ماں باپ بہن بھائی اور رشتے داروں کے بعد پڑوسیوں کے بے شمار حقوق بیان کیے گئے ہیں اور ہم پر یہ حقوق لازم ہیں۔ سرکار مدینہ، راحت قلب و سینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا پڑوسی تین قسم کے ہیں۔ (1) وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہوتا ہے۔ (2) وہ پڑوسی جس کے دو حق ہوتے ہیں۔ (3) وہ پڑوسی جس کے تین حق ہوتے ہیں۔ مسلمان رشتہ دار کے تین حق ہیں، حق اسلام اور رشتہ داری کا حق،مسلمان پڑوسی کے دو حق ہیں، حق پڑوس اور حق اسلام۔ مشرک، پڑوسی کا صرف ایک حق ہے حق پڑوس۔ (شعب الایمان، 7/83، حدیث: 9560 ) اس حدیث پاک میں غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے مشرک کا بھی صرف پڑوس کے باعث حق ثابت فرمایا۔

پڑوسی کو وارث نہ بنا دیا جائے: حضرت امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا ان کا غلام بکری کی کھال اتار رہا تھا تو آپ نے فرمایا: اے غلام! جب تو کھال اُتارے تو سب سے پہلے ہمارے پڑوسی کو دینا حتی کہ آپ نے یہ جملہ کئی بار فرمایا۔ غلام نے کہا: آپ کتنی بار یہ کہیں گے؟ فرمایا: رسول اللہ ﷺ ہمیں مسلسل پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے حتی کہ ہمیں

خدشہ ہوا کہ کہیں پڑوسی کو وارث نہ بنا دیں۔ (ترمذی، 3/379، حدیث: 1949)

پڑوسیوں کے حقوق:

1۔ پڑوسیوں کے ہم پر جو حقوق ہیں ان میں سے پہلا یہ ہے کہ ان کی عزت کی جائے عزت کی حفاظت کی جائے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6019)

2۔ پڑوسیوں کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کے ساتھ سلام میں پہل کرے سلام میں پہل تو ہر مسلمان کے ساتھ کرنی چاہیے لیکن یہاں خاص بیان کیا گیا کہ پڑوسیوں سے سلام میں پہل کی جائے تاکہ ان کے دل میں محبت پیدا ہو سکے۔

3۔ پڑوسی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اگر وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کی جائے۔ یعنی اپنے پڑوسی کی ہر حالت پر نظر ہو اور اگر وہ بیمار ہو، پریشان ہو تو اس کی عیادت کی جائے۔

4۔ پڑوسی سے جھگڑا نہ کرنا بھی ایک حق ہے کہ خلیفہ اول امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ اپنے پڑوسی سے جھگڑا کر رہے ہیں تو آپ نے ان سے فرمایا: اپنے پڑوسی سے مت جھگڑو کیونکہ لوگ چلے جاتے ہیں جبکہ یہ بات باقی رہ جاتی ہے۔(کنز العمال، 5/79، حدیث:25599)

5۔ پڑوسیوں کا ہم پر ایک یہ بھی حق ہے کہ مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیا جائے یعنی اگر اس کو مالی کوئی پریشانی ہو یا اگر ان پر قرض ہو تو اُس معاملے میں بھی ان کی مدد کی جائے۔ اور ان حقوق کو کون ادا کر سکتا ہے اس بارےمیں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! پڑوسی کا حق صرف وہی ادا کر سکتا جس پر اللہ رحم فرمائے۔ (شعب الایمان، 7/73، حدیث: 9560) اس حدیث مبارکہ سے ہمیں یہ پتا چلا کہ پڑوسیوں کے حقوق صرف وہی ادا کرسکتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور یہ بات بھی کہ جو اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوتا ہے اس پر ہی رحم کیا جاتا ہے اس لیے ہمیں چاہیئے کہ ہم پڑوسیوں کے حق ادا کریں کیونکہ یہ حقوق العباد میں سے ہے اور یہ تب تک معاف نہیں ہوں گے جب تک یہ لوگ خود معاف نہیں کریں گے اس لیے ہمیں اس دنیا میں ہی ان سے معافی مانگنی چاہیے بلکہ یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم ان کو کوئی بھی تکلیف نہ دیں۔ اللہ پاک ہمیں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں احسن طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین