ارسلان حسن عطّاری (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی
لاہور،پاکستان)

(1) امیر کی اطاعت: حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا ۔جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی جس نے میری نافرمانی کی اس نے
اللہ کی نافرمانی کی جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی جس نے امیر کی
نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی (صحیح مسلم ص 133 کتاب الامارة حدیث 4748)
(2)
گناہوں میں اطاعت ضروری نہیں ۔
حضرت سیدنا
ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا ۔ ہر مسلمان پر (حاکم کا حکم ) سننا اور اس کی اطاعت کرنا لازم ہے
چاہے اسے وہ حکم پسند ہو یا ناپسند سوائے گناہ کے حکم کے جب گناہ کا حکم دیا جائے
تو اسے نہ سننا لازم ہے اور نہ ہی اس کی اطاعت کرنا لازم (مسلم کتاب الامارة باب
وجوب طاعة الاسراء ص 789 حدیث 4763)
(3)
حکمرانوں سے بغاوت :حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے لیے سخت
سزائیں مقرر کی گئ ہیں کیونکہ حکمرانوں کی مخالفت سےاسلام کی اجتماعیت کو نقصان
پہنچتا ہے ۔ افتراق وانتشار کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔
(4)
قرآنی حکم۔ اے
ایمان والوں ! اطاعت کرو اللہ تعالیٰ کی اور اطاعت کرو اپنے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کی اور حکمرانوں کی جو تم میں سے ہوں ۔ (النساء 59)
علامہ اسماعیل
حقی علیہ رحمہ فرماتے ہیں اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ جب بادشاہ و حکمران قرآن
وسنت کی پیروی کریں تو رعایا پر ان کی تابعداری واجب ہے ۔
(5)
حبشی غلام حاکم۔ حضرت
انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
۔ سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پر حبشی غلام کو حاکم بنا دیا جائے جس کا سر کشمش کی
طرح ہو ۔ (بخاری کتاب الاحکام 454/4 حدیث 7162)
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
محمد ولید احمد عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃ
المدینہ مزنگ لاہور ، پاکستان)

پیارے پیارے
اسلامی بھائیو ! ایک مسلمان کے عقیدے میں حاکمیت اعلی صرف اللہ تعالی کی ہے۔ اور
تمام نظامِ کائنات صرف اللہ تعالٰی کے حکم کے پابند ہیں ۔ اللہ تعالی نے مخلوق کی
ہدایت کے لیے انبیاء و مرسلین کو مبعوث فرمایا. اور بعض انبیاء نے سلطنتیں قائم
کیں. جن میں سے بعض سلطنتوں پر انبیاء بذاتِ خود حاکم رہے اور بعض پر امیر مقرر
فرمائے. جن کی اطاعت کو قرآن پاک نے ہم پر لازم کیا. ارشادِ باری تعالی ہے :
یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی
الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- ترجمہ کنزالعرفان : اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت
کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں ۔ ( سورۃ النساء
: 59)
حاکم کی
فرمانبرداری لازم ہے.اس کے کچھ حقوق ہیں جو درج ذیل ہیں:
١-
حاکم کی ضرورت و اہمیت : پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہمارے
معاشرے میں مختلف رنگ ونسل کے افراد پائے جاتے ہیں۔ جن کو آپس میں باہمی تعلقات
قائم رکھنے کے لیے ایک سمجھدار اور عاقل شخص کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو انصاف کے تقاضوں
کو مکمل طور پر پورا کرے ۔ اسلام کے سب سے پہلے حاکم مطلق رسول الله ( صل اللہ
علیہ وسلم) کی ذات ہے. جن کے لیے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے :
وَ مَا كَانَ
لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ
یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ- ترجمہ
کنزالایمان : اور کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ و رسول
کچھ حکم فرمادیں تو اُنہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے۔ ( سورۃ الاحزاب : 36)
عرش
تا فرش ہیں جس کے زیر نگیں
اس
کی قابر ریاست پی لاکھوں سلام
اور آپ ( صل
اللہ علیہ وسلم) کا منصفانہ نظام ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔کیونکہ آپ ( صل اللہ علیہ
وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام کا قائم کردہ نظام حکومت ایک منصفات نظام تھا. جس
طریقے پر چلنے والا حاکم ہی عوام کی ضرورت ہے۔
٢
- حاکم کی بات سننا اور ماننا : پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اگر حاکم
مسلمان ہو اور منصفانہ نظام کے مطابق چلتا ہو تو اس کی بات ماننا اور سننا ہم پر
لازم ہے۔ اگر چہ بظاہر وہ ہمیں پسند ہو یا ناپسند ہو مسلمانوں کے حاکمِ مطلق نبی
اکرم ( صل اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مسلمان مرد پر اپنے مسلمان حکمران کی
بات سننا اور ماننا فرض ہے (ہر کام میں) خواہ وہ بات اسے پسند ہو یا نا پسند مگر
یہ کہ اسے گناہ کرنے کا حکم دے۔ (بخاری مسلم بروایت عبدالله بن محمد )
یعنی اطاعت
اور فرمانبرداری واجب ہے لیکن اگر وہ گناہ کا حکم دیں تو پھر اطاعت نہیں لازم ۔
٣
- حاکم کی خیر خواہی اور نصیحت : حاکم کے ساتھ خیر خواہی اور اچھا
معاملہ کیا جائے اگر وہ کسی غلطی پر ہوں تو بجائے یہ کہ ان کے خلاف جایا جائے بلکہ
کسی طرح ان تک اس غلط بات کی خبر پہنچائی جائے۔ سلطانِ جہاں ( صل اللہ علیہ وسلم)
نے ارشاد فرمایا : دین خیر خواہی کا نام ہے۔ پوچھا گیا کس کی خیر خواہی ؟ آپ نے
ارشاد فرمایا : اللہ کی، الله کے رسول کی، کتاب کی، مسلمانوں کے حاکموں کی، اور
عام مسلمانوں کی " (صحیح مسلم ، بروایت تعمیم دادی)
حاکموں کی خیر خواہی عام مسلمانوں کی خیر خواہی
کرنے سے زیادہ ضروری ہے۔ کیونکہ ان کے پاس مسلمانوں کی ریاست اور ملک ہوتے ہیں ۔
ان کی غلط بات اسلام کی طرف سے شمار کی جاتی ہے۔
٤
- حاکم کے ساتھ تعاون : پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! حاکموں کے ساتھ تعاون
کیا جائے یعنی کہ ان کی ہر جائز بات میں پیروی کی جائے۔ " ایک مرتبہ نبی پاک
( صل اللہ علیہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ اگر ہم پر کچھ ایسے حاکم مسلط ہو جائیں
کہ وہ ہم سے اپنا حق مانگیں لیکن ہمارا حق نہ دیں تو ہمارے لیے کیا حکم ہے ؟ آپ (
صل اللہ علیہ وسلم) خاموش رہے حتی کہ دو یا تین مرتبہ ایسا ہوا پھر نبی اکرم ( صل
اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: " تم ان کی بات مانو اور سنو ، ان کی جو
ذمہ داری ہے وہ ان پر ہے۔ تمہاری جو ذمہ داری ہے وہ تم پر ہے.
یہ آج کل کا بہت بڑا مسئلہ ہے جس کا حل مسلمانوں
کے دائمی حاکم نبی اکرم (صل اللہ علیہ وسلم) آج سے 14 سو سال پہلے ہی بتا چکے ہیں
۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ حاکم مسلمان ہو۔
الله تعالٰی ہمیں علم دین حاصل کرنے کی توفیق
عطا فرمائے اور ہمارے حکمرانوں کو ہدایت نصیب فرمائے.
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
محمد احمد عطّاری (درجۂ ثانیہ جامعۃ المدینہ
فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)

اللّٰه
عزَّوَجَلَّ نے اپنی کتاب میں یہ علم ارشاد فرمایا ہے : يٰٓاَ يُّهَا
الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ
مِنْكُمْ (پ5،
النساء : 59)ترجمه کنز الایمان: "اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم
مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں"۔
”حضرت سیدنا جابر بن عبد اللّٰه رضی اللّٰه
تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے سرور کو نین، شہنشاہ دارین صلى اللّٰه تَعَالَى
عَلَيْهِ وَآلہ وَسَلَّمْ سے اس بات کی گواہی کہ اللّٰه عَزَّوَجَلَّ کے علاوہ
کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد صلی اللّٰه تعالیٰ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمْ
اللّٰه عَزَّوَجَلَّ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنے، زکوۃ دینے ، (حاکم اسلام کی
سننے اور اطاعت کرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر بیعت کی)
اللہ تعالٰی ہمیں اپنی زبان نیکی کی دعوت دینے
میں استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین چنانچہ آپ بھی حاکم کے 5 حقوق ملاحظہ
کیجئے
1 نیکی
کی دعوت: وَ
مَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ
اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِیِنْ (پ24 السجدۃ 33) ترجمہ کنزالایمان : ”اور
اس سے زیادہ کسی کی بات اچھی جو اللّٰہ کی طرف بلائے اور نیکی کرنے اور کہے میں
مسلمان ہوں “
آپ صلی اللّٰه علیہ والہ وسلم نے فرمایا :۔ ”نیکی
کی طرف راہنمائی کرنے والا بھی نیکی کرنے والے کی طرح ہے“ (جامع ترمذی، رقم 2679 ج
4، ص 305)
2 سلام
کرنا: حضرت
ابو ہریرہ رضی اللّٰه عنہ سے مروی ہے کہ سرورِ عالم صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم نے
فرمایا : ”کیا میں تم کو ایسی بات نہ بتاؤں کہ جب تم اس پر عمل کرو تو تمہارے
درمیان محبت بڑھے اور وہ یہ ہے کہ آپس میں سلام کو رواج دو“ (مسلم کتاب
الایمان،رقم 54،ص27)
3 خیر
خواہی کرنا: ”حضرت
سیدنا کعب الاحبار علیہ رَحْمَةُ اللّٰهِ الغَفَّار سے سلطان کے متعلق پوچھا گیا
تو آپ نے فرمایا سلطان زمین پر اللّٰہ عزوجل کا سایہ ہے جس نے اس کی خیر خواہی کی
اس نے راہ ہدایت حاصل کی اور جس نے اسے دھوکا دیا تو وہ راہ سے بھٹک گیا“۔ (دین و
دنیا کی انوکھی باتیں ص،191 متبوع مکبۃ المدينه)
4 حکمرانی
نہ مانگو: حضرت
سیدنا عبد الرحمن بن سمرہ رضی الله تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے حضور اکرم،
نُورِ مُجَسَّم صَلَّى اللّٰهُ تَعَالٰی عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے ارشاد
فرمایا: اے عبد الرحمن حکمرانی نہ مانگو، اگر تجھے بغیر مانگے عطا کی گئی تو اس پر
تیری مدد کی جائے گی اور اگر مانگنے سے عطا کی گئی تو تجھے اس کے سپرد کر دیا جائے
گا۔ (بخاری، ایمان کے کفارہ کی کتاب، وقفے سے پہلے اور بعد میں کفارہ کا باب،
4/311، حدیث: 1722)
5 بادشاہ
کو گالیاں نہ دوں: حضرت سیِّدُنا مالک بن دینا ر علیہ رحمہ اللہ
الغفار فرماتے ہیں کہ میں نے بعض کتابوں میں پڑھا ہے اللّٰه عز وجل فرماتا ہے:-
میں بادشاہوں کا بادشاہ ہوں اور بادشاہوں کی
گردنیں میرے ہاتھ میں ہیں جو میری اطاعت کرے گا میں اُس پر اپنی رحمت کروں گا اور
جو میری نافرمانی کرے گا میں اُس پر غضب فرماؤں گا لوگو تم بادشاہوں کو اپنی زبان
سے گالیاں نہ دو بلکہ اللّٰه عزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں تو بہ کرو اللہ پاک بادشاہ
کو تم پر مہربان کرے گا ۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں ص،191 متبوع مکبۃ المدینہ)
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
محمد مجاہد رضا قادری (درجۂ ثالثہ جامعۃ
المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)

قرآن پاک میں
اللہ عَزَّ وَ جَلَّ نے عدل و انصاف کے قیام پر بہت زور دیا ہے چونکہ انسان طبعی
طور پر مل جل کر رہنے کی طرف مائل ہوتا ہے اور جب مختلف طبیعتوں اور مختلف ذہنوں
کے لوگ ایک جگہ رہنے لگیں تو انفرادی مفاد کے حصول کے لیے باہمی تصادم کا اندیشہ
رہتا ہے ، اِس اندیشے کو دور کرنے کے لیے ضروری تھا کہ کچھ ایسے قوانین وضع کیے
جائیں جو انسانی زندگی کو متوازن صورت حال پر رکھ سکیں اور پھر اُن قوانین پر عمل
درآمد کے لیے ضروری تھا کہ حکمرانی کے لیے ایسے لوگوں کا انتخاب کیا جائے جو اسلام
کی نشر و اشاعت ، حاکمین کے حقوق اور وہ رعایا کے مابین عدل و انصاف کو قائم رکھ
سکیں۔ آئیے ھم بھی چند حاکم کے حقوق ملاحظہ کرتے ہیں ۔
1۔اطاعت
کرنا: حضرت
سیدنا ابو ہریرہ رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ، رَءُوفٌ
رحیم صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے فرمایا: "جس نے
میری اطاعت کی اس نے اللہ عَزَّوَجَل کی اطاعت کی ، جس نے میری نافرمانی کی اس نے
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی
اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی" (بخاری، کتاب الجهاد
والسیر، باب يقاتل من وراء الامام ويتقى بہ 2/،297 حدیث: 2957)
2۔توھین
نہ کرنا: حضرت
سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی کریم
صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جس نے سلطان کی
اہانت کی، اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے ذلیل کرے گا۔“ (ترمذی، کتاب الفتن، باب ماجاء في
الخلفاء، 4/ 96 ، حدیث : 2231)
3
بخاری، کتاب
الايمان باب اتباع الجنائز من الايمان 1 /29
اللہ پاک ہمیں
ان حقوق کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
ابو ثوبان عبدالرحمٰن عطّاری (درجۂ سابعہ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضان
مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور ، پاکستان)

کسی بھی معاشرے میں
زندگی کے معاملات کو صحیح طور پر چلانے کے لئے ایک حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہے،
شہری زندگی ہو یا دیہاتی، بغیر حاکم و امیر کے کسی بھی جگہ کا نظام دُرست نہیں رہ
سکتا اور کوئی بھی حاکم معاشرے میں امن و امان اس وقت تک قائم نہیں کرسکتا جب تک
کہ اسے رعایا کا تعاون حاصل نہ ہو۔ اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ کسی بھی
معاشرے کے اندر بدامنی کے پھیلنے میں سب سے بڑا دخل حاکم اور محکوم کی اپنی اپنی
ذمہ داری اور اپنے اوپر واجبی حقوق کو ادا کرنے میں کوتاہی ہے، اس لئے اس امر کی
معرفت ضروری ہے کہ حاکم و محکوم اپنے فرائض و واجبات کو پہچانیں۔ اسی کے پیش نظر رعایا
پر حاکم کے چند حقوق ذکر کئے جارہے ہیں ملاحظہ کیجئے:اللہ پاک نے اپنی کتاب قراٰنِ
کریم میں یہ حکم ارشاد فرمایا ہے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ-﴾ترجمۂ کنزُ الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کااور ان کا جو تم میں حکومت والے
ہیں۔(پ5، النسآء: 59)
اس آیت سے ثابت ہوا
کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق
کے خلاف حکم کریں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔(صراط الجنان، 2/230)
حاکمِ اسلام کے 5 حقوق:
(1)اطاعت کرنا: حاکمِ اسلام کی
اطاعت و فرمانبرداری ہر فردِ بشر پر واجب ہے بشرطیکہ اس کا حکم شریعت کے مطابق ہو۔
جیسا کہ حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے
امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری
نافرمانی کی۔(بخاری،2/297، حدیث: 2957)
(2،
3)اچھائی پر شکر اور بُرائی پر صبرکرنا: رسولِ اكرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:حاکمِ اسلام زمین پر اللہ کا سایہ ہے اور
جب وہ تمہارے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اُس کے لئے اجر ہے اورتم پر شکر لازم ہے اور اگر
بُرا سلوک کرے تو اس کا گناہ اُس پر ہے اور تمہارے لئے صبر ہے۔(شعب
الایمان،6/15،حدیث:7369)
(4)ان کی عزت
کرنا: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما کا فرمان ہے:
سلاطین کی عزت و توقیر کرو کیونکہ جب تک یہ عدل کریں گے یہ زمین پر اللہ پاک کی قوت
اور سایہ ہوں گے۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں،1/187)
(5)خیر خواہی:حاکمِ اسلام کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے، اگر کوئی کوتاہی نظر آئے
تو احسن طریقے سے انہیں متنبہ کیا جائے، انہیں بلکہ تمام مسلمانوں کو صحیح، سچے
اور اچھے انداز میں مشورہ دیا جائے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ
وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ﴾ ترجَمۂ کنزُ الایمان: اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر
اور اچھی نصیحت سے۔(پ14، النحل:125)
اللہ پاک ہمیں ان حقوق پر عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔