فلسفہ روزہ: انسان کو ہر وقت
رزق دینے والا خالق یہ امتحان لینا چاہتا ہے کہ سارا سال میری نعمتیں کھانے والے آیا صرف تیس دن ان کو میرے
لیے چھوڑ بھی سکتے ہیں یا نہیں۔ چونکہ اس کا تعلق براہِ راست اللہ پاک کی ذات سے
ہوتا ہے اس لیے امتحان دینے والا یا لینے والا ہی جانتا ہے کہ وہ امتحان میں کامیاب
ہوا ہے یا نہیں۔ اس لئے اللہ پاک فرماتا ہےحدیث قدسی ہے: روزہ صرف میرے لیے ہوتا
ہے اور اس کی جزا میں خود ہی براہ راست عطا کرتا ہوں۔
روزہ کے فرض ہونے کی وجہ: اسلام
میں اکثر اعمال کسی نہ کسی واقعہ کی یاد تازہ کرنے کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ مثلاً
صفا اور مروہ کے درمیان حاجیوں کا دوڑنا
حضرت ہاجرہ رضی اللہُ
عنہا کے ان دو پہاڑوں کے
درمیان دوڑنے کی یاد دلاتا ہے۔ آپ رضی اللہُ
عنہا اسماعیل علیہ السّلام کے لئے پانی تلاش کرنے کے لئے ان دونوں پہاڑوں پر دوڑتی رہیں۔ وہی طریقہ اللہ
پاک نے قیامت تک حاجیوں کے لیے لازم کر دیا ۔ اسی طرح ان کی ان دنوں میں رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دن غار حرا میں گزارے تھے۔ ان دنوں میں آپ دن کو کھانے
سے پرہیز کرتے تھے اور رات کو ذکر الٰہی میں مشغول رہتے تھے۔ تو اس لئے اللہ پاک
نے ان دنوں کی یاد تازہ کرنے کے لئے روزے فرض کئے
تاکہ اس کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی سنّت قائم رہے۔
پہلی امتوں کے روزے: روزہ ہر امّت کے لئے فرض تھا مگر اس کی صورت ہمارے روزوں سے
مختلف تھی۔ کتابوں میں آتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام ہر ماہ کی 15،14،13 کو روزہ رکھتے تھے ۔ حضرت نوح علیہ السلام ہمیشہ
روزہ دار رہتے تھے۔ اور حضرت داؤد علیہ السلام ایک دن چھوڑ کر دوسرے دن کا روزہ
رکھتے تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے اور دو دن افطار کرتے ۔
ایمان پر پختگی : سخت گرمی ہے، پیاس
سے حلق سوکھ رہا ہے، ہونٹ خشک ہیں، مگر وہ پانی موجود ہوتے ہوئے بھی اس کی طرف دیکھتا
تک نہیں، کھانا موجود ہے بھوک کی شدت سے حالت خراب ہے مگر وہ کھانے کی طرف ہاتھ نہیں اٹھاتا۔ آپ اندازہ فرمائیں اس
شخص کا خدا پر کتنا پختہ ایمان ہے ، کتنا زبردست یقین ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کی
حرکت ساری دنیا سے چھپ سکتی ہے مگر اللہ پاک سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی ۔اس کا اللہ پر یہ یقین روزے کا عملی نتیجہ ہے۔ کیونکہ دوسری عبادتیں
کسی نہ کسی ظاہری حرکت سے ادا کی جاتی ہیں مگر روزے کا تعلق باطن سے ہے۔اس کا حال
اللہ اور اس کے بندے کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ چھپ کر کھا اور پی لے، لوگ یہی
سمجھے سمجھتے رہیں گے کہ روزے سے ہے۔
بدر اور رمضان: یہ اسی توحیدی نشہ کا نتیجہ تھا کہ شدت کی گرمی ہے، رمضان
المبارک کی 17 تاریخ ،طویل دن اور حالتِ روزہ میں، تعداد میں کم، دشمن تین گنا زیادہ ،مگر
ہر طرف سے آواز آ رہی ہیں کہ
غلامان محمد جان دینے سے نہیں
ڈرتے
یہ سر کٹ جائے یا رہ جائے کچھ
پرواہ نہیں کرتے
روزہ کی قسمیں: عوام کا روزہ ،
خواص کا روزہ، اخص الخواص کا روزہ۔ عوام کا روزہ یہ ہے کہ صبح پو پھٹنے سے لے کر
سورج کے غروب ہونے تک کھانے پینے اور بیوی کی قربت سے پرہیز کرے۔ خواص کا روزہ یہ
ہے کہ تمام دن یادِ الٰہی میں ان کی زبان مشغول رہے اور اخص الخواص کا روزہ یہ ہے کہ روزے کی حالت میں دل میں بھی غیر
خدا کا خیال نہ آئے۔