صوم عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنیٰ ہیں:باز رہنا۔شریعت میں صبح سے شام تک بہ نیت عبادت صحبت سے اور کسی چیز کے پیٹ یا دماغ میں داخل کرنے سے باز رہنے کو صوم اور روزہ کہا جاتا ہے جس کا مقصد نفس کا زور توڑنا، دل میں صفائی پیدا کرنا، فقرا اور مساکین کی موافقت کرنا، مساکین  پر اپنے دل کو نرم بنانا ہے۔( بحوالہ مراة المناجیح جلد 3)1۔ ماہِ رمضان المبارک میں نیکیوں کا اجر بہت بڑھ جاتا ہے:حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ماہِ رمضان کے ایک دن کا روزہ رکھنا ایک ہزار دن کے روزوں سے افضل ہے اور ماہِ رمضان میں ایک مرتبہ تسبیح کرنا اس ماہ کے علاوہ ایک ہزار مرتبہ تسبیح کرنے( یعنی سبحن اللہ) کہنے سے افضل ہے، اور ایک رکعت پڑھنا غیر رمضان کی ایک ہزار رکعتوں سے افضل ہے۔(بحوالہ فیضانِ رمضان)2۔ شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشا دفرمایا: جب رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ۔ایک اور روایت میں ہے: جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں،اور شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں۔(بحوالہ فیضانِ ر مضان)3۔ سحری و افطاری :اللہ پاک کے کروڑ ہا کروڑ احسان کہ اس نے ہمیں روزہ جیسی عظیم الشان نعمت عطا فرمائی اور ساتھ ہی ساتھ قوت کے لیے سحری کی نہ صرف اجازت مرحمت فرمائی بلکہ اس میں ہمارے لیے ڈھیروں ثواب بھی رکھ دیا۔ سحری کے متعلق پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نےارشاد فرمایا:1۔ سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔(بخاری 17، ص ، 22 ، حدیث 1922)2۔سحری برکت کی چیز ہے جو اللہ پاک نے تم کو عطا فرمائی اس کو مت چھوڑنا۔(سنن الکبریٰ للنسائی ، ج 2، ص 79، حدیث ، 2463)ان تمام فرامین سے ہمیں یہی درس ملتا ہے کہ سحری ہمارے لیے ایک عظیم نعمت ہے اور رمضان شریف کی خصوصیت ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:اللہ پاک نے فرمایا: میرے بندوں میں مجھے زیادہ پیارا وہ ہے جو افطار میں جلدی کرتا ہے۔(ترمذی ج 2، ص 164، حدیث 700)سبحان اللہ! یقیناً افطار اللہ پاک کی عطا کردہ نعمت ہے اور اللہ پاک کا پیارا بننے کا ریعہ بھی ۔اللہ پاک نے رمضان المبارک کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی عطا کی ہے کہ افطار میں جلدی کی جائے۔4۔ تراویح:رمضان المبارک کی خصوصیات میں ایک خصوصی نعمت تراویح کی سنت بھی شامل ہے۔ تراویح سنتِ مؤکدہ ہے اور اس میں کم از کم ایک بار ختمِ قرآن بھی سنتِ مؤکدہ۔ تراویح رمضان المبارک کی خصوصیت ہے کیونکہ یہ عبادت صرف رمضان المبارک میں ادا کی جاتی ہے، تراویح ترک کرنا جائز نہیں۔ تراویح کی بیس (20) رکعتیں ہیں۔(فیضانِ رمضان)5۔ لیلۃ القدر: شبِ قدر اس امتِ محمدیہ کی خصوصیات سے ہے ہم سے پہلے کسی کو نہ ملی،اس رات میں سال بھر کے ہونے والے واقعات فرشتوں کے صحیفوں میں لکھ کر انہیں دے دیئے جاتے ہیں، اس رات میں اتنے فرشتے زمین پر اترتے ہیں کہ زمین تنگ ہوجاتی ہے۔ اس رات میں عبادت کرنے والا رب کریم کے ہاں عزت والا ہے۔اس میں بہت اختلاف ہے کہ یہ رات کب ہوتی ہے؟ بعض کے خیال میں رمضان کے آخری عشرےمیں ہے۔بعض کہتے ہیں:آخری عشرے کی طاق تاریخوں میں ہے۔ اکیسویں تئیسویں وغیرہ مگر زیادہ قوی قول یہ ہے کہ ا ن شاء اللہ شبِ قدر ہمیشہ ستائیسویں رمضان کی شب ہے۔حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:شبِ قدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ڈھونڈو۔( بخاری)اس حدیث سے معلوم ہوا! شبِ قدر ہر سال ماہِ رمضان میں ہوتی ہے اور ہوتی بھی ہے آخری عشرہ میں اور طاقت تاریخوں میں، شبِ قدر کو رب کریم نے ہم سے چھپالیا تاکہ ہم اس کی تلاش میں راتوں میں عبادت کریں۔ اللہ پاک نے حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو شبِ قدر کا علم دیا مگر اس کے اظہار کی اجازت نہ دی، اس کو چھپائے رکھا تاکہ اس کی تلاش رہے اور اچھی چیز کی تلاش بھی عبادت ہے لہٰذا یہ چھپانا ہمارے لیے بہتر ہے۔(مراة المناجیح جلد 3)اللہ کریم ہمیں رمضان المبارک کی برکتیں لوٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین