قرآن پاک میں اللہ عَزَّ وَ جَلَّ نے عدل و انصاف کے قیام پر بہت زور دیا ہے چونکہ انسان طبعی طور پر مل جل کر رہنے کی طرف مائل ہوتا ہے اور جب مختلف طبیعتوں اور مختلف ذہنوں کے لوگ ایک جگہ رہنے لگیں تو انفرادی مفاد کے حصول کے لیے باہمی تصادم کا اندیشہ رہتا ہے ، اِس اندیشے کو دور کرنے کے لیے ضروری تھا کہ کچھ ایسے قوانین وضع کیے جائیں جو انسانی زندگی کو متوازن صورت حال پر رکھ سکیں اور پھر اُن قوانین پر عمل درآمد کے لیے ضروری تھا کہ حکمرانی کے لیے ایسے لوگوں کا انتخاب کیا جائے جو اسلام کی نشر و اشاعت ، حاکمین کے حقوق اور وہ رعایا کے مابین عدل و انصاف کو قائم رکھ سکیں۔ آئیے ھم بھی چند حاکم کے حقوق ملاحظہ کرتے ہیں ۔

1۔اطاعت کرنا: حضرت سیدنا ابو ہریرہ رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ، رَءُوفٌ رحیم صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے فرمایا: "جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ عَزَّوَجَل کی اطاعت کی ، جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی" (بخاری، کتاب الجهاد والسیر، باب يقاتل من وراء الامام ويتقى بہ 2/،297 حدیث: 2957)

2۔توھین نہ کرنا: حضرت سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی کریم صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جس نے سلطان کی اہانت کی، اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے ذلیل کرے گا۔“ (ترمذی، کتاب الفتن، باب ماجاء في الخلفاء، 4/ 96 ، حدیث : 2231)

3

بخاری، کتاب الايمان باب اتباع الجنائز من الايمان 1 /29

اللہ پاک ہمیں ان حقوق کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔