ہمسائیگی کو عربی میں جوار کہا جاتاہے اور پڑوسی کو جار کہتے ہیں۔ اسلام سب سے پہلا اور آخری مذہب ہے جس نے خوشگوار اور مطمئن معاشرہ پیدا کرنے کے لئے انسانی زندگی کوکوئی انفرادی اور اجتماعی پہلو ایسانہ چھوڑا جس سے ہمیں واسطہ نہ پڑتا ہو چنانچہ ر ہائش اور سکونت کے لحاظ سے سب سے زیادہ واسطہ ہر ایک کو اپنے ہمسایہ یعنی پڑوسی سے پڑتا ہے اس لئے اللہ تعالی اور اس کے نبی ﷺ نے ہمسایوں کے ساتھ حسن معاشرت خوشگوار رہن سہن اور بودو باش کے لئے بھی صرف ترغیب نہیں دی بلکہ اس کے حدود مقرر کر کے تقریبا ایک معاشرتی نظام بنا کر باہمی خوشگوار تعلقات پر زور دیا۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ قرآن حکیم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے حقوق جوار میں دوسرے لوگوں کو بھی شامل فرمایا ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی۔

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ہمسائے تین قسم کے ہوتے ہیں: ایسے لوگ جو ہمسایہ ہونے کے ساتھ رشتہ دار بھی ہوں۔ ایسے لوگ جو قرب و جوار میں رہتے ہوں لیکن رشتہ دار نہ ہوں۔ وہ لوگ جو ہم نشین اور دوست ہوں۔ انسان کا انسان کے ساتھ حق تلفی کا معاملہ حقوق العباد میں سرفہرست بڑا جرم اور بڑا گناہ ہے۔ ہمارے ہاں عموماً ہمسایوں کی اس طرح کی شکایات آج کل عام ہیں: بسنت کا غیر اسلامی تہوار کئی کبیر گناہوں کا ایک ساتھ منانا اور اس دوران گانے، باجے، میوزک، آتش بازی، لڑکوں لڑکیوں کا اجتماعی شور شرابہ اور فائرنگ کرنا وغیرہ عام ہے۔ دوسری بات روزانہ ہمسایوں کو تنگ کرنے کیلئے اونچے اسپیکر پر گانے لگا کر سننا جو عموماً انتہائی غلیظ اور واہیات، عشقیہ فتنے کا سبب ہوتے ہیں۔ تیسری بات ہمسایوں کو اونچی آوازوں میں اپنے گھر کے اندر شور شرابہ کر کے تنگ کرنا، بیماروں بوڑھوں، کم نیند کے مریضوں وغیره کو تنگ کرنا بھی بڑا گناہ ہے یہ تمام سال جاری رہنے والے غیر اخلاقی رویے ہمسایوں کے حقوق کی ادائیگی نہ کرنے کی حرکتیں ہیں جس کا گناہ ہوگا۔ نیز اس سے ایک دوسرے سے ناراضگی، بول چال کے خاتمے یا کشیدہ تعلقات لڑائی جھگڑے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، کسی نیند کرتے ہوئے کو تنگ کرنا شریعت میں سخت منع ہے، بڑے بے مثال اخلاق ان بزرگوں کے تھے کہ بیوی سارے دن کے کام کاج سے تھکی ہوئی سوئی ہے تو اس کی نیند اپنی رات کی عبادات کیلئے خراب کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔

ایک اہم معاشرتی کمزوری ہمسائیوں کا رات سونے کے وقت دیر سے گھر واپس لوٹنا ہے۔ اللہ پاک نے رات آرام سکون اور اگلے دن جسم کو کام کاج و عبادات کیلئے تندرست وتوانا رکھنے کیلئے بنائی ہے۔ ہمارے ہاں مرد خواتین راتوں کو دیر سے گھر آنے کے مرض مبتلا ہو گئے ہیں اس سے گھر میں اپنی محرم خواتین انتہائی تھکاوٹ بیماری کے باوجود انتظار میں جاگنے یا خاوند یا بیٹے کیلئے رات گئے دروازہ کھولنے کے تکلیف دہ عمل کا شکار ہوتی ہیں اس عادت بد کی وجہ سے محلے دار جو گہری نیند سور ہے ہوتے ہیں وہ ہمسائے کے بار بار اپنے اہل خانہ کو جگانے کیلئے گھنٹی بجانے، دروازہ زور زور سے پیٹنے یا گاڑی موٹر سائیکل کے لگاتار ہارن بجانے سے جاگ جاتے ہیں اور ان کی نیند ہمسایوں کی وجہ سے خراب ہو جاتی ہے۔ بعض مریض ایسے ہوتے ہیں جن کو دوبارہ فطری طور پر جلدی نیند نہیں آتی بعض لوگ قدرتی طور پر ایسی نیند کے عادی ہوتے ہیں کہ ایک دفعہ آنکھ کھلنے سے دوبارہ نہیں آتی یا ایسے بوڑھے لوگ جو کم سوتے ہیں وہ بہت اذیت سے گزرتے ہیں مسلمان کو تکلیف پہنچانا حرام ہے، گناہ کبیرہ ہے اس کا بھی آخرت میں گناہ ہوگا۔ محلہ داروں ہمسایوں میں ایک دوسرے کے گھر کے سامنے کوڑے کچرے کے تھیلے یا گندگی پھینکنا بھی بڑا برا عمل ہے۔ ہمیں تو حضور ﷺ نے حکم دیا ہے کہ کوئی مسلمان اگر راستے میں پتھر، کانٹا، شیشہ یا نقصان دہ چیز دیکھے تو ہٹا دے یہ نیکی ہے ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کے گھروں کے آگے اپنے گھر کو صاف کر کے گندگی بکھیرنے کی عادات بھی معاشرے کے ماحول میں صفائی نہ ہونے کی بڑی وجہ ہے ہمیں اپنے ہمسایوں میں اپنے اعمال سے شرافت، ہمدردی، قربانی، اعلی اخلاق، دوستی، غمگساری، اللہ کے نام پر خرچ کرنا، برے وقت کام آنا، روٹی، دوائی، دعاؤں جیسے تحفے دینے اور معاشرتی حقوق کی ادائیگی کیلئے ہر گھڑی تیار اور اسلامی طرز معاشرت کے اصول اپنانے چاہئیں تا کہ ہم اپنے نیک مقبول اعمال حقوق العباد ( انسانوں مسلمانوں) میں کوتاہی کر کے برباد نہ کر دیں ہم یہی سمجھتے رہیں کہ ہم نے نماز روزہ و ز کو ۃ یا حج کے فرائض ادا کئے ہیں اور دوسری طرف وہ تمام غلط کام کرتے رہیں جس سے مسلمانوں کے حقوق ادا نہ ہوتے ہوں۔

اس لئے معلوم ہوا کہ اسلام نے صرف مسلمان ہمسایہ کے ساتھ ہی نیک سلوک کا حکم نہیں دیا بلکہ غیر مسلم ہمسایہ کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے کی تعلیم دی ہے۔ اس سلسلے میں حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: غیر مسلم ہمسایہ کا ایک حق ہے، مسلمان ہمسایہ کے دوحق اور مسلمان رشتہ دار اور ہمسایہ کے تین حق ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ایسے ہمسایوں پر ناراضگی کا اظہار فرمایا جو ہمسایہ کی ضرورت کے وقت معمولی ضرورت کی چیز اپنے ہمسایہ کونہ دیں۔