حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ پاک کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ پاک کی نافرمانی کی اور جس نے امیروحاکم کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیروحاکم کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (بخاری، 4/453، حدیث: 7137)

کسی بھی معاشرے میں زندگی کے معاملات کو صحیح طور پر چلانے کے لیے ایک حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہے شہری زندگی ہو یا دیہاتی بغیر امیر کے کسی بھی جگہ کا نظام درست نہیں رہ سکتا اور کوئی بھی حاکم معاشرے میں امن و امان اس وقت تک قائم نہیں کر سکتا جب تک اسے رعایا کا تعاون حاصل نہ ہو۔ اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ کسی بھی معاشرے کے اندر بد امنی کے پھیلنے میں سب سے بڑا دخل حاکم اور محکوم کی اپنی اپنی ذمہ داری اور اپنے اوپر واجبہ حقوق کو ادا کرنے میں کوتاہی ہے اس لئے اس امر کی معرفت ضروری ہے کہ حاکم و محکوم اپنے فرائض و واجبات کو پہچانیں۔ آئیے رعایا پر حاکم کے حقوق کیا کیا ہے چند ملاحظہ کرتے ہیں:

(1) سننا اور ماننا: جو شخص کسی بھی طرح سے حاکم بن چکا ہے اس کی اطاعت و فرمانبرداری ہر فرد بشر پا واجب ہے بشرطیکہ وہ حاکم جائز اور استطاعت کی حدود میں ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: کہ مسلمان مرد پر اپنے مسلمان حکمران کی بات سننا اور ماننا فرض ہے خواہ وہ بات اسے پسند ہو یا نہ ناپسند، مگر یہ کہ اسے گناہ کرنے کا حکم دیا جائے۔ پس جب اسے اللہ کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو پھر اس کا سننا اور ماننا فرض نہیں ہے۔(بخاری، 4/455، حدیث: 7144)

(2) خیر خواہی اور نصیحت: انکے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے اگر کوئی کوتاہی نظر آئے تو احسن طریقے سے انہیں متنبہ کیا جائے، انہیں صحیح اور سچا مشورہ دیا جائے۔

اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: دین خیر خواہی کا نام ہے۔ پوچھا گیا: کس کی خیر خواہی؟ آپ نے فرمایا: اللہ کی، اللہ کے رسول کی، اللہ کے کتاب کی، مسلمانوں کے حاکموں کی، اور عام مسلمانوں کی۔ (ترمذی، 3/371، حدیث: 1932)

(3) ان کے ساتھ تعاون: اس معنی میں کہ ان کے جو حقوق واجبات اپنے اوپر ہیں انہیں ادا کرنے کی کوشش کریں۔ ایک بار اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا گیا: کہ اگر ہم پر کچھ ایسے حاکم مسلط ہو جائیں کہ وہ ہم سے اپنے حق تو مانگے لیکن ہمیں ہمارا حق نہ دیں تمہارے لیے کیا حکم ہے؟آپ ﷺ اولا جواب سے خاموش رہے لیکن دوبارہ یا سہ بارہ سوال پر آپ نے فرمایا: تم ان کی بات سنو اور مانو ان کی جو ذمہ داری ہے وہ ان پر ہے اور جو تمہاری ذمہ داری ہے وہ تم پر ہے۔ (مسلم، ص 792، حدیث: 4782)

(4) عدم بغاوت اور ان کے لئے دعا: اگر حاکم اسلام سے باغی نہیں ہے تو اس سے بغاوت جائز نہیں ہے بلکہ حتی الامکان اس کے اصلاح کی کوشش کی جائے اور ان کے اصلاح و حق پر ثبات کے لیے دعا کی جائے۔

فرمان نبوی: تمہارے اچھے حاکم وہ ہیں کہ تم ان سے محبت رکھتے ہو اور وہ تم سے محبت رکھتے ہیں اور وہ تمہارے لیے دعا کرتے ہیں اور تم ان کے لیے دعا کرتے ہو اور تمہارے حاکموں میں سے میرے حاکم وہ ہیں کہ تم ان سے بغض رکھتے ہو اور وہ تم سے بغض رکھتے ہیں اور تم ان پر لعنت بھیجتے ہو اور وہ تم پر لعنت بھیجتے ہیں آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا: کہ اے اللہ کے رسول! ہم ایسے حاکموں کو تلوار لے کر ان کے خلاف علم بغاوت نہ بلند کریں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نہیں جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں ان کے خلاف بغاوت نہ کرو اور جب تم اپنے حاکموں سے کوئی ایسی شے دیکھو جسے تم ناپسند کرتے ہو تو ان کے عمل کو برا سمجھو مگر انکی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچنا۔ (مسلم، ص 795، حدیث: 4804)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے حاکموں کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرما آمین