حاکم کے حقوق از بنت محمد جنید رضا
عطاری،جامعۃ المدینہ تلواڑہ مغلاں سیالکوٹ
کسی بھی معاشرے میں زندگی کے معاملات کو صحیح طور
پر چلانے کے لیے ایک حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہے شہری زندگی ہو یا دیہاتی بغیر
حاکم کے کسی بھی جگہ کا نظام درست نہیں رہ سکتا، اور کوئی بھی حاکم معاشرے میں اس
وقت تک امن و امان قائم نہیں کر سکتا جب تک کہ اسے رعایا کا تعاون حاصل نہ ہو، اگر
غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ کسی بھی معاشرے کے اندر بد امنی کے پھیلنے میں
سب سے بڑا دخل حاکم و محکوم کی اپنی ذمہ داری اور اپنے اوپر واجبی حقوق کے ادا
کرنے میں کوتاہی ہے، اس لیے اس امر کی معرفت ضروری ہے کہ حاکم و محکوم اپنے فرائض
و واجبات کو پہچانیں۔ رعایا پر حاکم کے حقوق درج ذیل ہیں:
(1) سننا اور ماننا:
جو شخص کسی بھی طرح سے حاکم بن چکا ہے، اس کی اطاعت و فرمانبرداری ہر فرد بشر پر
واجب ہے، بشرطیکہ وہ حاکم جائز اور استطاعت کی حدود میں ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں
ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا
الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ
5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے
ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے
ہیں۔
(2) خیر خواہی اور نصیحت:
ان کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے اگر کوئی کوتاہی نظر آئے تو انہیں احسن
طریقے سے آگاہ کیا جائے، انہیں صحیح اور اچھا مشورہ دیا جائے۔ اس ضمن میں ایک حدیث
پاک ملاحظہ فرمائیں: فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے دین خیر خواہی کا نام ہے۔ پوچھا گیا کس کی خیر خواہی؟ آپ نے فرمایا: اللہ کی
اس کے رسول، اللہ کی کتاب کی، مسلمانوں کے حاکموں کی، اور عام مسلمانوں کی۔
(ترمذی، 3/371، حدیث: 1932)
(3) انکے ساتھ تعاون:
اس معنیٰ میں کہ انکے جو حقوق و واجبات اپنے اوپر ہیں انہیں ادا کرنے کی کوشش کریں
اور اگر اپنے حقوق پامال ہو رہے ہو تو اس کی وجہ سے اپنا دست تعاون نہ کھینچے۔ ایک
بار رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ ہم پر کچھ ایسے حاکم مسلط ہوجائیں وہ ہم سے اپنا
حق تو مانگیں لیکن ہمیں ہمارا حق نہ دے تو ہمارے لئے کیا حکم ہے؟ اولاً آپ خاموش
رہے لیکن دوبارہ سوال کرنے پر فرمایا:تم انکی بات سنو اور مانو انکی جو ذمہ داری
ہے وہ ان پرہے اور تمہاری جو ذمہ داری ہے وہ تم پر ہے۔(مسلم، ص 792، حدیث: 4782)
(4)عدم بغاوت اور انکے لئے دعا:اگر
حاکم اسلام سے باغی نہیں ہے تو اس سے بغاوت جائز نہیں ہے بلکہ حتی الامکان اس کے
اصلاح کی کوشش کی جائے اور اسکے اصلاح کی کوشش کی جائے اور ان کے اصلاح و حق پر
ثبات کے لیے دعا کی جائے۔