رمضان اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے جو اس نے امت محمدیہ کو عطا فرمائی مزید رمضان کی کو خصوصیات عطا فرمائی، جن میں سے پانچ خصوصیات درج ذیل ہیں:۔

(1)روزہ : قالَ رَسُولُ اللَّهِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: مَن صامَ رَمَضانَ وقامَهُ إيمانًا واحْتِسابًا غُفِرَ لَهُ ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِهِ، ترجمہ:جو ایمان کی وجہ سے اور ثواب کے لیے رمضان کا روزہ رکھے گا، اس کے اگلے گناہ بخش دیے جائیں گے ۔(ترمذی، کتاب الصوم ،حدیث : 683)

عَنِ النَّبِيِّ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، قالَ: إنَّ فِي الجَنَّةِ بابًا يُقالُ لَهُ الرَّيّانُ، يَدْخُلُ مِنهُ الصّائِمُونَ يَوْمَ القِيامَةِ، لاَ يَدْخُلُ مِنهُ أحَدٌ غَيْرُهُمْ، جنت میں آٹھ دروازے ہیں ، ان میں ایک دروازہ کا نام ریّان ہے، اس دروازہ سے وہی جائیں گے جو روزے رکھتے ہیں ۔ ان کے علاوہ کوئی داخل نہیں ہوگا۔ (بخاری، کتاب الصوم، حدیث :1896)

(2) تراویح :مَن قامَ رَمَضانَ إيمانًا واحْتِسابًا، غُفِرَ لَهُ ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِهِ ترجمہ:ایمان کی وجہ سے اور ثواب کے لیے رمضان کی راتوں کا قیام کرے گا، اُس کے اگلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔(بخاري، كتاب صلاة التراويح، حدیث :2009)

(3) اعتکاف :قالَ رَسُولُ اللهِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: مَنِ اعْتَكَفَ عَشْرًا فِي رَمَضانَ كانَ كَحَجَّتَيْنِ وعُمْرَتَيْنِ ترجمہ: جس نے رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا گویا اس نے دو حج اور دو عمرے کیے ،(شعب الإيمان، 5/‏436)

(4) شب قدر :مَن قامَ لَيْلَةَ القَدْرِ إيمانًا واحْتِسابًا و غُفِرَ لَهُ ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِهِ ترجمہ: جو ایمان کی وجہ سے اور ثواب کے لیے شبِ قدر کا قیام کرے گا، اُس کے اگلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔(سنين نسائى، كتاب الصيام ص:368)

ابن ماجہ انس رضی اﷲ عنہ سے راوی، کہتے ہیں : رمضان آیا تو حضور (صلی اﷲ علیہ وسلم) نے فرمایا: یہ مہینہ آیا، اس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس سے محروم رہا، وہ ہر چیز سے محروم رہا اور اس کی خیر سے وہی محروم ہوگا، جو پورا محروم ہے۔(بہار شریعت ، 1/965)

(5) ليلة الجائزة (انعام ملنے کی رات):امام احمد ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے راوی، کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں : رمضان کی آخر شب میں اِس اُمّت کی مغفرت ہوتی ہے۔ عرض کی گئی، کیا وہ شبِ قدر ہے؟ فرمایا: نہیں ولیکن کام کرنے والے کو اس وقت مزدوری پوری دی جاتی ہے، جب کام پورا کرلے۔(بہار شریعت ، 1/966)

ان نعمتوں سے مستفیض ہونے کے لئے ہمیں مذکورہ پانچوں کام پر پابندی کے ساتھ عمل کرنا چاہیے۔ اللہ پاک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


رمضان کی تعریف: مفسر شہیر حکیم الامّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر نعیمی میں فرماتے ہیں: پارہ نمبر 2 سورہ بقرہ آیت نمبر 185 میں شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ کے تحت فرماتے ہیں :”رَمَضَان“یا تو”رحمٰن“ کی طرح اللہ پاک کا نام ہے، چُونکہ اِس مہینے میں دن رات اللہ پاک کی عبادت ہوتی ہے لہٰذا اِسے شَہْرِ رَمَضان یعنی اللہ پاک کا مہینا کہا جاتا ہےجیسے مسجِد و کعبے کو اللہ پاک کا گھر کہتے ہیں کہ وہاں اللہ پاک کے ہی کام ہوتے ہیں ۔ایسے ہی رَمضَان اللہ پاک کا مہینا ہے کہ اِس مہینے میں اللہ پاک کے ہی کام ہوتے ہیں۔ روزہ تراویح وغیرہ تو ہیں ہی اللہ پاک کے مگربحالتِ روزہ جو جائز نوکری اور جائز تجارت وغیرہ کی جاتی ہے وہ بھی اللہ پاک کے کام قرار پاتے ہیں۔اِس لئے اِس ماہ کا نام رَمَضَان یعنی اللہ پاک کا مہینا ہےیا یہ”رَمْضَاء ٌ“سے نکالا گیا ہے۔”رَمْضَاءٌ“موسمِ خَزاں کی بارِش کو کہتے ہیں، جس سے زمین دُھل جاتی ہے اور”رَبِیْع“ کی فَصْل خُوب ہوتی ہے۔ چونکہ یہ مہینا بھی دِل کے گَرد وغُبار دھودیتا ہے اور اس سے اَعمال کی کَھیتی ہَری بَھری رہتی ہے اِس لئے اِسے رَمَضَان کہتے ہیں۔

حضرت سَیِّدُناجا بربن عبداللہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رحمت عالمیان، سلطانِ دوجہان ، شہنشاہِ کون ومکان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا فرمانِ ذِی شان ہے: میری اُمت کو ماہِ رَمضان میں پانچ چیز یں ایسی عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں : (1) جب رَمَضانُ الْمبارَک کی پہلی رات ہوتی ہے تواللہ پاک ان کی طرف رَحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف اللہ پاک نظر رَحمت فرمائے اُسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا (2)شام کے وَقت ان کے منہ کی بو (جوبھوک کی وجہ سے ہوتی ہے) اللہ پاک کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے (3) فرشتے ہر رات اور دن ا ن کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں (4) اللہ پاک جنت کو حکم فرماتاہے: ’’ میرے (نیک ) بندوں کیلئے مُزَیَّن(یعنی آراستہ) ہوجا عنقریب وہ دنیا کی مَشَقَّت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پائیں گے ‘‘ (5) جبماہِ رَمضان کی آخری رات آتی ہے تو اللہ پاک سب کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔ قوم میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم! کیا وہ لیلۃ القدر ہے؟ ارشاد فرمایا:نہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ مزدور جب اپنے کاموں سے فارِغ ہوجا تے ہیں تواُنہیں اُجرت دی جا تی ہے۔(شُعَبُ الایمان ،3/303،حدیث:3603)

رمضان کی تعریف: روزہ عرف شرع میں مسلمان کا بہ نیّت عبادت صبح صادق سے غروب آفتاب تک اپنے کو قصداً کھانے پینے جماع سے باز رکھنا، عورت کا حیض و نفاس سے خالی ہونا شرط ہے۔(بہار شریعت،1/966)

دیگر عبادات پرروزے کی افضلیت کی وجہ:اس کی دو وجوہات ہیں :(1) روزہ عمل کو چھوڑنے اور اس سے رکنے کا نام ہے اور یہ ذاتی طور پر پوشیدہ ہے اس میں دکھائی دینے والا کوئی عمل نہیں جبکہ دیگر تمام اعمال لوگوں کو نظر آتے ہیں ۔ روزے کو اللہ پاک ہی ملاحظہ فرماتا ہے اور وہ محض صبر کے ذریعے باطنی عمل ہے۔(2)یہ دشمن خدا(شیطان مردود) پر غلبہ پانے کا ذریعہ ہے کیونکہ شیطان لعین کا وسیلہ خواہشات ہیں ( جن کے ذریعے وہ بنی آدم کو دھوکا دیتاہے) اور شہوات کو تقویت کھانے پینے سے حاصل ہوتی ہے اسی لئے حضور نبی ٔ پاک ، صاحب لولاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک شیطان انسان میں خون کی طرح دوڑتا ہے پس بھوک کے ذریعے اس کے راستوں کو تنگ کرو۔‘‘ اسی وجہ سے حضور نبی ٔ اکرم، رسول محتشم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ام المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے ارشاد فرمایا: ’’ہمیشہ جنت کا دروازہ کھٹکھٹاتی رہو۔‘‘ انہوں نے عرض کی: ’’کس چیز سے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’بھوک سے ۔(احیاء العلوم،1/703)

روزے کے تین درجے ہیں: ایک عام لوگوں کا روزہ کہ یہی پیٹ اور شرم گاہ کو کھانے پینے جماع سے روکنا۔ دوسرا خواص کا روزہ کہ انکے علاوہ کان، آنکھ، زبان، ہاتھ پاؤں اور تمام اعضا کو گناہ سے باز رکھنا۔ تیسرا خاص الخاص کا کہ جمیع ماسوی اﷲ (یعنی اﷲ پاک کے سوا کائنات کی ہر چیز) سے اپنے کو بالکلیہ جُدا کرکے صرف اسی کی طرف متوجہ رہنا۔ (بہار شریعت،1/966)

بے شک روزہ چوتھائی ایمان ہے۔ کیونکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ روزہ آدھاصبر ہے۔ پھر روزے کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ دوسرے تمام ارکان کی بنسبت اسے اللہ پاک سے خاص نسبت حاصل ہے ۔چنانچہ حدیث ِ قدسی ہے کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ہر نیکی کا ثواب 10گنا سے لے کر 700گنا تک ہے سوائے روزہ کے۔ بے شک یہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔(احیاء العلوم،1/700)

اللہ پاک کا ارشاد ہے : اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ(۱۰) ترجمۂ کنز الایمان:صابروں ہی کو ان کا ثواب بھرپور دیا جائے گا بے گنتی۔(پ 23،زمر:10)

روزہ صبر کا نصف ہے اس کا ثواب اندازہ وحساب سے بڑھ کر ہے اور اس کی فضیلت جاننے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ سرورِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بو اللہ پاک کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بہتر ہے، اللہ پاک فرماتا ہے: یہ شخص اپنی خواہش اور کھانے پینے کو میرے لئے چھوڑتا ہے پس روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔


خُدائے رَحمٰن کے  کروڑہا کروڑ اِحسان کہ اُس نے ہمیں ماہِ رَمضان جیسی عظیم الشان نعمت سے سرفراز فرمایا۔ ماہِ رَمضان کے فیضان کے کیا کہنے ! اِس کی تو ہر گھڑی رَحمت بھری ہے، رَمضانُ المبارَک میں ہر نیکی کا ثواب70 گنا یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب 70گنا کردیا جا تا ہے ۔اللہ پاک نے اس میں بہت خصوصیات رکھیں جیسا کہ

(1) نُزولِ قرآن: اس ماہِ مُبارَک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے اِس میں قراٰنِ پاک نازِل فرمایاہے۔ چنانچہ اللہ پاک کا فرمان ہے : شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ ترجمہ کنز الایمان:رَمضان کا مہینا ، جس میں قراٰن اُترا ۔(پ 2،بقرہ:185)

(2)لیلۃ القدر: اس ماہِ مُبارَک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں ایک رات ہے جسے لیلۃ القدر کہتے ہیں۔ جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اللہ کریم نے قرآن میں فرمایا:لَیْلَةُ الْقَدْرِ ﳔ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ(۳)ترجمۂ کنزالایمان : شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ۔(پ 30،قدر :3)

(3)آسمان کے دروازے کھول اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم کو خوشخبری سناتے ہوئے ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ رمضان کا مہینہ آگیا ہے جو کہ بہت ہی بابرکت ہے۔ اللہ پاک نے اس کے روزے تم پر فرض فرمائے ۔ اس میں آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔

(4)شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں: حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اس ماہِ مبارک میں جنّت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں۔ (صحیح مسلم ،ص 543،حدیث:1079)

(5)تراویح و اعتکاف: الحمدللہ رمضان المبارک میں جہاں ہمیں بے شمار نعمتیں میسر آتی ہے انہی میں سے تراویح اور اعتکاف کی سنّتیں بھی شامل ہیں جیسا کہ حضرت سیدتنا عائشہ رضی اللہُ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میرے سرتاج صاحب معراج صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم رمضان المبارک کے آخری عشرہ (یعنی آخری دس دن) کا اعتکاف فرمایا کرتے یہاں تک کہ اللہ پاک نے آپ کو وفات (ظاہری) عطا فرمائی پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ازواج مطہرات رضی اللہُ عَنہُنَّ اعتکاف کرتی رہیں۔(صحیح بخاری،1/664،حدیث:2026) اور یہ بھی ماہ رمضان کی خصوصیت اور سنت بھی اور سنت کی عظمت کے بھی کیا کہنے کہ اللہ کے آخری اور پیارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرایا: جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔(جامع ترمذی،4/310،حدیث:2687)

بلاشبہ رمضان المبارک نیکیاں حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ یاد رہے جس طرح رمضان المبارک میں نیکیوں کی جزا بنا بڑھا دی جاتی ، جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح اس میں گناہوں کی سزا بھی بڑھا دی جاتی ہے اور جس طرح اس میں روزے رکھنے کی بے شمار برکتیں ہیں یونہی روزے نہ رکھنے کی بے شمار وعیدیں آئی ہیں چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ جس نے اس میں سے ( یعنی فرض نماز، رمضان کے روزے) کسی کو چھوڑا وہ اللہ کا منکر ہے اور اس کا کوئی فرض یا نفل عبادت مقبول نہیں ہے اور اس کا خون اور مال حلال ہے۔(الترغیب والترہیب،1/59،حدیث:821)

افسوس ہمارے معاشرے میں رمضان جیسی بابرکت مہینے کو بھی گناہوں میں گزار دیتے ہیں۔اللہ پاک ہمیں رمضان المبارک کے روزے رکھ کر اس کی برکتیں حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اسلامی تاریخ میں روزے کا حکم 2 ہجری میں ہوا۔ جب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہجرت فرماکر مدینہ طیبہ لائے تو ابتدا میں آپ پر تین روزے ایام بیض ( یعنی چاند کی 15،14،13) کو روزہ رکھا کرتے تھے، انہی کو صومِ داؤدی بھی کہتے ہیں، اور یومِ عاشورہ کا بھی روزہ رکھا کرتے تھے اور بعد میں ان کو رمضان کے روزے فرض ہونے کے ساتھ منسوخ کر دیا گیا۔

الصیام مفرد صوم اس کا معنی الامساک (روکنا) ہے۔ تو مطلب یہ ہو کہ انسان اپنے آپ کو ہر اس چیز سے روکے رکھے جس کی طرف نفس کشش محسوس کرے اور شریعت میں معنی انسان عبادت کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروبِ شمس تک کھانے پینے اور عملِ زوجیت سے رکا رہے۔(صحیح مسلم مترجم،2/21)

(1) حضرت ابی سہیل اپنے والد کے واسطے سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کر لیا جاتا ہے۔ ( صحیح مسلم مترجم،2/23)

(2) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: روزہ ڈھال ہے۔ روزہ دار نہ بری بات کرے اور نہ جہالت پر مبنی کوئی کام کرے اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا گالی گلوچ کرےتو وہ کہے : میں روزہ دار ہوں۔ بار بار یہی کہے۔ قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! روزہ دار کے منہ کے بو اللہ کی بارگاہ میں کستوری سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ روزہ دار اپنا کھانا پینا اور شہوت میری خاطر چھوڑتا ہے۔ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا اور ایک نیکی کا بدل دس نیکیاں ہیں۔(صحیح بخاری مترجم،1/824،حدیث:1761)

(3) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی پورا مہینہ سوائے رمضان کے روزے نہیں رکھے۔ آپ روزہ رکھتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ کہنے والا کہتا واللہ آپ افطار نہیں کریں گے اور آپ افطار کرتے جاتے یہاں تک کہ کہنے والا کہتا واللہ آپ روزہ نہیں رکھیں گے۔

(4)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب رمضان آتا تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔( صحیح بخاری مترجم،1/826،حدیث:1765)

(5) حضرت سہیل رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جنت میں ایک دروازہ ہے جسے "ریّان" کہا جاتا ہے اس سے قیامت کے دن روزہ دار داخل ہوں گے۔ ان کے علاوہ اس دروازے سے اور کوئی داخل نہ ہوگا جب وہ داخل ہو جائیں گے تو دروازہ بند کر دیا جائے گا پھر اس سے کوئی اور داخل نہ ہوگا۔( صحیح بخاری مترجم،1/825،حدیث:1763)


رَمضان،  یہ ’’ رَمَضٌ ‘‘ سے بنا جس کے معنٰی ہیں ’’ گرمی سے جلنا ۔ ‘‘ کیونکہ جب مہینوں کے نام قدیم عربوں کی زبان سے نقل کئے گئے تو اس وَقت جس قسم کا موسم تھا اس کے مطابق مہینوں کے نام رکھ دے گئے اِتفاق سے اس وَقت رمضان سخت گرمیوں میں آیا تھا اسی لئے یہ نام رکھ دیا گیا۔(النھایہ لابن الاثیر،2/240)

حضرتِ مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :بعض مفسرین رحمہم اللہ المبین نے فرمایا کہ جب مہینوں کے نام رکھے گئے تو جس موسم میں جو مہینا تھا اُسی سے اُس کا نام ہوا ۔جو مہینا گرمی میں تھااُسے رَمضان کہہ دیا گیا اور جو موسم بہار میں تھا اُسے ربیعُ الْاَوّل اور جو سردی میں تھا جب پانی جم رہا تھا اُسے جُمادَی الْاُولٰی کہا گیا۔ (تفسیر نعیمی ،2/205)

ماہِ مُبارَک کی ایک خصوصیت یہ ہے کہاللہ پاک نے اِس میں قراٰنِ پاک نازِل فرمایاہے۔ چنانچہ پارہ 2 سورۃ البقرۃآیت185 میں مقد س قراٰن میں خدائے رَحمٰن کا فرمانِ عالی شان ہے : شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ- فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ-وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘-وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۱۸۵)ترجمہ کنز الایمان: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو۔(پ 2،البقرہ:185)

حضرت سَیِّدُناجا بربن عبداللہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رحمت عالمیان، سلطانِ دوجہان ، شہنشاہِ کون ومکان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا فرمانِ ذِی شان ہے: میری اُمت کو ماہِ رَمضان میں پانچ چیز یں ایسی عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں : (1) جب رَمَضانُ الْمبارَک کی پہلی رات ہوتی ہے تواللہ پاک ان کی طرف رَحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف اللہ پاک نظر رَحمت فرمائے اُسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا (2)شام کے وَقت ان کے منہ کی بو (جوبھوک کی وجہ سے ہوتی ہے) اللہ پاک کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے (3) فرشتے ہر رات اور دن ا ن کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں (4) اللہ پاک جنت کو حکم فرماتاہے: ’’ میرے (نیک ) بندوں کیلئے مُزَیَّن(یعنی آراستہ) ہوجا عنقریب وہ دنیا کی مَشَقَّت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پائیں گے ‘‘ (5) جبماہِ رَمضان کی آخری رات آتی ہے تو اللہ پاک سب کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔ قوم میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم! کیا وہ لیلۃ القدر ہے؟ ارشاد فرمایا:نہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ مزدور جب اپنے کاموں سے فارِغ ہوجا تے ہیں تواُنہیں اُجرت دی جا تی ہے۔(شُعَبُ الایمان ،3/303،حدیث:3603)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! خُدائے رَحمٰن کے کروڑہا کروڑ اِحسان کہ اُس نے ہمیں ماہِ رَمضان جیسی عظیم الشان نعمت سے سرفراز فرمایا۔ ماہِ رَمضان کے فیضان کے کیا کہنے ! اِس کی تو ہر گھڑی رَحمت بھری ہے، رَمضانُ المبارَک میں ہر نیکی کا ثواب70 گنا یا اس سے بھی زیادہ ہے۔(مراٰۃ ،3/137) نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب 70گنا کردیا جا تا ہے ، عرش اُٹھانے والے فرشتے روزہ داروں کی دُعا پرآمین کہتے ہیں اور فرمانِ مصطَفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم َکے مطابق ’’ رَمضان کے روزہ دار کیلئے مچھلیاں اِفطار تک دُعائے مغفرت کرتی رہتی ہیں ۔ (اَلتَّرغیب والتَّرہیب ،2/55،حدیث:6)


خُدائے رَحمٰن کے  کروڑہا کروڑ اِحسان کہ اُس نے ہمیں ماہِ رَمضان جیسی عظیم الشان نعمت سے سرفراز فرمایا۔ ماہِ رَمضان کے فیضان کے کیا کہنے ! اِس کی تو ہر گھڑی رَحمت بھری ہے، رَمضانُ المبارَک میں ہر نیکی کا ثواب70 گنا یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب 70گنا کردیا جا تا ہے ۔

اس لیے اس ماہ مبارک کی ایک سب سے بڑی خصوصیت نزولِ قرآن ہے۔کہ اللہ پاک نے اس میں قرآن پاک نازل فرمایاہے۔ چنانچہ مقدس قرآن میں اللہ پاک نزولِ قرآن اور ماہِ رمضان کے بارے میں فرماتاہے: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں۔(پ 2،البقرہ:185)

وَعَن جَابر بن عبد الله رَضِي الله عَنْهُمَا أَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ أَعْطَيْت أمتِي فِي شهر رَمَضَان خمْسا لم يُعْطهنَّ نَبِي قبلي ، أما وَاحِدَة فَإِنَّهُ إِذا كَانَ أول لَيْلَة من شهر رَمَضَان نظر الله عز وَجل إِلَيْهِم وَمن نظر الله إِلَيْهِ لم يعذبه أبدا ، وَأما الثَّانِيَة فَإِن خلوف أَفْوَاههم حِين يمسون أطيب عِنْد الله من ريح الْمسك ، وَأما الثَّالِثَة فَإِن الْمَلَائِكَة تستغفر لَهُم فِي كل يَوْم وَلَيْلَة ، وَأما الرَّابِعَة فَإِن الله عز وَجل يَأْمر جنته فَيَقُول لَهَا استعدي وتزيني لعبادي أوشك أَن يستريحوا من تَعب الدُّنْيَا إِلَى دَاري وكرامتي ، وَأما الْخَامِسَة فَإِنَّهُ إِذا كَانَ آخر لَيْلَة غفر الله لَهُم جَمِيعًا ،فَقَالَ رجل من الْقَوْم أَهِي لَيْلَة الْقدر فَقَالَ لَا ألم تَرَ إِلَى الْعمَّال يعْملُونَ فَإِذا فرغوا من أَعْمَالهم وفوا أُجُورهم

حضرت سَیِّدُناجا بربن عبداللہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رحمت عالمیان، سلطانِ دوجہان ، شہنشاہِ کون ومکان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا فرمانِ ذِی شان ہے: میری اُمت کو ماہِ رَمضان میں پانچ چیز یں ایسی عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں : (1) جب رَمَضانُ الْمبارَک کی پہلی رات ہوتی ہے تواللہ پاک ان کی طرف رَحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف اللہ پاک نظر رَحمت فرمائے اُسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا (2)شام کے وَقت ان کے منہ کی بو (جوبھوک کی وجہ سے ہوتی ہے) اللہ پاک کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے (3) فرشتے ہر رات اور دن ا ن کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں (4) اللہ پاک جنت کو حکم فرماتاہے: ’’ میرے (نیک ) بندوں کیلئے مُزَیَّن(یعنی آراستہ) ہوجا عنقریب وہ دنیا کی مَشَقَّت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پائیں گے ‘‘ (5) جبماہِ رَمضان کی آخری رات آتی ہے تو اللہ پاک سب کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔ قوم میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم! کیا وہ لیلۃ القدر ہے؟ ارشاد فرمایا:نہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ مزدور جب اپنے کاموں سے فارِغ ہوجا تے ہیں تواُنہیں اُجرت دی جا تی ہے۔(الترغیب والترہیب،2/56،حدیث:7)

رمضان المبارک کی باسعادت گھڑیاں قریب ہیں اس کی برکتیں اور رحمتیں بے شمار ہیں۔ یہ مہینہ آخرت کمانے، باطن سنوارنے اور زندگی بنانے کا ہے۔ اس لئے اس کی پہلی سے تیاری کی ضرورت ہے۔


ہر گھڑی رحمت بھری ہے ہر طرف ہیں برکتیں

ماہِ رَمضاں رحمتوں اور برکتوں کی کان ہے

ہماری خوش قسمتی کہ اللہ پاک نے اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ہم کو اپنی رحمتوں، برکتوں اور نعمتوں سے مالا مال جھومتا، مسکراتا اپنا پیارا پیارا اور مقدس مہینہ رمضان عطا فرمایا۔ ماہِ رمضان کی تو کیا ہی شان ہے، اس مقدس مہینے کی ہر ہر لمحے میں اللہ پاک کی رحمتوں کی خوب برسات ہوتی ہے۔

یوں تو سارے مہینے ہی مقدس اور خوب برکتوں والے ہیں مگر جو خوبیاں اور خصوصیات رمضان کے ساتھ خاص ہے وہ کسی اور مہینے کے ساتھ نہیں۔خاص سے مراد وہ بات یا کام ہے جو صرف ایک ہی شے یا چیز میں پایا جائے۔ معزز قارئین آئیے ہم بھی ماہِ رمضان کی چند منفرد خصوصیات ملاحظہ کرتے ہیں:۔

(1) رمضان میں قرآن پاک کا نازل ہونا: اللہ پاک نے ماہِ رمضان میں قرآنِ پاک نازل فرما کر اس کی عظمتوں اور برکتوں کو مزید چار چاند لگا د یئے۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ترجمۂ کنزالایمان :رمضان کا مہینا، جس میں قرآن اتارا۔( پ 2،بقرہ :185)

معلوم ہوا کہ قرآن پاک کا ماہِ رمضان میں نازل ہونا صرف رمضان کے ساتھ ہی خاص ہے کسی اور مہینے کو یہ سعادت نہ ملی ۔

(2) لیلۃُ القدر کا رمضان میں ہونا: رمضان المبارک میں شب قدر بھی اپنی بھرپور برکتوں کے جلوے لٹا رہی ہے۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: بے شک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا۔( پ 30، قدر :1)

سبحان اللہ ! اللہ پاک نے شب قدر کو اس مہینے میں رکھ کر دوسرے مہینوں کے مقابلے میں اس کی شان میں مزید اضافہ فرما دیا ۔جمہور علمائے کرام و مفسرین عظام کے نزدیک شب قدر جیسی بابرکت رات ماہِ رمضان کی ستائیسویں شب ہے۔

(3)کاش سارا سال رمضان ہی ہوتا: اس طرح رمضان ایسا مبارک مہینہ ہے جس کی تشریف آوری پر مسلمان کے چہرے خوشی سے کِھل اٹھتے ہیں اور جب یہ مہینا رخصت ہوتا ہے تو عشّاق اس کی جدائی کے غم میں خوب اشک بہاتے ہیں۔ اسی لئے تو حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رَمضان کیا ہے تو میری اُمت تمنا کرتی کہ کاش!پورا سال رَمضان ہی ہو۔ (صحیح ابنِ خُزَیمہ، 3/190،حدیث:1886)

اللہ اللہ ! مؤمنین کسی اور مہینے کے متعلق ایسے جذبات نہیں رکھتے ۔

(4) 4خصوصی عبادات: ماہِ رمضان کی ایک اور منفرد خصوصیت جو کسی اور مہینے میں نہیں وہ یہ کہ چار ایسی عبادات ہیں جن کی سعادت صرف رمضان المبارک میں ہی ملتی ہے وہ یہ ہیں:(1) فرض روزے،(2) تراویح،(3) سنت اعتکاف، (4) شب قدر میں عبادات

(5) شیطان کا قید ہونا: ماہِ رمضان کی ایک خصوصیت جو اسے دوسرے مہینوں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ کہ رمضان کے مبارک مہینے میں شیطان مردود کو قید کر دیا جاتا ہے، جبکہ رمضان کا مبارک مہینہ رخصت ہوتے ہی دوبارہ آزاد کر دیا جاتا ہے۔

اللہ پاک ہمیں صحیح معنوں میں رمضان المبارک کی قدر کرنے اور اس میں خوب خوب عبادات کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


رمضان آیا رمضان آیا

رمضان آیا رمضان آیا

اللہ کی رحمت کا سامان آیا

رمضان آیا رمضان آیا

روزہ تلاوت کا فیضان آیا

رمضان آیا رمضان آیا

الحمدللہ ہم رمضان المبارک کی پُرنور فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔ خُدائے رَحمٰن کا کروڑہا کروڑ اِحسان کہ اُس نے ہمیں ماہِ رَمضان جیسی عظیم الشان نعمت سے سرفراز فرمایا۔ ماہِ رَمضان کے فیضان کے کیا کہنے ! اِس کی تو ہر گھڑی رَحمت بھری ہے، رَمضانُ المبارَک میں ہر نیکی کا ثواب70 گنا یا اس سے بھی زیادہ ہے۔(مراٰۃ ،3/137) نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب 70گنا کردیا جا تا ہے ، عرش اُٹھانے والے فرشتے روزہ داروں کی دُعا پرآمین کہتے ہیں اور فرمانِ مصطَفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم َکے مطابق ’’ رَمضان کے روزہ دار کیلئے مچھلیاں اِفطار تک دُعائے مغفرت کرتی رہتی ہیں ۔ (اَلتَّرغیب والتَّرہیب ،2/55،حدیث:6)

تفسیر روح البیان میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے شب معراج سدرۃ المنتہی پر ایک فرشتہ دیکھا جسے میں نے اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا تھا اس کے طول و عرض کی مسافت لاکھ سال کے برابر تھی۔ اس کے ستر ہزار سر تھے اور ہر سر میں ستر ہزار منہ اور ہر منہ میں ستر ہزار زبانیں اور ہر سر پر ستر ہزار نورانی چوٹی تھی اور ہر چوٹی کے سر پر بال میں لاکھ لاکھ موتی لٹکے ہوئے اور ہر ایک موتی کے اندر بہت بڑا دریا ہے اور ہر دریا کے اندر بہت بڑی مچھلیاں ہیں اور ہر مچھلی کا طول دو سال کی مسافت کی کے برابر ہے اور ہر مچھلی کے پیٹ پر لکھا ہوا ہے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اور اس فرشتے نے اپنا سر اپنے ایک ہاتھ پر رکھا ہے اور دوسرا ہاتھ اس کی پیٹھ پر ہے اور وہ "حظیرۃ القدس" یعنی بہشت میں ہے جب وہ اللہ پاک کی تسبیح پڑھتا ہے تو اس کی خوش آواز سے خوشی سے عرش الہی کانپ جاتا ہے۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے ان کے متعلق پوچھا تو انہوں نے عرض کیا کہ یہ وہ فرشتہ ہے جسے اللہ پاک نے آدم علیہ السلام سے دو ہزار سال پہلے پیدا کیا تھا۔ پھر میں نے کہا اس کی لمبائی چوڑائی کہاں سے کہاں تک ہے ؟ انہوں نے کہا :اللہ پاک نے بہشت میں ایک چراگاہ بنائی ہے اور یہ اسی میں رہتا ہے، اس جگہ کو اللہ پاک نے حکم دیا ہے کہ وہ آپ کے اور آپ کی امت کے ہر اس شخص کے لیے تسبیح پڑھے،جو روزہ رکھتے ہیں۔ ( تفسیر روح البیان،2/108)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے کہ رمضان المبارک کے روزہ داروں کی ہی شان ہے کہ اتنی عظمتوں والا فرشتہ ان کے لئے دعائے مغفرت کر رہا ہے۔ یہ فضیلت صرف رمضان المبارک کے ساتھ خاص ہے۔ اس کے علاوہ رمضان المبارک کے اور بھی بہت سے منفرد خصوصیات ہیں۔ ان میں سے چند درجہ ذیل ہیں:۔

(1)قرآن پاک میں رمضان المبارک کا صراحۃً نام آیا اور اسی کے فضائل بیان ہوئے کسی اور مہینے کا نہ صراحۃً نام ہے اور نہ ہی فضائل۔اللہ پاک کا ارشاد ہے: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ ترجَمۂ کنزُالایمان: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا۔(پ 2،البقرہ:185)

(2)اس مہینے میں شبِ قدر ہے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے: اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِۚۖ(۱) ترجمۂ کنزالایمان : بے شک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا۔(پ 30،قدر :1)

(3) رمضان میں شیاطین قید کر لیئے جاتے ہیں۔دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور جنّت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔(مشکوٰۃ المصابیح،1/173،حدیث:1858)

(4)رمضان شریف میں افطار اور سحری کے وقت دعا قبول ہوتی ہے یعنی افطار کرتے وقت، سحری کھا کر۔ یا مرتبہ کسی اور مہینے کو حاصل نہیں۔(فیضان سنت،ص 863)

(5)رمضان کے کھانے پینے کا حساب نہیں۔(ایضاً)

(6)رمضان میں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب (غیر رمضان کے) ستر فرضوں کے برابر ہوتا ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح،1/173،حدیث:1866)

(7)اسی مہینے کے روزے فرض ہیں۔(تفسیر روح البیان،1/364)

ان کے علاوہ رمضان المبارک کے اور بھی بہت سے فضائل و کمالات ہیں۔ کہ اس میں نیکیوں کا اجر خوب خوب بڑھ جاتا ہے۔ ایک حدیث مبارکہ کے تحت رمضان المبارک کی راتوں میں نماز ادا کرنے والے کو ہر ایک سجدہ کے بدلے پندرہ سو نیکیاں عطا کی جاتی ہیں اور جنت کا عظیم الشان محل عطا ہوتا ہے اور روزہ داروں کے لیے صبح شام ستر ہزار فرشتے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں۔( شعب الایمان،3/314،حدیث:3635)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں رمضان المبارک کی خوب خوب برکتیں لوٹنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کو ہمارے لیے بخشش کا ذریعہ بنائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


فلسفہ روزہ:  انسان کو ہر وقت رزق دینے والا خالق یہ امتحان لینا چاہتا ہے کہ سارا سال میری نعمتیں کھانے والے آیا صرف تیس دن ان کو میرے لیے چھوڑ بھی سکتے ہیں یا نہیں۔ چونکہ اس کا تعلق براہِ راست اللہ پاک کی ذات سے ہوتا ہے اس لیے امتحان دینے والا یا لینے والا ہی جانتا ہے کہ وہ امتحان میں کامیاب ہوا ہے یا نہیں۔ اس لئے اللہ پاک فرماتا ہےحدیث قدسی ہے: روزہ صرف میرے لیے ہوتا ہے اور اس کی جزا میں خود ہی براہ راست عطا کرتا ہوں۔

روزہ کے فرض ہونے کی وجہ: اسلام میں اکثر اعمال کسی نہ کسی واقعہ کی یاد تازہ کرنے کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ مثلاً صفا اور مروہ کے درمیان حاجیوں کا دوڑنا حضرت ہاجرہ رضی اللہُ عنہا کے ان دو پہاڑوں کے درمیان دوڑنے کی یاد دلاتا ہے۔ آپ رضی اللہُ عنہا اسماعیل علیہ السّلام کے لئے پانی تلاش کرنے کے لئے ان دونوں پہاڑوں پر دوڑتی رہیں۔ وہی طریقہ اللہ پاک نے قیامت تک حاجیوں کے لیے لازم کر دیا ۔ اسی طرح ان کی ان دنوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دن غار حرا میں گزارے تھے۔ ان دنوں میں آپ دن کو کھانے سے پرہیز کرتے تھے اور رات کو ذکر الٰہی میں مشغول رہتے تھے۔ تو اس لئے اللہ پاک نے ان دنوں کی یاد تازہ کرنے کے لئے روزے فرض کئے تاکہ اس کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّت قائم رہے۔

پہلی امتوں کے روزے: روزہ ہر امّت کے لئے فرض تھا مگر اس کی صورت ہمارے روزوں سے مختلف تھی۔ کتابوں میں آتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام ہر ماہ کی 15،14،13 کو روزہ رکھتے تھے ۔ حضرت نوح علیہ السلام ہمیشہ روزہ دار رہتے تھے۔ اور حضرت داؤد علیہ السلام ایک دن چھوڑ کر دوسرے دن کا روزہ رکھتے تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے اور دو دن افطار کرتے ۔

ایمان پر پختگی : سخت گرمی ہے، پیاس سے حلق سوکھ رہا ہے، ہونٹ خشک ہیں، مگر وہ پانی موجود ہوتے ہوئے بھی اس کی طرف دیکھتا تک نہیں، کھانا موجود ہے بھوک کی شدت سے حالت خراب ہے مگر وہ کھانے کی طرف ہاتھ نہیں اٹھاتا۔ آپ اندازہ فرمائیں اس شخص کا خدا پر کتنا پختہ ایمان ہے ، کتنا زبردست یقین ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کی حرکت ساری دنیا سے چھپ سکتی ہے مگر اللہ پاک سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی ۔اس کا اللہ پر یہ یقین روزے کا عملی نتیجہ ہے۔ کیونکہ دوسری عبادتیں کسی نہ کسی ظاہری حرکت سے ادا کی جاتی ہیں مگر روزے کا تعلق باطن سے ہے۔اس کا حال اللہ اور اس کے بندے کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ چھپ کر کھا اور پی لے، لوگ یہی سمجھے سمجھتے رہیں گے کہ روزے سے ہے۔

بدر اور رمضان: یہ اسی توحیدی نشہ کا نتیجہ تھا کہ شدت کی گرمی ہے، رمضان المبارک کی 17 تاریخ ،طویل دن اور حالتِ روزہ میں، تعداد میں کم، دشمن تین گنا زیادہ ،مگر ہر طرف سے آواز آ رہی ہیں کہ

غلامان محمد جان دینے سے نہیں ڈرتے

یہ سر کٹ جائے یا رہ جائے کچھ پرواہ نہیں کرتے

روزہ کی قسمیں: عوام کا روزہ ، خواص کا روزہ، اخص الخواص کا روزہ۔ عوام کا روزہ یہ ہے کہ صبح پو پھٹنے سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک کھانے پینے اور بیوی کی قربت سے پرہیز کرے۔ خواص کا روزہ یہ ہے کہ تمام دن یادِ الٰہی میں ان کی زبان مشغول رہے اور اخص الخواص کا روزہ یہ ہے کہ روزے کی حالت میں دل میں بھی غیر خدا کا خیال نہ آئے۔


رمضان المبارک اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے۔ جس کے روزے مسلمانوں پر فرض ہیں۔ رَمضان، یہ ’’ رَمَضٌ ‘‘ سے بنا جس کے معنٰی ہیں ’’ گرمی سے جلنا ۔ ‘‘ کیونکہ جب مہینوں کے نام قدیم عربوں کی زبان سے نقل کئے گئے تو اس وَقت جس قسم کا موسم تھا اس کے مطابق مہینوں کے نام رکھ دے گئے اِتفاق سے اس وَقت رمضان سخت گرمیوں میں آیا تھا اسی لئے یہ نام رکھ دیا گیا۔ رمضان کے کئی اور نام بھی ہیں جیسا کہ ماہِ صَبْر، ماہِ مُؤَاسات اور ماہِ وُسْعَتِ رِزْق۔ اس مہینے کو باقی تمام مہینوں کے مقابلے میں کئی خصوصیات حاصل ہیں۔جن میں سے کچھ میں بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔

(1)ماہِ نزولِ آسمانی کتاب: نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نےفرمایا : حضرت سیِّدُناابراہیم علیہ السلام پرصحیفے رمضانُ المبارک کی پہلی رات نازل ہوئے۔ تورات شریف رمضانُ المبارک کی ساتویں ، انجیل شریف چودہویں جبکہ قرآنِ کریم پچیسویں رات نازل ہوا، زبور شریف رمضانُ المبارک کی چھ تاریخ کو نازل ہوئی۔( اسلامی مہینوں کے فضائل، ص 206)

(2)قرآن میں نام: رمضان وہ واحد مہینہ ہے جس کا نام قرآن میں ارشاد ہے۔اللہ پاک کا ارشاد ہے: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ ترجَمۂ کنزُالایمان: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا۔(پ 2،البقرہ:185)

(3)تمام مہینوں کا سردار: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: تمام مہینوں کا سردار رمضان ہے۔

(4)رمضان رحمتوں کی کان: مفتی احمد یار خان فرماتے ہیں: ہر مہینے میں خاص تاریخیں اور تاریخوں میں بھی خاص وَقْت میں عبادت ہوتی ہے۔مَثَلاً بَقَر عید کی چند (مخصوص) تاریخوں میں حج ،مُحرَّم کی دسویں تاریخ اَفضل ،مگر ماہِ رَمَضان میں ہر دن اور ہَر َوقت عبادت ہوتی ہے ۔ روزہ عبادت، تراویح کا انتظارعبادت، سحری کا انتظارعبادت الغرض ہر آن میں رب کریم کی شان نظر آتی ہے۔

(5) شفاعت کرنا: قیامت میں رمضان روزہ دار کی شفاعت کرے گا اور کہے گا کہ مولا میں نے اسے دن میں کھانے پینے سے روکا تھا۔

پیارے قارئین ! آپ نے رمضان المبارک کی خصوصیات ملاحظہ کیں اور یقیناً آپ کو اس مہینے کی اہمیت کا اندازہ ہو چکا ہوگا کہ یہ مہینہ کتنی اہمیت کا حامل ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے کہ اگر تم جانتے ہو کہ رمضان میں کیا ہے تو تم چاہتے کہ سارا سال رمضان ہو۔ مگر ہم اور ہمارا معاشرہ اور لوگ کتنی غفلت برت رہے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک تعداد روزہ ہی نہیں رکھتی اور بعض روزہ رکھتے ہیں تو روزے کے مسائل سے ناواقفی کی وجہ سے اپنے روزے گنوا بیٹھتے ہیں۔ اور بعض روزہ رکھ کر جھوٹ، غیبت، تہمت، گالی گلوچ اور چغلی وغیرہ برائیاں کرکے پورا کرتے ہیں۔ ہماری ایک تعداد تراویح بھی نہیں پڑھتی اور کہتے ہیں کہ تراویح فرض و واجب تو نہیں سنت ہی تو ہے جبکہ تراویح سنت مؤکدہ ہے اور سنت مؤکدہ کو چھوڑنے کا عادی شخص گنہگار ہے۔

اللہ کریم ہمیں نہ صرف کھانے، پینے، صحبت کرنے سے بلکہ جھوٹ، غیبت وغیرہ برائیوں سے بچا کر روزہ رکھنے اور مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے پیارے اسلامی بھائیو!خُدائے رَحمٰن کے  کروڑہا کروڑ اِحسان کہ اُس نے ہمیں ماہِ رَمضان جیسی عظیم الشان نعمت سے سرفراز فرمایا۔ ماہِ رَمضان کے فیضان کے کیا کہنے ! اِس کی تو ہر گھڑی رَحمت بھری ہے، رَمضانُ المبارَک میں ہر نیکی کا ثواب70 گنا یا اس سے بھی زیادہ ہے۔(مراٰۃ ،3/137) نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب 70گنا کردیا جا تا ہے ، عرش اُٹھانے والے فرشتے روزہ داروں کی دُعا پرآمین کہتے ہیں اور فرمانِ مصطَفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم َکے مطابق ’’ رَمضان کے روزہ دار کیلئے مچھلیاں اِفطار تک دُعائے مغفرت کرتی رہتی ہیں ۔ (اَلتَّرغیب والتَّرہیب ،2/55،حدیث:6)

رَمضان، یہ ’’ رَمَضٌ ‘‘ سے بنا جس کے معنٰی ہیں ’’ گرمی سے جلنا ۔ ‘‘ کیونکہ جب مہینوں کے نام قدیم عربوں کی زبان سے نقل کئے گئے تو اس وَقت جس قسم کا موسم تھا اس کے مطابق مہینوں کے نام رکھ دے گئے اِتفاق سے اس وَقت رمضان سخت گرمیوں میں آیا تھا اسی لئے یہ نام رکھ دیا گیا۔(النھایہ لابن الاثیر،2/240) حضرتِ مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :بعض مفسرین رحمہم اللہ المبین نے فرمایا کہ جب مہینوں کے نام رکھے گئے تو جس موسم میں جو مہینا تھا اُسی سے اُس کا نام ہوا ۔جو مہینا گرمی میں تھااُسے رَمضان کہہ دیا گیا اور جو موسم بہار میں تھا اُسے ربیعُ الْاَوّل اور جو سردی میں تھا جب پانی جم رہا تھا اُسے جُمادَی الْاُولٰی کہا گیا۔ (تفسیر نعیمی ،2/205)

پانچ خصوصی کرم: حضرت سَیِّدُناجا بربن عبداللہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رحمت عالمیان، سلطانِ دوجہان ، شہنشاہِ کون ومکان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا فرمانِ ذِی شان ہے: میری اُمت کو ماہِ رَمضان میں پانچ چیز یں ایسی عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں : (1) جب رَمَضانُ الْمبارَک کی پہلی رات ہوتی ہے تواللہ پاک ان کی طرف رَحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف اللہ پاک نظر رَحمت فرمائے اُسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا (2)شام کے وَقت ان کے منہ کی بو (جوبھوک کی وجہ سے ہوتی ہے) اللہ پاک کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے (3) فرشتے ہر رات اور دن ا ن کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں (4) اللہ پاک جنت کو حکم فرماتاہے: ’’ میرے (نیک ) بندوں کیلئے مُزَیَّن(یعنی آراستہ) ہوجا عنقریب وہ دنیا کی مَشَقَّت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پائیں گے ‘‘ (5) جبماہِ رَمضان کی آخری رات آتی ہے تو اللہ پاک سب کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔ قوم میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم! کیا وہ لیلۃ القدر ہے؟ ارشاد فرمایا:نہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ مزدور جب اپنے کاموں سے فارِغ ہوجا تے ہیں تواُنہیں اُجرت دی جا تی ہے۔(شُعَبُ الایمان ،3/303،حدیث:3603)

حضرتِ سَیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے: حضور پر نور، شافِعِ یو مُ النشور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا فرمانِ پر سرور ہے:پانچوں نمازیں اور جمعہ اگلے جمعے تک اور ماہِ رَمضان اگلے ماہِ رَمضان تک گناہوں کا کفارہ ہیں جب تک کہ کبیرہ گناہوں سے بچا جا ئے۔(مسلِم ص144،حدیث:233)

پیارے پیارے آقا، مکے مدینے والے مصطَفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا فرمانِ عالی شان ہے: اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رَمضان کیا ہے تو میری اُمت تمنا کرتی کہ کاش!پورا سال رَمضان ہی ہو۔(ابنِ خُزَیمہ، 3/190،حدیث:1886)مفسر شہیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ تفسیرنعیمی میں فرماتے ہیں :اِس ماہِ مُبارَک کے کل چار نام ہیں (1) ماہِ رَمَضَان(2) ماہِ صَبْر(3) ماہِ مُؤَاسات اور (4) ماہِ وُسْعَتِ رِزْق۔ مزید فرماتے ہیں : روزہ صَبْرہے جس کی جزا ربّ ہے اور و ہ اِسی مہینے میں رکھا جا تا ہے۔اِس لئے اِسے ماہِ صَبْرکہتے ہیں ۔مُؤَاسات کے معنٰی ہیں بھلائی کرنا ۔ چونکہ اِس مہینے میں سارے مسلمانوں سے خاص کر اہلِ قرابت(یعنی رشتے داروں ) سے بھلائی کرنا زِیادہ ثواب ہے اِس لئے اسے ماہِ مُؤَاسات کہتے ہیں اِس میں رِزق کی فراخی(یعنی زیادتی) بھی ہوتی ہے کہ غریب بھی نعمتیں کھالیتے ہیں ، اِسی لئے اِس کا نام ماہِ وسعت رِزق بھی ہے۔( تفسیرِ نعیمی، 2/208)


خُدائے رَحمٰن کا  کروڑہا کروڑ اِحسان کہ اُس نے ہمیں ماہِ رَمضان جیسی عظیم الشان نعمت سے سرفراز فرمایا۔ ماہِ رَمضان کی برکتوں اور بہاروں کا تو کیا ہی کہنا ! پیارے اسلامی بھائیو ! رمضان المبارک بہت ساری خصوصیات کا حامل ہے۔ جن میں سے پانچ یہ بھی ہیں:

(1)ہر مہینے میں خاص تاریخیں اور تاریخوں میں بھی خاص وَقْت میں عبادت ہوتی ہے۔مَثَلاً بَقَر عید کی چند (مخصوص) تاریخوں میں حج ،مُحرَّم کی دسویں تاریخ اَفضل ،مگر ماہِ رَمَضان میں ہر دن اور ہَر َوقت عبادت ہوتی ہے ۔ (فیضانِ سنت،1/860)

(2) اس برکت والے مہینے کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس ماہِ مبارک میں نَفْل کا ثواب فَرض کے برابر ا ور فَرضْ کا ثواب سترّ گُنا ملتا ہے۔(فیضانِ سنت،1/861)

(3)اسی طرح اس مہینے کی بہت ہی منفرد خصوصیت میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس مبارک مہینے میں ایک ایسی رات بھی ہے جو ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے یعنی لیلۃ القدر اس مہینے میں آتی ہے۔ اللہ کریم نے قرآن میں فرمایا:لَیْلَةُ الْقَدْرِ ﳔ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ(۳)ترجمۂ کنزالایمان : شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ۔(پ 30،قدر :3)

(4)اس مہینے کی سب سے منفرد خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس مہینے کے کھانے پینے کا حساب کتاب نہیں ہوگا۔( فیضان سنت ،1/862)

(5)رمضان المبارک کی منفرد خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قیامت کے دن رمضان اور قرآن روزہ دار کی شفاعت کریں گے کہ رمضان تو کہے گا: مولا کریم میں نے اسی دن میں کھانے، پینے سے روکا تھا اور قرآن عرض کرے گا کہ یا رب کریم میں نے اسے رات میں تراویح، تلاوت کے ذریعے سونے سے روکا تھا۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی خصوصیات اس ماہِ مبارک میں پائی جاتی ہیں جن کا ذکر یہاں ممکن نہیں۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں رمضان المبارک کی صحیح معنوں میں قدر کرنے ،اس میں خوب نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم