کسی بھی معاشرے میں زندگی کے معاملات کو صحیح طور پر چلانے کے لئے ایک حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہے، شہری زندگی ہو یا دیہاتی، بغیر حاکم و امیر کے کسی بھی جگہ کا نظام دُرست نہیں رہ سکتا اور کوئی بھی حاکم معاشرے میں امن و امان اس وقت تک قائم نہیں کرسکتا جب تک کہ اسے رعایا کا تعاون حاصل نہ ہو۔ اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ کسی بھی معاشرے کے اندر بدامنی کے پھیلنے میں سب سے بڑا دخل حاکم اور محکوم کی اپنی اپنی ذمہ داری اور اپنے اوپر واجبی حقوق کو ادا کرنے میں کوتاہی ہے، اس لئے اس امر کی معرفت ضروری ہے کہ حاکم و محکوم اپنے فرائض و واجبات کو پہچانیں۔ اسی کے پیش نظر رعایا پر حاکم کے چند حقوق ذکر کئے جارہے ہیں ملاحظہ کیجئے:

اللہ پاک نے اپنی کتاب قرآنِ کریم میں یہ حکم ارشاد فرمایا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ (صراط الجنان، 2/230)

حاکمِ اسلام کے 5 حقوق:

(1)اطاعت کرنا: حاکمِ اسلام کی اطاعت و فرمانبرداری ہر فردِ بشر پر واجب ہے بشرطیکہ اس کا حکم شریعت کے مطابق ہو۔ جیسا کہ حضور نبیِّ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری نافرمانی کی۔(بخاری،2/297، حدیث: 2957)

(2، 3)اچھائی پر شکر اور بُرائی پر صبرکرنا: رسولِ اكرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:حاکمِ اسلام زمین پر اللہ کا سایہ ہے اور جب وہ تمہارے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اُس کے لئے اجر ہے اورتم پر شکر لازم ہے اور اگر بُرا سلوک کرے تو اس کا گناہ اُس پر ہے اور تمہارے لئے صبر ہے۔(شعب الایمان،6/15،حدیث:7369)

(4)ان کی عزت کرنا: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما کا فرمان ہے: سلاطین کی عزت و توقیر کرو کیونکہ جب تک یہ عدل کریں گے یہ زمین پر اللہ پاک کی قوت اور سایہ ہوں گے۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں،1/187)

(5)خیر خواہی:حاکمِ اسلام کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے، اگر کوئی کوتاہی نظر آئے تو احسن طریقے سے انہیں متنبہ کیا جائے، انہیں بلکہ تمام مسلمانوں کو صحیح، سچے اور اچھے انداز میں مشورہ دیا جائے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ- (پ 14، النحل: 125) ترجمہ: اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اسی طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہے۔

کسی ملک میں کا نظام چلانے اور اس میں امن وسکون قائم کرنے اور رکھنے کے لیے دوباتیں ضروری ہیں۔(1) حکمران کا عادل ومنصف اور عوام کے دکھ درد کو سمجھنے والا ہونا۔(2) عوام کا اپنے حکمرانوں کے ساتھ تعاون کرنا۔ حکمرانوں کے بارے میں فرمان رسول ﷺ ہے: سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اُس دن اللہ اپنے (عرش) کا سایہ عطا فرمائے گا جس دن کوئی سایہ نہیں ہوگا،ان میں سے ایک عادل حکمران ہے۔ (بخاری، 1/480، حدیث: 1423)

حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر ایک سے سوال ہوگا اس کی رعیت کا (حاکم سے مراد منتظم اور نگران کار اور محافظ ہے)، پھر جو کوئی بادشاہ ہے وہ لوگوں کا حاکم ہے اور اس سے سوال ہوگا اس کی رعیت کاکہ اس نے اپنی رعیت کے حق ادا کیے، ان کی جان ومال کی حفاظت کی یا نہیں۔ آدمی حاکم ہے اپنے گھر والوں کا اس سے سوال ہوگا ان کا۔ عورت حاکم ہے اپنے خاوند کے گھر کی اور بچوں کی۔ اس سے ان کا سوال ہوگااور غلام حاکم ہے اپنے مالک کے مال کا،اس سے اس کا سوال ہوگا۔ (بخاری، 2/159، حدیث:2554)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہرحاکم کے دو ہم راز ہوتے، ایک ہم راز اسے نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے منع کرتا ہے اور دوسرا اس کی ہلاکت و تباہی کیلئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتا۔ جو حاکم اس کے شر سے بچ گیا وہ تو محفوظ ہوگیا۔

ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ اگر ہم پر ایسے حکمران مسلط ہو جائیں جو ہمارا حق نہ دیں، لیکن اپنا حق مانگیں (تو ہمارے لیے کیا حکم ہے) ؟رسول اللہ نے فرمایا: تم ان کی بات سننا اور ماننا، ان کے ذمے وہ بوجھ ہے جو انہیں اٹھوایا گیا (یعنی عدل و انصاف)۔ (مسلم، ص 792، حدیث: 4782)

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حقوق اللہ حقوق العباد اور ہر طرح کے حقوق جو ہم پر عائد ہیں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اگر کسی بستی میں کوئی حکمران مقرر نہ ہو تو وہاں کا نظام خراب ہوجاتا اور معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس لیے ہر بستی میں حکمران کا ہونا ضروری ہے تاکہ وہ وہاں کے نظام کو درست طریقے پر چلا سکے اس کے لیے رعایا پر لازم ہے کہ وہ اپنے حکمران کی اطاعت کرے اس کے ہر جائز حکم کو پورا کریں حکمران کی اطاعت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔(صراط الجنان، 2/230)

اسکے علاوہ احادیث مبارکہ میں بھی حکمرانوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں۔ ذیل میں حاکم کے حقوق پیش خدمت ہیں۔

(1)اطاعت کرنا: حاکمِ اسلام کی اطاعت و فرمانبرداری ہر فردِ بشر پر واجب ہے بشرطیکہ اس کا حکم شریعت کے مطابق ہو۔ جیسا کہ حضور نبیِّ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری نافرمانی کی۔ (بخاری،2/297، حدیث: 2957)

(2) ناپسند یدہ بات پر صبر کرنا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے اپنے حاکم سے کوئی ناپسندیدہ شے پہنچے تو اُس کو چاہیے کہ صبر کرے کیونکہ جو سلطان سے ایک بالشت بھی دور نکلا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ (مسلم، ص 793، حدیث: 4790)

(3) ان کی عزت کرنا: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما کا فرمان ہے: سلاطین کی عزت و توقیر کرو کیونکہ جب تک یہ عدل کریں گے یہ زمین پر اللہ پاک کی قوت اور سایہ ہوں گے۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں، 1/187)

(4) بات سننا: حضرت ام الحصین رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تم پر ناقص الاعضاء غلام حاکم بنا دیا جائے جو تم کو اللہ کی کتاب سے چلائے اُس کی سنو اور اطاعت کرو۔ (مسلم، ص 1023، حدیث: 1838)

اس کے علاوہ بھی حاکم کے بہت سے حقوق ہیں جن کو ادا کرنا رعایا پر لازم ہے۔ ان احادیث مبارکہ سے حاکم کی اطاعت کا معلوم ہوا لیکن یہ بھی یاد رہے کہ حاکم کا وہی حکم مانا جائے گا جو کہ شریعت کے موافق ہو اگر وہ شریعت کے خلاف کسی چیز کا حکم کرے تو اسکو ماننا ضروری نہیں بلکہ ناجائز و گناہ ہے۔

اللہ ہمیں شر و فساد سے محفوظ فرما کر اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والا بنائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

دین اسلام حکمرانوں کو رعایا کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنےاور رعایا کو حکمرانوں کے حکم ماننے کی تاکید کرتا ہے حاکم کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں حکمرانوں کی بات سننا اور بقدر استطاعت اطاعت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے: اللہ تعالیٰ نے حکمرانوں کی اطاعت فرماں برداری کا جو حکم ارشاد فرمایا اُسے نبی کریم ﷺ نے بہت واضح کر کے لوگوں تک پہنچا دیا۔ اللہ ہمیں نیک اور اچھے پرہیز گار حکمران نصیب فرمائے اور جائز امور کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اطاعت کرنا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

صراط الجنان میں اس کی تفسیر میں لکھا ہے: اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے۔ جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں تو اُن کی اطاعت نہیں کی جائے گی: آیت میں اولی الامر کی اطاعت کا حکم ہے اس میں امام، امیر، بادشاہ حاکم سب داخل ہیں۔ (صراط الجنان، 2/230)

عدم بغاوت اور انکے لئے دعا: اگر حاکم اسلام سے باغی نہیں ہے تو اس سے بغاوت جائز نہیں ہے، بلکہ حتی الامکان اسکے اصلاح کی کوشش کی جائے اور انکے اصلاح و حق پر ثبات کیلئے دعا کی جائے۔

فرمان نبوی: تمہارے اچھے حاکم وہ ہیں کہ تم ان سے محبت رکھتے ہو اور وہ تم سے محبت رکھتے ہیں اور وہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں اور تم انکے لئے دعا کرتے ہو، اور تمہارے حاکموں میں سے برے حاکم وہ ہیں کہ تم ان سے بغض رکھتے ہو اور وہ تم سے بغض رکھتے ہیں اور تم ان پر لعنت بھیجتے ہو اور وہ تم پر لعنت بھیجتے ہیں، آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول ! ہم ایسے حاکموں کو تلوار لیکر انکے خلاف علم بغاوت نہ بلند کریں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نہیں، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں (ان کے خلاف بغاوت نہ کرنا) اور جب تم اپنے حاکموں سے کوئی ایسی شے دیکھو جسے تم ناپسند کرتے ہو تو ان کے عمل کو برا سمجھنا مگر انکی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچنا۔ (مسلم، ص 795، حدیث: 4804)

انکے جو حقوق ہیں انکی ادائیگی کرکے انکے ساتھ تعاون کریں حاکم کے لئے مشکلات پیدا کرنے سے بچیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: سنو اوراطاعت کرو اگرچہ حبشی غلام حاکم بنادیاجائے جس کاسرکشمش کی طرح ہو۔ (مراۃ المناجیح، 5/360)

مسلمانوں پر لازم ہے کہ انکے حقوق کی ادائیگی کاخیال رکھیں جب تک حاکم اللہ کی نافرمانی کاحکم نہ دےبہت سی احادیث میں حاکم کی اطاعت کرنےکی تاکیدآئی ہےاسی طرح مشکوۃ شریف کی ایک اور روایت پیش خدمت ہےکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہےکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: سننا اور اطاعت کرنا ہر مسلمان آدمی پرلازم ہے۔ (مراۃ المناجیح، 5/360)

یعنی سلطان اسلام کاجائزحکم تمہاری طبیعت کےخلاف ہویاموافق قبول کرولیکن اگروہ خلاف شرع حکم دےتواس کی فرمانبرداری نہ کی جائےاوراس بناپربغاوت بھی نہ کی جائے۔


کسی بھی معاشرے میں زندگی کے معاملات کو صحیح طور پر چلانے کے لیے ایک حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہے شہری زندگی ہو یا دیہاتی بغیر حاکم کے کسی بھی جگہ کا نظام درست نہیں رہ سکتا، اور کوئی بھی حاکم معاشرے میں اس وقت تک امن و امان قائم نہیں کر سکتا جب تک کہ اسے رعایا کا تعاون حاصل نہ ہو، اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ کسی بھی معاشرے کے اندر بد امنی کے پھیلنے میں سب سے بڑا دخل حاکم و محکوم کی اپنی ذمہ داری اور اپنے اوپر واجبی حقوق کے ادا کرنے میں کوتاہی ہے، اس لیے اس امر کی معرفت ضروری ہے کہ حاکم و محکوم اپنے فرائض و واجبات کو پہچانیں۔ رعایا پر حاکم کے حقوق درج ذیل ہیں:

(1) سننا اور ماننا: جو شخص کسی بھی طرح سے حاکم بن چکا ہے، اس کی اطاعت و فرمانبرداری ہر فرد بشر پر واجب ہے، بشرطیکہ وہ حاکم جائز اور استطاعت کی حدود میں ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

(2) خیر خواہی اور نصیحت: ان کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے اگر کوئی کوتاہی نظر آئے تو انہیں احسن طریقے سے آگاہ کیا جائے، انہیں صحیح اور اچھا مشورہ دیا جائے۔ اس ضمن میں ایک حدیث پاک ملاحظہ فرمائیں: فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے دین خیر خواہی کا نام ہے۔ پوچھا گیا کس کی خیر خواہی؟ آپ نے فرمایا: اللہ کی اس کے رسول، اللہ کی کتاب کی، مسلمانوں کے حاکموں کی، اور عام مسلمانوں کی۔ (ترمذی، 3/371، حدیث: 1932)

(3) انکے ساتھ تعاون: اس معنیٰ میں کہ انکے جو حقوق و واجبات اپنے اوپر ہیں انہیں ادا کرنے کی کوشش کریں اور اگر اپنے حقوق پامال ہو رہے ہو تو اس کی وجہ سے اپنا دست تعاون نہ کھینچے۔ ایک بار رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ ہم پر کچھ ایسے حاکم مسلط ہوجائیں وہ ہم سے اپنا حق تو مانگیں لیکن ہمیں ہمارا حق نہ دے تو ہمارے لئے کیا حکم ہے؟ اولاً آپ خاموش رہے لیکن دوبارہ سوال کرنے پر فرمایا:تم انکی بات سنو اور مانو انکی جو ذمہ داری ہے وہ ان پرہے اور تمہاری جو ذمہ داری ہے وہ تم پر ہے۔(مسلم، ص 792، حدیث: 4782)

(4)عدم بغاوت اور انکے لئے دعا:اگر حاکم اسلام سے باغی نہیں ہے تو اس سے بغاوت جائز نہیں ہے بلکہ حتی الامکان اس کے اصلاح کی کوشش کی جائے اور اسکے اصلاح کی کوشش کی جائے اور ان کے اصلاح و حق پر ثبات کے لیے دعا کی جائے۔

فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: تمہارے اچھے حاکم وہ ہیں کہ تم ان سے محبت رکھتے ہو اور وہ تم سے محبت رکھتے ہو اور وہ تمہارے لئے دعا کرے اور تم ان کے لئے دعا کرتے ہو۔ (مسلم، ص 795، حدیث: 4804) اللہ پاک سے دعا کہ ہمارے حکمرانوں کو حق کے ساتھ نظام حکومت کی چلانے والا بنائے اور دین اسلام کو غلبہ عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین

کوئی بھی معاشرہ ہو یا شعبہ اس میں پیش آنے والے معاملات کو اچھے طریقے سے چلانے کے لیے ایک حاکم کی ضرورت ضرور ہوتی ہے جس سے مذہب اسلام کے ساتھ دین و دنیا کی بھلائی ہو۔ ایک سردار کے بغیر نظام قائم نہیں رہ سکتا اور حاکم اپنی رعایا کے تعاون سے ہی بہترین نظم و ضبط قائم کر سکتا ہے۔ لیکن اگر حاکم و محکوم اپنے حقوق میں کوتاہی سے کام لیں تو معاشرہ بدامنی کی طرف جائے گا اسی کے پیش نظر دین اسلام میں حاکم اور محکوم کے ایک دوسرے پر حقوق بیان کیے گئے ہیں رعایا پر حاکم کے حقوق کیا ہیں ملاحظہ کیجیے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

آیت مبارکہ میں نبی برحق ﷺ کے بعد امیر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے یعنی مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا حکم ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔نیز آیت میں اُولِی الْاَمْرِ یعنی اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں ان کی اطاعت کا حکم فرمایا گیا، اس میں امام، امیر، بادشاہ، حاکم، قاضی، علماء سب داخل ہیں۔ (صراط الجنان، 2/230)

حاکم کے حق میں حدیث پاک میں ارشاد فرمایا گیا، چنانچہ

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم پر ناقص الاعضاء غلام حاکم بنادیا جائے جو تم کو اللہ کی کتاب سے چلائے اس کی سنو اور اطاعت کرو۔ (مسلم، ص 1023، حدیث: 1838)

اگر سلطان اسلام کسی حبشی غلام کو تمہارا حاکم بنادے تب بھی تم اس غلام حاکم کی فرمانبرداری کرو کہ یہ سلطان کی اطاعت ہے یا اگر بالفرض حبشی غلام سلطان بن جائے جسے مسلمان چن لیں تو اگرچہ وہ خلیفہ تو نہیں لیکن تب بھی اُس کی اطاعت کرو نیز نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری نافرمانی کی۔ (بخاری، 4/453، حدیث: 7137)عدل و انصاف پر شکر اور ظلم پر صبر کرنا رعایا پر لازم ہے کہ وہ امیر کی اطاعت کرے اور ظلم پر صبر رکھے کہ زمین پر بغاوت و فساد برپا نہ ہو، چنانچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بادشاہ زمین میں اللہ کا سایہ ہے جس کی طرف اللہ کے بندوں میں سے ہر مظلوم پناہ لیتا ہے تو اگر انصاف کرے تو اس کے لیے ثواب ہے اور رعایا پر شکر واجب ہے اور جب ظلم کرے تو اس پر بوجھ ہےاور رعایا پر صبر واجب ہے۔ (شعب الایمان، 6/15،حدیث:7369)

ان کی عزت کرنا حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: سلاطین کی عزت و توقیر کرو کیونکہ جب تک یہ عدل کریں گے یہ زمین پر اللہ پاک کی قوت اور سایہ ہوں گے۔

خیر خواہی کرنا حاکم اسلام کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا جاے اگر کوئی کوتاہی نظر آئے تو احسن طریقے سے انہیں متنبہ کیا جائے اور دعائے خیر کی جائے، انہیں ہی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کو صحیح، سچے اور اچھے اخلاق سے مشورہ دیا جائے۔ (ماہنامہ فیضان مدینہ، اپریل 2024، ص 51) چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ- (پ 14، النحل: 125) ترجمہ: اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اسی طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہے۔

آخر میں اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں اپنا اور اپنے حبیب ﷺ کا اطاعت گزار بندہ بنائے ہمارے حکمرانوں کو حق کے ساتھ نظام حکومت کو چلانے والا بنائے اور دین اسلام کو غلبہ عطا فرمائے۔ آمین


کسی بھی معاشرے میں زندگی کے معاملات کو صحیح طور پر چلانے کے لئے ایک حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہے، شہری زندگی ہو یا دیہاتی، بغیر حاکم و امیر کے کسی بھی جگہ کا نظام دُرست نہیں رہ سکتا اور کوئی بھی حاکم معاشرے میں امن و امان اس وقت تک قائم نہیں کرسکتا جب تک کہ اسے رعایا کا تعاون حاصل نہ ہو۔ اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ کسی بھی معاشرے کے اندر بدامنی کے پھیلنے میں سب سے بڑا دخل حاکم اور محکوم کی اپنی اپنی ذمہ داری اور اپنے اوپر واجبی حقوق کو ادا کرنے میں کوتاہی ہے، اس لئے اس امر کی معرفت ضروری ہے کہ حاکم و محکوم اپنے فرائض و واجبات کو پہچانیں۔ اسی کے پیش نظر رعایا پر حاکم کے چند حقوق ذکر کئے جارہے ہیں ملاحظہ کیجئے:اللہ پاک نے اپنی کتاب قراٰنِ کریم میں یہ حکم ارشاد فرمایا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔(صراط الجنان، 2/230)

حاکمِ اسلام کے حقوق:

(1)اطاعت کرنا: حاکمِ اسلام کی اطاعت و فرمانبرداری ہر فردِ بشر پر واجب ہے بشرطیکہ اس کا حکم شریعت کے مطابق ہو۔ جیسا کہ حضور نبیِّ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری نافرمانی کی۔(بخاری،2/297، حدیث: 2957)

( 2)اکرام کرنا: حاکم اسلام کی عزت و احترام کرنا ضروری ہے اس کی توہین نہ کی جائے حضور ﷺ نے حاکم کی عزت نہ کرنے کے حوالے سے فرمایا: جس نے سلطان کی اہانت کی اللہ اسے ذلیل کرے گا۔ (ترمذی، 4/96، حدیث: 2231) اس حدیث مبارکہ کی شرح میں ہے کہ شریعت و سنت کے پابند حاکم سے کوئی افضل نہیں ہو سکتا اس کی دعا رد نہیں کی جاتی بروز قیامت اسے قرب خداوندی نصیب ہوگا۔ (فیضان ریاض الصالحین، 5/659)

( 3)حکم کی بجا آوری: رعایا کو چاہیے کہ حاکم کے حقوق ادا کرے اور اس کے حکم کی اطاعت کرے اگر شریعت کے موافق ہے حاکم چاہے رعایہ کے حقوق ادا کرتا ہو یا نہ حضور ﷺ سے ایسے حاکم کے بارے میں پوچھا گیا جو رعایہ کے حقوق ادا نہ کرتا تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا فَإِنَّمَا عَلَيْهِمْ مَا حُمِلُوا وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ بے شک ان پر وہ لازم ہے جس کے وہ پابند کیے گئے ہیں اور تم پر وہ لازم ہے جس کے تم پابند کیے گئے ہو۔ (مسلم، ص 792، حدیث: 4782)

(4) حاکم سے جھگڑا نہ کرنا: علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر کوئی حاکم سے جھگڑے تو اسکی گردن اڑا دو (یہ خطاب حکمرانی میں جھگڑنے والے اور اس کی بیعت لینے والے دونوں کو شامل ہے)۔ (مرقاة المفاتيح، 7/ 260، حدیث: 3679)

(5)حکمرانوں کے عیب ظاھر نہ کرنا: حضرت زید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب اپنے حقوق کے بارے میں دعا کرو تو اپنی آواز پست رکھو کیونکہ بلند آواز سے دعا کرنے میں ظالم حکمرانوں کے عیوب لوگوں پر ظاہر ہوں گے جو ان کے لیے بے عزتی کا سبب بنیں گے اور حکمران اسے اپنے لیے گالی سمجھیں گے اور یہ موجب فتنہ و فساد ہے۔ (ریاض الصالحین، 5/ 653)

(6)سلطان کی توہین نہ کرنا: حضرت سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس نے سلطان کی اہانت کی اللہ اسے ذلیل کرے گا۔ (ترمذی، 4/96، حدیث: 2231)

(7)اچھائی پر شکر اور بُرائی پر صبر کرنا: رسولِ اكرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:حاکمِ اسلام زمین پر اللہ کا سایہ ہے اور جب وہ تمہارے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اُس کے لئے اجر ہے اورتم پر شکر لازم ہے اور اگر بُرا سلوک کرے تو اس کا گناہ اُس پر ہے اور تمہارے لئے صبر ہے۔ (شعب الایمان،6/15،حدیث:7369)

ہمارے پیارے پیارے آقا حضور جانِ جاناں ﷺ تو ایسے حاکم ہیں کہ چور بھی ہمارے مدنی آقا ﷺ کے دامنِ کرم میں پناہ لیتے ہیں گنہ گار بھی ان کی کملی میں چھپتے ہیں، میرے امام الشاہ الحافظ القاری امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی فرماتے ہیں:

چور حاکم سے چھپا کرتے ہیں یاں اس کے خلاف تیرے دامن میں چھپے چور انوکھا تیرا

(8)ان کی عزت کرنا: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما کا فرمان ہے: سلاطین کی عزت و توقیر کرو کیونکہ جب تک یہ عدل کریں گے یہ زمین پر اللہ پاک کی قوت اور سایہ ہوں گے۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں،1/187)

(9)خیر خواہی: حاکمِ اسلام کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے، اگر کوئی کوتاہی نظر آئے تو احسن طریقے سے انہیں متنبہ کیا جائے، انہیں بلکہ تمام مسلمانوں کو صحیح، سچے اور اچھے انداز میں مشورہ دیا جائے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ- (پ 14، النحل: 125) ترجمہ: اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اسی طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہے۔

پیاری پیاری اسلامی بہنو! ان تمام اقوال اور احادیث سے معلوم ہوا کہ رعایا کو اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے حکمران کی اطاعت کرنی چاہیے ہاں اگر وہ برائی کا حکم دے تو اطاعت واجب نہیں بلکہ نا جائز اور گناہ ہے اسکی اصلاح کے لیے اللہ سے دعا کرنی چاہیے اور اپنی اصلاح کی طرف بھی بھر پور توجہ دینی چاہیے کیونکہ رعایا کے برے اعمال کے سبب ہی برے حکمران مسلط کیے جاتے ہیں لوگ حکمرانوں کو تو برا بھلا کہتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے اگر رعایا سدھر جائیں تو حکمران بھی سدھر جائیں گے۔

اللہ ہمیں حکمرانوں سے محفوظ فرمائے اور نیک حکمران عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین

معاشرے کے امن و امان اور بقاء کے لیے حاکمِ اسلام کا وجود و رعایا کا تعاون دونوں نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ امیر و حاکم کے بغیر ملک و معاشرے کا نظام درست نہیں ہو سکتا۔ لہذا حاکم کے حقوق کی آگاہی و آشنائی ضروری ہے تا کہ معاشرہ افراط و تفریط کا شکار نہ ہو۔ اللہ فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

احادیث کی روشنی میں حاکمِ اسلام کے حقوق:

1) اطاعت و فرمانبرداری کرنا حاکمِ اسلام کا کلام سُننا اور اس کی اطاعت کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے، چاہے وہ حکم مزاج و طبیعت کے موافق ہو یا نہ ہو بشرطیکہ وہ حکم شریعت کے خلاف نہ ہو۔ اگر کوئی حکم شریعت سے ٹکراتا ہو تو اس حکم کی اطاعت ہرگز جائز نہیں۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ہر مسلمان(حاکم کا حکم) سننا اور اس کی اطاعت کرنا لازم ہے چاہے اسے وہ حکم پسند ہو یا نہ پسند، سوائے گناہ کے حکم کے کہ جب گناہ کا حکم دیا جائے تو اسے نہ سننا لازم ہے اور نہ ہی اس کی اطاعت کرنا لازم۔ (بخاری، 4/455، حدیث: 7144)

2) ناگوار بات پر صبر کرنا رعایا کو حاکم کی طرف سے کوئی ناپسندیدہ بات پہنچے تو اس پر صبر کرے اور اس کی اطاعت سے نہ نکلے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے اپنے حاکم سے کوئی ناپسندیدہ شے پہنچے تو اسے چاہئے کہ صبر کرے کیونکہ جو سلطان سے ایک بالشت بھی دور نکلا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ (مسلم، ص 793، حدیث: 4790)

3) عزت و تکریم کرنا حاکم کا حق ہے کہ اس کی عزت و تعظیم کی جائے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے: سلاطین کی عزت و توقیر کرو کیونکہ جب تک یہ عدل کریں گے یہ زمین پر اللہ پاک کی قوت اور سایہ ہوں گے۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں، 1/187)

4) خیر خواہی کرنا حاکمِ اسلام کا حق ہے کہ ہر معاملے میں اس کے ساتھ خیرخواہی کی جائے اگر کسی چیز میں کوتاہی و لاپرواہی دکھائی دے تو نہایت عمدگی سے اُسے متنبہ(خبردار) کیا جائے اور اچھے انداز میں مشورہ دیا جائے۔ چنانچہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے: اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ- (پ 14، النحل: 125) ترجمہ: اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اسی طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہے۔

اللہ رب الانام ہمیں ان حقوق پر عمل پیرا ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

کسی بھی معاشرے میں زندگی کے معاملات کو صحیح طور پر چلانے کے لیے ایک حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہے، شہری زندگی ہو یا دیہاتی،بغیر حاکم و امیر کے کسی بھی جگہ کا نظام نہیں چل سکتا اور کوئی بھی حاکم معاشرے میں اس وقت تک نظام قائم نہیں کر سکتا جب تک کہ اسے رعایا کا تعاون حاصل نہ ہو۔اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہو گا کہ کسی بھی معاشرے کے اندر بدامنی کے پھیلنے میں سب سے بڑا دخل حاكم اور محكوم كی اپنی ذمہ داری اور اپنے اوپر واجبہ حقوق کو ادا کرنے میں کوتاہی ہے،اس لئے اس امر کی معرفت ضروری ہے کہ حاکم و محکوم اپنے فرائض و واجبات کو پہچانیں۔ اللہ پاک نے اپنی کتاب قرآن پاک میں یہ حکم ارشاد فرمایا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حكم كريں تو ان کی اطاعت نہیں کریں گے۔ (صراط الجنان،2/230)

اسی طرح حدیث مباركہ میں بھی حکمرانوں کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اُس دن اللہ اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائے گا،جس دن کوئی سایہ نہیں ہو گا،ان میں سے ایک عادل حکمران بھی ہے۔ (بخاری، 1/480، حدیث: 1423)

حاکم اسلام کے 2 حقوق درج ذیل ہیں:

1-اطاعت کرنا:حاکمِ اسلام کی اطاعت و فرمابرداری ہر فردِ بشر پر واجب ہے بشرطیکہ اس کا حکم شریعت کے مطابق ہو۔جیسا کہ ارشادِ رسول ﷺہے: جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔(بخاری،2/297،حدیث:2957)

2-ان کی عزت کرنا:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: سلاطین کی عزت وتوقیر کرو کیونکہ جب تک یہ عدل کریں گے یہ زمین پر اللہ پاک کی قوت اور سایہ ہوں گے۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں، 1/187)

آخر میں اللہ پاک سے دعا کرتی ہوں کہ ہمیں اپنے امیر اور حکمرانوں جو شریعت کے اصولوں پر عمل کرتے ہوں ان کا فرما نبردار بنا دے۔ آمین


کسی بھی ریاست کے نظام کو صحیح طور پر چلانے کے لیے حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہے۔ حاکم اپنے مقصد میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اسے رعایا کی حمایت حاصل نہ ہو۔ معاشرے کا نظام بہتر طور پر چلانے کے لیے ضروری ہے کہ حاکم ورعایااپنے حقوق و فرائض کو پہنچانیں۔ اسی کے پیش نظر یہاں حاکم کے چند حقوق بیان کیے جاتے ہیں، ملاحظہ کیجئے:

اطاعت کرنا: چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

اولی الامر میں حاکم، بادشاہ، امیر اورقاضی سب داخل ہیں۔ (صراط الجنان، 2/230) اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک اور رسول ﷺ کی اطاعت کے ساتھ حاکم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔معلوم ہوا حاکم کی اطاعت واجب ہے بشرط یہ کہ وہ خلاف شریعت کوئی حکم نہ دے۔ حدیث پاک میں ہے: اطاعت فرمانبرداری سے کام لو۔ اگرچہ تم پر ایک حبشی شخص کو حاکم مقرر کیا جائے جس کا سر انگور کی مانند ہو (چھوٹا ہو)۔ (مراۃ المناجیح، 5/360)

احترام کرنا: حاکم کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کی عزت و احترام کیا جائے۔حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی عظمت کے اعتراف میں یہ بات بھی شامل ہے، عمر رسیدہ مسلمان کا احترام کیا جائے،اور قرآن کے عالم کا احترام کیا جائے،تا ہم اس بارے میں انتہا پسندی اور بدتمیزی سے گریز کیا جائے اور انصاف کرنے والے حکمران کا احترام کیا جائے۔

خیر خواہی کرنا: حاکم کے ساتھ خیر خواہی کا سلوک برتا جائے۔اگر اس کے طے کردہ معاملات میں کوئی کمی نظر آئے تو احسن انداز میں اس اسے مفید مشورہ دیا جائے کیونکہ قرآن پاک میں ہے: اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ- (پ 14، النحل: 125) ترجمہ: اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اسی طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہے۔

بغاوت نہ کرنا: رعایا کو چاہیے اپنے حاکم کے خلاف بغیر شرعی مصلحت کے بغاوت نہ کرے۔کیونکہ کے حاکم کے خلاف بغاوت کرنا اصل میں اپنے ملک کے ساتھ بغاوت کرنا ہے اور یہ حب الوطنی کے خلاف ہے جبکہ الوطنی ایمان سے ہے۔

مرتبے کالحاظ رکھنا: عوام کا فرض ہے وہ اپنے حاکم کے مرتبے کا لحاظ رکھے۔اگرچہ وہ نرم طبیعت کا مالک ہو پھر بھی ہر وقت اس کا خوف رکھے اور اس پر جراءت کا مظاہرہ نہ کرے۔ اس کے دروازے پر آنا جانا کم رکھے۔اس سے اسی کام میں مدد لے جو اس کی ذمہ داری ہے۔خواہ مخواہ کا بوجھ اس پر نہ ڈالے۔

اللہ سے دعا ہے ہمیں حقوق العباد بالخصوص حاکم کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں ! دین اسلام حکمرانوں کو رعایا کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنےاور رعایا کو حکمرانوں کے حکم ماننے کی تاکید کرتا ہے حاکم کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں حکمرانوں کی بات سننا اور بقدر استطاعت اطاعت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے : اللہ تعالی نے حکمرانوں کی اطاعت فرماں برداری کا جو حکم ارشاد فرمایا اُسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت واضح کر کے لوگوں تک پہنچا دیا اللہ عز و جل ہمیں نیک اور اچھے پرہیز گار حکمران نصیب فرمائے اور جائز امور کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.

(1) اطاعت کرنا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں ۔

صراط الجنان میں اس کی تفسیر میں لکھا ہے اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے۔ جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں تو اُن کی اطاعت نہیں کی جائے گی: آیت میں " أولي الأمر" کی اطاعت کا حکم ہے اس میں امام، امیر، بادشاہ حاکم سب داخل ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان، پارہ 5، ص 230)

(2) ناپسند یدہ بات پر صبر کرنا : حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جسے اپنے حاکم سے کوئی ناپسندیدہ شے پہنچے تو اُس کو چاہیے کہ صبر کرے کیونکہ جو سلطان سے ایک بالشت بھی دور نکلا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ ( ریاض الصالحین جلد 5 ، ص 657)

(3)اہانت نہ کرنا : حضرت سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : " جس نے سلطان کی اہانت کی، اللہ عزوجل اُسے ذلیل کرے گا" ۔ ( ترمذی شریف، حدیث 2231)

(4) بات سننا :حضرت ام الحصین رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم پر ناقص الاعضاء غلام حاکم بنا دیا جائے جو تم کو اللہ کی کتاب سے چلائے اُس کی سنو اور اطاعت کرو. (مرآۃ المناجح , جلد 5 ص 382)

(5) حکم ماننا: حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر مسلمان پر حاکم کا حکم سننا اور اُس کی اطاعت کرنا لازم ہے چاہے وہ حکم اس کو پسند ہو یا نہ ہو سوائے گناہ کے حکم کے کہ جب گناہ کا حکم دیا جائے تو اُسے نہ سننا لازم ہے اور نہ ہی اُس کی اطاعت کرنا لازم ہے. (مسلم ، کتاب الامارة،حدیث 4763)

اللہ عزوجل ہمیں حاکم کا حکم ماننے اور اس کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


معاشرے کا حکومتی نظام رعایا اور حکمرانوں سے مل کر چلتا ہے دین اسلام حکمرانوں کو دعایا کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے اور حکمرانوں کا حکم ماننے کی تاکید کرتا ہے جیسے حکمرانوں پر دعایا کی دیکھ بال لازم ہے ویسے ہی دعایا پر بھی اپنے حکام کی اطاعت و فرمانبرداری لازم ہے اور حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں کیونکہ حکمرانوں کی مخالفت سے اسلام کی اجتماعیت کو نقصان پہنچتا ہے افتراق و انتشار کی کیفیت پیدا ہوتی ہے جبکہ شریعت اسلامیہ کو مسلمانوں کا متحد رہنا پسند ہے ہاں اگر کوئی امیر یا حاکم شریعت اسلامیہ کے خلاف کوئی حکم دے تو اس معاملے میں اسکی اطاعت واجب نہیں بلکہ ناجائز و گناہ ہے۔ آئیے اب ہم حاکم کے حقوق سنتے ہیں؟

(1) حاکم کی اطاعت کرنا: علامہ ابو عبد الله محمد بن احمد قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حاکم اگر کسی جائز کام کا حکم دے تو اسکی اطاعت کرنا واجب ہے اور اگر نا جائز کام کا حکم دے تو ہرگز اسکی اطاعت نہ کی جائے پھر اگر وہ ناجائز کام کفر ہو تو مسلمانوں پر اس حاکم کو معزول کرنا واجب ہے۔ (ریاض الصالحین جلد 5 ص634)

(2)ظالم حکمران کے خلاف بغاوت نہ کرنا: حضرت سیدنا علامہ عبد الرحمن ابن جوزی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں حکمران اگرچہ ظالم ہوں مگر پھر بھی ان کے خلاف بغاوت کی ممانعت ہے کیونکہ بغاوت ایک ایسا فتنہ ہے جو جان و مال اور عزت کو ہلاک کر دیتا ہے حاکم کے خلاف بغاوت کرنے والے کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے محل بنوایا اور شہر کو تباہ کر دیا۔ (ریاض الصالحین جلد 5 ص 642)

(3) حاکم سے جھگڑا نہ کرنا : علامہ ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا اگر کوئی حاکم سے جھگڑے تو اسکی گردن اڑا دو۔ (یہ خطاب حکمرانی میں جھگڑنے والے اور اس کی بیعت لینے والے دونوں کو شامل ہے (مرقاة المفاتيح ، كتاب الامارة والقضاء، الفصل الاول 260/7 حدیث3679)

(4)حکمرانوں کے عیب ظاھر نہ کرنا: حضرت سیدنا زید رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں جب اپنے حقوق کے بارے میں دعا کرو تو اپنی آواز پست رکھو کیونکہ بلند آواز سے دعا کرنے میں ظالم حکمرانوں کے عیوب لوگوں پر ظاھر ہوں گے جو ان کے لیے بے عزتی کا سبب بنیں گے اور حکمران اسے اپنے لیے گالی سمجھیں گے اور یہ موجب فتنہ وفساد ہے۔ (ریاض الصالحین جلد 5 ص 653)

(5)سلطان کی توھین نہ کرنا : حضرت سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے سلطان کی اھانت کی اللہ اسے ذلیل کرے گا (ریاض الصالحین جلد 5 ص 659)

پیارے پیارے بھائیو ان تمام اقوال اور احادیث سے معلوم ہوا کہ دعایا کو اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے حکمران کی اطاعت کرنی چاہیے ہاں اگر وہ برائ کا حکم دے تو اطاعت واجب نہیں بلکہ نا جائز اور گناہ ہے اسکی اصلاح کے لیے اللہ سے دعا کرنی چاہیے اور اپنی اصلاح کی طرف بھی بھر پور توجہ دینی چاہیے کیونکہ رعایا کے برے اعمال کے سبب ہی برے حکمران مسلط کیے جاتے ہیں لوگ حکمرانوں کو تو برا بھلا کہتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے اگر دعایا سدھر جائے تو حکمران بھی سدھر جائے گے اللہ تعالٰی ہمیں حکمرانوں سے محفوظ فرمائے اور نیک حکمران عطا فرمائے ۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


دین اسلام میں عادل حاکم و پابند شرح حاکم کا بہت مقام و مرتبہ بیان کیا گیا ہے. اچھے حاکم کو رحمت الہی قرار دیا گیا ہے حکمرانوں کی اطاعت کو اللہ عزوجل کی اطاعت اور ان کی نافرمانی کو اللہ عزوبل کی نافرمانی قرار دیا گیا ہے لیکن ان کی اطاعت صرف ان کاموں میں کی جائے گی جو خلاف شرع نہ ہو۔ عدل کرنے والا حاکم قیامت کے دن عرش کے سائے میں ہو گا جس دن اور کوئی سایہ نہ ہوگا ۔ ان کے اوصاف بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق بھی بیان کیے گئے ہیں آئیے ان میں سے چند کا مطالعہ کرتے ہیں:

(1)جھگڑا نہ کرنا:حاکم کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے لیے جائز احکامات کو مانا جائے اور جھگڑے سے بچا جائے حاکم سے جھگڑا کرنے کی مذمت میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:فَإِنْ جَاءَ اخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا عُنْقَ الْأَخَرِ. اگر کوئی حاکم سے جھگڑے تو اس کی گردن اڑا دو. (مسلم، کتاب الامارة، باب الامر بالوفاء ببيعة الخلفاء الاول فالاول ، ص 790 ، حدیث : 4776)

(2)حکم کی بجا اوری:روایا کو چاہیے کہ حاکم کے حقوق ادا کرے اور اس کے حکم کی اطاعت کرے اگر شریعت کے موافق ہے حاکم چاہے رعایہ کے حقوق ادا کرتا ہو یا نہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے ایسے حاکم کے بارے میں پوچھا گیا جو رعایہ کے حقوق ادا نہ کرتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا فَإِنَّمَا عَلَيْهِمْ مَا حُمِلُوا وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ. بے شک ان پر وہ لازم ہے جس کے وہ پابند کیے گئے ہیں اور تم پر وہ لازم ہے جس کے تم پابند کیے گئے ہو۔ (مسلم، كتاب الامارة، باب في طاعة الامراء وان منعوا الحقوق، ص 792 ، حدیث: 4782)

(3)صبر کرنا:رعایہ کو چاہیے کہ اگر حاکم کی طرف سے کوئی بات بری لگے تو اس پر صبر کریں کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا جس سے اپنے حاکم سے کوئی ناپسندیدہ شے پہنچے اسے چاہیے کہ صبر کرے کیونکہ جو سلطان سے ایک بالشت بھی دور نکلا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ (بخاری، کتاب الفتن، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم : سترون بعدی امورا تنكرونها ، 429/4، حدیث: 7053)

(4)اکرام کرنا:حاکم اسلام کی عزت و احترام کرنا ضروری ہے اس کی توہین نہ کی جائے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے حاکم کی عزت نہ کرنے کے حوالے سے فرمایا:مَنْ آهَانَ السُّلْطَانَ أَهَانَهُ اللهُ . جس نے سلطان کی اہانت, کی اللہ عزوجل اسے ذلیل کرے گا. اس حدیث مبارکہ کی شرح میں ہے کہ شریعت و سنت کے پابند حاکم سے کوئی افضل نہیں, ہو سکتا اس کی دعا رد نہیں کی جاتی, بروز قیامت اسے قرب خداوندی نصیب ہوگا۔ (فیضان ریاض الصالحین، جلد 5،باب 80/حکمرانوں کی اطاعت کا بیان،حدیث 673،ص659)

(5)اطاعت کرنا : حاکم اسلام کی اطاعت کرنا ضروری ہے جس طرح کہ قران پاک میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ. ترجمہ کنز الایمان:اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

اس آیت کے تحت علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں اس ایت مبارکہ سے ثابت ہوا جب بادشاہ و حکمران قران و سنت کی پیروی کریں تو رعایا پر ان کی تابعداری واجب ہے۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں چاہیے کہ حکام اسلامی کی اطاعت اور ان کے بنائے ہوئے قانون جو شریعت کے موافق ہوں ان کی اطاعت کریں تاکہ ہمارا معاشرہ پرامن مثالی اور خوشگوار بن سکے اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حاکم اسلام کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔