اسلام نے جہاں ماں باپ اور عزیز و اقارب کے ساتھ
حسنِ سلوک، ہمدردی و اخوت، پیار و محبت، امن و سلامتی اور ایک دوسرے کے دکھ میں
شریک ہونے کی تعلیم دی ہے وہیں مسلمان کے قرب و جوار (پڑوسی) کو محروم نہیں رکھا
بلکہ انکی جان و مال اور اہل و عیال کی حفاظت کا ایسا درس دیا ہے کہ اگر ان
تعلیمات پر عمل کیا جائے تو ایک مدنی معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے جہاں ہر کوئی دوسرے
کی جان و مال اور عزت کا محافظ ہو دوسروں کے حقوق کو اپنا فرضِ عین سمجھے۔
قرآنِ کریم میں بھی پڑوسی سے اچھا سلوک کرنے کی تلقین
ارشاد فرمائی گئی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ
الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء:
36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی(کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔
آئیے احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں پڑوسی کے حقوق جاننے
سے پہلے یہ جان لیتی ہیں کہ حقوق کہتے کسے ہیں؟
چنانچہ حقوق جمع ہے حق کی جس کے معنیٰ ہیں فرد یا
جماعت کا ضروری حصہ۔ (معجم وسیط، ص 188)
پڑوسیوں کے حقوق:
1۔ نبی کریم ﷺ نے تین بار ارشاد فرمایا: الله کی
قسم! وہ مومن نہیں ہو سکتا۔ صحابہ کرام نے عرض کی: یا رسول الله! وہ کون ہے؟ آپ ﷺ
نے ارشاد فرمایا: جس کی برائیوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ رہے۔ (بخاری، 4/ 104، حدیث:
6016)
2۔ اسلام میں پڑوسی کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ
رسول الله ﷺ نے کسی شخص کے کامل مومن ہونے اور نیک و بد ہونے کا معیار اس کے پڑوسی
کو مقرر فرما دیا۔
اسلام کی پاکیزہ تعلیمات ایسے شخص کو کامل ایمان
والا قرار نہیں دیتیں جو خود تو پیٹ بھر کر سو جائے مگر اس کا پڑوسی بھوکا پیاسا
رہے۔ چنانچہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو خود شکم سیر ہو اور اس کا پڑوسی
بھوکا ہو وہ ایمان دار نہیں۔ (معجم کبیر، 12/119، حدیث: 12741)
3۔ پڑوسی سے حسنِ سلوک تکمیل ایمان کا ذریعہ جبکہ
ان کو ایذا دینا اور انکی حق تلفی کر دینا ان سے بدسلوکی کرنا دنیا و آخرت کے
نقصان کا حقدار بنا سکتی ہے، جیسا کہ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: جس کے شر سے اس کا پڑوسی
بے خوف نہ ہو وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ (مسلم، ص43، حدیث:73)
4۔ پڑوسی کو تکلیف دینا پیارے آقا ﷺ کو تکلیف دینے
کے مترادف ہے۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: جس نے اپنے پڑوسی کو تکلیف دی بے شک اس نے مجھے
تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے الله پاک کو ایذا دی نیز جس نے پڑوسی سے
جھگڑا کیا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور جس نے مجھ سے لڑائی کی بے شک اس نے الله سے
لڑائی کی۔ (ترغیب و ترہیب، 3/286، حدیث: 3907)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے
روایت ہے کہ تاجدارِ رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: جبرائیل مجھے پڑوسی کے متعلق برابر
وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری، 4/104،
حدیث: 6014)
5۔ فرمانِ صدیقِ اکبر رضی الله عنہ: اپنے پڑوسی کے
ساتھ جھگڑا مت کرو کیونکہ یہ تو یہیں رہے گا لیکن جو لوگ تمہاری لڑائی کو دیکھیں
گے وہ یہاں سے چلے جائیں گے اور مختلف قسم کی باتیں بنائیں گے۔ (کنز العمال، 5/79،
حدیث:25599)
6۔ مزید پڑوسی کے حقوق میں یہ بھی ہے کہ جب وہ
بیمار ہو اسکی عیادت کی جائے، اگر فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کی جائے
اگر عیب دار ہو جائے تو اس کی پردہ پوشی کی جائے، مدد طلب کرے تو اسکی مدد کی جائے،
اسکی خوشی میں مبارک باد دی جائے اور مصیبت میں اسکی تعزیت کی جائے۔
7۔ ایک حدیثِ مبارکہ میں ہے: سالن کی خوشبو سے
پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچاؤ، ہاں! یہ کہ اسے بھی مٹھی بھر دے دو تو صحیح ہے، اگر پھل
خرید کر لاؤ تو اسے بھی اس میں سے کچھ تحفہ بھیجو اور ایسا نہ کر سکو تو اسے چھپا
کر اپنے گھر لاؤ اور پڑوسی کے بچوں کو تکلیف دینے کے لیے تمہارے بچے پھل لے کر
باہر نہ نکلیں۔ (شعب الایمان، 7/83، حدیث: 9560)
الله پاک ہمیں پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کو
ہر طرح کی اذیت پہنچانے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین