رمضان کی تعریف: مفسر شہیر حکیم الامّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر نعیمی میں فرماتے ہیں: پارہ نمبر 2 سورہ بقرہ آیت نمبر 185 میں شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ کے تحت فرماتے ہیں :”رَمَضَان“یا تو”رحمٰن“ کی طرح اللہ پاک کا نام ہے، چُونکہ اِس مہینے میں دن رات اللہ پاک کی عبادت ہوتی ہے لہٰذا اِسے شَہْرِ رَمَضان یعنی اللہ پاک کا مہینا کہا جاتا ہےجیسے مسجِد و کعبے کو اللہ پاک کا گھر کہتے ہیں کہ وہاں اللہ پاک کے ہی کام ہوتے ہیں ۔ایسے ہی رَمضَان اللہ پاک کا مہینا ہے کہ اِس مہینے میں اللہ پاک کے ہی کام ہوتے ہیں۔ روزہ تراویح وغیرہ تو ہیں ہی اللہ پاک کے مگربحالتِ روزہ جو جائز نوکری اور جائز تجارت وغیرہ کی جاتی ہے وہ بھی اللہ پاک کے کام قرار پاتے ہیں۔اِس لئے اِس ماہ کا نام رَمَضَان یعنی اللہ پاک کا مہینا ہےیا یہ”رَمْضَاء ٌ“سے نکالا گیا ہے۔”رَمْضَاءٌ“موسمِ خَزاں کی بارِش کو کہتے ہیں، جس سے زمین دُھل جاتی ہے اور”رَبِیْع“ کی فَصْل خُوب ہوتی ہے۔ چونکہ یہ مہینا بھی دِل کے گَرد وغُبار دھودیتا ہے اور اس سے اَعمال کی کَھیتی ہَری بَھری رہتی ہے اِس لئے اِسے رَمَضَان کہتے ہیں۔

حضرت سَیِّدُناجا بربن عبداللہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رحمت عالمیان، سلطانِ دوجہان ، شہنشاہِ کون ومکان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا فرمانِ ذِی شان ہے: میری اُمت کو ماہِ رَمضان میں پانچ چیز یں ایسی عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں : (1) جب رَمَضانُ الْمبارَک کی پہلی رات ہوتی ہے تواللہ پاک ان کی طرف رَحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف اللہ پاک نظر رَحمت فرمائے اُسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا (2)شام کے وَقت ان کے منہ کی بو (جوبھوک کی وجہ سے ہوتی ہے) اللہ پاک کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے (3) فرشتے ہر رات اور دن ا ن کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں (4) اللہ پاک جنت کو حکم فرماتاہے: ’’ میرے (نیک ) بندوں کیلئے مُزَیَّن(یعنی آراستہ) ہوجا عنقریب وہ دنیا کی مَشَقَّت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پائیں گے ‘‘ (5) جبماہِ رَمضان کی آخری رات آتی ہے تو اللہ پاک سب کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔ قوم میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم! کیا وہ لیلۃ القدر ہے؟ ارشاد فرمایا:نہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ مزدور جب اپنے کاموں سے فارِغ ہوجا تے ہیں تواُنہیں اُجرت دی جا تی ہے۔(شُعَبُ الایمان ،3/303،حدیث:3603)

رمضان کی تعریف: روزہ عرف شرع میں مسلمان کا بہ نیّت عبادت صبح صادق سے غروب آفتاب تک اپنے کو قصداً کھانے پینے جماع سے باز رکھنا، عورت کا حیض و نفاس سے خالی ہونا شرط ہے۔(بہار شریعت،1/966)

دیگر عبادات پرروزے کی افضلیت کی وجہ:اس کی دو وجوہات ہیں :(1) روزہ عمل کو چھوڑنے اور اس سے رکنے کا نام ہے اور یہ ذاتی طور پر پوشیدہ ہے اس میں دکھائی دینے والا کوئی عمل نہیں جبکہ دیگر تمام اعمال لوگوں کو نظر آتے ہیں ۔ روزے کو اللہ پاک ہی ملاحظہ فرماتا ہے اور وہ محض صبر کے ذریعے باطنی عمل ہے۔(2)یہ دشمن خدا(شیطان مردود) پر غلبہ پانے کا ذریعہ ہے کیونکہ شیطان لعین کا وسیلہ خواہشات ہیں ( جن کے ذریعے وہ بنی آدم کو دھوکا دیتاہے) اور شہوات کو تقویت کھانے پینے سے حاصل ہوتی ہے اسی لئے حضور نبی ٔ پاک ، صاحب لولاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک شیطان انسان میں خون کی طرح دوڑتا ہے پس بھوک کے ذریعے اس کے راستوں کو تنگ کرو۔‘‘ اسی وجہ سے حضور نبی ٔ اکرم، رسول محتشم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ام المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے ارشاد فرمایا: ’’ہمیشہ جنت کا دروازہ کھٹکھٹاتی رہو۔‘‘ انہوں نے عرض کی: ’’کس چیز سے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’بھوک سے ۔(احیاء العلوم،1/703)

روزے کے تین درجے ہیں: ایک عام لوگوں کا روزہ کہ یہی پیٹ اور شرم گاہ کو کھانے پینے جماع سے روکنا۔ دوسرا خواص کا روزہ کہ انکے علاوہ کان، آنکھ، زبان، ہاتھ پاؤں اور تمام اعضا کو گناہ سے باز رکھنا۔ تیسرا خاص الخاص کا کہ جمیع ماسوی اﷲ (یعنی اﷲ پاک کے سوا کائنات کی ہر چیز) سے اپنے کو بالکلیہ جُدا کرکے صرف اسی کی طرف متوجہ رہنا۔ (بہار شریعت،1/966)

بے شک روزہ چوتھائی ایمان ہے۔ کیونکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ روزہ آدھاصبر ہے۔ پھر روزے کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ دوسرے تمام ارکان کی بنسبت اسے اللہ پاک سے خاص نسبت حاصل ہے ۔چنانچہ حدیث ِ قدسی ہے کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ہر نیکی کا ثواب 10گنا سے لے کر 700گنا تک ہے سوائے روزہ کے۔ بے شک یہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔(احیاء العلوم،1/700)

اللہ پاک کا ارشاد ہے : اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ(۱۰) ترجمۂ کنز الایمان:صابروں ہی کو ان کا ثواب بھرپور دیا جائے گا بے گنتی۔(پ 23،زمر:10)

روزہ صبر کا نصف ہے اس کا ثواب اندازہ وحساب سے بڑھ کر ہے اور اس کی فضیلت جاننے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ سرورِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بو اللہ پاک کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بہتر ہے، اللہ پاک فرماتا ہے: یہ شخص اپنی خواہش اور کھانے پینے کو میرے لئے چھوڑتا ہے پس روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔