یادرکھئے! ہمسائیگی کچھ حقوق کا تقاضا کرتی ہے جو ان حقوق کے علاوہ ہیں جن کا اخوت اسلامی تقاضا کرتی ہے۔ ایک مسلمان جن باتوں کا مستحق ہوتا ہے ان تمام کا اور ان سے کچھ زائد کا مسلمان ہمسایہ مستحق ہوتا ہے۔

پڑوسی کی اقسام: سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: پڑوسی تین قسم کے ہیں: (1) وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہوتا ہے۔ (2) وہ پڑوسی جس کے دو حق ہوتے ہیں اور (3) وہ پڑوسی جس کے تین حق ہوتے ہیں۔ مسلمان رشتہ دار پڑوسی کے تین حق ہیں: حقِ پڑوس، حقِ اسلام اور رشتہ داری کا حق۔ مسلمان پڑوسی کے دو حق ہیں: حقِ پڑوس اور حقِ اسلام۔ مشرک پڑوسی کا صرف ایک حق ہے: حق پڑوس۔ (شعب الایمان، 7/83، حدیث: 9560) اس حدیث پاک میں غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے مشرک کے لئے بھی صرف پڑوس کے باعث حق ثابت فرمایا۔ رسول پاک ﷺ نے پڑوسی کے بہت سارے حقوق بیان فرمائے ہیں جن میں سے چند پیشِ خدمت ہیں:

پڑوسیوں کے حقوق:

1۔ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کر تو (کامل) مسلمان ہو جائے گا۔(ابن ماجہ، 4/475، حدیث: 4217)

2۔ محبوب رب ذوالجلال ﷺ نے ارشاد فرمایا: جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟ پھرارشاد فرمایا: اگر وہ تم سے مدد چاہے تو اس کی مدد کرو، اگر تم سے قرض مانگے تو اسے قرض دو، اگر محتاج ہو تو اس کی حاجت پوری کرو، اگر اسے کوئی بھلائی پہنچے تو مبارکباد دو اور اگر کوئی مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو، اس کی اجازت کے بغیر اس کے گھرسے اونچا گھر نہ بناؤ کہ اسے ہوا نہ پہنچے، اسے تکلیف نہ پہنچاؤ، اگر تم کوئی پھل خرید کر لاؤ تو اس میں سے پڑوسی کو بھی کچھ بھیجو، اگر ایسا نہ کر سکو تو چھپا کر لے جاؤ اور اپنے بچوں کو بھی وہ پھل گھر سے باہر نہ لانے دو کہ پڑوسی کے بچے اس پھل کی وجہ سے غمگین ہوں گے اور اپنی ہنڈیا کی خوشبو سے بھی پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچاؤ مگر یہ کہ کچھ سالن اسے بھی بھیج دو۔ یہ فرمانے کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا: جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! پڑوسی کا حق صرف وہی ادا کر سکتا ہے جس پر اللہ رحم فرمائے۔ (شعب الایمان، 7/83،حدیث:9560)

3۔ کہیں پڑوسی کو وارث نہ بنا دیا جائے: حضرت امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما کی خدمت میں حاضر تھا، ان کا غلام بکری کی کھال اتار رہا تھا تو آپ نے فرمایا: اے غلام! جب تو کھال اتار لے تو سب سے پہلے ہمارے یہودی پڑوسی کو دینا حتی کہ آپ نے یہ جملہ کئی بار فرمایا۔ غلام نے کہا: آپ کتنی بار یہ کہیں گے؟ فرمایا: رَسُولُ الله ﷺ ہمیں مسلسل پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے حتی کہ ہمیں خدشہ ہوا کہ کہیں پڑوسی کو وارث نہ بنادیں۔ (ترمذى، 3/379، حدیث: 1949)

4۔ سالن پکاؤ تو پڑوسی کو بھی کچھ دو: حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل ﷺ نے وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جب تم ہنڈیا پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ رکھو پھر اپنے کچھ پڑوسیوں کو دیکھ کر اس میں سے کچھ ان کو دو۔ (مسلم،ص2595، حدیث: 2625)

5۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: میرے دو پڑوسی ہیں ان میں سے ایک میرے دروازے کے سامنے رہتا ہے اور دوسرا دروازے سے کچھ دور اور بعض اوقات میرے پاس موجود چیز اتنی ہوتی ہے کہ دونوں کو دینے کی گنجائش نہیں ہوتی، لہذا ان دونوں میں سے کس کا حق زیادہ ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کا دروازہ تمہارے سامنے ہے۔ (بخاری، 2/174، حدیث: 2595)

6۔ پڑوسی سے جھگڑا نہ کرو: خلیفہ اول امیر المؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حضرت عبد الرحمٰن رضی الله عنہ کو دیکھا کہ وہ اپنے پڑوسی سے جھگڑ رہے ہیں تو آپ نے ان سے فرمایا: اپنے پڑوسی سے مت جھگڑو کیونکہ لوگ چلے جاتے ہیں جبکہ یہ بات باقی رہ جاتی ہے۔(کنز العمال، 5/79، حدیث:25599)

7۔ پڑوسی کے گھر کی دیوار کے سائے کا حق: ابن مقفع کو یہ خبر ملی کہ اس کا پڑوسی قرض کی ادائیگی کی وجہ سے اپنا گھر بیچ رہا ہے چونکہ ابن مقفع اس کے گھر کی دیوار کے سائے میں بیٹھتا تھا کہنے لگا: اگر اس نے مفلس ہونے کی وجہ سے اپنا گھر بیچ دیا جب تو میں نے اس کے گھر کے سائے کا بھی حق ادا نہ کیا۔ یہ کہہ کر ابن مقفع نے اس کے گھر کا ثمن ادا کیا اور اس سے کہا: گھر مت بیچو۔(احیاء العلوم، 1/771)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور پڑوسی کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین