پڑوسیوں کے
حقوق از بنت محمود حسین، فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
پڑوسی وہ ہے جو ہمارے گھر کے قریب ہو ان کا ہم پر
بہت بڑا حق ہے اگر وہ نسب میں ہم سے قریب ہوں اور مسلمان بھی ہوں تو ان کے تین حق
ہیں: پڑوسی کا حق، قرابت داری کا حق اور اسلام کا حق۔ اسی طرح اگر وہ قریبی ہے
لیکن مسلمان نہیں تو اس کے دو حق ہیں: پڑوسی ہونے کا اور قرابت داری کا۔ اور رشتہ
میں دور ہے اور مسلمان بھی نہیں تو اس کا ایک حق ہے یعنی پڑوسی کا حق۔
اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ نے امت کو جن باتوں کا
حکم دیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پڑوسیوں کی رعایت کی جائے اور ان کے حقوق
پہچانے اور ادا کئے جائیں، چنانچہ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ
5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی۔
1۔ حدیث مبارکہ میں آقا کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اگر وہ بيمار ہو تو اس کی عِيادت کرو، اگر فوت ہوجائے تو اس کے جنازے ميں شرکت
کرو، اگر قرض مانگےتو اسے قرض دے دو اور اگر وہ عيب دار ہوجائے تو اس کی پَردہ
پوشی کرو۔ ( معجم کبیر، 19/419، حدیث: 1014)
2۔ رسولُ کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک تین طرح کے
لوگوں سے مَحبّت فرماتا ہے(ان میں سے ایک وہ ہے) جس کا بُرا ”پڑوسی“ اسے تکلیف دے
تو وہ اُس کے تکلیف دینے پر صبر کرے یہاں تک کہ اللہ اس کی زندگی يا موت کے ذريعے
کفايت فرمائے۔ (معجم کبیر، 2/152، حدیث: 1637)
3۔ ارشاد فرمایا: جس کے شر سے اس کا پڑوسی بے خوف
نہ ہو وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ (مسلم شریف، ص 43، حدیث:73 )
4۔ ارشاد فرمایا: جو خود شکم سیر ہو اور اس کا
پڑوسی بھوکا ہو وہ ایمان دار نہیں۔ (معجم کبیر، 12/ 119، حدیث:12741)
اس سے معلوم ہوا کہ پڑوسیوں کے حق ادا کرنے کی کس
قدر اہمیت ہے۔ معاشرے کو پر سکون اور امن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لئے پڑوسیوں
کے متعلق اسلام کے احکامات پر عمل کیا جائے تو ایک پر امن معاشرہ بن سکتا ہے۔ اللہ
کریم عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ