ہمارا اسلام کتنا پیارا مذہب ہے کہ جو نہ صرف ہمیں والدین اور رشتے داروں کے ساتھ بھلائی کا درس دیتا ہے بلکہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ ہمیں اپنے قریبی اور دور کے پڑوسیوں سے کیسا سلوک کرنا چاہئے؟ قرآن پاک میں الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی( کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔ اس آیت کی تفسیر میں قریب کے ہمسائے سے مراد جس کا گھر آپ کے گھر سے ملا ہوا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد جس کا گھر آپ کے گھر سے ملا ہوا نہ ہو۔ پڑوسیوں کے حقوق قرآن پاک کے علاوہ بہت سی احادیث میں بیان کئے گئے ہیں ان میں سے چند ملاحظہ فرمائیں:

1۔ حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: جبرئیل مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری، 4/104، حدیث: 6014)

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: خدا کی قسم وہ مومن نہیں (تین مرتبہ اس کو دہرایا) عرض کی گئی: کون یارسول الله؟ فرمایا: وہ شخص کہ اس کے پڑوسی اس کی آفتوں سے محفوظ نہ ہوں۔ (بخاری، 4/ 104، حدیث: 6016)

3۔ حضرت جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: جب کوئی شخص ہانڈی پکائے تو زیادہ کرے اور پڑوسیوں کو اس میں سے کچھ دے۔ (معجم اوسط، 2/379، حدیث: 3591)

4۔ فرمان مصطفیﷺ ہے: کیا تم جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟ اگر وہ تم سے مدد مانگے تو اس کی مدد کرو، قرض مانگے تو قرض دو، اگر محتاج ہو تو اس کو کچھ دو، بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو، مرجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جاوٴ۔ (مرقاۃ المفاتیح، 8/69، تحت الحدیث: 4243)

5۔ جو شخص الله اور پچھلے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کا اکرام کرے۔ (مسلم، ص 44، حدیث: 47) ان آیات اور احادث سے معلوم ہوا کہ ہمیں اپنے کو تکلیف نہیں دینی چاہئے بلکہ ان کا اکرام کرنا چاہئے اور ان کے حقوق جو ہم پر ہیں ان کو پورا کرنا چاہئے۔