بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيم ۔صلّوا عليّ فإنّ الصّلاۃ عليّ زکاۃ لّکم’’مجھ پر درود پڑھا کرو بلاشبہ مجھ پر (تمہارا) درود پڑھنا تمہارے لئے (روحانی و جسمانی) پاکیزگی کا باعث ہے۔‘‘(مصنف ابن ابی شيبہ ، 2 : 253، رقم : 8704) اللہ پاک نے ہر انسان کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے، یہی وہ صلاحیتیں ہیں جن کے بہتر استعمال سے انسان معاشرے کا کارگر فرد بن سکتا ہے۔ یہ ایسی اہم ذمہ داری ہے جس کو ادا کیے بغیر کوئی بھی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا، کیونکہ اس کے بغیر معاشرے کا انتظام و انصرام مشکل ہو جاتا ہے۔نیک اعمال ایک مسلمان کارأس المال ہیں‘ ان ہی کیلئے وہ پیدا ہوا‘ ان ہی کا حساب ہوگا اور ان ہی پر اس کی دنیا کی پاکیزہ زندگی اور آخرت میں جنت کی زندگی کا دارومدار ہے ۔ اللہ پاک اور رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے نیک اعمال کی طرف رغبت دلائی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ پاک نے اپنے بندوں کے نیک اعمال قبول کرنے اور ان پر دنیا و آخرت میں بہترین اجر و ثواب دینے کا وعدہ کیا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّۃ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا ﴿١٢٤﴾ سورۃ النساء۔’’ اور جو بھی نیک کام کرے گا چاہے وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ صاحبِ ایمان بھی ہو- ان سب کو جنّت میں داخل کیا جائے گا اور کھجور کی گٹھلی کے شگاف برابر بھی ان کا حق نہ مارا جائے گا ‘‘۔(١٢٤) سورۃ النساء۔کسی بھی نیکی کو چھوٹا نہی جاننا چاہئے۔ ہر مسلمان دین ِاسلام کا مبلغ ہے ، جس کا کام نیکی کی دعوت کو عام کرنااور دوسروں کی اصلاح کرنا ہے۔نیکی کے کاموں میں پہل کرنا اور دوسروں کو نیکی کی طرف رغبت دلانا ایمان والوں کا ہی شیوا ہوتا ہے جیسا کہ قرآنِ پاک کی آیت سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ،فرمانِ الٰہی ہے: (1) يُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَيُسَارِعُوْنَ فِی الْخَيْرٰتِ ط وَاُولٰٓئِکَ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ0(ال عمران، 3/ 114)وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نیک کاموں میں تیزی سے بڑھتے ہیں، اور یہی لوگ نیکوکاروں میں سے ہیں۔اور بھی بہت سی آیات ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ پاک نے عملِ صالح کی قبولیت کو ایمان کے ساتھ مشروط کیا ہے۔نیکی کے کاموں کی بہت سی صورتیں ہیں۔ دارومدار انسان کی نیت پہ ہوتا ہے جس کا اصول اللہ پاک کی رضا ہونا چاہیے ۔یہاں چند صورتوں پہ روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ نیکی کے کاموں میں تعاون کی دس صورتیں:1)اسلام سماج کے ہر فرد پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ جہاں کہیں ظلم ہورہا ہو ، ظلم کی جو بھی شکل ہو اس کو روکا جائے ، مظلوم کی دست گیری اور مدد کی جائے ، اسے بے یارو مددگار نہ چھوڑ ا جائے بلکہ اس کو ظلم کے پنجے سے چھڑایا جائے اور حسبِ استطاعت ظلم کو روکنے میں اپنی طاقت کا استعمال کرے جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ0 (پ6،المآئدۃ:2)ترجمۂ کنز الایمان:اور نیکی اور پرہیزگاری  پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو اوراللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔2)بھائی چارے کا تقاضا یہی ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور ایک دوسرے کے لیے سہارا بن جائیں یعنی امداد باہمی کے اصولوں کے مطابق زندگی گزاریں،ہمارے معاشرے میں امداد باہمی کو وہ اہمیت حاصل نہ ہو سکی جو ایک اسلامی ملک ہونے کی حیثیت سے ہونی چاہیے تھی ،ایک دوسرے کی کفالت کرنا ،مل جل کر دکھ درد بانٹا، ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرنا ،اسے امداد باہمی کہتے ہیں،امداد باہمی کا مطلب کسی کو قرض دینا نہیں بلکہ اس کی اس طرح مدد کرنا کہ دوسرا اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے ہے ۔3)دوسروں کی مشکلات و مسائل کو محسوس کرتے ہوئے ان کا ہاتھ بٹانا ہے۔4)ہماری مدد و معاونت سے اگر کسی کی جان بچ سکتی ہے،کسی کی مشکل آسان ہوسکتی ہے۔ 5)کسی مجبور بیمار کا علاج ہوسکتا ہے ۔ 6)کسی کے حصولِ رزق میں معاونت ہوسکتی ہے۔ 7)کسی بے کس اور ضرورت مند کی بیٹی کے ہاتھ پیلے ہوسکتے ہیں۔ 8)کسی کے بچوں کا طرزِ زندگی بہتر ہوسکتا ہے۔ 9)کسی کو حصولِ علم میں مدد دی جاسکتی ہے تو یہ ہمارے لیے باعثِ اعزاز اور باعثِ راحت ہونے کے ساتھ رضائے الٰہی کا ذریعہ بھی ہے۔ لہٰذا ہمیں زندگی کو اس انداز سے گزارنا چاہیے تاکہ دین و دنیا میں کامیابی کے ساتھ ہمیں قلبی اطمینان بھی حاصل ہو۔جو لوگ معاشرے سے غربت و افلاس اور ضرورت و احتیاج دور کرنے کے لیے اپنا مال و دولت خرچ کرتے ہیں، اللہ پاک ان کے خرچ کو اپنے ذمے قرضِ حسنہ قرار دیتا ہے۔10)نیکی کی کاموں میں تعاون کیلئے ہم دعوتِ اسلامی جیسی غیر سیاسی تحریک کا ساتھ دیکر بھی اپنی دنیا وآخرت سنوار سکتی ہیں۔دینی کاموں کیلئے اپنا وقت دےکر اس کےعلاوہ مالی مدد سے زکوٰۃ و صدقات ادا کر کے اور اس کی دعوت کو عام کر کے کہ یہ دین کاہی کام ہے۔

میں نیکی کی دعوت کی دھومیں مچا دوں ہو توفیق ایسی عطا یاالٰہی

ہمیں فلاحِ انسانیت کے لیے اپنا طرزِ زندگی بدلنا ہوگا، جیسا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم، نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے کہنے پر اپنی جان و مال اپنے مسلمان بھائیوں پر نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیا ر رہتے تھے۔ اسی طرح آج ہمیں بھی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ اپنے رشتے داروں،غرباء و مساکین، ہمسایوں اور ملازمین کے ساتھ ہمارا برتاؤ کیسا ہے؟ کہیں ہم اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کرکے جہنم کا ایندھن بننے کی تیار ی تو نہیں کر رہیں؟ ہمیں خود کو نکھارنے اور اپنے اندر اعلیٰ اوصاف پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔جیسا کی دعوتِ اسلامی کا مدنی مقصد ہے کہ مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے ۔ان شاءالله۔