معاشرے کا حکومتی نظام رعایا اور حکمرانوں سے مل کر چلتا ہے دین اسلام حکمرانوں کو دعایا کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے اور حکمرانوں کا حکم ماننے کی تاکید کرتا ہے جیسے حکمرانوں پر دعایا کی دیکھ بال لازم ہے ویسے ہی دعایا پر بھی اپنے حکام کی اطاعت و فرمانبرداری لازم ہے اور حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں کیونکہ حکمرانوں کی مخالفت سے اسلام کی اجتماعیت کو نقصان پہنچتا ہے افتراق و انتشار کی کیفیت پیدا ہوتی ہے جبکہ شریعت اسلامیہ کو مسلمانوں کا متحد رہنا پسند ہے ہاں اگر کوئی امیر یا حاکم شریعت اسلامیہ کے خلاف کوئی حکم دے تو اس معاملے میں اسکی اطاعت واجب نہیں بلکہ ناجائز و گناہ ہے۔ آئیے اب ہم حاکم کے حقوق سنتے ہیں؟

(1) حاکم کی اطاعت کرنا: علامہ ابو عبد الله محمد بن احمد قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حاکم اگر کسی جائز کام کا حکم دے تو اسکی اطاعت کرنا واجب ہے اور اگر نا جائز کام کا حکم دے تو ہرگز اسکی اطاعت نہ کی جائے پھر اگر وہ ناجائز کام کفر ہو تو مسلمانوں پر اس حاکم کو معزول کرنا واجب ہے۔ (ریاض الصالحین جلد 5 ص634)

(2)ظالم حکمران کے خلاف بغاوت نہ کرنا: حضرت سیدنا علامہ عبد الرحمن ابن جوزی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں حکمران اگرچہ ظالم ہوں مگر پھر بھی ان کے خلاف بغاوت کی ممانعت ہے کیونکہ بغاوت ایک ایسا فتنہ ہے جو جان و مال اور عزت کو ہلاک کر دیتا ہے حاکم کے خلاف بغاوت کرنے والے کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے محل بنوایا اور شہر کو تباہ کر دیا۔ (ریاض الصالحین جلد 5 ص 642)

(3) حاکم سے جھگڑا نہ کرنا : علامہ ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا اگر کوئی حاکم سے جھگڑے تو اسکی گردن اڑا دو۔ (یہ خطاب حکمرانی میں جھگڑنے والے اور اس کی بیعت لینے والے دونوں کو شامل ہے (مرقاة المفاتيح ، كتاب الامارة والقضاء، الفصل الاول 260/7 حدیث3679)

(4)حکمرانوں کے عیب ظاھر نہ کرنا: حضرت سیدنا زید رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں جب اپنے حقوق کے بارے میں دعا کرو تو اپنی آواز پست رکھو کیونکہ بلند آواز سے دعا کرنے میں ظالم حکمرانوں کے عیوب لوگوں پر ظاھر ہوں گے جو ان کے لیے بے عزتی کا سبب بنیں گے اور حکمران اسے اپنے لیے گالی سمجھیں گے اور یہ موجب فتنہ وفساد ہے۔ (ریاض الصالحین جلد 5 ص 653)

(5)سلطان کی توھین نہ کرنا : حضرت سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے سلطان کی اھانت کی اللہ اسے ذلیل کرے گا (ریاض الصالحین جلد 5 ص 659)

پیارے پیارے بھائیو ان تمام اقوال اور احادیث سے معلوم ہوا کہ دعایا کو اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے حکمران کی اطاعت کرنی چاہیے ہاں اگر وہ برائ کا حکم دے تو اطاعت واجب نہیں بلکہ نا جائز اور گناہ ہے اسکی اصلاح کے لیے اللہ سے دعا کرنی چاہیے اور اپنی اصلاح کی طرف بھی بھر پور توجہ دینی چاہیے کیونکہ رعایا کے برے اعمال کے سبب ہی برے حکمران مسلط کیے جاتے ہیں لوگ حکمرانوں کو تو برا بھلا کہتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے اگر دعایا سدھر جائے تو حکمران بھی سدھر جائے گے اللہ تعالٰی ہمیں حکمرانوں سے محفوظ فرمائے اور نیک حکمران عطا فرمائے ۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔