رمضان المبارک کی 5 منفرد خصوصیات از بنتِ محمد الیاس
عطاریہ،احمدنگر بونگا
پاک ہے وہ جس نے زمانوں کو ایک حساب سے
رکھا اور موسموں کو مقرر فرمایا:اس نے اپنی معرفت کے سمندر میں عقلوں اور سوچوں کو
مستغرق کیا ، اس کی حقیقت میں عقلیں حیر ان ہیں، اس کی بلندی کی معرفت تک پہنچنے والا کوئی نہیں۔ اس نے ماہِ رمضان کو عفو، مغفرت، بشارت،
رضا، سرور اور قبولیت کے ساتھ خاص کیا۔ اس نے روزے رکھنے والے کو اس کی مراد تک
پہنچانے کا وعدہ کیا، اس کے لیے خوشخبری ہے جس نے اپنے اعضاء کو شک و شبہ سے پاک
کیا اور نیک اعمال کے ساتھ ماہِ رمضان کا استقبال کیا۔(حکایتیں اور نصیحتیں،ص77)رمضان کا لغوی
معنی جلانے والا رمضان یہ رمض سے بنا ہے جس کے معنی ہیں: گرمی سے جلنا۔ کیونکہ جب
مہینوں کے نام قدیم عربوں کی زبان سے نقل کیے گئے تو اس وقت جس قسم کا موسم تھا اس
کے مطابق مہینوں کے نام رکھ دیے گئے۔ اتفاق سے اس وقت رمضان سخت گرمیوں میں آیا
تھا اسی لیے یہ نام ر کھ دیا گیا۔خاصة الشیء مایوجد فیہ ولا یوجد فی غیرہ کہ کسی چیز کی خصوصیت وہ ہے جو اس میں پائی جائے اور اس کے غیر میں نہ پائی جائے۔کسی
چیز کی خصوصیت اسے اس جیسی دوسری چیز سے ممتاز کرتی ہے اسی طرح ماہِ رمضان الکریم
کی بھی ایسی بہت سی خصوصیات ہیں جو اسے دوسرے مہینوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ماہِ رمضان
کی منفرد خصوصیات ملاحظہ ہوں:1:قرآنِ پاک میں صرف رمضان شریف ہی کا نام لیا گیا اور اسی کے فضائل بیان ہوئے کسی دوسرے مہینے کا نہ صراحتاً نام ہے نہ ایسے فضائل ۔مہینوں
میں صرف ماہِ رمضان کا نام قرآن میں آیا ،صحابہ
میں صرف حضرت زیدابنِ حارثہ رضی اللہ عنہ کا نام قرآن میں لیا گیااور عورتوں میں صرف حضرت بی بی مر
یم رضی اللہ عنہا کا نام قرآن میں آیا جس سے ان تینوں کی عظمت معلوم ہوئی۔(فضائل رمضان شریف،ص30)چنانچہ قرآن میں اللہ پاک کا نزولِ قرآن اور ماہِ رمضان کے بارے میں فرمانِ
عالیشان ہے: شہر رمضان الذی انزل فیہ القران ھدًی للناس و بینت من
الھدیٰ والفرقان (پ 2، البقرہ 185) ترجمۂ کنزالایمان:رمضان کا
مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں۔ حضرت شعیب حریفیش رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:مہینے کو مشہور ہونے کی وجہ سے
شہر کہا جاتا ہے اور ماہِ رمضان کو رمضان اس لیے کہتے ہیں کہ یہ گناہوں کو مٹا
دیتا ہے، اللہ پاک کے فرمان: انزل فیہ القران سے مراد یہ ہے کہ اس کے فرض روزوں میں قرآنِ کریم اتارا
گیا۔(حکایتیں اور نصیحیں ص 80)(2)شام کے وقت ان کے منہ کی بُو (جو بھوک کی وجہ
سے ہوتی ہے)اللہ پاک کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے۔(فضائل رمضان شریف ص25)ایک نیک شخص مسجد کی طرف جارہا تھا، اس نے مسجد میں دو آدمی دیکھے جن میں سے
ایک نماز پڑھ رہا تھا اور دوسرا مسجد کے دروازے پر سویا ہوا تھا جبکہ شیطان باہر
حیران وپریشان کھڑا آگ میں جل رہا تھا۔اس مردِ صالح نے شیطان سے پوچھا: میں تجھے
حیران کیوں دیکھ رہا ہوں؟ شیطان نے جواب دیا:اس مسجد میں ایک شخص نماز پڑھ رہا ہے
جب بھی میں اس کو نماز سے بہکانے اور غافل کرنے کے لیے داخل ہونے کا ارادہ کرتا
ہوں تو مسجد کے دروازے پر سونے والے شخص کے سانس مجھے روک دیتے ہیں۔(حکایتیں اور نصیحتیں ص 85)
ہر گھڑی رحمت بھری ہے ہرطرف ہیں برکتیں ماہِ رمضاں رحمتوں اور برکتوں کی کان ہے
3۔ اس امت کے علاوہ کسی امت کو ایامِ
رمضان جیسے افضل دن اور راتیں عطا نہ کی گئیں۔ کیا سابقہ امتیں اس فرمان پر فخر
کرسکتی ہیں:الصوم لی و انا اجزی بہ یعنی روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا ہوں۔اس کی جزا یہ ہے کہ آنکھیں
نورِ باری کے دیدار سے لطف اندوز ہوں گی۔ کیا سابقہ امتوں کے لیے یہ اعلان کیا گیا
؟جسے ہر دور و نزدیک والے نے سنا:للصائم فرحتان، یعنی روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔(حکایتیں اور نصیحتیں صفحہ 93)
وقد صمت عن الذات دھری کلھا ویوم
لقاکم ذاک فطر صیامی
ترجمہ: بے شک میں نے اپنی ساری زندگی لذات سے روزہ رکھا ( یعنی انہیں چھوڑے رکھا) اور تیرے دیدار
کے دن ہی میر ا روزہ افطار ہوگا۔4: حضرت انس بن مالک رَضِیَ
اللہُ عنہ فرماتے ہیں:میں نے آخری نبی علیہ الصلوة والسلام کو فرماتے ہوئے سنا: یہ ر
مضان تمہارے پاس آگیا ہے اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے
دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے۔ محروم ہے وہ شخص جس
نے رمضان کو پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوئی کہ جب اس کی رمضان میں مغفرت نہ ہوئی تو
پھر کب ہوگی۔(فضائل رمضان شریف صفحہ 55) 5۔ رمضان کے کھانے پینے کا حساب نہیں(یعنی سحر
و افطار کے کھانے پینے کا ) (فضائل رمضان شریف ص29)
عاصیوں کی مغفرت کا لے کر آیا ہے پیام جھوم جاؤ مجرمو! رمضان مہ غفران
ہے(غفران یعنی بخشش ، مغفرت)