اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتاہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ (صراط الجنان،2/230)

حاکم کے حقوق کی اس قدر اہمیت ہے کہ اللہ کریم نے قرآن پاک میں حاکم کی اطاعت کا حکم دیا ہے مگر وہ حاکم جو شریعت کے مطابق ملک کے اصول و ضوابط چلاتا ہو۔ اگر اس کا ملک کو چلانا شریعت کے مطابق ہو تو پھر حاکم کی اطاعت کی جائے گی، حدیث پاک میں بھی حاکم کی اطاعت کا حکم آیا ہے اور اس میں اس قدر تاکید ہے کہ حضور ﷺ نے امیر کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے، ملاحظہ ہو:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر و حاکم کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر و حاکم کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (بخاری،2/297،حدیث:2957)

حاکم کی اطاعت کی جائے اس نے اگر کسی کے ساتھ اچھائی کی تو اس پر شکر اور اگر کسی کے ساتھ برائی سے پیش آ گیا تو اس پر صبر کرنے کا حکم ہے کیونکہ حدیث پاک میں حاکم اسلام کو زمین پر اللہ کا سایہ فرمایا گیا ہے ملاحظہ ہو: حاکمِ اسلام زمین پر اللہ کا سایہ ہے اور جب وہ تمہارے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اُس کے لئے اجر ہے اورتم پر شکر لازم ہے اور اگر بُرا سلوک کرے تو اس کا گناہ اُس پر ہے اور تمہارے لئے صبر ہے۔(شعب الایمان، 6/15،حدیث:7369)

حاکم کی اطاعت یا اس کی عزت کرنے کا حکم نہ صرف حدیث پاک یا قرآن مجید میں ہے بلکہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بھی اس کا حکم دیا ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما کا فرمان ہے: سلاطین کی عزت و توقیر کرو کیونکہ جب تک یہ عدل کریں گے یہ زمین پر اللہ پاک کی قوت اور سایہ ہوں گے۔

حاکم کے حقوق میں ہے اگر تو وہ ملک کا نظام شریعت کے طریقے پر چلاتا ہے تو اب ہم پر لازم ہے کہ ہم حاکم کے لیے دعا کریں اس کے خلاف آواز نہ اٹھائیں۔

حاکم اسلام کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ ہونا چاہیے چونکہ وہ مسلمان ہے اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے لہذا جیسے انسان اپنے بھائی کے ساتھ خیرخواہی کا جذبہ رکھنا پسند کرتا ایسے ہی اسے حاکم اسلام کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ کرنا چاہیے۔ اگر کوئی مشورہ دینا ہو تو ایسا مشورہ دیں جس میں حاکم اسلام اور رعایا کا فائدہ ہو الغرض مختصر یہ کہ حاکم اسلام کے ساتھ محبت، خیرخواہی والا جذبہ رکھنا چاہیے۔

اللہ پاک ہمیں حاکم کے حقوق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین