ہماری شریعت نے ہم پر بہت سے احکام لا غو کیے ہیں
جن کا پورا کرنا ہم پر لازم ہے۔ کسی بھی معاشرے میں صحیح طریقے سے زندگی کے
معاملات کو چلانے کے لیے ایک حاکم کا ہونا ضروری ہے اور حاکم کے بغیر کسی بھی جگہ
کا نظام درست نہیں رہ سکتا اور کوئی بھی حاکم معاشرے کا نظام اس وقت تک نہیں ٹھیک
کر سکتا جب تک رعایا کا تعاون نہ ملے۔ تو جہاں حاکم پر لازم ہے کہ وہ اپنے ماتحت
کے حقوق کی ادائیگی میں کوئی کمی و بیشی نہ کرے تو وہی لازم ہے کہ ما تحت بھی حاکم
کے تمام حقوق کو احسن انداز سے پورا کرے۔
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا
الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ
5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے
ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے
ہیں۔
حدیث شریف میں بھی حاکم کے حقوق بیان ہوئے ہیں۔ اب
حدیث مبارک کی روشنی میں حاکم کے حقوق ملاحظہ فرمائیے۔
حاکم کی نافرمانی نہ کی جائے: رسول
ﷺ نے فرمایا: تجھ پر لازم ہے سننا اور اطاعت کرنا (حاکم کی بات کا)تکلیف اور راحت
میں،خوشی اور رنج میں اور جس وقت تیرا حق اور کسی کو دیں۔ (مسلم، ص 788، حدیث: 4754)
حاکموں کے ساتھ خیر خواہی کرنا: رسول
ﷺ نے فرمایا یقینا دین خیر خواہی کا نام ہے،یقینا دین خیر خواہی کا نام ہے، یقینا
دین خیر خواہی کا نام ہے لوگوں نے عرض کی اے اللہ کے رسول ﷺ کس کے لیے؟آپ نے
فرمایا اللہ کے لیے،اسکی کتابوں کے لیے،اسکے رسولوں کے لیے،مومنوں کے حاکموں کے
لیے اور انکے عام لوگوں کے لیے۔ (ترمذی، 3/371، حدیث: 1932)
حاکموں کی عزت کیجیے: حضرت
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: سلاطین کی عزت و توقیر کرو کیونکہ جب
تک یہ عدل کریں گے یہ زمین پر اللہ کی قوت اور سایہ ہونگے۔ (دین و دنیا کی انوکھی
باتیں،ص،187/1)
حاکم کی جانب سے ناپسندیدہ چیز پہنچنے پر محکوم کیا
کرے؟ رسول ﷺ نے فرمایا: جو اپنے حاکم سے ناپسندیدہ چیز دیکھے تو صبر کرے۔ (بخاری،
4/429، حدیث: 7053)
حاکم کے سامنے اچھے اخلاق سے پیش آئے: حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: اہل ایمان میں زیادہ
کامل ایمان والے وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہوں۔
حاکم کو دھوکہ نہ دے: نہ
کسی بے قصور کو حاکم کے پاس لے کر جاو تاکہ اسے قتل کردے۔