محمد ولید احمد عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃ
المدینہ مزنگ لاہور ، پاکستان)
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو ! ایک مسلمان کے عقیدے میں حاکمیت اعلی صرف اللہ تعالی کی ہے۔ اور
تمام نظامِ کائنات صرف اللہ تعالٰی کے حکم کے پابند ہیں ۔ اللہ تعالی نے مخلوق کی
ہدایت کے لیے انبیاء و مرسلین کو مبعوث فرمایا. اور بعض انبیاء نے سلطنتیں قائم
کیں. جن میں سے بعض سلطنتوں پر انبیاء بذاتِ خود حاکم رہے اور بعض پر امیر مقرر
فرمائے. جن کی اطاعت کو قرآن پاک نے ہم پر لازم کیا. ارشادِ باری تعالی ہے :
یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی
الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- ترجمہ کنزالعرفان : اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت
کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں ۔ ( سورۃ النساء
: 59)
حاکم کی
فرمانبرداری لازم ہے.اس کے کچھ حقوق ہیں جو درج ذیل ہیں:
١-
حاکم کی ضرورت و اہمیت : پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہمارے
معاشرے میں مختلف رنگ ونسل کے افراد پائے جاتے ہیں۔ جن کو آپس میں باہمی تعلقات
قائم رکھنے کے لیے ایک سمجھدار اور عاقل شخص کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو انصاف کے تقاضوں
کو مکمل طور پر پورا کرے ۔ اسلام کے سب سے پہلے حاکم مطلق رسول الله ( صل اللہ
علیہ وسلم) کی ذات ہے. جن کے لیے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے :
وَ مَا كَانَ
لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ
یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ- ترجمہ
کنزالایمان : اور کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ و رسول
کچھ حکم فرمادیں تو اُنہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے۔ ( سورۃ الاحزاب : 36)
عرش
تا فرش ہیں جس کے زیر نگیں
اس
کی قابر ریاست پی لاکھوں سلام
اور آپ ( صل
اللہ علیہ وسلم) کا منصفانہ نظام ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔کیونکہ آپ ( صل اللہ علیہ
وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام کا قائم کردہ نظام حکومت ایک منصفات نظام تھا. جس
طریقے پر چلنے والا حاکم ہی عوام کی ضرورت ہے۔
٢
- حاکم کی بات سننا اور ماننا : پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اگر حاکم
مسلمان ہو اور منصفانہ نظام کے مطابق چلتا ہو تو اس کی بات ماننا اور سننا ہم پر
لازم ہے۔ اگر چہ بظاہر وہ ہمیں پسند ہو یا ناپسند ہو مسلمانوں کے حاکمِ مطلق نبی
اکرم ( صل اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مسلمان مرد پر اپنے مسلمان حکمران کی
بات سننا اور ماننا فرض ہے (ہر کام میں) خواہ وہ بات اسے پسند ہو یا نا پسند مگر
یہ کہ اسے گناہ کرنے کا حکم دے۔ (بخاری مسلم بروایت عبدالله بن محمد )
یعنی اطاعت
اور فرمانبرداری واجب ہے لیکن اگر وہ گناہ کا حکم دیں تو پھر اطاعت نہیں لازم ۔
٣
- حاکم کی خیر خواہی اور نصیحت : حاکم کے ساتھ خیر خواہی اور اچھا
معاملہ کیا جائے اگر وہ کسی غلطی پر ہوں تو بجائے یہ کہ ان کے خلاف جایا جائے بلکہ
کسی طرح ان تک اس غلط بات کی خبر پہنچائی جائے۔ سلطانِ جہاں ( صل اللہ علیہ وسلم)
نے ارشاد فرمایا : دین خیر خواہی کا نام ہے۔ پوچھا گیا کس کی خیر خواہی ؟ آپ نے
ارشاد فرمایا : اللہ کی، الله کے رسول کی، کتاب کی، مسلمانوں کے حاکموں کی، اور
عام مسلمانوں کی " (صحیح مسلم ، بروایت تعمیم دادی)
حاکموں کی خیر خواہی عام مسلمانوں کی خیر خواہی
کرنے سے زیادہ ضروری ہے۔ کیونکہ ان کے پاس مسلمانوں کی ریاست اور ملک ہوتے ہیں ۔
ان کی غلط بات اسلام کی طرف سے شمار کی جاتی ہے۔
٤
- حاکم کے ساتھ تعاون : پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! حاکموں کے ساتھ تعاون
کیا جائے یعنی کہ ان کی ہر جائز بات میں پیروی کی جائے۔ " ایک مرتبہ نبی پاک
( صل اللہ علیہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ اگر ہم پر کچھ ایسے حاکم مسلط ہو جائیں
کہ وہ ہم سے اپنا حق مانگیں لیکن ہمارا حق نہ دیں تو ہمارے لیے کیا حکم ہے ؟ آپ (
صل اللہ علیہ وسلم) خاموش رہے حتی کہ دو یا تین مرتبہ ایسا ہوا پھر نبی اکرم ( صل
اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: " تم ان کی بات مانو اور سنو ، ان کی جو
ذمہ داری ہے وہ ان پر ہے۔ تمہاری جو ذمہ داری ہے وہ تم پر ہے.
یہ آج کل کا بہت بڑا مسئلہ ہے جس کا حل مسلمانوں
کے دائمی حاکم نبی اکرم (صل اللہ علیہ وسلم) آج سے 14 سو سال پہلے ہی بتا چکے ہیں
۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ حاکم مسلمان ہو۔
الله تعالٰی ہمیں علم دین حاصل کرنے کی توفیق
عطا فرمائے اور ہمارے حکمرانوں کو ہدایت نصیب فرمائے.
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔