حضور
ﷺ کی اپنی ازواج سے محبت از بنت سید ذو الفقار علی ، رحمت کالونی رحیم یار خان
ہمارے پیارے آقا ﷺ کی
شانِ کریمانہ تھی کہ آپ اپنی تمام ازواج کے درمیان عدل و انصاف فرمایا کرتے
تھے،آپ کے عمل مبارک سے اُمت کو تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنے لئے راہِ عمل متعین کرنی
چاہئے مگر بد قسمتی سے آج کا مسلمان اس سے یکسر غافل نظر آتا ہے۔حکیم الامت علامہ
مفتی احمد یارخان فرماتے ہیں: جب اتنا
عدل کوئی رکھ سکتا ہے جتنا حضور رکھنے میں تو ہی چند بیویاں رکھے۔آج مسلمانوں نے
چار بیویوں کی اجازت کی آیت کو پڑھ لی، مگر عدل کی آیت سے آنکھیں بند کرلی ہیں آج
جس ،قدرظلم مسلمان اپنی بیویوں پر کر رہے
ہیں اس کی مثال نہیں ملتی ، نبی کی تعلیم
کیا ہے اور امت کا عمل کیا ہے۔(مراۃ المناجیح،5/82)
آئیے!حضور ﷺ کا اپنی ازواج سے محبت کے کچھ پہلو ملاحظہ کرکے
ان پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔چنانچہ
سرکارِ عالی وقار،محبوبِ ربِ غفار ﷺ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ
عنہا سے بہت محبت تھی یہاں تک کہ جب آپ کا وصال ہو گیا تو پیارے آقاﷺ کثرت سے آپ کا ذکر فرماتے۔روایت میں ہے کہ آپ کی بارگاہ
اقدس میں جب کوئی چیز پیش کی جاتی تو فرماتے:اسے فلاں عورت کے پاس لے جاؤ کیونکہ
وہ خدیجہ سے محبت کرتی تھی۔( الادب المفرد،ص78،حديث:232)
ایک بار حضرت خدیجہ
رضی اللہ عنہا کی بہن حضرت ہالہ بنتِ خُویلد رضی اللہ عنہا نے بارگاہِ اقدس میں
حاضر ہونے کی اجازت طلب کی،ان کی آواز حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بہت ملتی تھی،چنانچہ
اس سے آپ ﷺ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اجازت طلب کر نا یاد آگیا اور آپ نے
جھر جھر ی سی لی۔(بخاری، 2/565،حدیث:3821)
حضور ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:اے عائشہ!میں
تمہیں ایک بات بتاؤں؟حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے عرض کی:حضور !فرمائیے! تو آپ ﷺ
نے فرمایا:اے عائشہ!جب تم ناراض ہوتی ہو تو بھی مجھے پتا ہوتا ہے اور جب تم راضی ہوتی
ہو تو بھی مجھے معلوم ہوتا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :یا رسول اللہﷺ!
کس طرح؟حضور ﷺنے فرمایا: جب تم کبھی قسم اٹھاتی ہو تو کہتی ہو:مجھے رب محمد کی قسم!لیکن
جب ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو:رب ابراہیم کی قسم!۔جب تم میرا نام نہیں لیتی تو مجھے
پتہ چل جاتا ہے کہ آج معاملہ کیا ہے۔تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں:ہاں!یہی
بات ہے میں صرف آپ کا نام ہی چھوڑتی ہوں۔(بخاری،3/471،حدیث:5228)
حضرت عَمروْ بن عاص رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے عرض کی:یَارَسُولَ
اللہ ﷺ! لوگوں میں آپ کو سب سے بڑھ کر کون محبوب ہے؟ ارشاد فرمایا:عائشہ۔انہوں نے دوبارہ
عرض کی:مَردوں میں سے کون ہے؟ فرمایا: عائشہ کے والد(یعنی ابوبکر صِدّیق رَضِیَ اللہُ
عَنْہُ۔)(بخاری،3/126، حدیث:4358)
ترمذی شریف کی روایت ہے کہ ایک روز نبیِ کریم ﷺ نےدیکھا کہ
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا رو رہی ہیں۔آپ نے رونے کاسبب پوچھا تو انہوں نے کہا:یا
رسول اللهﷺ!حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما نے یہ کہا ہے کہ ہم دونوں
دربارِ رسالت میں تم سے بہت زیادہ عزت دار ہیں، کیونکہ ہمارا خاندان حضور ﷺسے ملتا
ہے ،یہ سن کر حضور ﷺ نے فرمایا:اے صفیہ!تم نے ان دونوں سے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ
تم دونوں مجھ سے بہتر کیونکر ہو سکتی ہو؟ حضرت ہارون علیہ اسلام میرے باپ،حضرت موسیٰ علیہ السلام میرے چچا اور حضرت محمد ﷺ میرے
شوہر ہیں۔(ترمذی،5/474 ، حدیث:3918)
ہمارے پیارے آقا ﷺ
اپنی ازواجِ مطہرات کے ساتھ گھر کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹاتے تھے۔آپ ﷺکبھی گھر میں
جھاڑو لگا دیتے تھے تو کبھی برتن بھی دھو دیتے۔ہمیں بھی اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے
کہ ہمارے پیارے آقا تمام جہاں والوں کے سردار ہونے کےباوجود بھی ہر کام خود کرتے
تھے،جبکہ آج کل کے مسلمان وہ کام کرنے کو اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں ،ایسا ہر گز نہیں
ہونا چاہئے۔اسلامی بہنوں کو چاہیے کہ وہ ازواجِ مطہرات کو اپنا آئیڈیل بنائیں اور
ان کی زندگی کے پہلوؤں پر نظر رکھیں اور ان پر عمل پیرا ہوں۔اگر ہم رسولِ پاک ﷺ
اور آپ کی ازواج کو اپنا آئیڈیل بنا لیں گی تو ان شاء اللہ گھر جنت بن جائے گا،
گھر میں جنت کا مزہ آنے لگ جائے گا، گھر میں روٹی ہویا چٹنی لیکن زندگی پر سکون ہی رہے گی۔اگر گھر میں اطمینان
و سکون نہ ہو تو پھر گھر کا ماحول بگڑ جاتا ہے،پھر عالی شان بنگلوں میں نرم بستروں
پر ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں بھی نیند نہیں آتی۔پھرکیا فائدہ ایسے بنگلوں اور نرم و
ملائم بستروں کا!عورت یہ سمجھے کہ الله پاک نے شوہر کو میرے لئے بادشاہ بنایا
ہے۔اگر عورت شوہر کو بادشاہ تسلیم کرے گی تو رانی تو وہ خود بھی بن جائے گی۔الله
پاک سے دعا ہے کہ الله پاک ہمیں آپ ﷺ اور آپ کی ازواجِ مطہرات کے نقشِ قدم پر چلنے
کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے گھروں کو
امن و سکون کا گہوارہ بنا دے۔آمین بجاہ النبی الامینﷺ