اللہ تعالٰی نے ہمارے ہے بہت سے مقدس مقامات بنائے اور ہمیں عطاء کئے ہیں اسی طرح ایک مقدس مقام مدینہ طیبہ بھی ہمیں ان کا ادب و احترام سکھایا اور آج ہم حرم مدینہ کے کچھ حقوق کے بارے میں جانے گے۔ فریب نہ کرنا:

حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص مدینہ والوں سے قریب نہ کرے گا مگر وہ ایسے گھل جائے گا جیسے پانی میں نمک کھل جاتا ہے۔(مراة المناجح جلد 4 ص 255)

درخت نہ کاٹنا:حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مقام وج کا شکار اور وہاں کےدرخت کاٹنا حرام ہے۔(مراۃ المناجج جلد 4 ص 258)

برے لوگوں کو نکالنا :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت قائم نہ ہوگی حتی کہ مدینہ منورہ برے لوگوں کو یوں نکال دے جیسے بھٹی لوہے کا میل نکال دیتی ہے.(مراۃ المناجیح جلد 4 ص253)

مدینے کو یسرب نہ کہنا:رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو مدینے کو يسرب کہتا ہے اس پر توبہ واجب ہو جاتی ہے مدینہ طابہ ہے مدینہ طابہ ہے۔(مسند امام احمد جلد 6 ص 409)


علمائے اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مدینہ منورہ کے حدود کا ادب و احترام کرنا مکہ معظمہ کی حدود کی طرح ہے جس مسلمان کو مدینہ پاک میں رہنا نصیب ہو جائے تو یہ اس کی خوش نصیبی ہے کہ وہ اسے تمام ملکوں سے بہتر جانے مدینہ پاک ہمیں ہمیشہ آباد رہے گا کبھی بھی ویران نہیں ہوگا اگر کوئی قوم یا جماعت اسے چھوڑ بھی جائے تو کوئی دوسری قوم آکر اسے آباد کرے گی اللہ پاک ہمیں مدینہ پاک سے سچی محبت عطا فرمائے ۔

1.مدینہ پاک سے محبت کرنا:-حضرت سہل ابن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ "احد وہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں"-(مراۃ المناجیح جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 256)

2.مدینہ پاک میں شکار نہ کرنا:- حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ "میں مدینہ کے دونوں کناروں کے درمیان کانٹے کاٹنا اور قتل کرنا حرام کرتا ہوں"( مراۃ المناجیح جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 245)

3۔مدینہ پاک کو یثرب نہ کہنا:-نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا "جو بندہ مدینہ پاک کو یثرب کہے اس پر توبہ واجب ہے مدینہ طیبہ ہے مدینہ طیبہ ہے"(مسند امام احمد جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 409)

4۔مدینہ پاک میں صبر کرنا:- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ "میرا جو امتی مدینہ پاک کی سختیوں اور تکالیف پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا"(مراۃ المناجیح جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 246)

5۔فریب نہ کرنا:-حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "جو شخص مدینہ والوں سے فریب کرے گا وہ ایسے گھل جائے گا جیسے پانی میں نمک گھل جاتا ہے".(مراۃ المناجیح جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 255)

اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ کہ اللہ تبارک و تعالی ہمیں حرم مدینہ اور حرم مکہ کے حقوق صحیح معنوں میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبی الامین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم۔


تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ مدینہ منورہ ادب و احترام مکہ معظمہ کی حدود کی طرح ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے کہ حرمہ مدینہ کی عظمت بلند و بالا ہے اسی لیے اس کے حقوق بھی ہیں۔ ہمیں اس کے حقوق کو ادا کرنا ضروری ہے۔ آئے حرمہ مدینہ کے حقوق ملاحظہ کیجئے۔

1) (مدینہ بہتر ہے.) مدینہ بہترین جگہ ہے۔ صحیح حدیث میں ہے ۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ، المَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ترجمہ : مدینہ اُن کے لیے بہتر ہے اگر وہ جانیں۔ ) بخاری ج 618 حدیث (1870)

2)۔ (مدینہ میں دجال داخل نہ ہوگا ۔) سرکار والا تبار ، ہم بے کسوں کے مدد گار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : على اَنْقَابِ الْمَدِينَةِ مَلَائِكَةٌ لاَ يَدْخُلُهَا اللاعونُ وَلَا الله جَالُ - ترجمہ : مدینے میں داخل ہونے کے تمام راستوں پر فرشتے ہیں۔ اس میں طاعون اور دجال داخل نہ ہوں گے۔ ( بخاری ج ا ص 619 حدیث نمبر 1880)

3)۔ (مدینہ کو یثرب کہنا گناہ ہے) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو اسے مدینہ منورہ کو یثرب کہنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ مدینہ طیبہ کو مشرب کہنا نا جائز و ممنوع و گناہ ہے۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو مدینہ کو یثرب کہے اُس پر تو یہ واجب (فتاوی رضویہ ج 21 م (116)

4)۔ ( مدینہ لوگوں کو پاک وصاف کرے گا۔) رسول نذیر سراج منیر، محبوب رب قدیر صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : مجھے ایک بستی کی طرف ہجرت کا حکم ہوا جو تمام بیتیوں کو کھا جائے گی ( سب پر غالب آئے گی، لوگ اسے ہرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے، (یہ بستی) لوگوں کو اس طرح پاک وصاف کرے گی جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔" (صحیح بخاری حدیث 1871 ، ج 1 ، ص (617)

5)۔ (مدینہ میں شکار نہ کرنا :)مدینہ منورہ میں شکار کرنا حرام ہے. چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ میں مدینے کے دو کناروں کے درمیان یہاں سے کانٹے کاٹنا یا ۔ یہاں کا شکار قتل کرناحرام کرتا ہوں ۔(مراۃ المناجح

شرح مشکوۃ المصابیح ج 4 ص 245 ، حدیث نمبر (2607)


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو اللہ پاک نے مدینہ منورہ کو کس قدر مقام و مرتبہ عطا کیا ہے اس کا اندازہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے فرامین سے لگایا جا سکتا ہے جتنے مدینہ منورہ کے فضائل ہیں اتنے ہی مدینہ منورہ میں رہنے کے آداب بھی ہیں آئیے میں آپ کے سامنے چند احادیث مبارکہ پیش کرتا ہوں

مدینہ منورہ کی تکالیف پر صبر کرنا:(1) روایت ہے اولاد خطاب کے ایک مرد سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے راوی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو قصدًا میری زیارت کرے وہ قیامت کے دن میری امان میں ہوگا اور جو مدینہ منورہ میں رہے اور یہاں کی تکالیف پر صبر کرے میں قیامت کے دن اس کا شفیع اور گواہ ہوں گا اور جو دونوں حرم سے کسی حرم میں مر جائے وہ قیامت کے دن امن والوں سے ہوگا کتاب۔:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4 , حدیث نمبر:2755

مدینہ والوں سے فریب نہ کرنا: (4) روایت ہے حضرت سعد سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم نے کوئی شخص مدینہ والوں سے فریب نہ کرے گا مگر وہ ایسے گھل جائے گا جیسے پانی میں نمک گھل جاتا ہے۔ کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4 , حدیث نمبر:2743

مدینہ منورہ کے کانٹے کاٹنا : (5)روایت ہے حضرت سعد سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ میں مدینہ کے دو کناروں کے درمیان یہاں سے کانٹے کاٹنا یا یہاں کا شکار قتل کرنا حرام کرتا ہوں فرمایا مدینہ مسلمانوں کے لیے بہتر ہے اگر وہ جانتے ہوتے ایسا کوئی نہیں جو مدینہ سے رغبتی کرتے ہوئے اسے چھوڑے مگر اللّٰه اس مدینہ میں اس کو اچھا رہنے والا بسائے گا اور کوئی شخص مدینہ کی سختی اور بھوک پر صبر نہ کرے گا مگر میں قیامت کے دن اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا۔ کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4 , حدیث نمبر:2729


جس طرح مدینہ منورہ کا مقام و مرتبہ بہت بلند و بالا ہے اسی طرح حرمِ مدینہ کے بہت فضائل ہیں حرم مدینہ بھی شہر مدینہ کے اندر ہی ہے یہ وہ جگہ ہے جس کو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حرم یعنی حرمت و عزت والی جگہ قرار دیا ہے۔ بخاری شریف میں ہے : مدینۂ منورہ عیر پہاڑ سے ثور پہاڑ تک حرم ہے۔ (بخاری، 4/323، حدیث:6755) اس کے حقوق کی پاسداری و نگہبانی کے لئے بہت محتاط رہنا پڑے گا وگرنہ چھوٹی سی غفلت کے سبب بہت بڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آئیے حرمِ مدینہ کے حقوق میں سے چند کا مطالعہ کیجئے:

(1) درخت کاٹنے کی ممانعت: حرم مدینہ کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اس حدود میں موجود درختوں وغیرہ کو نہ کاٹا جائے کیونکہ یہ بھی حرم ہے جس طرح کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : مدینہ یہاں سے وہاں تک حرم ہے لہٰذا اس کے درخت نہ کاٹے جائیں۔

(2)صبر کرنا:مدینۂ منورہ جس طرح اتنی برکتوں رحمتوں والا مقدس شہر ہے اس میں انسان قلبی سکون و اطمینان محسوس کرتا ہے وہیں اگر کوئی آزمائش و پریشانی نیکیوں میں اضافہ کرنے کے لئے تشریف لے آئے تو اس پر صبر کرنے والے کے لئے بہت بڑی بشارت ہے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جو کوئی میرا امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا۔(مسلم، ص548، حدیث: 3339)

شہِ کونین نے جب صدقہ بانٹا

زمانے بھر کو دم میں کر دیا خوش

(3) عیب جوئی نہ کرنا: مدینۂ منورہ کی ہر چیز نفیس و عمدہ و اعلیٰ ہے اس میں کسی عیب و نقص کا شبہ تک نہیں، اگر بالفرض طبعی طور پر کوئی چیز پسند نہ آئے تو اس میں عیب جوئی کی بجائے اپنی آنکھوں کا دھوکا وعقل کی کمی سمجھے وگرنہ اس کی بڑی سخت سزا ہے۔ حضرت امام مالک رضی اللہُ عنہ نے مدینۂ پاک کی مبارک مٹی کو خراب کہنے والے کے لئے 30 کوڑےلگانے اور قید میں ڈالے جانے کا فتویٰ دیا۔ (الشفاء، 2/57)

جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سید عالم

اُس خاک پہ قرباں دلِ شیدا ہے ہمارا

(4) تکلیف نہ پہنچانا: حرمِ مدینہ کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ وہاں کے رہنے والوں سے پیار و محبت و حسن اخلاق سے پیش آیا جائے، ان کو تکلیف پہنچانا تو دور کی بات صرف تکلیف پہنچانے کا ارادہ کرنے والے کے لئے حضور علیہ السّلام نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اسے اس طرح پگھلا دے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔ (مسلم، ص551، حدیث: 3359)

(5) یثرب کہنے کی ممانعت:مدینۂ منورہ کو یثرب کہنا جائز نہیں کیونکہ یہ لفظ اس شہرِ مقدس کے شایانِ شان نہیں جس طرح کے حضور علیہ السّلام نے فرمایا: جس نے مدینہ کو یثرب کہا اسے چاہئے کہ وہ اللہ پاک کی بارگاہ میں استغفار کرے کیونکہ مدینہ طابہ ہے،طابہ ہے۔(مسند احمد،30/483، حدیث: 18519-بخاری،1/616، حدیث: 1867)

اس کے علاوہ بھی حرمِ مدینہ کے بہت سارے حقوق و آداب ہیں مثلاً وہاں فضولیات ولغویات سے بچنا،آواز کو پست رکھنا، ہمیشہ زبان کو درود پاک سے تر رکھنا، وہاں زیادہ عرصہ قیام نہ کرنا وغیرہ۔ اسی طرح جب حرم مدینہ آئے تو ہو سکے تو پیدل،روتے ہوئے، سر جھکائے،نیچی نظریں کئے چلئے۔

حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا

ارے سر کا موقع ہے او جانے والے

اللہ پاک ہم سب کو بار بار حاضری ِمدینہ کی سعادت عطا فرمائے اور حرمِ مدینہ کے تقدس وحقوق کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بھی چغل خور کی مذمت بیان فرمائی ہے اور احادیث میں بھی اس کی مذمت بیان کی گئی ہے اور اس کے بارے میں وعیدیں بھی بیان کی گئی ہیں چنانچہ چغلی کی مذمت کے بارے میں احادیث نبوی ملاحظہ کیجیے تاکہ اس سے عبرت حاصل کرتے ہوئے اس سے بچا جا سکے :-

(1) اللہ پاک کے بدترین بندے کون ہیں :-وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خِيَارُ عِبَادِ اللَّهِ الَّذِينَ إِذَا رُؤُوا ذُكِرَ اللهُ. وَشِرَارُ عِبَادِ اللَّهِ الْمَشَّاؤُونَ بِالنَّمِيمَةِ وَالْمُفَرِّقُونَ بَيْنَ الْأَحِيَّةِ الْبَاغُونَ الْبُرَاءَ الْعَنَتَ :-(کتاب : مرآۃ المناجیح جلد(6) حدیث نمبر(4871) :-

حضرت عبد الرحمان ابن غنم اور اسماء بنت یزید سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے بہترین بندے وہ ہیں کہ جب دیکھے جائیں تو اللہ یاد آجائے ۔ اور اللہ کے بدترین بندے وہ ہیں جو چغلی سے چلیں، دوستوں کے درمیان جدائی ڈالنے والے سے اور پاک لوگوں میں عیب ڈھونڈنے والے :-

(2) جنّت میں چغل خور نہیں جائے گا :-وَعَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَتَاتٌ( کتاب : مرآۃ المناجیح جلد (6) حدیث نمبر (4823) :-حضرت حذیفہ (رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جنت میں چغل خور نہ جائے گا :-

(3) چغل خور عذاب میں مبتلا :-عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْرَيْنِ فَقَالَ : إِنَّهُمَا لَيُعَذِّبَانِ وَمَا يُعَذِّبَانِ فِي كَبِيرٍ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطَبَةً فَشَقَهَا بِنِصْفَيْنِ ثُمَّ غَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ صَنَعْتَ هُذَا فَقَالَ : لَعَلَّهُ أَن يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبِسَا ( مشكاة المصابيح ، كتاب الطهارة، باب آداب الخلائ الحديث(338) جلد(1) ص (81) :-

حضرت ابن عباس رَضِيَ الله تَعَالَى عَنْهُما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضور نبی صَلَّى اللَّه تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو ارشاد فرمایا کہ یقینا یہ دونوں عذاب میں مبتلا ہیں اور کسی ایسے گناہ میں عذاب نہیں دیا جا رہا ہے جس سے بچنا بہت زیادہ دشوار ہو۔ ان میں سے ایک تو پیشاب کے وقت پر دہ نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خوری کرتا تھا۔ پھر آپ نے کھجور کی ایک ہری ٹہنی لی اور اس کو چیر کر دو ٹکڑے کئے پھر ہر قبر میں ایک ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول الله ! عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّى اللَّه تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ تو حضور صلی الله تعالى عليه واله وسلم نے فرمایا: اس لئے کہ جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں گی ان دونوں کے عذاب میں تخفیف ہو جائے گی۔

(4) اللہ پاک چغل خور کو قیامت کے دن کتے کی شکل میں جمع فرمائے گا :- حضرت علاء بن حارث رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: منہ پر بُرا بھلا کہنے والوں ، پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنے والوں ، چغلی کھانے والوں اور بے عیب لوگوں میں عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن کتوں کی شکل میں جمع فرمائے گا۔ ( التوبیخ والتنبیہ لابی الشيخ الاصبہانی، باب البهتان و ماجاء فیہ ص (237) الحدیث: (215) :-

(5) چغل خور کی سزا:- رسولِ اکرم صلی اللہ تَعَالٰی عَلَيْهِ وَآلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: چار آدمی ایسے ہیں کہ وہ جہنمیوں کی تکلیف میں اضافے کا سبب بنیں گے اور وہ کھولتے پانی اور آگ کے درمیان دوڑتے ہوئے ہلاکت و تباہی مانگتے ہوں گے۔ اُن میں سے ایک پر انگاروں کا صندوق لٹک رہا ہو گا، دوسرا اپنی آنتیں کھینچ رہا ہو گا، تیسرے کے منہ سے پیپ اور خون بہہ رہے ہوں گے اور چوتھا اپنا گوشت کھا رہا ہو گا۔ گوشت کھانے والے کے بارے میں جہنمی ایک دوسرے سے کہیں گے :

اس مردود کو کیا ہوا جس نے ہماری تکلیف میں مزید اضافہ کر دیا؟ تو وہ جواب دے گا ” میں بد بخت غیبت کر کے لوگوں کا گوشت کھاتا اور چغلی کرتا تھا۔ (کتاب : حلیۃ الاولیاء، شفاء ابن ماتع الاصبحی : ج (5) حدیث نمبر (6786) 

میرے پیارے اور محترم اسلامی بھائیوں جو موضوع اب لکھنے لگا ہو یہ بڑا اہم ہے اور وہ موضوع چغلی کی مذمّت احادیث کی روشنی میں ہیں میرے پیارے اور محترم اسلامی بھائیوں چغل خوری کا معنی ہے لگائی بجھائی کرنا ، خرابی ڈالنے کی نیت سے ایک کی بات دوسرے تک پہنچانا اور دوسرے کی بات پہلے تک پہنچانا اور باہمی اختلافات پیدا کرنا - امیر دعوت اسلامی مولانا الیاس قادری صاحب جو نعرہ لگاتے ہیں کہ چغل خور ، محبتوں کے چور وہ بلکل درست کہتے ہیں ، واقعی یہ محبتوں کے چور ہے ، معاشرے میں افتراق اور انتشار پیدا کرتے ہیں ، بدامنی پھیلاتے ہیں - رشتے داروں کو رشتے داروں سے لڑاتے ہے اور دوستوں میں نفرتیں پیدا کرتے ہیں - چغل خوری گناہ کبیرہ ہے اور کافرانہ فعل ہے - قرآن پاک میں ہے کہ چغل خوری کافروں کی صفت ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ ترجمہ: بہت طعنہ دینے والا اور چغلی میں بہت دوڑ دھوپ کرنے والا ،

لیکن ہمارا جو موضوع ہے وہ احادیث کی روشنی میں ہیں تو آئیے اس کے بارے میں چند احادیث پیش کرتا ہوں

حدیث نمبر 1: (لا یبلغنی احد من اصحابی عن احد شیئا ، فانی احب ان اخراج الیکم وانا سلیم الصدر ،) ترجمہ: کوئی شخص میرے صحابہ کے بارے میں مجھے کوئی بات نہ پہنچائے ، میں چاہتا ہوں کہ تمہارے پاس صاف سینے کے ساتھ آیا کروں - ( ابو داؤد: کتاب الادب: باب نمبر 28 : حدیث نمبر 4860 اور یہ حدیث 365 درس حدیث کے صفحہ نمبر 768 پر موجود ہے اور اس کتاب کے مصنف کا نام علامہ محمد دین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ ہے اور مطبوعہ فیض رضا پبلی کیشینز ہے)

حدیث نمبر 1 کی وضاحت:یعنی دوسروں کی چغل خوری میرے سامنے نہ کیا کرو ، تاکہ میرے دل میں کیسی کے خلاف کدورت پیدا نہ ہو - انسان کو جب کسی کے بارے میں غلط بات پہنچتی ہے تو وہ اس سے متاثر ہونے بغیر نہیں رہ سکتا - وہ اس کا اظہار کرے یا نہ کرے دل میں اس کا اثر ضرور ہوتا ہے - اس لے بلاوجہ کسی کے بارے میں غلط بات دوسرے کے سامنے نہیں کرنی چاہئے -

حدیث نمبر 2: (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کے بہترین بندے وہ ہے کہ جب ان کو دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ یاد آ جائے اور اللہ تعالیٰ کے بد ترین بندے چغلی کھانے کے لیے ، ادھر اُدھر پھرنے والے ، دوستوں کے درمیان جدائی ڈالنے والے اور بے عیب لوگوں کی خامیاں نکالنے والے ہیں )( مسند احمد: مسند الشامیین: مسند عبد الرحمن بن غنم الاشعری: حدیث نمبر 17998 اور یہ حدیث 365 درس حدیث کے صفحہ نمبر 768 پر موجود ہے اور کتاب کے مصنف کا نام علامہ محمد دین سیالوی ہے اور مطبوعہ فیض رضا پبلی کیشینز ہے)

حدیث نمبر 3: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ( لا یدخل الجنہ نمام) ترجمہ: ( چغل خور جنت میں داخل نہیں ہو گا) ( مسلم: کتاب الایمان: باب نمبر 45 : حدیث نمبر 105 ہے اور یہ حدیث 365 درس حدیث کے صفحہ نمبر 768 پر موجود ہے اور اس کتاب کے مصنف کا نام علامہ محمد دین سیالوی ہے اور مطبوعہ فیض رضا پبلی کیشینز ہے)

حدیث نمبر 4: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ چغل خور جنت میں نہیں جائے گا- (صحیح البخاری ،، کتاب الادب ، باب ما یکرہ من النمیمتہ، الحدیث: 6056 ، جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 115 اور یہ حدیث انوار الحدیث کے صفحہ نمبر 390, پر موجود ہے اور کتاب کے مصنف کا نام علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ ہے اور مطبوعہ مدینہ العلمیہ کا ہے )


چغلی کی تعریف: کسی کی بات ضَرر (یعنی نقصان )پہنچانے کےاِرادے سے دُوسروں کو پہنچانا چُغلی ہے۔ (عُمدۃُ القاری ج2 ص594) امام نَوَوِی رحمۃُ اللہِ علیہ نے چغلی کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے : لوگوں میں فساد کروانے کے لئے اُن کی باتیں ایک دوسرے تک پہنچانا چغلی ہے۔ (شرح مسلم للنووی ج1،جزء 2،ص211)

چغل خور ی کی مذمت میں احادیث:۔

(1) چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔(بخاری، 4 / 115 ، حدیث : 6056)

 (2) اللہ پاک کے بد ترین بندے وہ ہیں جو لوگوں میں۔ چغلی کھاتے پھرتے ہیں اور دوستوں کے درمیان جدائی ڈالتے ہیں۔ (مسند احمد ،10/442، حدیث27670)

 (3)غیبت کرنے والوں، چغل خور اورپاکباز لوگوں پر عیب لگانے والوں کا حشر کتوں کی صورت میں ہوگا۔ (الترغیب والترہیب ،3/325،حدیث:10)

چغلی اور عذاب قبر:۔ حضرت قتادَہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : عذابِ قبر کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:(1)ایک تِہائی (1/3) عذابِ غیبت کی وجہ سے (2)ایک تِہائی چغلی کی وجہ سے اور (3)ایک تِہائی پیشاب(کے چھینٹوں سے خود کو نہ بچانے)کی وجہ سے ہو تا ہے۔ ( اثبات عذاب القبربیھقی ، ص136 ، حدیث : 238)

 حضرت کعب احبار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: چُغلی سے بچو کہ بلاشُبہ چغلی کرنے والا عذابِ قبر سےمحفوظ نہیں رہتا۔(76کبیرہ گناہ، ص154)

 حضرت میمونہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَافرماتی ہیں کہ رسولِ خدا صَلَّی اللہُ عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اےمیمونہ! عذابِ قبر سے اللہ پاک کی پناہ مانگوکیونکہ زیادہ تر عذابِ قبر غیبت اور پیشاب (سے نہ بچنے)کی وجہ سے ہوتا ہے۔ (شعب الایمان، 5/ 303، حدیث : 6731)

چغلی کے نقصانات:۔

چغلی کے بہت سے نقصانات ہیں،ان میں سے چند نقصانات یہ ہیں*چغلی محبّت ختم کرتی ہے*چغلی سے لڑائیاں ہوتی ہیں*چغلی سے دشمنی کی فضا قائم ہوتی ہے*چغلی احترامِ مسلم کا خاتمہ کرتی ہے*چغلی خاندانوں کو تباہ کرتی ہے*چغلی قتل و غارت تک لے جاتی ہے*چغلی غیبت و جھوٹ کی طرف لے جانے والی ہے *چغلی اللہ و رسول کی نافرمانی کا سبب ہے*چغلی جہنّم میں لے جانے والا کام ہے*چغلی بندوں کے حقوق ضائع کرنے کا سبب ہے۔

چغلی کی مثالیں:۔

مثلاً کسی طالب علم کا کسی دُوسرے کو سزا دِلوانے کے لیے اُستاذ سے شکایت کرنا، میاں بیوی کے درمیان تلخیاں پیدا کرنے کی خاطر ان کے سامنے ایک دوسرے کی کمزوریاں بیان کرنا، بھائی کو بھائی سے لڑوانے کے لیے اُس کےعیب ظاہرکرنا، اولاد کو ماں باپ سے دُور کرنے کے لیے ان میں پائی جانے والی بُرائیوں کا ذکر کرنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب مثالیں موقع محل کی مناسبت سے چُغْلی میں شامل ہوں گی۔۔

چغلی اور چغل خور سے چھٹکارا دلانے والے چھ اُمور

حضرت امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: جس شخص کے پاس چغلی کی جائے اور اس سے کہا جائے کہ فُلاں نے تمہارے بارے میں یہ کہا یا تمہارے خلاف ایسا کیا یا وہ تمہارے معاملے کو بگاڑنے کی سازش کر رہا ہے یا تمہارے دشمن سے دوستی کرنے کی تیاری کر رہا ہے یا تمہاری حالت کو خراب کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے یا اس قسم کی دوسری باتیں کہی جائیں تو ایسی صورت میں اس پر چھ باتیں لا زم ہیں۔

﴿1﴾…اس کی تصدیق نہ کرے کیو نکہ چُغْل خور فاسق ہوتا ہے اور فاسق کی گو اہی مردود ہے۔﴿2﴾…اسے چغلی سے منع کرے، سمجھائے اور اس کے سامنے اس کے فِعْل کی قَباحَت ظاہر کرے ۔

﴿3﴾…اللہ پاک کی رِضا کے لئے اس سے بغض رکھے کیونکہ چغل خور اللہ پاک کو ناپسند ہے اور جسے اللہ پاک ناپسند کرے اس سے بغض رکھنا واجب ہے۔ 

﴿4﴾…اپنے مسلمان بھائی یعنی جس کی غیبت کی گئی اس سے بدگمان نہ ہو کیو نکہ اللہ پاک کا فرمان ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ  (پ26،الحجرات:12)ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والوبہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔

﴿5﴾…جو بات تمہیں بتائی گئی وہ تمہیں تَجَسُّس اور بحث پرنہ اُبھارے کہ تم اسے حقیقت سمجھنے لگ جاؤ۔اللہ ارشاد فرماتا ہے : وَلَا تَجَسَّسُوْا (پ26، الحجرات:12) ترجمۂ کنز الایمان: اور عیب نہ ڈھونڈھو۔

﴿6﴾…جس بات سےتم چغل خور کو منع کر رہے ہو اسے اپنے لئے پسند نہ کرو اور نہ ہی اس کی چغلی آگے بیان کرو کہ یہ کہو:اس نے مجھ سے یہ یہ بات بیان کی۔ اس طرح تم چغل خور اور غیبت کرنے والے ہوجاؤ گے اور جس بات سے تم نے منع کیا خوداس کے کرنے والے بن جاؤ گے۔


اے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہماری سوسائٹی میں بہت سے ایسی خرابیاں پائی جاتی ہیں جو نہ صرف شرعی لحاظ سے منع ہیں بلکہ معاشرے کے اصولوں کے بھی خلاف ہے ۔جو رات دن معاشرے اور خاندانوں کے آپسی رشتوں کی جڑوں کو کمزور کرتی جا رہی ہیں سوسائٹی میں شب و روز ان خرابیوں کی وجہ سے امن خراب ہوتا جا رہا ہے اور معاشرہ جنگ کا میدان بنتا جا رہا ہے ان خرابیوں میں سے ایک بڑی خرابی چغلی ہے۔

چغلی کی تعریف: چغلی کی تعریف یہ ہے کہ لوگوں  کے درمیان فساد ڈالنے کے لئے ایک کی بات دوسرے تک پہنچانا۔ ( الزواجر عن اقتراف الکبائر، الباب الثانی، الکبیرۃ الثانیۃ والخمسون بعد المأتین: النمیمۃ،2 / 46)

چغلی کی مذمت پر 4 احادیث مبارکہ :

(1) چغل خور کا انجام :- حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  ، میں  نے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ ’’ چغل خور جنت میں  نہیں  جائے گا "( مسلم، کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم النمیمۃ، ص66، الحدیث: 168(105))

(2) بد ترین بندے :-حضرت عبد الرحمٰن بن غنم اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ  کے بہترین بندے وہ ہیں  کہ جب ان کو دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ  یاد آ جائے اور اللہ تعالیٰ کے بد ترین بندے چغلی کھانے کے لئے اِدھر اُدھر پھرنے والے، دوستوں  کے درمیان جدائی ڈالنے والے اور بے عیب لوگوں  کی خامیاں  نکالنے والے ہیں۔(مسندامام احمد،مسندالشامیین،حدیث عبد الرحمٰن بن غنم الاشعری رضی اللہ تعالی عنہ،6 / 291،الحدیث:18020)

( 3 )… چغل خور کس شکل میں اٹھائے جائیں گے:-حضرت علاء بن حارث رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’منہ پر بُرا بھلا کہنے والوں  ، پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنے والوں ، چغلی کھانے والوں اور بے عیب لوگوں میں  عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ  (قیامت کے دن) کتوں  کی شکل میں  جمع فرمائے گا۔( التوبیخ والتنبیہ لابی الشیخ الاصبہانی، باب البہتان وماجاء فیہ، ص237، الحدیث: 216)

(4)… چغل خور اور عذاب قبر:- حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما فرماتے ہیں کہ سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دو ایسی قبروں کے پاس سے گزرے جن میں عذاب ہورہا تھا توارشاد فرمایا : ’’انہیں عذاب ہورہا ہے اور ان کو عذاب کسی ایسی شے کی وجہ سے نہیں دیا جارہا جس سے بچنا بہت مشکل ہو، ایک تو پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کیا کرتا تھا۔ (بخاری، کتاب الوضو ء، 59-باب، 1 / 96، الحدیث: 218)

اے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم مذکورہ احادیث مبارکہ سے ہمیں درس عبرت حاصل کرنا چاہیے کہ چغل خور کا انجام کتنا برا ہے چغل خور کو قبر میں بھی عذاب ہوتا ہے اور قیامت کے دن بھی ۔

لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اس ہلاک کرنے والے گناہ سے خود کو بھی بچائیں اور دوسروں کو بھی ۔اور ہمیں چاہیے کہ مزید اس گناہ کی مذمت کے بارے میں اور اس سے بچنے کے طریقوں کا بھی مطالعہ کریں تاکہ ہم اس گناہ سے بچ سکے ۔ اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں چغل خوری کرنے سے محفوظ فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ۔

صلوا علی الحبیب صلی اللہ علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم


پیارے اسلامی بھائیو ہمارے معاشرے میں جہاں صغیرہ گناہ عام ہیں ویسے ہی لوگ کبیرہ گناہوں میں بھی مبتلا ہیں۔

انہیں کبیرہ گناہوں میں سے ایک کبیرہ گناہ چغلی کرنا بھی۔ چغلی کی مذمت میں احادیث کریمہ پڑھنے سے پہلے ہم چغلی کی تعریف اور اس کا حکم جان لیتے ہیں کہ چغلی کسے کہتے ہیں اور اس کا حکم کیا ہے۔

"چغلی کی تعریف" لوگوں میں فساد کروانے کے لیے اُن کی باتیں ایک دوسرے تک پہنچانا چغلی ہے۔ (شرح مسلم للنووی، کتاب الایمان، 128/1، الجزء الثانی، تحت الحدیث: 91، دار الفیحاء دمشق)

" چغلی کا حکم " چغلی سخت حرام اور گناہِ کبیرہ ہے۔ (حدیقہ ندیہ، القسم الثانی فی آفات اللسان، المبحث الاول، النوع السابع فی النمیمتہ،64/4)

محترم اسلامی بھائیو آپ نے چغلی کی تعریف اور اس کا حکم جان لیا۔ پنجتن پاک کی نسبت سے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی 5 احادیثِ طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں۔

" حدیث نمبر 1 " الله پاک کے سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : طعنہ زنی، غیبت، چغل خور اور بے گناہ لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو الله پاک(قیامت کے دن) کتوں کی شکل میں اٹھائے گا۔ (الجامع فی الحدیث، باب العزلتہ، 534/1، حدیث 428، دار ابن جوزی)

" حدیث نمبر 2 " حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: چغل خور جنت میں داخل نہ ہو گا۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب غلظ تحریم النمیمتہ، صفحہ66، حدیث نمبر 105)

" حدیث نمبر 3 "رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا گزر دو قبروں کے پاس سے ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یہ دونوں عذاب دئیے جا رہے ہیں اور کسی بڑی چیز میں عذاب نہیں دئیے جا رہے۔ ان میں سے ایک چغلی کیا کرتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب سے نہیں بچتا تھا۔ (العیاذ باللہ تعالیٰ) (مسلم کتاب الطھارۃ، باب دلیل علیٰ نجاسۃ البول۰۰۰الخ، صفحہ167، حدیث نمبر 292)

" حدیث نمبر 4 " نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا کہ ’’ اﷲ (عزوجل) کے نیک بندے وہ ہیں کہ ان کے دیکھنے سے خدا یاد آئے اور اﷲ (عزوجل) کے برے بندے وہ ہیں ، جو چغلی کھاتے ہیں ، دوستوں میں جدائی ڈالتے ہیں۔ اور جو شخص جرم سے بری ہے، اس پر تکلیف ڈالنا چاہتے ہیں۔ (شعب الإیمان،باب في الاصلاح بین الناس ۔۔۔ إلخ،الحدیث 11108، جلد7، صفحہ494)

" حدیث نمبر 5 " رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا تم لوگوں میں سے بد ترین دو رُخے شخص کو پاؤ گے جو ایک کے پاس ایک رخ سے جاتا ہے اور دوسرے کے پاس دوسرے رخ سے۔ (بخاری، کتاب المناقب، باب قول الله : یا ایھا الناس انا خلقناکم۔۔۔ الخ، 473/2، حدیث 3494)

دو رخے شخص کی وضاحت :دو رُخا شخص باہم دشمنی رکھنے والے دو افراد سے ان کی موافقت میں کلام کرتا ہے یا ان میں سے ایک کی بات دوسرے کو پہنچا دیتا ہے یا ہر ایک کو اس جھگڑے میں صحیح مَوْقِف پر قرار دیتا ہے اور اس پر اس کی تعریف کرتا ہے یا دونوں سے وعدہ کرتا ہے کہ میں مخالف کے خلاف تمہاری مدد کروں گا۔ (الطریقتہ المحمدیہ، القسم الثانی فی آفات اللسان، النوع الخامس والعشرون، 186/2)

پیارے اسلامی بھائیو پڑھا آپ نے کہ چغلی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا، چغل خور بد ترین شخص ہے،چغلی کھانے والے کو میں عذاب دیا جا رہا تھا، الله کریم ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کی چغلی کرنے سے بچنے کی اور دوسروں کو بچانے کی توفیق عطا فرماۓ آمین بجاہ الخاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم

چغلی جیسی بیماری اور گناہ نے اس وقت ہمارے معاشرے کو پوری طرح سے اپنے لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس وجہ سے پورے معاشرے کے تانے بانے بکھر کر رہ گئے ہیں جبکہ اللہ رب العزت کی طرف سے اس بات کی سختی کے ساتھ تنبیہ کی گئی ہے قرآن مجید فرقان حمید کی سورہ البقرہ کی آیت نمبر60 کے کچھ حصہ میں ارشاد باری تعالی ہے کہ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ترجمہ کنزالایمان: اور زمین میں فساد اٹھاتے نہ پھرو

چغلی کی تعریف: کسی ایک شخص کی بات دوسرے شخص تک اس نیت سے پہنچانا کہ ان کے درمیان فساد برپا ہو جائے جھگڑا ہو جائے اسے چغلی کہتے ہیں عام فہم زبان میں اسے لگائی بجھائی بھی کہا جاتا ہے اور یہ کبیرہ گناہ کے زمرے میں آتی ہے لہذہ اس عمل سے ہمیں ہرممکن طریقے سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ چغلی کی مذمت احادیث کی روشنی میں پڑھئے:

1: حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار علیہ وآلہ وسلم نےصحابہ کرام علیہم الرضوان سے ارشاد فرمایا کہ کیا میں تمہیں نماز ,روزہ اور صدقہ سے زیادہ افضل عمل نہ بتائوں ؟ تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا کہ کیوں نہیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ضرور بتائیں تو آپ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان دو لوگوں میں صلح کرادو جن کا آپس میں جھگڑا ہو یہ عمل نماز روزہ اور صدقہ سے زیادہ افضل ہے اور ویسے بھی آپسی بگاڑ دین کو مونڈ کر تباہ کر دیتا ہے۔ ( سننے ابی داؤد 4919)

2: صحیح البخاری کی ایک حدیث جسکے راوی ہیں حضرت ہمام بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ  ہم حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھے، ان سے کہا گیا کہ ایک شخص ایسا ہے جو یہاں کی باتیں عثمان بن عفان سے جا لگاتا ہے۔ اس پر حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جنت میں چغل خور نہیں جائے گا۔ ( صحیح البخاری 6056)

3: صحیح البخاری کی ایک اور حدیث حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مدینہ طیبہ کے کسی باغ تشریف میں لائے تو آپ نے دو انسانوں کی آواز سنی جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا تھا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ”ان کو عذاب دیا جا رہا ہے لیکن کسی بڑی بات (جس سے بچنا مشکل ہو) کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا حالانکہ یہ کبیرہ گناہ ہیں ان میں سے ایک پیشاب کرتے وقت پردہ نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا پھرتا تھا۔“ پھر آپ نے کھجور کی ایک تازہ شاخ منگوائی اور اس کے دو ٹکڑے کیے۔ ایک ٹکڑا ایک قبر پر اور دوسرا دوسری قبر پر گاڑ دیا پھر فرمایا: ”ممکن ہے ان کے عذاب میں اس وقت تک تخفیف کر دی جائے جب تک یہ خشک نہ ہو جائیں۔“ ( صحیح البخاری 6055)

ان احادیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ چغلی کرنا کتنا بڑا گناہ ہے ہمیں اس سے ہر وقت بچتے رہنا چاہئے اور دوسروں کو بھی اس سے بچنے کی تلقین کرتے رہنا چاہئے دعا ہے کہ اللہ ہمیشہ ہمیں اس گناہ سے دور رہنے کی توفیق عطا کرے آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔

چغلی نہاہت ہی قبیح اور بری چیز ہے اس کو ہر کوٸی ناپسند کرتا ہے قرآن و حدیث میں اس کی سخت مزمت بیان کی گئی ۔ چغلی کی مزمت بیان کرنے سے پہلے اس کی تعریف ملاحظہ فرمائیں:

  چغلی کی تعریف یہ ہے کہ لوگوں  کے درمیان فساد ڈالنے کے لئے ایک کی بات دوسرے تک پہنچانا۔( الزواجر عن اقتراف الکبائر، الباب الثانی، الکبیرۃ الثانیۃ والخمسون بعد المأتین: النمیمۃ، 2 / 46)

قرآن مجید میں چغلی کی مزمت کے بارے میں ارشاد:ارشاد باری تعالی ہے : ( هَمَّازٍ مَّشَّآءٍۭ بِنَمِیْمٍ )  ترجمۂ کنز العرفان: سامنے سامنے بہت طعنے دینے والا، چغلی کے ساتھ ادھر ادھر بہت پھرنے والا ۔ شیخ الحدیث وتفسیر مفتی محمد قاسم عطاری دامت برکتہم العالیہ اس آیت کی تفسیر کے بارے میں تفسیر صراط الجنان میں فرماتے ہیں کہ هَمَّازٍ: بہت طعنے دینے والا۔} اس آیت میں   دو عیب بیان کئے گئے ہیں :

1:۔ وہ ’’هَمَّازٍ‘‘ ہے۔ ہَمّاز اس شخص کو کہتے ہیں  جو لوگوں  کے سامنے ان کے بکثرت عیب نکالے یا بہت طعنے دے۔( قرطبی، القلم، تحت الآیۃ: 11، 9 / 173، الجزء الثامن عشر، ملخصاً) 2:۔ وہ چغلی کے ساتھ ادھر ادھر بہت پھرنے والا ہے۔ اَحادیث میں  چغل خوری کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ،یہاں  ان میں  سے 3 اَحادیثِ طیبہ ملاحظہ ہوں ،

1:۔ حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  ، میں  نے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ ’’ چغل خور جنت میں  نہیں  جائے گا۔( مسلم، کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم النمیمۃ، ص66، الحدیث168(105)

2:۔ حضرت عبد الرحمٰن بن غنم اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ  تعالیٰ  کے بہترین بندے وہ ہیں  کہ جب ان کو دیکھا جائے تو اللہ  تعالیٰ  یا د آجائے اور اللہ  تعالیٰ کے بد ترین بندے چغلی کھانے کے لئے اِدھر اُدھر پھرنے والے، دوستوں  کے درمیان جدائی ڈالنے والے اور بے عیب لوگوں  کی خامیاں  نکالنے والے ہیں۔(مسندامام احمد،مسندالشامیین،حدیث عبد الرحمٰن بن غنم الاشعری رضی اللہ تعالی عنہ،291/6،الحدیث:18020)

3:۔ حضرت علاء بن حارث رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’منہ پر بُرا بھلا کہنے والوں  ، پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنے والوں ، چغلی کھانے والوں اور بے عیب لوگوں میں  عیب تلاش کرنے والوں کو  اللہ  تعالیٰ  (قیامت کے دن) کتوں  کی شکل میں  جمع فرمائے گا۔( التوبیخ والتنبیہ لابی الشیخ الاصبہانی، باب البہتان وماجاء فیہ،237 ، الحدیث۔ 216)

چغلی کے بارے میں سرِ دست یہ3 اَحادیث ذکر کی ہیں ۔اس لیے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ انہیں  غور سے پڑھے اور چغلی سے بچنے کی بھرپور کوشش کرے، فی زمانہ اس حرام سے بچنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے کیونکہ آج کل مسلمانوں  میں  یہ بلا بہت پھیلی ہوئی ہے اور وہ اس سے بچنے کی طرف بالکل توجہ نہیں  کرتے اور ان کی بہت کم مجلسیں  ایسی ہوتی ہیں  جو چغلی اور غیبت سے محفوظ ہوں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں  چغلی جیسی خطرناک باطنی بیماری سے محفوظ فرمائے ،اٰمین۔