وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔ کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں اس کی مذمت بیان کی گئی ہے چند ملاحظہ فرمائیں:

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو (نا حق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، 4/358، حدیث: 6871)اس احادیث میں بتایا جا رہا ہے کہ جو بڑے کبیرہ گناہ ہیں ان میں سے ایک گناہ کسی کو ناحق قتل کرنا ہے۔

2۔ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والے شخص کے بارے میں فرمایا جاتا ہے کہ ایسا شخص قیامت کے دن بہت خسارے میں ہوگا۔

3۔ اگر زمین وآسمان والے اگر کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالی سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔ (معجم صغیر، 1/ 205)اس حدیث میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ جو لوگ مسلمان کے قتل پر جمع ہوں گے تو انہیں اللہ اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا ذرا سوچیے کہ صرف مسلمان کے قتل پر جمع ہونے والوں کی یہ سزا بیان کی گئی ہے تو جو کسی مسلمان کا ناحق قتل کرے گا وہ کیسے دنیا اخرت میں ذلیل و رسوا ہوگا دنیا میں الگ سے شریعت کے مطابق سزادی جائے گی اور اخرت میں الگ سے عذاب دیا جائے گا۔

4۔ جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)افسوس کہ آج کل قتل کرنا ہمارے معاشرے میں بہت معمولی کام ہو گیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دیتے ہیں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے ہمارے معاشرے کے کچھ لوگوں کا کام ہی قتل و غارت کرنا ہے۔

5۔ مسلمان کو گالی دینا فسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔ (بخاری، 4/11، حدیث: 6044)

مسلمانوں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا یعنی (کسی مسلمان کو قتل کیا) تو یہ کرنے والا کافر ہو جائے گا کیونکہ قتل و غارت کی مذمت قران پاک میں بیان کی گئی ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔

اللہ پاک ہمیں قتل و غارت جیسے کبیرہ گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


 کسی مسلمان کو بغیر کسی شرعی مجبوری کے ناجائز ظلماً قتل کرنا، نا حق قتل کرنا ہے۔ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا کفر کے بعد کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ ہے۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی مسلمان مرد کا جو لااِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی گواہی اور میری رسالت کی شہادت دیتا ہو خون صرف تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں حلال ہے: 1۔ نفس کے بدلے میں نفس، 2۔ ثیب زانی (شادی شدہ زانی) اور 3۔ اپنے مذہب سے نکل کر جماعت اہلِ اسلام کو چھوڑ دے (مرتد ہو جائے یا باغی ہو جائے)۔ (بخاری، 4/361، حدیث:6878)یہاں قتل سے مراد قتل عمد ہے کیونکہ قصاص صرف قتل عمد میں ہے قتل خطاء یا قتل شبہ عمد میں قصاص نہیں صرف دیت ہے جیسا کہ گزر چکا۔

2۔ آقا کریم ﷺ نے فرمایا: اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، 1/ 205)

افسوس آج کل قتل کرنابڑا معمولی سا کام ہو گیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے ماردینا غنڈہ گردی، دہشت گردی وغیرہ کرنا عام ہو گیا ہے مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے گروپ جتھے اور عسکری ونگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارت گری کرنا ہے۔ (صراط الجنان، 2/276)

خلا صہ کلام: اگر کسی مسلمان کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور اگر قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تو یہ گناہ کبیرہ ہےاور ایسا شخص مدت دراز تک جہنم میں رہے گا۔

رب تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمام امتِ محمدیہ کو اِس اور تمام کبیرا گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین 


وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بے شک ایک مومن کا قتل کیا جانا اللہ کے نزدیک دنیا کے تباہ ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے۔

2۔ جب دو مسلمان تلواریں لئے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں تو قاتل و مقتول دونوں آگ میں ہیں۔ (راوی فرماتے ہیں) میں نے عرض کی: یار سول الله! قاتل تو واقعی اس کا حق دار ہے مگر مقتول کا کیا قصور ہے؟ ارشاد فرمایا: وہ بھی تو اپنے مقابل کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ (بخاری، 1/23، حدیث: 31)

ناحق قتل کی مذمت اور حکم: مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا کبیره گناہ ہے ناحق قتل کرنے والے کو دنیا اور آخرت میں سزا دی جائے گی مسلمانوں کے قتل کو حلال سمجھ کر قتل کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز تک جہنم میں رہے گا۔

مسلمان کو ناحق قتل کرنے والے کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوگی، مسلمانوں کو قتل کرنے والے کی نفلی اور فرض عبادت بھی ردّ کر دی جائے گی۔(ابو داود، 4/ 139، حدیث: 4270)

انسانی حرمت و تقدس کو پامال کرکے اپنے اَعمال و عبادات کو ذریعہ نجات سمجھنے والے اِنتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو جان لینا چاہیے کہ روزِ محشر نہ صرف ان کی عبادات ردّ کر دی جائیں گی بلکہ ان کے لیے عذابِ جہنم ہے اور ان کے لیے بالخصوص آگ میں جلنے کے عذاب کی دردناک وعید بھی ہے۔

اللہ پاک ہمیں ایسے گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ 


دنیا کے پہلے قتل سے لے کر اب تک بے شمار لوگ طبعی موت کے بجائے قتل ہوکر دنیا سے رخصت ہوچکے مگر تاحال یہ سلسلہ رُکا نہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تیزی آتی جارہی ہےاورنِت نئے طریقوں سے لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے، جس کا کوئی پیارا قتل ہوتا ہے اس پر جو گزرتی ہے، اسے کن کن مسائل کا سامنا ہوتا ہے! یہ حقیقتاً وہی سمجھ سکتا ہے۔افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہےیہ جبکہ قرآن پاک اور حدیث مبارکہ میں شدت کے ساتھ اس کی مذمت آئی ہے، اللہ پاک قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ کنز الایمان: جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا۔

احادیث مبارکہ میں بھی اس کی وعید بیان ہوئی ہے چند ملاحظہ فرمائیں:

فرامینِ مصطفیٰ:

(1) بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری،4/358، حدیث: 6871)

(2) بارگاہِ الٰہی میں مقتول اپنے قاتل کو پکڑے ہوئے حاضر ہوگا جبکہ اس کی گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا، وہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! اس سے پوچھ، اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ پاک قاتل سے دریافت فرمائے گا: تُونے اسے کیوں قتل کیا؟ وہ عرض کرے گا: میں نے اسے فلاں کی عزّت کے لئے قتل کیا، اسے کہا جائے گا: عزّت تو اللہ ہی کے لئے ہے۔ (معجم اوسط، 1/224، حدیث:766)

(3)کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، 1/ 205)

(4) قیامت کے دن سب سے پہلے خون ِناحق کے بارے میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔ (مسلم، ص711، حدیث: 4381) حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: خیال رہے کہ عبادات میں پہلے نماز کا حساب ہوگا اور حقوق العباد میں پہلے قتل و خون کا یا نیکیوں میں پہلے نماز کا حساب ہے اور گناہوں میں پہلے قتل کا۔ (مراۃ المناجیح،2/306)

(5) ہر گناہ کے بارے میں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ بخش دے گا۔ لیکن جو شرک کی حالت میں مرگیا اور جس نے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردیا اُن دونوں کو نہیں بخشے گا۔ (ابو داود، 4/139، حدیث: 4270)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ کسی مسلمان کو قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ اگر مسلمانوں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز تک جہنم میں رہے گا۔

مولائے کریم قاتلوں کوشریعت کے تقاضو ں کے مطابق سچّی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے،ہمیں اس گُناہ کے اِرتکاب سے بچائے اور ہمارے معاشرے سے قتل وغارت کے ناسُور کو دُور فرمائے۔

کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا کفر کے بعد کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ ہے قرآن حدیث میں اس کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

فرامین مصطفیٰ:

1۔ جس نے اس شخص کو قتل کیا جس نے اسلامی حکومت سے معاہدہ کر رکھا تھا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھے گا اور بلاشبہ اس کی خوشبو چالیس سال کی راہ سے پائی جاتی ہوگی۔(بخاری، 2/365، حدیث: 3166)

2۔ بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو ناحق قتل کرنا ہے۔ (بخاری، 4/358، حدیث: 6871)

3۔ کسی شخص پر کسی بھی شخص کاقتل معاف نہیں بلکہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: امید ہے کہ اللہ ہر گناہ معاف فرمائے سوائے اس شخص کے جو حالتِ شرک میں فوت ہو جائے یا اس شخص کے جس نے کسی کا قتل کیاہو۔ (ابو داود، 4/139، حدیث: 4270)

مزید یہ کہ اللہ کے آخری نبی ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: میرے بعد ایک دوسرے کے قاتل بن کر کافر نہ ہوجانا۔ ( صحیح بخاری، 4/435، حدیث: 7080 )

دعا ہے کہ اللہ پاک تمام امت محمدی ﷺ کی جان و مال کی حفاظت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


کسی شخص پر کسی بھی شخص کا قتل معاف نہیں بلکہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: امید ہے کہ الله پاک ہر گناہ معاف فرما دے سوائے اس شخص کے جو حالت شرک میں فوت ہو جائے یا اس شخص کے جس نے کسی کا قتل کیا ہو۔ (ابو داود، 4/139، حدیث: 4270)مزید یہ کہ اللہ کے آخری نبی ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر بھی فرمایا: میرے بعد ایک دوسرے کے قاتل بن کر کافر نہ ہو جانا۔ ( صحیح بخاری، 4/435، حدیث: 7080 )

قاتل کا کوئی عمل قبول ہو گا؟ قاتل کا کوئی عمل بھی قبول نہیں، حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس کسی نے مومن کو قتل کیا اور پھر اس پر خوش ہوا تو اللہ اس کا کوئی عمل حتیٰ کہ فرض اور نفل بھی قبول نہ فرمائے گا۔ (ابو داود، 4/ 139، حدیث: 4270)

افسوس ہے کہ آج کل کے زمانے میں ایک دوسرے کا قتل بالکل عام ہے کہیں جائیداد سے تو کہیں اپنے ذاتی فائدے کے لیے قتل ہو رہے ہیں، کہیں باپ بیٹے کو قتل کر رہا ہے تو کہیں بیٹا باپ کو قتل کر رہا ہے اور کہیں بھائی بھائی کو قتل کر رہا ہے جبکہ ہمارے نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے وہ ایک دوسرے کو قتل نہیں کرتا اور اس سے جھگڑا نہیں کرتا اور اس سے وعدہ خلافی نہیں کرتا لیکن ہمارے زمانے میں اس کے برعکس ہو رہا ہے۔

نبی ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اس زمین و آسمان کے تمام لوگ بھی اگر ایک دوسرے قاتل ہوں تو الله ان سب کو جہنم میں ڈال دے۔ (ترمذی، 3/100، حدیث:1403)

نہ صرف کسی مسلمان کو قتل کرنا بلکہ اگر کسی نے قتل کرنے والے کی ایک ذرہ برابر بھی مدد کی تو روز قیامت لوگ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان یہ لکھا ہوا دیکھیں گے کہ یہ شحص الله کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)

الله پاک ہمیں ایک دوسرے کی جان و مال کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


انسانی زندگی کی بہت اہمیت ہے اور کسی انسان کو قتل کرنا بہت بڑا، برا اور سخت گناہ ہے۔ احادیث میں اس کی بہت وعیدیں بیان ہوئی ہیں۔ زندگی ہر شخص کا حق ہے اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی سے حق زندگی چھین لے، یہ پوری انسانیت کی توہین ہے۔

سب سے پہلا قتل: دنیا میں سب سے پہلا قتل حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی حضرت ہابیل کا کیا۔ رشتے کے تنازع میں ناکامی پر شدید غصے میں آ کر اس نے اپنے بھائی کا قتل کر ڈالا۔ وہ ملعون ہوا اور حضرت آدم نے اسے اپنی بارگاہ سے نکال دیا اور وہ عدن (یمن) کی طرف چلا گیا شیطان کے بڑے ورغلانے پر آگ کی پوجا کرنے لگا۔ اور اسکا انجام یہ ہوا کہ یہ اپنے بیٹے کے ہاتھوں کفر و شرک کی حالت میں مارا گیا اور یہ خود بھی قتل ہوا۔ یوں دنیا میں سب سے پہلا قاتل اور سب سے پہلا آگ کی پوجا کرنے والا قابیل ہی ہوا۔ قیامت تک جو بھی قتل کرے گا وہ قابیل کے عمل پر عمل کرے گا اور اس کا گناہ اس قاتل اور قابیل دونوں کو ہوگا۔

تمام انسانیت کا قتل: جب کوئی شخص کسی انسان کو قتل کرتا ہے تو گویا وہ تمام انسانیت کا قتل کرتا ہے کیونکہ وہ شریعت کی حد کو پار کر کے انسانوں کے حقوق کو پامال کرتا ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ کنز الایمان: جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا۔

بروز قیامت قاتل کا سوال: فرمان مصطفیٰﷺ: بارگاہ الٰہی میں مقتول اپنے قاتل کو پکڑے ہوئے حاضر ہوگا جبکہ اس کی گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا، وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! اس سے پوچھ اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ پاک اس سے دریافت فرمائے گا تو نے اسے کیوں قتل کیا؟ وہ عرض کرے گا: میں نے اسے فلاں کی عزت کے لیے قتل کیا۔ اس سے کہا جائے گا: عزت تو اللہ ہی کے لیے ہے۔ (معجم اوسط، 1/224، حديث:766)

مسلمان کو ناحق قتل کرنے کی مذمت:

مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا ایک بہت بڑا اور بدترین کبیرہ گناہ ہے۔ اس کی قرآن پاک اور احادیث میں بہت زیادہ وعیدیں بیان ہوئی ہیں۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

فرمان مصطفیٰﷺ: قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا۔(مسلم، ص711، حدیث: 4381)

پیاری اسلامی بہنو! دیکھا آپ نے قتل کیسا سنگین عمل ہے کہ بروز قیامت سب سے پہلا فیصلہ اس کا ہوگا کیونکہ یہ حق عبد (یعنی بندوں کا حق) ہے اور یہ تب تک معاف نہیں ہوتے جب تک انسان اسے معاف نہ کر دے۔اور قتل کیسا بڑا گناہ ہے کہ انسان کو جہنم تک پہنچا دیتا ہے اور جہنم کیا ہی برا ٹھکانہ ہے!

اللہ ہم سب کو جہنم سے نجات عطا فرمائے! آمین

مسلمان کے قتل کا حکم: اگر مسلمان کو حلال سمجھ کر قتل کیا تو قتل کرنے والا کافر ہے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور اگر کوئی حرام سمجھتے ہوئے مسلمان کو قتل کرے گا تو مدت دراز تک جہنم میں رہے گا۔

قتل کب جائز ہے؟ فرمان مصطفیٰﷺ: مسلمان کی جان لینا تین وجوہات کے علاوہ جائز نہیں:1۔ جان کے بدلے جان۔ (یعنی اس نے کسی کو قتل کیا اور قصاص کے طور پر اسے قتل کیا جائے) 2۔ شادی شدہ زانی۔ (یعنی شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرنے والا) 3۔ مرتد مسلمانوں کی جماعت کو چھوڑ کر دین سے نکلنے والا (یعنی مسلمان ہونے کے بعد اسلام سے پھر جانے والا)۔ (بخاری، 4/361، حدیث:6878)

مسلمان کا حسن اخلاق: پیاری اسلامی بہنو! الحمد اللہ ہم مسلمان ہیں اور ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اندر اچھا اخلاق پیدا کریں۔ صبر کو لازم پکریں اور لڑائی جھگڑے جیسے برے کاموں سے بچیں کیونکہ یہ گناہ بڑھتے بڑھتے قتل جیسے بدترین گناہ تک پہنچ جاتے ہیں۔

ہمارے پیارے پیارے نبیﷺ بھی ہمیں حسن اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پر نور ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔

جس طرح ایک بھائی اپنے بھائی کا خیر خواہ ہوتا ہے اسی طرح ہمیں بھی دوسرے مسلمانوں کا خیر خواہ ہونا چاہیے۔ جس طرح بھائیوں میں محبت ہوتی ہے اسی طرح اہل ایمان کو بھی آپس میں محبت اور خلوص کا اظہار کرنا چاہیے۔ ایک مسلمان کے برا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔

مزید نبی پاکﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک مسلمان کی جان، مال، عزت و آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ لہذا کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کی نہ جان کو نقصان پہنچائے نہ اسکے مال پر دست درازی کرے اور نہ ہی اپنے مسلمان بھائی کی بے عزتی کرے۔

اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے! ہمیں گناہوں سے بچائے! ہمیں جہنم سے نجات عطا فرما کر جنت الفردوس میں پیارے آقاﷺ کے قدموں میں جگہ عطا فرما دے! میرا، میرے والدین، میرے اساتذہ کرام، میرے مرشد کریم کا سینہ میٹھا مدینہ بنائے اور تمام امت مسلمہ سے راضی ہو کر سب کی بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے۔ آمين


قتلِ ناحق کتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی وجہ سے حضرتِ آدم کا بیٹا اپنے باپ کے دربار سے نکلا اورکفر و شرک میں مبتلا ہو کر مرا۔ اور قیامت تک ہونے والے ہر قتلِ ناحق کا بدلہ آپنے سر لے کر جہنم کا مستحق بنا کہ جو شخص کوئی بُرا طریقہ ایجاد کرے تو قیامت تک جتنے لوگ اس برے طریقے پر عمل کریں گے سب کے گناہ میں وہ جس نے ایجاد کیا حصہ دار ہو گا۔ بلاشبہ دین سلام امن اور سلامتی کا دین ہے یہ وہ دین ہے جس میں راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے پر بھی ثواب ملتا ہے۔ اور اسلام امن پسند دین ہے اس میں انسانی جان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ کر ہے۔ (ترمذی، 3/98، حدیث: 1400)

افسوس بعض لوگ یعنی دہشت گرد تو بے قصور بچوں اور لوگوں کو سکول مساجد میں بم دھماکوں کے ذریعے موت کی نیند سُلا دیتے ہیں، ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔( مسلم، ص 60، حدیث:260)

شریعت میں قتلِ عمد یعنی اسلحہ کے ساتھ جان بوجھ کر قتل کرنے کی سزا دُنیا میں فقط قصِاص یعنی قتل کا بدلہ قتل ہے، مقرر بھی یہی ہے ہاں اگر اولیائے مقتول معاف کردیں یا قاتل سے مال لے کر صلح کر لیں تو یہ بھی ہوسکتا ہے۔ (ظاہر گناہوں کی معلومات، ص 78) خیال رہے کہ ظلماً قتل کرنا ، قتل کرانا یا مدد دینا یا قاتل کی حمایت کرنے والے سب ہی سزا کے مستحق ہیں۔

اللہ پاک قرآن مجیدمیں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

مسلمان آدمی کیسا ہی گنہگار ہو مگر وہ رحمت الہی کی وسعت میں رہتا ہے مگر ظالم قاتل اللہ کی رحمت کا مستحق نہیں رہتا۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، حضور پُر نور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس میں حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)

افسوس ! فی زمانہ ایک گھر سے لے کر عالمی سطح تک اس معاملے میں مسلمانوں کا حال ایسا ہی نظر آ رہا ہے کہ مسلمان اپنے گھر میں بھی بے روزگاری مہنگائی سے تنگ ہوکر مایوسی میں اہل خانہ کو قتل کرنے کے گناہ میں ملوث ہوتے ہیں جبکہ خالق نے رزق دینے کا وعدہ کر رکھا ہے اپنے ہی بہن بھائیوں کے ساتھ جائیداد کی بِنا پر اُن کو قتل کر دیا جاتا ہے آہ صرف یہ دُنیا کی محبت کا نتیجہ ہے، حدیث شریف میں ہے کہ دُنیا کی محبت ہر گناہ کی جڑ ہے، اس کے علاوہ سیاسی معاملات کہ ایک فریق اپنے قائد کی حمایت میں دوسرے گروپ کے ممبر کو قتل کر دیتا ہے۔ شاید ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ بروزِ قیامت معلامات میں پہلے قتلِ ناحق کی متعلق سوال ہوگا تب قاتل کا جواب ہوگا کہ میں نے فُلاں قتل اپنے لیڈر کی ملکیت کی بنا پر کیا میں فلاں کو سپورٹ کرتا اور اُس کا ماتحت تھا اس نے مجھ سے قتل کروایا اسے بھی پکڑ۔ اس سے موجوہ حکومتوں کو سبق لینا چاہیے کہ اُن کی بدانتظامی کی وجہ سے قتل کی جرات روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ نیز اس پیش کردہ روایت پر غور کرنا چاہیے۔

قتل ناحق کا ایک سبب آدمی کا تکبر اور انا بھی ہے کہ بعض اوقات اپنے حق میں معولی سی بے ادبی کرنے والے کو قتل کر دیتا ہے۔ ایک ہی مقصد میں اگر کوئی آگے بڑھنے کی کوشش کرے تو شدید حسد تکبر اور غصے کی وجہ سے قتل کرنے تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ فلاں مجھ سے زیادہ قابل کیسے ہے اُس کی تو اتنی اوقات نہیں کہ مجھ سے پہلے یہ کام کرے وغیرہا۔

قتل ناحق کی مذمت میں 5 مدنی پھول:

(1) ناحق قتل کرنے والے پر اس کا دِین تنگ ہوجاتا ہےاور وہ اپنے اس گناہ کے سبب تنگی میں رہتا ہے۔

(2)ناحق قتل کرنے والا اعمال صالحہ کی توفیق سے محروم ہو جاتا ہے۔

(3)جب بندہ ناحق قتل، شراب وغیرہ گناہوں میں پڑتا ہے تو شیطان اس کے ہاتھ پاؤں بن جاتا ہے اور پھر اسے ہر شر کی طرف لے جاتا ہے اور ہر بھلائی سے پھیر دیتا ہے۔

(4)مؤمن جب تک ناحق قتل نہیں کرتا اسے نیک اعمال میں جلدی کرنے کی توفیق ملتی رہتی ہے۔ لیکن جیسے ہی وہ ناحق قتل میں مبتلا ہوتا ہےتو وہ اس توفیق سے محروم کردیا جاتاہے۔

(5) ناحق قتل کرنے والا کبیرہ گناہ کرنے والا اور رحمت الہی سے محروم ہے۔ لہذا اس گناہ سے بچنے کے لیے خوف خدا پیدا کیجیے۔ انجام یاد رکھیے کہ وقتی جذبات میں یا منصوبہ بندی کے ذریعے ہی یہ قتل کرنا دُنیا اور آخرت میں تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ قاتل کو ملکی قانون کی سزا تو ملے گی ساتھ میں خاندان والوں کو ذلت کا سامنا بھی ہوگا۔ اور دل میں مسلمانوں کے احترام کا ہونا لازمی ہے۔ بے شک ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کی جان کو جلنے ڈوبنے یا قتل سے بچنا پوری انسانيت کو بچنا ہے۔ اس کے لیے علم دین بہترین ذریعہ ہے جس کے سیکھنے سے گناہوں سے بچنے میں بہت مدد ملے گی ان شاء اللہ خوفِ خدا جیسی دولت اور بہت کچھ حاصل ہوگا۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کسی بھی مؤمن کے قتل ناحق جیسے کبیرہ گناہ سے محفوظ فرمائے، ہمیں مسلمانوں کی عزت جان ومال کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے حقیر جانے پهر آپ نے اپنے سینہ مبارک کی طرف تین بار اشارہ فرما کر فرمایا تقوی یہاں پر ہے! انسان کے لیے یہ برائی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے مسلمان پر مسلمان کی ہر چیز حرام ہے۔ اس کا خون اس کا مال، اس کی آبرو۔ (مسلم، ص 1386، حدیث: 2564)

پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر کسی ایک مسلمان کے قتل میں تمام آسمان یا زمین والے بھی شریک ہو جائیں تو اللہ پاک ان سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا۔(ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)

دنیا و آخرت میں قاتل کو سخت ترین سزائیں دی جائیں گی ان میں سے چند یہ ہیں: دائمی جہنم، اللہ پاک کا غضب، اللہ پاک کی رحمت سے دوری اور عام جہنمیوں کی نسبت زیادہ سخت عذاب۔

انسانی جان کی بے حد قدر و قیمت ہے سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے۔ کیا معلوم شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگائے اور وہ ہتھیار چل پڑے اور قتلِ ناحق کے نتیجے میں یہ شخص جہنم کے گڑھے میں جا گرے۔ (بخاری، 4/434، حدیث: 7072)

حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواڑوں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لیے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر مصر تها۔ (بخاری، 1/23، حدیث: 31)


انسانی ذہن میں سب سے پہلے یہ سوال اٹھتاہے کہ انسان کسی دوسرے انسان کو قتل کیوں کرتا ہے؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ یہ اللہ کی نافرمانی ہے؟ کیا اسے علم نہیں کہ ابھی ایک عدالت ہے جہاں اسے اپنے کئے کا جواب دینا ہے؟ کیا اسے موت یاد نہیں؟ اسے یہ فکر کیوں نہیں کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کو راضی بھی کرنا ہے؟

اسبابِ قتل: قتل کے اسباب میں سب سے بڑا اور بنیادی سبب علمِ دین کی کمی ہے ہم نے اپنے دین کی تعلیمات کو سمجھا ہی نہیں اس کے علاوہ حسد، تکبر، بغض و کینہ، خاندانی دشمنی نفسانی خواہشات کی پیروی وغیرہ یہ باطنی بیماریاں شامل ہیں۔ انسان جب آخرت بھول بیٹھتا ہے تو اس کی ناکامی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ امام اہل سنت اعلی حضرت اپنے نعتیہ دیوان حدائق بخشش میں غافل انسان کو کچھ یوں جھنجھوڑ رہے ہیں:

ارے یہ بھیڑیوں کا بن ہےاور شام آگئی سر پر کہاں سویا مسافر ہائے کتنا لا ابالی ہے

سب سے پہلا قاتل کون؟ دنیا کا سب سے پہلا قاتل قابیل ہے جس نےرشتے کے تنازعے میں اپنے بھائی حضرت ہابیل رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا۔ ظلماً خون بہاتے ہی قابیل کا چہرہ سیاہ اور بَدصورت ہوگیا۔ حضرتِ آدم علیہ السَّلام نے شدید غَضَب کے عالَم میں (اپنے بیٹے) قابیل کو اپنی بارگاہ سے نکال دیا اور وہ عَدَن (یمن) کی طرف چلا گیا، وہاں شیطان کے ورغلانے پر آگ کی پُوجا کرنے لگا۔

عبرتناک انجام: قابیل جب بوڑھا ہوگیا تو اس کے نابینا بیٹے نے پتّھر مار کر اسے قتل کردیا، یوں یہ کفر و شرک کی حالت میں مارا گیا۔

اللہ پاک قتل ناحق کی مذمت میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

مسلمان کو قتل کرنا کیسا؟ اگر مسلمانوں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا اور پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ کبیرہ گناہ ہے اور ایسا شخص مدت دراز تک جہنم میں رہے گا۔

قاتل اور مقتول جہنم میں: حضور جان عالمﷺ نےارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے راوی فرماتے ہیں: میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر مصر تھا۔ (بخاری1/23، حدیث: 31)

افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہو گیا ہے چھوٹی چھوٹی بات پر جان سے مار دینا، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائیاں عام ہیں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے گروپ اور جتھے اور عسکری ونگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل کرنا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے سرور عالمﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے حقیر جانے۔ تقوی یہاں ہے اور اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ فرمایا انسان کیلئے یہ برائی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے مسلمان پر مسلمان کی ہر چیز حرام ہے اس کا خون،اس کا مال، اس کی آبرو۔ (مسلم، ص1386، حدیث:2564)

تمام انسانیت کا قتل: جس نے بلا اجازت شرعی کسی کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا کیونکہ اس نے الله کے حق اور بندوں کے حق اور حدودِ شریعت سب کو پامال کر دیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ کنز الایمان: جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا۔

خود کشی/قتل کا عذاب: حضور جان عالمﷺکا فرمان عبرت نشان ہے: اور سب گناہوں سے بڑا گناہ کسی کو ناحق قتل کرنا ہے جس نے چھری سے خود کشی کی ملائکہ جہنم کی وادیوں میں اس کو ہمیشہ ہمیشہ وہ چھری گھونپتے رہیں گے وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور شفاعت سے مایوس رہے گا اور اگر اس نے بلند جگہ سے اپنے آپ کو گرا کر خود کشی کی ہو گی تو فرشتے بھی ہمیشہ ہمیشہ اس کو جہنم کی وادیوں میں بلند چوٹی سے گراتے رہیں گے اور قتل کرنے والے کو آگ کے کنوؤں میں قید کیا جائے گا اور اگر رسی سے لٹک کر خود کشی کی ہو گی تو ہمیشہ کیلئے الله کی رحمت سے مایوس آگ کی شاخوں میں لٹکا رہے گا اگر کوئی جان کسی کو ناحق قتل کرے تو یہ کھلی گمراہی ہے فرشتے اس کو آگ کی چھریوں سے ذبح کرتے رہیں گے جب بھی وہ اس کو ذبح کریں گے تو اس کے حلق سے تار کول سے بھی زیادہ سیاہ خون بہے گا اور پھر ذبح کیا جائے گا یہ سزا اس کو ہمیشہ ہمیشہ دی جائے گی اور قاتلوں کو آگ کے کنوؤں میں قید کیا جائے گا اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ ( نیکیوں کی جزائیں گناہوں کی سزائیں، ص80)

کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید بدترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں اس کی بہت مذمّت بیان کی گئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضور جان عالم ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔(بخاری، 4/11، حدیث: 6044)

مقتول اپنے قاتل کو گریبان سے پکڑے گا: فرمانِ مصطفےٰ ﷺ: بارگاہِ الٰہی میں مقتول اپنے قاتل کو پکڑے ہوئے حاضر ہوگا جبکہ اس کی گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا، وہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! اس سے پوچھ، اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ پاک قاتل سے دریافت فرمائے گا: تُونے اسے کیوں قتل کیا؟وہ عرض کرے گا: میں نے اسے فلاں کی عزّت کے لئے قتل کیا، اسے کہا جائے گا: عزّت تو اللہ ہی کے لئے ہے۔ (معجم اوسط، 1/224، حدیث:766)

مولائے کریم قاتلوں کوشریعت کے تقاضو ں کے مطابق سچّی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں اس گُناہ کے اِرتکاب سے بچائے اور ہمارے معاشرے سے قتل وغارت کے ناسُور کو دُور فرمائے۔


دنیا کے پہلے قتل سے لے کر اب تک بے شمار لوگ طبعی موت کے بجائے قتل ہو کر دنیا سے رخصت ہو چکے مگر سلسلہ رکا نہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتا ہے چلا گیا۔ مسلمانوں کا ایک دوسرے کو قتل کرنا خود کو قتل کرنا ہے کیونکہ احادیث میں مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند فرمایا گیا ہے، جیسا کہ نبی اکرم نور مجسم شاہ بنی آدم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم مسلمان کو دیکھو گے کہ وہ ایک دوسرے پر رحم کرنے، دوستی رکھنے، اور شفقت کا مظاہرہ کرنے میں ایک جسم کی مانند ہوں گے چنانچہ جسم کے جب کسی بھی حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم جاگنے اور بخار میں اس کا شریک ہو جاتا ہے۔ (بخاری، 4/103، حدیث: 6011) جب مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں تو ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو قتل کرنا ایسا ہی ہے جیسے اس نے خود کو قتل کیا۔

فرمانِ مصطفی ﷺ ہے: سب گناہوں سے بڑا گناہ کسی کو ناحق قتل کرنا ہے۔ (بخاری، 4/358، حدیث: 6871)

حیرت کی بات یہ ہے کہ اسلام وہ امن پسند اور صلح پسند دین ہے جس نے جہاد کے وقت بھی دشمنوں کی املاک کو نقصان پہنچانے، لوٹ مار کرنے اور آتش زنی سے منع فرمایا اور اسے جاہلیت کی برائی سے تعبیر کیا ہے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب شام و عراق کی طرف اسلامی لشکر روانہ فرمائے تو انہیں یہ ہدایات دیں کہ بستیوں کو ویران نہ کرنا، فصلوں کو خراب نہ کرنا کھیتیوں کو نہ جلانا۔ گویا کہ اسلام ہر انسان کی جان و مال کی حفاظت عزت و ناموس کی حفاظت، شخصی آزادی کا تحفظ، عقیدے اور مسلک کی حفاظت، حق ملکیت کا تحفظ اور قانون کے سامنے تمام انسانوں کو مساوات فراہم کرتا ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کی ہر چیز مسلمان پر حرام ہے، اس کا خون اور اس کا مال بھی اور اس کی آبرو بھی۔

جرائم قتل و غارت گری اور دہشت گردی میں اضافہ کیوں؟ یہ سوال آتا ہے کہ جب ہم ایسے عظیم مذہب کے ماننے والے ہیں جو شروع سے لے کر آخر تک امن و سکون کا درس دیتا ہے تو پھر اس کے ماننے والوں کے درمیان یہ خون ریزی کیوں؟ ایک دوسرے کی جان و مال، عزت وآبرو کیوں محفوظ نہیں اس کی درج زیل وجوہات ہیں:

سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ آج سوئے قسمت ہم نے صحیح معنوں میں اسلامی تعلیمات سے آگاہی حاصل نہیں کی۔ ہم جاہلیت سے دوچار ہیں۔ جاہلیت ایک رویے کا نام ہے جو غرور، تکبر فخر اور خود کو برتر سمجھنے سے عبارت ہے۔ جاہلیت میں شرافت سے کم زوری اور بزدلی سمجھا جاتا ہے۔ قتل و غارت گری پر فخر کیا جاتا ہے ہمارے پیارے آقا کریم ﷺ نے فرمایا: مسلمان کی جان لینا سوائے تین وجوہات کے حلال نہیں: جان کے بدلے جان ( یعنی اس نے ناحق کسی کا قتل کیا ہو اور قصاص کے بدلے اس کی جان لی جائے )۔ شادی شدہ زانی۔ جماعت ( کی متفق علیہ راہ) کو چھوڑ کر دین سے نکلنے والا ( یعنی مرتد ہو جائے )۔ (بخاری، 4/361، حدیث:6878)

ناحق قتل ،گویا کہ ساری انسانیت کا قتل: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

قرآن و حدیث میں نا حق قتل کرنے کی بے شمار وعیدیں بیان کی گئی ہیں اور نا حق قتل کو کبیرہ گناہ بتایا ہے۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا۔ (مسلم، ص711، حدیث: 4381)

2۔ اگر کسی ایک مسلمان کے قتل میں تمام آسمان و زمین والے بھی شریک ہو جائیں (یا اس قتل پر راضی ہوں) تو اللہ پاک ان سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا۔(ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)

دنیا اور آخرت میں قاتل کو سخت ترین سزائیں دی جائیں گی، قاتل کے لئے چار سزائیں ہیں: دائمی جہنم، اللہ کا غضب، اللہ کی لعنت ( رحمت سے دوری) اور سخت ترین عذاب ( عام جہنمیوں کی نسبت زیادہ سخت عذاب)۔

انسانی جان کی بے حد قدر و قیمت ہے نبی پاک ﷺ نے کسی کی طرف سے اسلحہ سے محض اشارہ کرنے سے بھی منع فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شحض اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے، کیا پتہ شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگائے اور (ہتھیار چل پڑے اور قتل نا حق کے نتیجے میں) یہ شحض جہنم کے گڑھے میں جا گرے۔ (بخاری، 4/434، حدیث: 7072)

ہمارا دین اسلام اس قدر ہمیں احترامِ مسلم سکھاتا ہے کہ کسی مسلمان کی طرف بغیر شرعی اجازت کے تیز نظر دیکھنے سے بھی منع فرماتا ہے تو پھر نا حق قتل کرنا تو بہت جرات کی بات ہے۔

قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ناحق قتل و غارت گری عام ہو جائے گی نہ قتل کرنے والے کو معلوم ہو گا کہ میں کیوں قتل کر رہا ہوں اور نہ ہی مقتول کو معلوم ہوگا کہ میں کیوں قتل کیا جا رہا ہوں

اللہ کریم ہمارے حالوں پر اپنی رحمت کی نظر فرمائے اور ہماری جان مال عزت و آبرو کی حفاظت فرمائے اسلام کا بول بالا فرمائے شریروں کے شر سے ہمیں محفوظ فرمائے اور جو مسلمان اس غلیظ گناہ میں ملوث ہیں انہیں عقل سلیم عطا فرما کر ہداہت کی اعلی راہوں پر گامزن ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبی ﷺ


کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ قتل ناحق بھی ہے، اس کی مذمت قرآن و احادیث میں وارد ہوئی ہے، ہمارا رب کریم اپنے کلام قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

قتل ناحق کی مذمت میں احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں:

قتل ناحق کبیرہ گناہ ہے: حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔ ( مسلم، ص 60، حدیث:260)

ہلاکت کی چیزوں میں سے ایک قتل ناحق بھی ہے، جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے: سات ہلاکت کی چیزوں سے بچو۔ لوگوں نے پوچھا: حضور وہ کیا ہیں؟ فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک، جادو اور ناحق اس جان کو ہلاک کرنا جو اللہ نے حرام کی اور سود خوری، یتیم کا مال کھانا، جہاد کے دن پیٹھ دکھادینا، پاکدامن مؤمنہ بے خبر بیبیوں کو بہتان لگانا۔ (بخاری، 2/242، حدیث: 2766)

قتل ناحق پر مدد کرنا کیسا؟ جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی کی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔(ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)

قیامت میں خسارا پانے والا: اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھا منہ جہنم میں ڈال دے۔ (معجم صغیر، 1/ 205)

ناپسندیدہ لوگ: الله کی بارگاہ میں تین شخص ناپسند ترین ہیں: حرم میں بے دینی کرنے والا، اسلام میں جاہلیت کے طریقے کا متلاشی، مسلمان کے خون ناحق کا جویاں تاکہ اس کی خونریزی کرے۔ (مراۃ المناجیح، 1/146)