اسلام نے جہاں والدین عزیز و اقارب کے ساتھ حسن سلوک، اخوت و ہمدردی اور پیار و محبت کی تعلیم دی ہے وہیں قرب و جوار میں بسنے والوں کو بھی محروم نہیں رکھا۔ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے خوشگوار اور مطمئن معاشرہ پیدا کرنے کے لئے انسانی زندگی کا انفرادی اور اجتماعی کوئی پہلو ایسا نہ چھوڑا جس سے ہمیں واسطہ نہ پڑتا ہو چنانچہ رہائش اور سکونت کے لحاظ سے سب سے زیادہ واسطہ اپنے ہمسائے یعنی پڑوسی سے پڑتا ہے اس لئے الله پاک اور اس کے پیارے حبیب ﷺ نے ہمسایوں کے ساتھ حسن معاشرت خوشگوار رہن سہن کے لئے صرف ترغیب نہیں دی بلکہ اس کے حدود مقرر کر کے ایک معاشرتی نظام بنا کر باہمی خوشگوار تعلقات پر زور دیا پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ایسا بہترين عمل ہے کے جس کی تعلیم خود ہمارا رب ہمیں ارشاد فرما رہا ہے، چنانچہ پارہ 5 سورۂ نساء کی آیت نمبر 36 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی۔

دیکھا آپ نے اسلام کتنا پیارا مذہب ہے جو نہ صرف ہمیں والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ بھلائی کا درس دیتا ہے بلکہ یہ بھی سکھاتا ہے کہ ہمیں اپنے قریبی اور دور کے ہمسایوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہیے، قرآن کریم کے علاوہ احادیث مبارکہ میں بھی کثرت کے ساتھ پڑوسیوں کی اہمیت ان کے ساتھ حسن سلوک بجا لانے اور ان کے حقوق کی بجا آوری کا ذہن دیا گیا ہے، چنانچہ

1۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا حق کیا ہے ؟ پھر خود ہی ارشاد فرمایا: جب وہ تم سے مدد مانگے مدد کرو اور جب قرض مانگے قرض دو اور محتاج ہو تو اسے دو اور جب بیمار ہو عیادت کرو اور جب اسے خیر پہنچے تو مبارک باد دو اور جب مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو اور مر جائے تو جنازے کے ساتھ جاؤ اور بغیر اجازت اپنی عمارت بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا روک دو اور اپنی ہانڈی سے اس کو ایذا نہ دو، مگر اس میں سے کچھ اس کو بھی دو اور میوے خریدو تو اس کے پاس بھی ہدیہ کرو اور اگر ہدیہ نہ کرنا ہو تو چھپا کر مکان میں لاؤ اور تمہارے بچے اسے باہر لے کر نہ نکليں کہ اس سے پڑوسی کو رنج ہو گا۔ تمہیں معلوم ہے پڑوسی کا حق کیا ہے؟ قسم ہے اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! مکمل طور پر پڑوسی کا حق ادا کرنے والے تھوڑے ہیں اور وہ وہی ہیں جن پر الله پاک کی مہربانی ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، 8/69، تحت الحدیث:4243) حضور ﷺ مسلسل پڑوسیوں کے متعلق وصیت فرماتے رہے یہاں تک کے لوگوں نے گمان کیا پڑوسی کو وارث کر دیں گے۔(بخاری، 4/104، حدیث: 6014)

2۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے پڑوسی کو ایذا دی بیشک اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے الله پاک کو ایذا دی جس نے اپنے پڑوسی سے جھگڑا کیا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور جس نے مجھ سے لڑائی کی بیشک اس نے الله پاک سے لڑائی کی۔ ( کنزالعمال، 5/25، حدیث:24922)

2۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بہت سے پڑوسی قیامت کے دن اپنے پڑوسیوں کا دامن پکڑ لیں گے، مظلوم پڑوسی عرض کرے گا:یا رب! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھ پر اپنا دروازہ کیوں بند کر رکھا تھا اور اپنی ضرورت سے زائد چیزيں مجھ سے کیوں روکی تھیں۔ (مکاشفۃ القوب، ص 579)

پڑوسیوں کے عام حقوق: حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ پڑوسیوں کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: پڑوسیوں کے ساتھ سلام میں پہل کرے۔ ان کے ساتھ طویل گفتگو نہ کرے۔ ان کی عورتوں کے سامنے نگاہيں نیچی رکھے۔ ان کی اولاد کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرے۔ دین و دنیا کے معاملے میں انہيں رہنمائی کی ضرورت ہو تو ان کی رہنمائی کرے۔ (احیاء العلوم، 2 /772)

الله کریم ہمیں پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین