کسی بھی معاشرے میں امن و سلامتی اور ترقی کے لیے
ضروری ہے کہ حاکم و محکوم اپنی زمہ داری کو پہچانتے ہوئے اس کو احسن انداز میں
نبھائیں۔ اب سوال یہ ہے کہ حاکم کیسا ہوتا ہے ؟ اسلاف کے کردار میں دیکھیں تو حاکم
بردبار، معاملہ فہم، عدل و انصاف کرنے والا، حسن اخلاق کا پیکر، سلیم الطبع، خوش
گفتار، پروقار، راتوں کو اٹھ کر رعایا کی خبر گیری کرنے والا، چھوٹی بڑی ضرورتوں
کا خیال رکھنے والا، جب تک شریعت کا حکم متوجہ نہ ہو تب تک سزا نہ دینے والا، حکم
شرع کی وجہ سے غصہ کرنے والا، ذاتی حق تلفی پر عفو در گزر کرنے والا ہوتا ہے۔ اور
اس کے بر عکس آج کے معاشرے میں حاکم دیکھیں تو ظالم جابر من مانی کرنے والا حقوق
تلف کرنے والا خود پسند گھمنڈی مارنے والا ضرورتوں خواہشوں کا گلا گھوٹنے والا اور
بد قسمتی سے آج کے معاشرے میں حاکم کے اندر اسلاف کی ادنی سی جھلک بھی دکھائی نہیں
دیتی۔
جہاں حاکم عدل و انصاف کے ساتھ امن قائم کرنے پر
قادر ہے وہیں وہ نا انصافی کے ساتھ بد امنی پھیلانے کی بھی طاقت رکھتا ہے۔ حاکم پر
بہت سارے فرائض عائد ہوتے ہیں جو کہ پورا کرنا اس پر واجب ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ
حاکم کے کچھ حقوق بھی ہیں۔
1۔ اطاعت کرنا: جیسا
کہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی
الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو
اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔
فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے: مسلمان مرد پر اپنے مسلمان
حکمران کی بات سننا اور ماننا فرض ہے (ہر کام میں) خواہ وہ بات اسے پسند ہو یا نا
پسند، مگر یہ کہ اسے گناہ کرنے کا حکم دیا جائے، پس جب اسے اللہ کی نافرمانی کا
حکم دیا جائے تو پھر اس کا سننا اور ماننا فرض نہیں ہے۔ (بخاری، 4/455، حدیث: 7144)ایک
اور جگہ فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری
نافرمانی کی اس نے اللہ تعالی کی نافرمانی کی، اور جس نے امیر و حاکم کی اطاعت کی
اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر و حاکم کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔
(بخاری، 4/453، حدیث: 7137)
2۔ حاکم کے ساتھ تعاون کرنا: اس
سے مراد یہ ہے کہ جو کام رعایا پر فرض ہیں حکومت کی جانب سے بحیثیت ایک شہری کہ ان
کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کی جائے بلکہ انہیں اچھے سے نبھانے کی کوشش کی جائے۔
ایک بار اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا گیا کہ اگر ہم پر
کچھ ایسے حاکم مسلط ہوجائیں کہ وہ ہم سے اپنا حق تو مانگیں لیکن ہمیں ہمارا حق نہ
دیں تو ہمارے لئے کیا حکم ہے ؟ آپ ﷺ اولا جواب سے خاموش رہے لیکن دوبارہ یا سہ
بارہ سوال پر آپ نے فرمایا: تم انکی بات سنو اور مانو، انکی جو ذمہ داری ہے وہ ان
پر ہے اور جو تمہاری ذمہ داری ہے وہ تم پر ہے۔ (مسلم، ص 792، حدیث: 4782)
3۔ نیکی و بھلائی کرنا: نبی
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: دین خیرخواہی کا نام ہے، پوچھا گیا کس کی خیرخواہی ؟ آپ
نے فرمایا: اللہ کی، اللہ کے رسول کی، اللہ کے کتاب کی، مسلمانوں کے حاکموں کی اور
عام مسلمانوں کی۔ (ترمذی، 3/371، حدیث: 1932)
4۔ نصیحت کرنا: یہاں
پر نصیحت کرنے سے یہ مراد نہیں کہ ہر خاص و عام حاکم کو نصحیت کرتا رہے۔ یہاں پر
نصحیت کرنے کا حکم دانشوروں اور علماء کے لیے ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث مبارکہ میں ہے
کہ اللہ تعالی تین چیزوں کو پسند فرماتا ہے۔ (ان میں سے ایک چیز یہ ہے) اپنے
حاکموں کے ساتھ نصیحت کا معاملہ رکھو۔