دینِ اسلام کا حسن یہ ہے کہ اس نے حقوق الله کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی طرف بھی مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ اگر ان پر عمل کیا جائے تو اچھا معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔ حقوق العباد میں سے ایک اہم حق حقِ پڑوسی ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی۔ (کے ساتھ بھلائی کرو)

پڑوسی کون؟ قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو، رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور وہ جو صرف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔ (تفسیرات احمدیہ، ص 275)

پڑوسیوں کے چند حقوق زینتِ قِرطاس کیے جا رہے ہیں:

1) پڑوسیوں سے حسنِ سلوک کرنا: پڑوسی کا حق یہ ہے کہ اس سے اچھا سلوک کیا جائے کہ یہ تکمیلِ ایمان کا ذریعہ ہے۔ تاجدارِ رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: جبرئیل مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری، 4/ 104، حدیث: 6014)

2) تحفوں کا لین دین: پڑوسیوں کو وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ تحفۃً دیتے رہنا چاہیے اس سے محبت بھی بڑھتی ہے اور ان کی خبرگیری اور مدد بھی ہو جاتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ میرے دو پڑوسی ہیں ان میں سے کسے ہدیہ دیا کروں فرمایا: جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو۔ (بخاری، 2/173، حدیث: 2595)

3)قولی و فعلی تکلیف سے پڑوسی کو بچانا: پڑوسی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اسے کوئی بھی تکلیف نہ پہنچائی جائے نہ قول سے اور نہ فعل سے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو الله تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو نہ ستائے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)

4) پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی مصیبت پر صبر کرنا: حضرت امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یادرکھئے! حقِ پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیاجائے، بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو برداشت کرنا بھی حقِ پڑوس میں شامل ہے۔ (احیاء العلوم، 2/ 267)

آقا کریم ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے: جن لوگوں سے اللہ محبت فرماتا ہے ان میں وہ شخص بھی شامل ہے جس کا بُرا پڑوسی اسے ايذا دے تو وہ اس کی ايذا رسانی پر صبر کرے یہاں تک کہ اللہ اس کی زندگی يا موت کے ذريعے کفايت فرمائے۔ (معجم کبیر، 2/152،حدیث:1637)

ہمیں ان احادیث پر عمل کرنا ہے تاکہ خوشگوار اور پُرسکون معاشرہ تشکیل پائے ورنہ

لطف تو جب ہے کہ کردار بھی کروٹ بدلے

ورنہ جذبے تو لیا کرتے ہیں انگڑائی بہت

الله پاک ہمیں اسلامی تعلیمات کے مطابق پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین