبہ پڑوسیوں کے حقوق بھی ہے۔

قرآن کریم میں اللہ پاک کا فرمان ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی( کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔ اس آیت میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں بیان کیے گئے ہیں۔ اللہ کا بندوں پر حق یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو عبادت میں شریک نہ ٹھہرائیں اور بندوں کے آپس میں حقوق کئی طرح کے ہیں جن میں سے ایک قسم پڑوسیوں کے حقوق ہیں۔

اسلام نے پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے پر بہت زور دیا ہے اور پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کی صرف ترغیب نہیں دی بلکہ اسکی حدود مقرر فرما کر باہمی خوشگوار تعلقات پر بہت زور دیا ہے۔اسی سلسلے میں دین اسلام نے ہر انسان پر اس کے پڑوسی کے کچھ حقوق عائد فرمائے ہیں۔

پڑوسی کسے کہتے ہیں؟ پڑوسی کو عربی میں جار کہتے ہیں۔ وہ پڑوسی جو رشتہ دار ہو، یا وہ پڑوسی جو مسلمان ہو، یا وہ پڑوسی جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو،قریب کا پڑوسی کہلاتا ہے اور وہ پڑوسی جو مسلمان نہ ہو،یا جو رشتہ دار نہ ہو،یا جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو، دور کا پڑوسی کہلاتا ہے۔

پڑوسیوں کے 5حقوق درج ذیل ہیں:

1۔ پڑوسیوں کا خیال رکھنا: حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ارشاد فرمایا: جبریل امین مجھے پڑوسیوں کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے خیال کیا کہ وہ انہیں وارث بنا دیں گے۔(بخاری، 4/104، حدیث: 6014)ہمارے آج کے معاشرے میں اس حق میں بہت لا پرواہی برتی جا رہی ہے۔ چغلی، حسد، جھوٹ جیسے گناہوں کا ارتکاب بہت بڑھ رہا ہے۔ یاد رہے کہ اپنے مسلمان بھائی کا خیال رکھنا کامل ایمان کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔

2۔ تعزیت کرنا: تعزیت کا معنیٰ ہے تسلی دینا۔ پڑوسی کو اگر کوئی تکلیف پہنچے تو اس کی تعزیت کریں۔ اگر اس کی تکلیف کو دور کرنا ممکن ہو تو دور کریں اگر ممکن نہ ہو تو تسلی دیں۔ یاد رہے کہ اس مقصد سے تعزیت کرنا کہ ان کا غم تازہ ہو، تکلیف میں اضافہ ہو اس طرح تعزیت کرنا جائز نہیں۔ بلکہ تعزیت سے مراد ہر وہ کام اختیار کرنا جس سے غمزدہ کا غم شرعی حدود کے مطابق کم ہو تعزیت کہلاتا ہے۔

3۔ تحفہ بھیجنا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اے ابو ذر! جب تم شوربا پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ رکھو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھو۔ (مسلم، ص 1413، حدیث: 2625)ہمسایوں کو تحفہ بھیجنے کا حکم اس لیے ہے کہ اس سے آپس میں پیار و محبت بڑھتی اور خوشگوار تعلقات قائم ہوتے ہیں۔

4۔ ایذا رسانی سے پرہیز کرنا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! وہ ہر گز مومن نہیں ہوسکتا (تین مرتبہ یہ جملہ ارشاد فرمایا) عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول کون؟ فرمایا: جس کی مصیبت کی وجہ سے اس کا پڑوسی امن میں نہ ہو۔ (بخاری، 4/ 104، حدیث: 6016)

5۔ عیادت کرنا: پڑوسی اگر بیمار ہو تو اس کی مزاج پرسی کرے کہ عیادت کرنا سنت مبارکہ ہے اور جس طرح مدد کی ضرورت ہو، مدد کرے۔

اللہ پاک ہمیں ہمارے اسلاف کی راہ پر چلتے ہوئے پڑوسی کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین