کسی بھی معاشرے میں زندگی کے معاملات کو صحیح طور پر چلانے کے لئے ایک حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہے، شہری زندگی ہو یا دیہاتی، بغیر حاکم و امیر کے کسی بھی جگہ کا نظام دُرست نہیں رہ سکتا اور کوئی بھی حاکم معاشرے میں امن و امان اس وقت تک قائم نہیں کرسکتا جب تک کہ اسے رعایا کا تعاون حاصل نہ ہو۔ اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ کسی بھی معاشرے کے اندر بدامنی کے پھیلنے میں سب سے بڑا دخل حاکم اور محکوم کی اپنی اپنی ذمہ داری اور اپنے اوپر واجبی حقوق کو ادا کرنے میں کوتاہی ہے، اس لئے اس امر کی معرفت ضروری ہے کہ حاکم و محکوم اپنے فرائض و واجبات کو پہچانیں۔ اسی کے پیش نظر رعایا پر حاکم کے چند حقوق ذکر کئے جارہے ہیں ملاحظہ کیجئے:

اللہ پاک نے اپنی کتاب قرآنِ کریم میں یہ حکم ارشاد فرمایا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ (صراط الجنان، 2/230)

حاکمِ اسلام کے 5 حقوق:

(1)اطاعت کرنا: حاکمِ اسلام کی اطاعت و فرمانبرداری ہر فردِ بشر پر واجب ہے بشرطیکہ اس کا حکم شریعت کے مطابق ہو۔ جیسا کہ حضور نبیِّ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری نافرمانی کی۔(بخاری،2/297، حدیث: 2957)

(2، 3)اچھائی پر شکر اور بُرائی پر صبرکرنا: رسولِ اكرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:حاکمِ اسلام زمین پر اللہ کا سایہ ہے اور جب وہ تمہارے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اُس کے لئے اجر ہے اورتم پر شکر لازم ہے اور اگر بُرا سلوک کرے تو اس کا گناہ اُس پر ہے اور تمہارے لئے صبر ہے۔(شعب الایمان،6/15،حدیث:7369)

(4)ان کی عزت کرنا: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما کا فرمان ہے: سلاطین کی عزت و توقیر کرو کیونکہ جب تک یہ عدل کریں گے یہ زمین پر اللہ پاک کی قوت اور سایہ ہوں گے۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں،1/187)

(5)خیر خواہی:حاکمِ اسلام کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے، اگر کوئی کوتاہی نظر آئے تو احسن طریقے سے انہیں متنبہ کیا جائے، انہیں بلکہ تمام مسلمانوں کو صحیح، سچے اور اچھے انداز میں مشورہ دیا جائے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ- (پ 14، النحل: 125) ترجمہ: اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اسی طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہے۔

کسی ملک میں کا نظام چلانے اور اس میں امن وسکون قائم کرنے اور رکھنے کے لیے دوباتیں ضروری ہیں۔(1) حکمران کا عادل ومنصف اور عوام کے دکھ درد کو سمجھنے والا ہونا۔(2) عوام کا اپنے حکمرانوں کے ساتھ تعاون کرنا۔ حکمرانوں کے بارے میں فرمان رسول ﷺ ہے: سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اُس دن اللہ اپنے (عرش) کا سایہ عطا فرمائے گا جس دن کوئی سایہ نہیں ہوگا،ان میں سے ایک عادل حکمران ہے۔ (بخاری، 1/480، حدیث: 1423)

حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر ایک سے سوال ہوگا اس کی رعیت کا (حاکم سے مراد منتظم اور نگران کار اور محافظ ہے)، پھر جو کوئی بادشاہ ہے وہ لوگوں کا حاکم ہے اور اس سے سوال ہوگا اس کی رعیت کاکہ اس نے اپنی رعیت کے حق ادا کیے، ان کی جان ومال کی حفاظت کی یا نہیں۔ آدمی حاکم ہے اپنے گھر والوں کا اس سے سوال ہوگا ان کا۔ عورت حاکم ہے اپنے خاوند کے گھر کی اور بچوں کی۔ اس سے ان کا سوال ہوگااور غلام حاکم ہے اپنے مالک کے مال کا،اس سے اس کا سوال ہوگا۔ (بخاری، 2/159، حدیث:2554)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہرحاکم کے دو ہم راز ہوتے، ایک ہم راز اسے نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے منع کرتا ہے اور دوسرا اس کی ہلاکت و تباہی کیلئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتا۔ جو حاکم اس کے شر سے بچ گیا وہ تو محفوظ ہوگیا۔

ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ اگر ہم پر ایسے حکمران مسلط ہو جائیں جو ہمارا حق نہ دیں، لیکن اپنا حق مانگیں (تو ہمارے لیے کیا حکم ہے) ؟رسول اللہ نے فرمایا: تم ان کی بات سننا اور ماننا، ان کے ذمے وہ بوجھ ہے جو انہیں اٹھوایا گیا (یعنی عدل و انصاف)۔ (مسلم، ص 792، حدیث: 4782)

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حقوق اللہ حقوق العباد اور ہر طرح کے حقوق جو ہم پر عائد ہیں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین