کہا جاتا ہے ”ہمسایہ اور ماں جایا برابر ہونے چاہئیں“ مگر افسوس مسلمان یہ باتیں بھول گئے، قرآن کریم میں پڑوسی کے حقوق کا ذکر فرمایا، بہرحال پڑوسی کے حقوق بہت ہیں، ان کے ادا کی توفیق رب تعالیٰ سے مانگیے۔ عبادات کی درستی سے بھی زیادہ اہم ہے معاملات کی درستی، پڑوسی سے ہر وقت معاملہ رہتا ہے اس لیے اس سے اچھا برتاؤ کرنا بہت ضروری ہے، اس کے بچوں کو اپنی اولاد سمجھیے، اس کی عزت و ذلت کو اپنی عزت و ذلت سمجھیے، پڑوسی اگر کافر بھی ہو تب بھی پڑوسی کے حقوق ادا کیجیے۔ یاد رکھیے! ہمسائیگی کچھ حقوق کا تقاضا کرتی ہے جو ان حقوق کے علاوہ ہیں جن کا اخوت اسلامی کا تقاضا کرتی ہے، ایک مسلمان جن باتوں کا مستحق ہوتا ہے ان تمام کا اور ان سے کچھ زائد کا مسلمان ہمسایہ مستحق ہوتا ہے، یہاں تک کہ حدیث پاک میں کسی شخص کے کامل مؤمن ہونے اور نیک و بد ہونے کا معیار اس کے پڑوسی کو مقرر فرمایا، نیز ایک حدیث پاک میں یوں فرمایا: جو اپنے پڑوسی کا حق تلف کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ (مطالب عالیہ، 7/118، حدیث: 2604) نیز پڑوسی کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث پاک سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ارشاد ہوا: حضرت جبرائیل مجھے ہمیشہ پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے خیال کیا کہ وہ اسے وارث بناکر چھوڑیں گے۔ (بخاری، 4/104، حدیث: 6014)جہاں تک پڑوسی کے حقوق کا تعلق ہے تو جان لینا چاہیے کہ پڑوسی کے حقوق عام مسلمانوں کے حقوق سے بھی زیادہ ہیں۔ آئیے پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں حکمِ ربانی سنتے ہیں: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی( کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔ معزز قارئین کرام! بہت سی احادیث مبارکہ میں پڑوسیوں کے کئی حقوق بیان کیے گئے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔

پڑوسی کا حق کیا ہے: نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟ پھر ارشاد فرمایا: اگر وہ تم سے مدد چاہے تو اس کی مدد کرو، اگر تم سے قرض مانگے تو اسے قرض دو، اگر محتاج ہو تو اس کی حاجت پوری کرو، اگر بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت کرو، اگر وہ فوت ہوجائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو، اگر اسے کوئی بھلائی پہنچے تو مبارکباد دو اور اگر کوئی مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو، اس کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے اونچا گھر نہ بناؤ کہ اسے ہوا نہ پہنچے، اسے تکلیف نہ پہنچاؤ، اگر تم کوئی پھل خرید کر لاؤ تو اس میں سے پڑوسی کو بھی کچھ بھیجو، اگر ایسا نہ کرسکو تو چھپا کر لے جاؤ اور اپنے بچوں کو بھی وہ پھل گھر سے باہر نہ لانے دو کہ پڑوسی کے بچے اس پھل کی وجہ سے غمگین ہوں گے اور اپنی ہنڈیا کی خوشبو سے بھی پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچاؤ مگر یہ کہ کچھ سالن اسے بھی بھیج دو۔ یہ فرمانے کے بعد آ پ نے ارشاد فرمایا: جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! پڑوسی کا حق صرف وہی ادا کرسکتا ہے جس پر اللہ رحم فرمائے۔ (شعب الایمان، 7/83، حدیث: 9560)

عزت کرنا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے پڑوسی کی عزت کرنی چاہیے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)اور ایک دوسری روایت میں ہے: جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کا اکرام کرے جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔ (مسلم، ص 44، حدیث: 47) حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کا یہودی پڑوسی سفر میں گیا اس کے بال بچے گھر رہ گئے، رات کو یہودی کا بچہ روتا تھا، آپ نے پوچھا کہ بچہ کیوں روتا ہے، یہودن بولی گھر میں چراغ نہیں ہے بچہ اندھیرے میں گھبراتا ہے، اس دن سے آپ روزانہ چراغ میں خوب تیل بھر کر روشن کر کے یہودی کے گھر بھیج دیا کرتے تھے، جب یہودی لوٹا اس کی بیوی نے یہ واقعہ سنایا یہودی بولا کہ جس گھر میں بایزید کاچراغ آگیا وہاں اندھیرا کیوں رہے وہ سب مسلمان ہوگئے۔ (مراۃ المناجیح، 6/817)

تکلیف نہ دینا: تاجدار رسالت ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو ہرگز تکلیف نہ دے۔ (مسلم، ص 43، حدیث: 47) حضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: پڑوسی کی حاجت پوری کرنے کے لیے اس کی مدد کرے، اس سے برائی دور کرے اور اس پر حصوصی عطائیں کرے تاکہ وعید کا مستحق نہ ہو۔ مزید فرماتے ہیں: حضرت قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے: جو شریعت اسلامیہ کا التزام کرنا چاہیے اس کے لیے پڑوسی اور مہمان کا اکرام اور ان کے ساتھ بھلائی سے پیش آنا بھی لازم ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، 8/69، تحت الحدیث: 4243)

خیال رکھنا: حدیث پاک میں پڑوسیوں سے خیرخواہی کرنے کی ترغیب آئی ہے، چنانچہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے ابو ذر! جب شوربا پکاؤ تو اس کا پانی زیادہ کرو اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو۔ (مسلم، 1413، حدیث: 2625)

پڑوسیوں کے متفرق حقوق: پڑوسیوں کے ساتھ سلام میں پہل کرے، ان کے ساتھ طویل گفتگو نہ کرے، ان کے حالات کے بارے میں زیادہ سوال نہ کرے، جب وہ بیمار ہوں تو ان عیادت کرے، مصیبت کے وقت ان کی غم خواری کرے، مشکل وقت میں ان کا ساتھ دے، خوشی میں ان کو مبارکباد دے، ان کی خوشی میں شرکت کرے، ان کی لغزشوں کو معاف کرے، اپنے گھر کی چھت پر سے ان کے گھر میں مت جھانکے، ان کی دیوار پر شہتیر رکھ کر ان کے پرنالے میں پانی گراکر اور ان کے صحن میں مٹی وغیرہ ڈال کر انہیں تکلیف نہ پہنچائے، ان کے گھر کے راستے کو تنگ نہ کرے، جو کچھ وہ اپنے گھر لے جارہے ہوں اس پر نظر نہ گاڑے، اگر ان کے عیوب اس پر ظاہر ہوں تو انہیں چھپائے، اگر انہیں کوئی حادثہ پیش آجائے تو فورا ان کی مدد کرے، پڑوسیوں کی غیر موجودگی میں ان کے گھر کی حفاظت کرنے میں غفلت کا مظاہرہ نہ کرے، ان کے خلاف کوئی بات نہ سنے، ان کی مستورات کے سامنے نگائیں نیچی رکھے، ان کی خادمہ کی طرف ٹکٹکی باندھ کر نہ دیکھے، ان کی اولاد کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرے، دین و دنیا کے جس معاملے میں انہیں رہنمائی کی ضرورت ہو اس میں ان کی رہنمائی کرے۔

پڑوسیوں کو تکلیف دینے کی مختلف صورتیں: اس کے دروازے کے سامنے کچرا ڈال دینا، دروازے کے پاس شور کرنا، بچوں کا بالخصوص سونے کے اوقات میں شور کرنا، وقت بےوقت کیل وغیرہ ٹھونکنا، دیوار میں سوراخ کرنے کے لیے ڈرل مشین چلانا، مصالحہ وغیرہ پیسنے کے لیے رات کے اوقات میں آواز دینے والا گرینڈر چلانا، ایک ہی بلڈنگ میں رہنے کی صورت میں سیڑھیاں چڑھتے ہوئے زور زور سے پاؤں چٹخانا، اونچی آواز سے ٹیپ ریکارڈر یا ڈیک وغیرہ بجانا، اپنے گھر کا فرش دھونے کے بعد پانی پڑوسیوں کے گھر کے سامنے چھوڑ دینا، ان کے بچوں کو جھاڑنا مارنا وغیرہ۔ اللہ پاک ہمیں ان تمام باتوں سے بچائے۔

یاد رکھیے! حقِ پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیا جائے بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو برداشت کرنا بھی حقِ پڑوس میں شامل ہے، کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا اور وہ اس کے بدلے اسے تکلیف نہیں دیتا حالانکہ اس طرح پڑوس کا حق ادا نہیں ہوتا، لہٰذا صرف تکلیفوں کو برداشت کرنے پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ ضروری ہے کہ اس کے ساتھ نرمی اور اچھے طریقے سے پیش آئے۔

معزز قارئین کرام! اسلام میں پڑوسی کے حقوق کی بہت اہمیت ہے، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ہمسایوں کے حقوق کا خیال رکھیں اور جس طرح ممکن ہو ان کے ساتھ باہمی تعاون بھی کریں، اس سے نہ صرف معاشرے میں امن و امان قائم ہوگا بلکہ ایک دینی معاشرہ بھی تشکیل پائے گا جو دین اسلام کے افکار و احکام کی عکاسی کرتا نظر آئے گا۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنے پڑوسیوں کے حقوق کی پاسداری کرنے کی توفیق رفیق مرحمت فرمائے۔