کسی مسلمان(ضروریات دین میں سے کسی کا انکار نا کرتا ہو اور کفریات سے بچتا ہو) کو بلا کسی اجازت شرعی قتل کرنا قتل ناحق کہلاتا ہے۔ قتل ناحق کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ایک نہایت ہی مذموم گناہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ: قیامت کے دن سب سے پہلے لوگوں کے درمیان خون بہانے کے متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔ (مسلم، ص711، حدیث: 4381) مفتی احمد یار خان نعمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: خیال رہے کہ عبادات میں میں پہلے نماز کا حساب ہو گا اور حقوق العباد میں قتل و خون کا یا نیکیوں میں پہلے نماز کا اور گناہوں میں پہلے قتل کا۔(مراٰۃ المناجیح، 2/306)

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ قتل ناحق کے بارے میں سب سے پہلے سُوال ہو گا۔ قتل ناحق کی مذمت پر چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے:

1۔ قتل صرف تین صورتوں میں جائز ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی مسلمان مرد کا جو لااِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی گواہی اور میری رسالت کی شہادت دیتا ہو خون صرف تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں حلال ہے: 1۔ نفس کے بدلے میں نفس، 2۔ ثیب زانی (شادی شدہ زانی) اور 3۔ اپنے مذہب سے نکل کر جماعت اہلِ اسلام کو چھوڑ دے (مرتد ہو جائے یا باغی ہو جائے)۔ (بخاری، 4/361، حدیث:6878)

2۔ مسلمان اپنے دین کے سبب کشادگی میں رہتا ہے جب تک کوئی حرام خون نہ کر لے۔ (بخاری، 4/356، حدیث: 6862

3۔ جنت کی خوشبو نہیں سونگے گا: جس نے کسی معاہد (ذمی) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو نہ سونگھے گا اور بےشک جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک پہنچتی ہے۔ (بخاری، 2/365، حدیث: 3166)

4۔ بے شک دنیا کا زوال اللہ پر آسان ہے ایک مرد مسلم کے قتل سے۔ (ترمذی، 3/98، حدیث: 1400)


قتل ناحق سے مراد کسی کو ظلما ناحق قتل کرنا ہے، افسوس آج کل کے معاشرے میں کسی کو بےجا قتل کرنا بالکل معمولی سی بات سمجھا جاتا ہے، کبھی غیرت کے نام پر قتل، کبھی کسی پرانی دشمنی کے سبب قتل، کبھی جائیداد وغیرہ پر ناجائز قبضہ کرنے کے لیے کسی کو جان سے مار دیا جاتا ہے، ایسی بہت سی مثالیں آج کے دور میں ملتی ہیں اور لوگ انتہائی بےخوفی کے ساتھ انجام کی پروا کیے بغیر یہ حرام فعل سرانجام دے رہے ہیں جبکہ نص قطعی سے اس کی مذمت میں واضح دلائل موجود ہیں جن میں سے چند ایک پیش خدمت ہیں:

ارشاد ربانی ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

ایک اور جگہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ کنز الایمان: جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا۔

ان آیات مبارکہ سے کسی مسلمان کو بلا وجہ شرعی قتل کرنے کی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی اس سلسلے میں فرامین عبرت نشان موجود ہیں، چنانچہ

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ کسی مومن کوقتل کرنے میں اگر زمین وآسمان والے شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں دھکیل دے۔ (ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)

2۔ ایک اور روایت میں ہے: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، 4/358، حدیث: 6871)

ان احادیث کریمہ میں بھی قتل ناحق کی شدید مذمت بیان کی جا رہی ہے اللہ تبارک و تعالیٰ جل شانہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے بچائے اور شرعی مسائل سیکھ کر ان پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنے اور انہیں دوسروں تک پہنچانے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


قتل ناحق کا حکم قصاص یعنی خون کا بدلہ خون اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

قتل ناحق کی مذمت احادیث کی روشنی میں: کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور اس کی مذمت احادیث میں بیان کی گئی ہے جن میں سے چار احادیث ملاحظہ ہوں:

(1)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو ناحق قتل کرنا ہے۔ (بخاری، 4/358، حدیث: 6871)

(2) ارشاد فرمایا: دو مسلمان آپس میں تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ فرمایا: اس لیے کہ وہ اپنے ساتھی کے ساتھ لڑنے میں مصر تھا۔ (بخاری، 1/23، حدیث: 31)

(3) جس نے کسی مسلمان کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا کہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)

(4) اگر آسمان وزمین والےکسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ پاک ان سب کو اوندھےمنہ جہنم میں ڈال دے۔ (معجم صغیر، 1/ 205)


کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے، اس پر قرآن و حدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ پاک کی بارگاہ میں اس حال میں پیش ہوگا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا کہ یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)

2۔ ہلاکت کا بھنور جس میں گرنے کے بعد پھر نکلنے کی امید نہیں وہ ایسا ناحق خون کرنا ہے جس کو اللہ پاک نے حرام کردیا ہے۔ (بخاری، 4/357، حدیث:6863)

جہاں مسلمان کو ناحق کرنے میں اللہ کے حقوق کی پامالی اور اس کی نافرمانی ہے وہاں ایک مسلمان کو قتل کرنا اس کو تکلیف دینا اور اس کے لواحقین کو تکلیف پہنچانا بھی گناہ ہے جس کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور حقوق العباد کا معاملہ حقوق اللہ سے زیادہ سخت ہے کہ اللہ رب العزت تب تک اس بندے کو معاف نہیں کرتا جب تک بندہ اس کو معاف نہ کردے۔

مسلمان کے قتل کو حلال سمجھنے کا حکم: اگر مسلمانوں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور اگر قتل کو حرام سمجھ کر ارتکاب کیا تو یہ کبیرہ گناہ ہے اور ایسا شخص مدت دراز تک جہنم میں رہے گا۔

مسلمانوں کا باہمی تعلق کیسا ہونا چاہیے؟ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ پاؤں اور زبان سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں۔ (بخاری، 1/15، حدیث: 10)

آ خر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں مسلمان ہونے کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے ہاتھ پاؤں، زبان اور دیگر اعضا سے لوگوں کو محفوظ فرمائے اور ہمیں احترامِ مسلم کا جذبہ عطا فرمائے۔ آمین


قراٰن و حدیث کی تعلیمات کےمطابق معاشرے کی اصلاح کرنے والی عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام عالمی مدنی مرکز  فیضانِ مدینہ کراچی میں قائم مرکزی جامعۃ المدینہ (فیضانِ مدینہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک ایجوکیشن) میں تخصص فی الحدیث کے طلبۂ کرام کے درمیان ”آداب ترجمہ اور فن تحریر“ کے موضوع پر 4 دن کی ورکشاپ منعقد کی گئی۔

معلومات کے مطابق دعوتِ اسلامی کے شعبہ المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) کے رکن مجلس مولانا آصف اقبال عطاری مدنی نے ورکشاپ میں بیان کرتے ہوئے ”آداب ترجمہ اور فن تحریر“ کے متعلق طلبۂ کرام کی تربیت و رہنمائی کی۔

ورکشاپ کے آخری دن سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا جس میں طلبۂ کرام نے آدابِ ترجمہ اور تحریر کے متعلق مختلف سوالات کئے جس کے انہیں تسلی بخش جوابات دیئے گئے۔

واضح رہے اس ورکشاپ میں کراچی کے علاوہ تخصص فی الحدیث ہند اور لاہور کے طلبۂ کرام بھی آن لائن شریک ہوئے۔ اس وقت تخصص فی الحدیث کی مجموعی تعداد تقریباً 70 ہے۔


مدینہ یہ وہ بابرکت شہرہےجہاں آقائےدوجہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مکہ سے ہجرت کرنے کے بعد قیام فرمایا اور یہ وہی شہر جسے رب العالمین نے اپنے محبوب کے لئے پسند فرمایا مدینہ منورہ نہایت افضل شہر ہے کیونکہ وہاں روضہ رسول ہے مدینہ منورہ کی خاک ، خاکِ شفاء ہے اور مدینہ منورہ کا وہ مقام جہاں حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا جسم اطہر تشریف فرما ہے وہ ہر مقام سے افضل ہے یہاں تک کہ خانہ کعبہ، عرش و کرسی و جنت سے بھی افضل ہےاس عظمت والے شہر کی احترام و تعظیم ہر مسلمان پر لازم ہے اور مدینہ کا وہ حصہ جسے آقائے دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حرم قرار دیا لہذا اسکے کچھ حقوق ہیں جن پر عمل پیرا ہونا ہر اہل ایمان پر واجب ہے ۔قرآن کریم میں اللہ پاک ارشاد فرماتاہے:وَ اِذْ قَالَتْ طَّآىٕفَةٌ مِّنْهُمْ یٰۤاَهْلَ یَثْرِبَ ترجمہ کنزالعرفان:اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا اے مدینہ والو! (پارہ 21,سورۃ الاحزاب,آیت 13)

اس آیت میں’’یثرب‘‘کا لفظ ذکر ہوا،اسکےبارےمیں اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں’’قرآنِ عظیم میں کہ لفظ’’یثرب‘‘ آیا وہ اللہ نےمنافقین کا قول نقل فرمایا ہے.یثرب کا لفظ فساد وملامت سے خبر دیتاہے وہ ناپاک اسی طرف اشارہ کرکے یثرب کہتے، اللہ عذوجل نے ان پر رد کے لئے مدینہ طیبہ کا نام طابہ رکھا، حضورِ اقدس،سرورِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : ’’یَقُولُونَ یَثْرِبَ وَہِیَ الْمَدِینَۃُ‘‘ وہ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ تو مدینہ ہے۔(بخاری،کتاب فضائل المدینۃ، باب فضل المدینۃ۔۔۔الخ،1/ 417،الحدیث:1871، مسلم،کتاب الحج، باب المدینۃ تنفی شرارہا، ص717، الحدیث: 488(1382)

اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا:اِنَّ اللہ تَعَالٰی سَمَّی الْمَدِیْنَۃَ طَابَۃَ ‘‘ بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مدینہ کا نام طابہ رکھا۔

روایت ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سوائے قرآن کے اور اس کے جو اس کتاب میں ہے کچھ اور نہ لکھا فرمایا کہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں مدینہ منورہ عیر سے ثور تک کے درمیان حرم ہے تو جو اس میں کوئی بدعت ایجاد کرے یا کسی بدعتی کو پناہ دے تو اس پر الله کی اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے اس کے نہ فرائض قبول ہوں نہ نفل مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے کہ ان کا ادنی آدمی بھی کوشش کرسکتا ہے جوکسی مسلمان کی عہد شکنی کرے اس پر اللہ ،فرشتوں اور سارے انسانوں کی لعنت ہے نہ اس کے فرض قبول نہ نفل جو اپنے کو اپنے دوستوں کی بغیر اجازت کسی قوم سے عقد دوستی باندھے اس پر اللّٰه کی فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے نہ اس کے فرض قبول ہوں نہ نفل۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4,ص225 ,حدیث نمبر:2728 )

حضرت انس رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے احد چمکا تو فرمایا یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں یقینًا ابراہیم علیہ السلام نے مکہ معظمہ کو حرم بنایا اور میں مدینہ کے گوشوں کے درمیان کو حرم بناتا ہوں.

یعنی ابراہیم علیہ السلام نے حدود مکہ معظمہ کو اپنی دعا سے حرم بنایا یا اس کی حرمت کو ظاہر فرمایا ورنہ وہ حرم تو خدا تعالٰی کے حکم سے ہے اور پہلے سے ہی ہے اور میں حدود مدینہ کو اپنے اختیار خداداد سے حرم بناتا ہوں اس سے پہلے مدینہ حرم نہ تھا نہ اس کی حرمت قرآن پاک میں مذکور ہے۔مدینہ کو حرم بنانے کے معنے وہ ہی ہیں جو پہلے عرض کیے گئے کہ اس مقدس مقام کی تعظیم و توقیر واجب ہے،اسے اجاڑنے ویران کرنے کی کوشش کرنا حرام ہے،یہاں شکار وغیرہ مکروہ ہے۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4,ص, 237حدیث نمبر:2745 )

صحیح ہے میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے ایک ایسی بستی کی طرف ہجرت کا حکم ہوا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی سب پر غالب ائے گی لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے لوگوں کو اس طرح پاک اور صاف کرے گی جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔

(1)حرم مدینہ والوں کو نا ڈرانہ:ابن حبان اپنی صحیح میں جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی، کہ رسول اللہ صل اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جواہلِ مدینہ کو ڈرائے گا ، اللہ (عز وجل) اُسے خوف میں ڈالے گا ۔(بہار شریعت ،ج1،ص، 1219، مکتبۃ المدینہ )

(2)حرم مدینہ والوں کو ایذا نا دینا۔طبرانی کبیر میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے راوی، کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جواہل مدینہ کو ایذا دے گا، اللہ (عز وجل) اُسے ایذا دے گا اور اس پر اللہ (عزوجل) اور فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت اور اس کا نہ فرض قبول کیا جائے ، نہ نفل مجمع الزوائد، كتاب الحج، باب فيمن اخاف اهل المدينة ... إلخ، الحديث : 5762 ، ج 3،ص 659 .)

(3) اہل مدینہ سے فریب نہ کرنا.صحیح بخاری اور مسلم نے سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ فرماتے ہیں جو شخص اہل مدینہ کے ساتھ فریب کرے گا ایسا گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے ۔(صحیح بخاری کتاب فضائل المدینہ باب اثم من کاد اہل المدینۃ الحدیث 1877،ج1ص618)

(4) مدینہ والوں پر ظلم نہ کرنا۔طبرانی عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یا اللہ عزوجل جو اہل مدینہ پر ظلم کرے اور انہیں ڈرائے تو اسے خوف میں مبتلا کر اور اس پر اللہ عزوجل اور فرشتےوں اور تمام ادمیوں کی لعنت اور اس کا نہ فرض قبول کیا جائے نہ نفل۔(المعجم الاوسط ،لطبرانی، الحدیث 3589 ص379)

(5) مدینے کو یثرب نہ کہنا۔رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں جو مدینہ کو یثرب کہے وہ اللہ تعالی سے بخشش طلب کرے یہ طابہ ہے یہ طابہ ہے ۔(مسند امام احمد جلد 6ص409 حدیث 18544)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو جس طرح اللہ تعالی نے بندوں کے حقوق بیان کیے ہیں اسی طرح حرم مدینہ کے بھی حقوق بیان کیے ہیں جیسے مدینے میں رہنے والوں پر ظلم نہ کرنا اور مدینے کے درخت نہ کاٹنا اور بھی بہت سے حقوق بیان کیے ہیں جیسے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو اہل مدینہ کو ڈرائے گا اللہ اسے خوف میں ڈالے گا(بہار شریعت جزء ب ص1219) تو آئیے مدینے کے اور حقوق سنتے ہیں !

(1)حرم مدینہ کی تعظیم کرنا: جب حرم مدینہ اؤ تو بہتر یہ ہے کہ پیادہ ہو لو روتے سر جھکاتے انکھیں نیچی کیے اور درود شریف کی کثرت کرو اور ہو سکے تو ننگے پاؤں ہو۔ (بہار شریعت حصہ ششم ص 1222)

(2) حرم مدینہ میں خون خرابہ نہ کرنا: مدینہ منورہ کے وہ حدود جسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم مدینہ قرار دیا جس کی حرمت و احترام واجب ہے اس کی حرمت کا لحاظ رکھتے ہوئے حضرت علی نے کوفہ کو اپنا دارالخلافہ بنایا اور حضرت حسنین کریمین چلے گئے تاکہ ہماری وجہ سے حرم مدینہ میں خون خرابہ نہ ہو ۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد 4ص356)

(3) حرم مدینہ کے درخت نہ کاٹنا: حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں مدینے کے دو کناروں کے درمیان یہاں سے کانٹے کاٹنا حرام کرتا ہوں ۔ (مرآۃالمناجیح جلد 4ص245)

(4) مدینے میں بدعت ایجاد نہ کرنا: حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مدینہ منورہ عیر سے ثور تک کے درمیان حرم ہے تو جو اس میں کوئی بدعت ایجاد کرے یا بدعتی کو پناہ دے تو اس پر اللہ کی اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ (مرآۃ المناجیح جلد4 ص243)

(5) مدینے کی سختی اور بھوک پر صبر کرنا: حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مدینے کی سختی اور بھوک پر صبر کرے گا تو قیامت کے دن میں اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا ۔ (مرآۃ المناجیح جلد4 ص245)

اللہ تعالی ہمیں حرم مدینہ کے حقوق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے (امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)


مدینہ پاک ایک افضل ترین جگہ ہے اور اس کی بہت زیادہ عزت و تکریم کی جاتی ہے اس جگہ کی عزت و تکریم کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے اور اس جگہ کے بھی کچھ حقوق رکھے گئے ہیں جن کو ادا کرنا بہت ضروری ہے ائیے ان میں سے چند حقوق ذکر کرتے ہیں۔

خون نہ بہانا :نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم بنایا اسی لیے احرام بنایا اور میں مدینہ کو حرم بناتا ہوں اس کے گوشوں کے درمیان کو کہ اس میں خون نہ بہایا جائے نہ اس میں جنگ کے لیے ہتھیار اٹھایا جاےنہ بجز چارے کی یہاں کا درخت کاٹا جائے ۔(حدیث مسلم 24 10 کتاب میرا ت المناجیح صفحہ 247 )

مدینہ والوں سے فریب نہ کرنا :میٹھے میٹھے اقا صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی شخص مدینہ والوں سے فریب نہ کرے گا مگر وہ ایسے گھل جائے گا جیسے پانی نمک میں گل جاتا ہے( بخاری مسلم 24 21 کتاب مرات المنا جی صفحہ نمبر 255 )

درختوں کو نہ کاٹنا :حضرت صالح علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت سعد علیہ السلام نے مدینہ کے غلاموں کو مدینہ منورہ کے درخت کاٹتے دیکھا تو اپ نے ان سب کا سامان چھین لیا اور ان کی ملاؤں سے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اپ مدینہ منورہ کے کسی درخت کاٹنے سے منع فرماتے تھے اور حضور نے فرمایا جو ان میں سے کچھ بھی کاٹے تو پکڑنے والے کے لیے ہے اس کا سامان۔( حدیث ابو داؤد 24 24 کتاب میرعت المناجیہ جلد نمبر چار صفحہ نمبر 257 )

تکلیف پر صبر کرنا: نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو قصد میری زیارت کرے وہ قیامت کے دن میرے امان میں ہوگا اور جو مدینہ منورہ میں رہے اور یہاں کی تکالیف پر صبر کرے میں قیامت کے دن اس کا شفیع اور گواہ ہوں گا اور جو دونوں حرم سے کسی حرم میں جائے وہ قیامت کے دن امن والوں سے ہوگا ۔(کتاب مرات المناجیح جلد نمبر چار صفحہ نمبر 261 )


فریب نہ کرنا(1)حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخصں اہل مدینہ کے ساتھ فریب کرے گا ایسا گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں کھلتا ہے۔(صحیح البخاری کتاب فضائل المدینہ الحدیث 1877)

(جو مدینے میں رہنے والوں کو ڈرائے) (2) ابن حبان اپنی صحیح میں جابر رضی اللہ عنہ سے راوی کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 1 جو اہل مدینہ کو ڈرائے گا اللہ عزوجل اُسے خوف میں ڈالے گا ۔(الإحسان بترتيب صحيح ابن حبان کتاب الحج باب فضل المدینے حدیث 3730 میں 20)

(مدینہ لوگوں کے لیے بہتر ہے )(3)۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ لوگوں کے لیے بہتر ہے اگر جانتے ، مدینہ کو جو شخص بطور اعراض چھوڑے گا ۔ اللہ تعالٰی اس کے بدلے میں اُسے لائے گا جو اس سے بہتر ہوگا ۔ اور مدینہ کی تکلیف و مشقت پر جو ثابت قدم رہے گا روز قیامت میں اس کا شفیع یا شہید ہوں گا ۔(صحیح مسلم کتاب الحج .باب في فضل المدينة)

(مدینے کے لیے دعا)(4) حضرت ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہ دعا فرمائی کہ یا الله ہمارے لیے مدینہ منورہ کو ایسا محبوب فرما دے جس طرح تو نے مکہ مکرمہ کو ہمارے لئے محبوب فرمایا تھا ۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ محبوب فرمادے۔( بخاری شریف اور مسلم شریف)

(آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ سے محبت) ۔(5) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر سے واپس مدینہ منورہ تشریف لاتے اور دور سے مدینہ منورہ کی دیواروں کو دیکھتے تو محبت کی وجہ سے اپنی سواری کو تیز کرتے تاکہ جلد مدینہ طیبہ میں داخل ہوں۔(بخاری شریف اور مسلم شریف - )


اللہ تعالٰی نے ہمارےلیے بہت سے مقدس مقامات بنائے اور ہمیں عطاء کئے ہیں اسی طرح ایک مقدس مقام مدینہ طیبہ بھی ہے اللہ تعالی نے ہمیں ان کا ادب و احترام سکھایا اور آج ہم حرم مدینہ کے کچھ حقوق کے بارے میں جانے گے

(1)درخت نہ کاٹنا: حضرت سعد سے روایت ہے وہ فراتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے میں مدینہ کے دو کناروں کے درمیان یہاں سے کانٹے کاٹنا یا شکار قتل کرنا حرام کرتا ہوں۔ (مراة المناجمع جلد 4 ص 245)

(2)برے لوگوں کو نکالنا:حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نے کہ قیامت قائم نہ ہوگی حتی کہ مدینہ منورہ برے لوگوں کو یوں نکال دے جسے بھٹی لوہے کا میل نکال دیتی ہے۔(مراۃ المناجیح جلد 4 ص (253)

(3)فریب نہ کرنا :حضرت سعد فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص مدینہ والوں سے قریب نہ کرے گا مگر وہ ایسے گھل جائے گا جسے پانی میں نمک کھل جاتا ہے۔ (مرأة المناجیح جلد 4 ص 255)

(4) مدینے کو یثرب نہ کہنا: مدینے کے سلطان تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو مدینے کو یثرب کہے اس پر توبہ واجب ہے مدینہ طیبہ ہے مدینہ طیبہ۔


یوں تو مدینہ منورہ کو تمام شہروں پر بے شمار خوبیوں کی وجہ سے فضیلت و برتری حاصل ہے، مگر اس کی عزت و عظمت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ مدینۃ الرسول ہے، ہجرت گاہِ کو نین ہے اور اسے رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمسے نسبت حاصل ہے اور اسی مقدس شہر میں حضور آرام فرما ہیں۔

(1)مدینے سےمَحَبَّت کا انداز: مالکیوں کےعظیم پیشوا حضرت سَیِّدُناامام مالِک رَحْمَۃُ اللہ ِ عَلَیْہ زبردست عاشقِ رسول اور مدیْنۂ مُنَوَّرہ کابہت زیادہ ادب(Respect)کرنےوالےتھے۔آپ رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ مدینےمیں رہنے کے باوجود قضائے حاجت کے لیے حرمِ مدینہ سے باہر تشریف لے جققاتے اور حرم شریف کی حُدود سے باہر جاکر اپنی طبعی حاجت(مثلاًاِستنجاوغیرہ)سے فارغ ہوتے۔(بستان المحدثین ، ص۱۹ )

(2) شفا:۔خاکِ مدینہ میں شفا ہے۔ (جذب القلوب،ص22)

(3) ۔مجھےایک ایسی بستی کی طرف ہجرت کا حکم ہوا، جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی(سب پر غالب آئے گی) لوگ اس یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے، یہ بستی لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی، جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔ (صحیح بخاری، ج1/617، حدیث1871)

(4)۔حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایمان سمٹ کر مدینہ طیبه میں اس طرح داخل ہو جائے گا جس طرح سانپ اپنے بل میں داخل ہوتا ہے۔(ابن ماجہ السنن، کتاب المناسک، باب فضل المدينة، 3 : 524، رقم : 3111)

(5)۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص تم میں سے مدینہ میں مرنے کی طاقت رکھتا ہو وہ ایسا کرے کیونکہ جو مدینہ میں مرے گا میں اللہ کے سامنے اس کی شہادت دوں گا۔

(ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب فضل المدينة، 3 : 524، رقم : 3112)